رانا
محفلین
اسکول کا زمانہ کس کو یاد نہیں آتا۔ وہ کلاسز، کلاس فیلوز ٹیچرز اور کلاس ٹیچرز اور بہت سی یادیں۔ ٹیچرز سے مار کھانا، ساتھیوں سے شرارتیں کرنا اور کبھی کبھی لڑائی کرکے پیٹنا اور پٹنا ۔یہاں محفلین سے گذارش ہے کہ اپنے اسکول کی یادیں شئیر کریں۔ سب تو ظاہر ہے ایک ساتھ یاد نہیں آجاتیں اس لئے جیسے جیسے اکا دکا باتیں یاد آتی جائیں وہ شئیر کرتے جائیں۔
خاکسار کے اسکول کا نام The Microage Muslim Standard Secondary School تھا۔ سب سے زیادہ یادیں اسی اسکول سے وابستہ ہیں۔ ابتدا سے لے کر آٹھویں جماعت تک۔ یہ نارتھ ناظم آباد بلاک بی برما شیل سوسائٹی کے ایک بنگلے میں واقع تھا۔ آٹھویں کلاس کے درمیان میں ہی یہ اسکول ایک دوسرے اسکول بابا فرید پبلک اسکول فیڈرل بی ایریا میں ضم ہوگیا۔ کیونکہ ہمارے اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب امریکہ چلے گئے اور ہمیں اپنی بیٹی کے اسکول میں ضم کرگئے۔ وہاں سے آٹھویں پاس کی اور نویں دسویں کی تعلیم سرکاری اسکول مکمل کی۔
اس اسکول سے ڈھیر ساری یادیں وابستہ ہیں۔ اب بڑی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی پرانا کلاس فیلو مل جائے لیکن فیس بک وغیرہ سب چھان لیا کہیں کچھ پتہ نہیں لگا۔
ایک مرتبہ گلی میں ایک لڑکے سے لڑائی ہوگئی۔ ہم زندگی میں پہلی بار لڑے تھے اور پہلی اور آخری بار ہی جیتے کہ ہم نے اس لڑکے کو نیچے گرالیا۔ پھر تو ہمیں لگنے لگا کہ ہم تو ہر کسی کو لڑائی میں ہرا سکتے ہیں۔ بس پھر اسکول آکر کلاس میں اپنا واقعہ نمک مرچ لگا کر سنایا اور کہا کہ ہم سے کوئی لڑائی میں جیت نہیں سکتا۔ ایک کلاس فیلو جعفر نام تھا اس نے چیلنج کردیا کہ چھٹی کے بعد مقابلہ کرتے ہیں۔ ہم نے بھی ڈنکے کی چوٹ پر چیلنج قبول کرلیا کہ اسے گرانا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ جب چھٹی ہوئی تو سب طلباء ہمارا مقابلہ دیکھنے جمع ہوگئے۔ اسکول کے باہر ایک دوسرے بنگلے کے باہر والے لان میں مقابلہ منعقد ہوا۔ اس نے آن کی آن میں ہمیں گرالیا۔ ہمیں تو یقین نہیں آیا کہ ہم ہار گئے ہیں۔ اس سے دوبارہ اور سہہ بارہ مقابلہ کیا لیکن ہر بار چاروں شانے چت۔ پھر دوبارہ کبھی کسی کو دوبدو لڑائی کا چیلنج نہیں دیا۔
اس اسکول میں ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ پتہ نہیں کیوں ہمیں اپنی ہر کلاس ٹیچر سے عشق ہوجاتا تھا جو ظاہر ہے کہ یکطرفہ ہوتا تھا۔ ہر سال کلاس ٹیچر تبدیل ہوتی اور ہمارا عشق بھی ۔ یہ سلسلہ شائد پانچویں چھٹی کلاس تک چلا ہوگا۔ حلفیہ بیان دیتے ہیں کہ اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں تھا۔ دل ہی پاگل تھا۔
یہاں کی جو شرارتیں ہمیں یاد ہیں ان میں سے ایک تو یہ کہ کاپی سے ایک صفحہ پھاڑنا اس کے بیچ میں سوراخ کرنا اور ہمارے اسکول کے یونیفارم میں پینٹ شرٹ اور شلوار قمیض دونوں فلیور تھے۔ لہذا شلوار قمیض والے لڑکے کی قمیض میں چپکے سے پیچھے جاکر فٹ کردینا۔ اب وہ بے چارہ جہاں جاتا پیچھے دم لٹکی رہتی اور اسے تب پتہ لگتا جب کوئی اسے دیکھ کر ہنستا۔
ایک کھیل جو بہت کھیلتے تھے وہ ف کی بولی بولنا ہوتا تھا۔ یعنی ہر لفظ بولتے ہوئے اس کے درمیان میں کہیں ف کو ایویں ہی فٹ کردینا۔
فی الحال اتنا ہی تاکہ دیگر محفلین بھی اپنی اسکول کی یادیں شئیر کریں۔ اپنے اسکول کا مختصر تعارف بھی ایک دو سطور کا اگر دے سکیں تو دے دیں۔
خاکسار کے اسکول کا نام The Microage Muslim Standard Secondary School تھا۔ سب سے زیادہ یادیں اسی اسکول سے وابستہ ہیں۔ ابتدا سے لے کر آٹھویں جماعت تک۔ یہ نارتھ ناظم آباد بلاک بی برما شیل سوسائٹی کے ایک بنگلے میں واقع تھا۔ آٹھویں کلاس کے درمیان میں ہی یہ اسکول ایک دوسرے اسکول بابا فرید پبلک اسکول فیڈرل بی ایریا میں ضم ہوگیا۔ کیونکہ ہمارے اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب امریکہ چلے گئے اور ہمیں اپنی بیٹی کے اسکول میں ضم کرگئے۔ وہاں سے آٹھویں پاس کی اور نویں دسویں کی تعلیم سرکاری اسکول مکمل کی۔
اس اسکول سے ڈھیر ساری یادیں وابستہ ہیں۔ اب بڑی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی پرانا کلاس فیلو مل جائے لیکن فیس بک وغیرہ سب چھان لیا کہیں کچھ پتہ نہیں لگا۔
ایک مرتبہ گلی میں ایک لڑکے سے لڑائی ہوگئی۔ ہم زندگی میں پہلی بار لڑے تھے اور پہلی اور آخری بار ہی جیتے کہ ہم نے اس لڑکے کو نیچے گرالیا۔ پھر تو ہمیں لگنے لگا کہ ہم تو ہر کسی کو لڑائی میں ہرا سکتے ہیں۔ بس پھر اسکول آکر کلاس میں اپنا واقعہ نمک مرچ لگا کر سنایا اور کہا کہ ہم سے کوئی لڑائی میں جیت نہیں سکتا۔ ایک کلاس فیلو جعفر نام تھا اس نے چیلنج کردیا کہ چھٹی کے بعد مقابلہ کرتے ہیں۔ ہم نے بھی ڈنکے کی چوٹ پر چیلنج قبول کرلیا کہ اسے گرانا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ جب چھٹی ہوئی تو سب طلباء ہمارا مقابلہ دیکھنے جمع ہوگئے۔ اسکول کے باہر ایک دوسرے بنگلے کے باہر والے لان میں مقابلہ منعقد ہوا۔ اس نے آن کی آن میں ہمیں گرالیا۔ ہمیں تو یقین نہیں آیا کہ ہم ہار گئے ہیں۔ اس سے دوبارہ اور سہہ بارہ مقابلہ کیا لیکن ہر بار چاروں شانے چت۔ پھر دوبارہ کبھی کسی کو دوبدو لڑائی کا چیلنج نہیں دیا۔
اس اسکول میں ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ پتہ نہیں کیوں ہمیں اپنی ہر کلاس ٹیچر سے عشق ہوجاتا تھا جو ظاہر ہے کہ یکطرفہ ہوتا تھا۔ ہر سال کلاس ٹیچر تبدیل ہوتی اور ہمارا عشق بھی ۔ یہ سلسلہ شائد پانچویں چھٹی کلاس تک چلا ہوگا۔ حلفیہ بیان دیتے ہیں کہ اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں تھا۔ دل ہی پاگل تھا۔
یہاں کی جو شرارتیں ہمیں یاد ہیں ان میں سے ایک تو یہ کہ کاپی سے ایک صفحہ پھاڑنا اس کے بیچ میں سوراخ کرنا اور ہمارے اسکول کے یونیفارم میں پینٹ شرٹ اور شلوار قمیض دونوں فلیور تھے۔ لہذا شلوار قمیض والے لڑکے کی قمیض میں چپکے سے پیچھے جاکر فٹ کردینا۔ اب وہ بے چارہ جہاں جاتا پیچھے دم لٹکی رہتی اور اسے تب پتہ لگتا جب کوئی اسے دیکھ کر ہنستا۔
ایک کھیل جو بہت کھیلتے تھے وہ ف کی بولی بولنا ہوتا تھا۔ یعنی ہر لفظ بولتے ہوئے اس کے درمیان میں کہیں ف کو ایویں ہی فٹ کردینا۔
فی الحال اتنا ہی تاکہ دیگر محفلین بھی اپنی اسکول کی یادیں شئیر کریں۔ اپنے اسکول کا مختصر تعارف بھی ایک دو سطور کا اگر دے سکیں تو دے دیں۔