ٹائپنگ مکمل اسکول کے کتب خانے

عائشہ عزیز

لائبریرین
عائشہ عزیز

44.gif
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص54)

۴۔ پیشہ ورانہ تربیتی کورسز میں شرکت کرنا۔
۵۔ پیشہ ورانہ اجتماعات اور کانفرنسوں میں تعاون کرنا اور شریک ہونا۔
۶۔ پیشہ ورانہ انجمنوں کے کام میں ہاتھ بٹانا۔
۷۔ دیگر اسکول، کالج، جامعات اور خصوصی کتب خانوں سے روابط قائم کرنا اور ان کے مواد خدمات کا جائزہ لینا۔
مذکورہ بالا خدمات اور فرائض میں پیشہ ورانہ، انتظامی اور نیم پیشہ ورانہ خدمات شامل ہیں۔ اگر کتب خانہ میں اسسٹنٹ لائبریرین موجود ہے تو ان میں سی ایسی خدمات اور فرائض اس کو تفویض کئے جاسکتے ہیں جن کا وہ اہل ہو۔ کتب خانہ کے دیگر عملہ کو بھی ان میں سے بعض خدمات سپرد کی جاسکتی ہیں۔

کلرک/ٹائپسٹ
کتب خانہ میں کلرک/ٹائپسٹ کی خدمات اور فرائض مندرجہ ذیل ہوسکتی ہیں۔
۱۔ کتب خانہ کے تمام ریکارڈ کو بہتر طریقے سے ترتیب دینا۔
۲۔ کتب فروشوں، ناشروں اور اسکول کی انتظامیہ سے جو خط و کتابت ہو اس کو سلیقہ سے فائیلوں میں ترتیب دینا۔
۳۔ کتابوں کے آڈر تیار کرنا، ٹائپ کرنا، اور ان کو کتب فروشوں یا ناشروں کو بھیجنا۔
۴۔ کیٹلاگ کارڈ، کتابی کارڈ اور کتابی جیب ٹائپ کرنا۔
۵۔ طلباء و اساتذہ کے مطلوبہ مضامین کی فہرست کتب ٹائپ کرنا۔
۶۔ کتب خانہ کی ماہانہ، سہ ماہی اور سالانہ رپورٹس ٹائپ کرنا۔
۷۔ رضاکار طلباء کے کام کی نگرانی کرنا۔
۸۔ کتابیں جاری کرنا، واپس لینا اور مخصوص کرنا۔ وقت مقررہ پر واپس نہ آنے والی کتابوں کے لیے یاد دہانی کے خطوط جاری کرنا۔
 

زلفی شاہ

لائبریرین
بھائی خود کرنے کے بعد ٹیم ممبرز میں سے کسی کو ٹیگ بھی کردیجئے گا۔
4۔ دوسرے کتب خانوں سے مواد مستعار لینے اور مستعار دینے کا نظم قائم کرنا۔
5۔ وہ کتب جن کی زیادہ طلب ہو ان کے مخصوص کرنے (RESERVATION) کا انتظام کرنا۔
6۔ کتابوں اور دیگر مواد کی الماریوں کو سلیقہ سے ترتیب دینا۔
7۔ الماریوں میں رکھی ہوئی کتب کو درجہ بندی کے اعتبار سے ترتیب دینا اور ان کی روزانہ پڑتال کرنا۔ نئی اور واپس آنے والی کتابوں کو روزانہ ترتیب کے اعتبار سے الماریوں میں لگوانا۔
حوالہ جاتی خدمات اور رہنمائی
1۔ حوالہ جاتی کتب کو یکجا کر کے الماریوں میں ترتیب سے رکھنا۔
2۔ مختلف موضوعات پر اشاریہ یا معلوماتی فائلیں تیارکرنا۔
3۔ کتب خانہ کے استعمال کے طریقے سمجھانے کے لیے کلاس میں یا کتب خانہ میں مجموعی طور پر طلباء کو لیکچر دینا۔
4۔ حوالہ جاتی سوالات کے جواب دینا۔
5۔ انفرادی طور پر طلباءاور اساتذہ کی حوالہ جاتی کتب کو استعمال کرنے میں رہنمائی کرنا،کتب بینی اور پڑھنے کے فن پر ضروری ہدایات دینا۔
6۔ مختلف جماعتوں کے طلباء کے لیے کلاس میں پڑھائے جانے والے مضامین پر فہرست کتب کتابیات۔ (BIBLIOGRAPHY) تیار کرنے کا طریقہ بتانا۔
7۔ طلباء کو مضامین لکھنے اور ان میں حوالے (REFERENCE) دینے کا فنی طریقہ سمجھانا۔
8۔ کتب کی نمائش کا گاہے گاہے اہم موضوعات پر اہتمام کرنا۔
9۔ سمعی و بصری مواد کا تعلیم و تدریس کے لیے کلاس میں اور کتب خانہ میں استعمال کرنا۔
10۔ کہانی سنانے کے اوقات کار کی منصوبہ بندی کرنااور عمل درآمد کروانا۔
میں اپنی پیاری بہن مانو بلی کو ٹیگ کرنے کااعلان کرتا ہوں۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 55)

رضاکار طلباء

جدید طریقہ تعلیم میں اساتذہ طلباء کو اسکول کے مختلف کاموں میں حصہ لینے کی ترغیب دلاتے ہیں اور ان کے ذاتی ذوق و شوق کو اجاگر کرتے ہیں۔ اساتذہ طلباء کو اسکول کی صفائی، اسکول کی عمارت کو سجانے، کیاریاں بنانے، پھولوں کے پودے لگانے، خوبصورت تصویریں لگانے، اسکول کا کینٹین چلانے، اسکول کے دفتر میں سہل و آسان کام کرنے، کتب خانہ میں ضروری خدمات انجام دینے کی طرف متوجہ کرتے ہیں اور ترغیب دلاتے ہیں۔ ان تمام کاموں میں حصہ لینے والے طلباء کو آئندہ زندگی کے بہت سے عملی تجربات حاصل ہوتے ہیں۔ وہ طلباء جو کتب خانہ میں کام کرنا پسند کرتے ہیں اساتذہ ان کو لائبریرین سے متعارف کراتے ہیں اور اسکول انتظامیہ کی طرف سے ان طلباء کو باقاعدہ رسمی طور پر کتب خانہ میں خدمات انجام دینے پر مامور کیا جاتا ہے۔ لائبریرین ان طلباء کو لائبریری کے مختلف کاموں اور خدمات سے روشناس کراتا ہے تاکہ یہ رضاکار طلباء اپنے ساتھی طلباء کو کتب خانہ کے مواد کو استعمال کرنے اور اس کی جاری کرنے میں مدد دے سکیں۔ طلباء سے جو خدمات لی جاسکتی ہیں ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔
۱۔ کارڈ کیٹلاف میں کارڈ ترتیب دینا۔
۲۔ طلباء اور اساتذہ کو کتابیں جاری کرنا اور واپس لینا۔
۳۔ کتابوں کے اجراء اور واپسی کا ریکارڈ تیار کرنا۔
۴۔کتابوں کو الماریوں میں لگانا۔
۵۔ وقت مقررہ پر واپس نہ آنے والی کتابوں کے لیے یاد دہانی کے خطوط جاری کرنا۔
۶۔ کتب خانہ کو خوبصورت تصویروں، کارٹونوں اور چارٹس وغیرہ سے سجانا۔
۷۔ کتابوں پر تبصرے لکھنا اور ساتھی طلباء میں تقسیم کرنا۔

چپراسی

کتب خانہ کی صفائی، نگرانی اور دیگر کام چپراسی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس سے کتابوں پر مہر لگوانا، لیبل چسپاں کرانا، کتابی جیب لگوانا اور اسی قسم کے دوسرے کام لیے جاسکتے ہیں۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 58 )

غیر سرکاری اسکول

غیرسرکاری اسکولوں کی صورتِ حال قدرے مختلف ہوتی ہے۔ غیر سرکاری اسکولوں میں طلباء سے خاصی بڑی رقم ماہانہ فیس کے طور پر وصول کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت سے بھی ان کو ہر سال امداد ملتی ہے۔ یہ مخیر حضرات سے بھی اچھی خاصی رقم ہر سال عطیات کی شکل میں جمع کرلیتے ہیں۔ غرض اسکول کو جو بھی رقم کسی بھی ذریعہ سے حاصل ہو اس کا ۱۰ سے ۱۵ فیصد حصہ کتب خانہ کے فروغ، ترقی اور خدمات پر خرچ کرنا چاہیے۔

کتب خانہ کے اخراجات میں بعض مدیں ایسی ہوتی ہیں جن کو اسکول بجٹ میں شامل کرنا چاہیے نہ کہ کتب خانہ کے بجٹ میں۔ ان میں کتب خانہ کے عملہ کی تنخواہیں، فرنیچر، عمارت، بنیادی مواد وغیرہ شامل ہیں۔ ان مدات پر جو بھی خرچ ہوگا وہ کتب خانہ کے سالانہ بجٹ میں شامل نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کو اسکول کے عام بجٹ میں ظاہر کرنا ہوگا۔

جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ کتب خانہ کا مواد پہلے، معیار کے اعتبار سے بنیادی ہونا چاہیے۔ ان کے بعد بتدریج طلباء اور اساتذہ کی تعداد کے مطابق اس کو معیاد سے ہمکنار کرنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ بنیادی مواد کے لیے ۵ کتابیں فی طالب علم، ۲۵ کتابیں فی استاد، ۵۰ طلباء پر ایک رسالہ، اساتذہ اور لائبریرین کے لیے ۵ رسائل ۴ اخبارات اور سمعی و بصری مواد حاصل کرنا چاہیے۔ اس بنیادی مواد کے لیے اسکول کو خصوصی مالی امداد کا انتظام کرنا ہوگا۔ جب اسکول اپنے طلباء و اساتذہ کی تعداد کے مطابق بنیادی مواد مہیا کر لے پھر اسکول کو ہر سال کتب خانہ کے لیے اتنی رقم مخصوص کرنی چاہیے کہ ہر طالب علم کے لیے دس روپے، ہر استاد کے لیے ۵۰ روپے کم سے کم خرچ کئے جاسکیں۔ رسالوں، اخبارات اور سمعی و بصری مواد کو بھی ضرورت کے مطابق بتدریج ہر سال بڑھانا ہوگا۔ لائبریرین کو سالانہ بجٹ کتب خانہ کی مشاورتی کمیٹی اور پرنسپل کی مشورے سے مندرجہ بالا معیار کے مطابق تیار کرنا چاہیے۔

سمعی و بصری مواد نئی ایجادات کے باعث خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ اکثر کثیر رقم کے متقاضی ہوتے ہیں۔ ایسے مواد کو جو اسکول کی تعلیم و تدریس میں معاون ہو، ضرور حاصل کرنا چاہیے۔
 

مقدس

لائبریرین
47

7. ہر جماعت ست چند طلباء کو کتب خانہ کے غیر فنی کام میں رضاکارانہ مدد کرنے کے لیے متعین کرنا جو کتابوں پر لیبل لگانے، کتاب نمبر لکھنے، کتابی جیب چسپاں کرنے اور دیگر سہل کاموں میں مدد کر سکیں۔

8۔ لائبریری کے لیے بجٹ تیار کرنے میں لائبریرین کی مدد کرنا اور بجٹ کے مطابق اسکول انتظامیہ سے رقم حاصل کرنا۔

9۔ کتب خانہ کے لیے مخیر حضرات سے عطیات اور رقوم حاصل کرنا۔

10۔ کتب خانہ کی فلاح و ترقی میں لائبریرین کی اعانت کرنا۔

کمیٹی کا اجلاس مہینے میں کم از کم ایک بار ہونا چاہیے جس میں کتب خانہ کے مسائل پر غور و فکر کیا جائے اور اس کی روداد باقاعدہ لکھی جائے یہ لائبریرین کی ذمہ داری ہونا چاہیے کہ وہ تمام اہم فیصلوں سے طلباء اور اساتذہ کو مطلع کرے۔
کتب خانہ کی تنظیم اختیارات کے اعتبار سے مندرجہ ذیل انداز سے ہونا چاہیے

ہیڈ ماسٹر یا پرنسپل
لائبریرین معتمد مشاورتی کمیٹی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لائبریری مشاورتی کمیٹی
کلرک ٹائپسٹ ۔۔۔۔۔۔ رضاکارطلباء۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چپراسی ، چوکیدار

کتب خانہ کا عملہ
جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ مہےنم کتب خانہ یعنی لائبریرین علم کتب خانہ میں کم از کم ایم اے کی سند رکھتا ہو اور کچھ تجربہ بھی رکھتا ہو۔ ایسے مدارس جہاں طلباء کی تعداد 500 سے زائد ہوں وہاں کم اسے کم درج ذیل عملہ ہونا ضروری ہے۔
 

مقدس

لائبریرین
48

1۔ ایک لائبریرن ایم اے، لائبریری سائنس
2۔ ایک کلرک، ٹائپسٹ
3۔ چند رضاکار طلباء
4۔ ایک چپڑاسی

ایسے اسکول جہاں طلباء کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہو وہاں مندرجہ بالا عملہ کے علاوہ ایک اسسٹنٹ لائبریرین، ڈپلومہ لائبریری سائنس، ایک ٹائپسٹ، رضاکار طلباء اور ایک چپراسی کا مزید اضآفہ کرنا چاہیے۔
کتب خانہ کے عملہ کے تقرر کے سلسلہ میں چند اہم نکات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے

لائبریرین

لائبریرین لے تقرر کے لیے صرف اس کی تعلیم و تجربہ پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ اس مٰن ذہانت، چابکدستی، خوش اخلاقی، ہمدردی اور تعاون کرنے کی صلاحیر کس درجہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ سب سے اہم خصوصیت یہ ہونی چاہیے کہ وہ عقیدہ کے اعتبار سے صحیح مسلمان ہو۔ یہ خصوصیات اس لیے ضروری ہیں کہ لائبریرین کو ذہین، امیر، غریب، شریر، شرمیلے، آذاد خیال غرض مختلف قسم کئ طلباء سے واسطہ پڑتا ہے۔ ہر طالب علم کو اس کی صلاحیت کے اعتبار سے انفرادی توجہ دینا ضروری ہوتا ہے۔ لائبریرین اپنی ذہانت اور ہوشیاری سے مسلمان بچوں کو غیر محسوس طریقے پر ایسا مواد ہیا کر سکتا ہے جس کے ذریعہ ان کو اپنی تعلیمی صلاحیت بڑھانے اور صحیح اسلامہ اقدار کو اجاگر کرنے میں مدد ملے۔ اساتذہ اور لائبریرن علم کا مخزن ہوتے ہیں وہ قوم کے بچوں کو جس روش پر دالنا چاہیں بڑی آسانی سے ڈال سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ لائبریرین کے تقرر میں مندرجہ بالا صفات کو لازمی طور پر پیش نظر رکھا جائے۔
اس کے علاوہ لائبریرین کو ان تمام علمی و درسی اور علم کتاب داری کے جدید تقاضوں اور طریقوں سے آگاہ ہونا چاہیے جو بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں میں مفید ومعاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ لائبریرین بھی اساتذہ کی طرح طلباء کی تعلیم و تدریس میں ان کی اسی طرح
 

زلفی شاہ

لائبریرین
اگلا ٹیگ سید مقبول شیرازی زلفی بھائی
اور پیجز یہ ہیں
باب5 مالیات
سرکاری اسکول 57
غیر سرکاری اسکول 58
نمونہ بجٹ 59
12.gif

13.gif
[/quote
مالیات
کسی بھی ادارے کو فروغ دینے اور ترقی کی اعلیٰ سطح تک پہنچانے کے لیے مالی وسائل کی فراوانی ضروری ہوتی ہے۔ مالی پریشانیوں میں مبتلا کوئی بھی ادارہ پھل پھول نہیں سکتا۔ اسی طرح کتب خانہ کو چلانے کے لیے وافر رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسکول کا کتب خانہ تعلیم و تدریس میں اسی وقت معاون ہو سکتا ہے جب طلباء اور اساتذہ کی علمی ضروریات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اسکول بجٹ سے معقول رقم ہر سال اس کو مہیا کی جائے۔ عام طور پر ترقی یافتہ ممالک میں کتب خانہ کے لیے اسکول کے بجٹ کا 10 سے 15 فیصد حصہ مخصوص کیا جاتا ہے۔ کتب خانہ اگر مواد کے اعتبار سے معیاری نہ ہو تو اس کو اس وقت تک سالانہ امداد کے علاوہ خصوصی امداد ہر سال دینی چاہیے حتی کہ وہ معینہ معیار کی حد تک پہنچ جائے ۔ اس ضمن میں مندرجہ ذیل امور قابل غور ہیں۔
سرکاری سکول
1۔ سرکاری اسکول ہر سال حکومت سے اپنے بجٹ کے مطابق رقم حاصل کرتے ہیں۔ اسکول کی انتظامیہ کو کتب خانہ کے بجٹ کو پیشِ نظر رکھتےہوئے حکومت سے وصول شدہ رقم کا 10 سے 15 حصہ کتب خانہ کو مہیا کرنا چاہیے۔
2۔ ہر اسکول میں طلباء سے کھیلوں اور دوسری مدوں کے لئے ماہانہ فیس وصول کی جاتی ہے ۔ اس میں سے کچھ رقم کتب خانہ کے لیے مخصوص کرنا چاہیے۔
3۔ دیر سے واپس آنے والی کتب یا گم ہو جانے یا ضائع ہو جانے کی صورت میں ان کی قیمت اور جرمانہ وصول کیا جاتا ہے۔ یہ پوری رقم کتب خانہ پر صرف ہونا چاہیے۔
4۔ بعض اوقات مخیر حضرات اسکول کو نقد عطیات عطا کرتے ہیں۔ ان عطیات کی رقم میں سے بھی کتب خانہ کو کم از کم 10 فیصد حصہ ملنا چاہیے۔
5۔ کبھی کبھی حکومت سے خصوصی امداد اسکولوں کو دی جاتی ہے۔ اس رقم سے بھی کتب خانہ کا حصہ معینہ شرح کے مطابق دیا جائے۔
 

مقدس

لائبریرین
49

مدد کرتا ہے جس طرح استاد کلاس میں کرتے ہیں۔
لائبریرین تنخواہ، مرتبہ اور دوسری مراعات کے اعتبار سے اساتذہ کے مساوی ہونا چاہیے۔ جو گریڈ اور دوسری مراعات ایم اے اساتذہ کو دی جاتی ہین وہی مراعات لائبریرین کو ہونی چاہیں۔ نیز جس طرح اساتذہ کی ترقی تجربہ کی بنیاد پر ہوتی ہے اسی طرح لائبریرین کی بھی ترقی ہونی چاہیے۔ ایک استاد ترقی کرتے ہوئے ہیڈ ماسٹر، ڈائریکٹر اور سکریٹری وزارت تعلیم ہو سکتا ہے اسی طرح لائبریرین کو بھی ترقی کے مدارج طے کرتے ہیڈ ماسٹر، ڈائریکٹر اور سکریٹری وزارت تعلیم کے عہدے تک پہنچنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ اگر لائبریرین کو اسکول کی تنظیم میں کم درجہ دیا گیا تو وہ اساتذہ ور طلباء میں اپنے آپ کو باعزت اور باوقار محسوس نہیں کرے گا اور نہ ہی وہ ان سے خاطر خواہ تعاون حاصل کر سکے گا۔ لہذا ضروری ہے کہ لائبرین کو کسی طرح بھی اساتذہ سے کم درجہ کا احساس نہ ہونے دیا جائے۔
اگر لائبریرین کو کم درجہ دیا گیا یا اسے ترقی کے وہ تمام مواقع حاصل نہ ہوں جو اساتذہ کو حاصل ہیں تو خطرہ ہے کہ اس پیشے کو اپنانے کے لیے ذہین لوگ اس طرف راغب نہیں ہوں گے اور ناکارہ لوگوں کے ہاتھوں میں ہونے کے باعث کتب خانہ وہ کردار ادا نہیں کر سکے گا جو اسی تعلیمی اداروں میں ادا کرنا چاہیے۔ بدقسمتی سے اب تک یہی ہوتا رہا ہے اور اسی وجہ سے ہمارے تعلیمی نظام میں کتب خانے اور ان کے منتظمین یعنی لائبریرین حضرات اپنا جائز کردار ادا نہیں کر سکے جو ایک عظیم قومی نقصان ہے۔

لائبریرین کے فرائض

لائبریرین کے فرائض اور خدمات کی تفصیل ذیل میں بیان کی جا رہی ہے ۔ ان کی روشنی مین آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ لائبریرین مطلوبہ فرائض اور خدمات انجام دے رہا ہے یا نہیں۔ ان سے کتب خانے کو استعمال کرنے والے حضرات کو بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ کتب خانے سے کس قسم کی خدمات کی توقع کی جا سکتی ہے۔
 

مقدس

لائبریرین
50

انتظامی خدمات و فرائض

1۔ کتب خانہ کے تمام امور کی احسن طریقے پر منصوبہ بندی کرنا اور تمام منصوبوں اور پروگراموں پر خوش اسلوبی سے عمل درآمد کرانا۔

2۔ کتب خانہ کے بجٹ کو ترتیب دینا اور ہر مد پر اخراجات کے توازن کو برقرار رکھتے ہوئے رقم کا بہتر استعمال کرنا۔

3۔ جدید قسم کے آلات مواد کتب خانہ کی کارگردگی کو بہتر بنانے کے لیے خریدنا اور استعمال کرنا۔

4۔ عملہ کی نگہداشت کرنا اور ان کو بہتر خدمات مہیا کرنے کی تربیت دینا۔

5۔ رضاکار طلباء کی نگہداشت کرنا اور ان کے کام کو موثر بنانا۔

6۔ ہیڈ ماسٹر یا پرنسپل اور اساتذہ کے ساتھ لائبریری مشاورتی کمیٹی کے اجتماعات کا اہتمام کرنا۔ اجتماعات کی رواداد لکھنا۔ ان کا ریکارڈ رکھا اور فیصلوں پر عملد درآمد کرانا۔

7۔ خط و کتابت، آمدنی و اخراجات کا ریکارڈ رکھا،

8۔ کتب خانہ کی خدمات و کارکردگی پر رپورٹس تیار کرنا۔

9۔ کتب خانہ کے دیگر اراکین یعنی والدین، ادارے اور انجمنوں سے روابط قائم کرنا۔

10۔ مختلف قسم کے اعداد و شمار یکجا کرنا اور ان کو مشتہر کرنا۔

انتخاب و حصول مواد

1۔ قارئیں کے علمی ذوق و شوق کا جائزہ لینا اور اس کی روشنی میں آئندہ انتخاب مواد کے لیے لائحہ عمل مرتب دینا۔

2۔ ملک میں شائع ہونے والے مواد کا جائزہ لینا اور مناسب مواد کو کتب خانہ کے لیے تجویز کرنا۔

3۔ انتخاب کتب اور دیگر مواد کے لیے اساتذہ کے تعاون سے پالیسی مرتب کرنا۔

4۔ اسکول کے نصاب جا تنقیدی جائزہ لینا اور اس سے متعلق مواد کا انتخاب کرنا۔
 

شمشاد

لائبریرین
اسکول کے کتب خانے​
صفحہ ۲۷​
کی۔ جس میں ۱۲ اسکولوں نے شرکت کی۔ ان میں سے صرف تین اسکول ایسے تھے جہاں کل وقتی لائبریرین کا تقرر کیا گیا تھا۔ یہ لائبریرین پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت کے حامل نہیں تھے۔ ۹ اسکولوں میں کتب خانوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اساتذہ کو دی گئی تھی، جن سے اسکول انتظامیہ یا تو ناخوش تھی یا کسی استاد کو سزا کے طور پر یہ اضافی کام دیا گیا تھا۔ مددگار اسٹاف میں کلرک کسی بھی اسکول میں نہیں تھا۔ البتہ ۴ اسکول ایسے تھے جہاں ایک جزوقتی چپراسی متعین کیا گیا تھا جو اسکول کے کاموں کے بعد فارغ اوقات میں کتب خانہ کی صفائی یا کھولنے اور بند کرنے کا کام انجام دیتا تھا۔​
کراچی کے بعد حیدر آباد، خیرپور اور کوئٹہ میں اس قسم کے ورکشاپ نظامتِ تعلیمات کے تعاون سے کیے گئے ۔ ہر شہر میں اسکولوں کے جزوقتی اور کل وقتی لائبریرین نیز اساتذہ نے شرکت کی۔ ان اسکولوں کی حالت کم و بیش کراچی کے اسکولوں جیسی ہی تھی۔ بلکہ بعض اسکولوں میں تو کتب خانے نام کی کوئی چیز تھی ہی نہیں بس چند کتابیں ہیڈ ماسٹر کے کمرے کی زینت نظر آتی تھیں۔​
اسکول لائبریری ورکشاپ کے نتیجے میں باقاعدہ سفارشات مرتب کی گئیں جو متعلقہ ابتدائی اور ثانوی سرکاری تعلیمی اداروں کو پیش کی گئیں۔ جائزے سے جو ضروری معلومات حاصل ہوئیں وہ حسب ذیل تھیں :​
1) غیر سرکاری اسکولوں میں کتب خانے نسبتاً بہتر حالت میں پائے گئے اور خدمات بھی قدرے مناسب تھیں۔​
2) پرائیوٹ اسکولوں میں کل وقتی لائبریرین مقرر کئے گئے تھے۔​
3) سرکاری اسکولوں میں اساتذہ جزوقتی لائبریرین کی خدمات انجام دیتے تھے جن پر پڑھانے کے علاوہ یہ اضافی ذمہ داری ڈالی گئی تھی۔​
4) تمام سرکاری اسکولوں کی کتابیں تالوں میں بند تھیں اور نجی اسکولوں میں کُھلی الماریوں میں رکھی گئی تھیں۔​
5) کتابوں کا اجراء نجی اسکولوں میں قدرے بہتر تھا جب کہ سرکاری اسکولوں میں کتابوں کا اجراء محدود تھا۔​
6) بعض سرکاری اسکولوں میں کتب خانے چند گھنٹوں کے لیے کُھلتے تھے اور اکثر میں کبھی کبھی کُھلتے تھے۔ اُستاد / لائبریرین اپنے فالتو وقت میں کتب خانہ میں بیٹھتے تھے اور مخصوص​

 

شمشاد

لائبریرین
اسکول کے کتب خانے​
صفحہ ۲۸​
طلباء کو کبھی کبھی کتب جاری کرتے تھے۔ غیر سرکاری اسکولوں میں کتب خانے اسکول کے اوقات میں کُھلے رہتے تھے اور طلباء کو کتب جاری کی جاتی تھیں۔ بعض اسکولوں میں طلباء کو صرف درمیانی وقفہ / چھیٹی میں کتب خانے جانے کی اجازت تھی۔​
1) سمعی و بصری مواد تمام اسکولوں میں ناپید تھا۔​
2) اکثر کتب خانوں کا مواد فنی اعتبار سے منظم نہیں کیا گیا تھا اور الماریوں میں مرتب نہیں تھا۔ کیٹلاگ کا وجود ہی نہیں تھا۔​
3) کتابیں پھٹنے، گم ہونے یا ضائع ہونے کی صورت میں اُستاد / لائبریرین کو اپنی جیب سے قیمت ادا کرنی پڑتی۔​
اس صورتِ ھال سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں کتب خانوں کے قیام، فروغ اور استعمال سے کس قدر بے توجہی برتی جا رہی ہے۔ حکومت کے ماہرینِ تعلیم اور ذمہ دار افسران کو توجہ بار بار کانفرنسوں، سیمینار، سمپوزیم، مقالات، سفارشات اور ذاتی ملاقاتوں کی شکل میں مبذول کرائی جاتی رہی۔ لیکن افسوس کہ اس سمت ابھی تک کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں کی گئی بلکہ غیر سرکاری اسکولوں کے کتب خانے بھی قومیائے جانے کے بعد سرکاری اسکولوں کی طرح بتدریج تباہ ہو گئے۔​
صورتِ حال ہمارے سامنے ہے۔ ہمارے ثانوی تعلیمی ادارے کتنے ذہین اور ہونہار طالب علم کالجوں اور جامعات میں بھیج رہے ہیں اس کا اندازہ کالج اور جامعات کے اساتذہ سے استفسار پر کیا جا سکتا ہے۔ ان اداروں سے بھی معلوم کیا جا سکتا ہے جو اپنے یہاں مختلف اسامیوں پر فارغ التحصیل طلباء کو ملازم رکھتے ہیں۔​
تعلیمی کمیشن نے ماہرین تعلیم اور سرکاری تعلیمی اداروں کی توجہ جس بنیادی مقصد کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے بچے مدارس میں ایسی تعلیم حاصل کریں کہ جس کے توسط سے وہ (۱) مُحب وطن (۲) ذمہ دار فرد (۳) باشعور شہری اور (۴) اعلیٰ کارکن بن سکیں اور ہم اس میں مزید اضافہ کریں گے کہ وہ اچھے مسلمان بھی ثابت ہوں۔ ان مقاصد کے حصول میں ہمارے تعلیمی اداروں نے کس حد تک اپنی ذمہ داریوں کو پورا کیا ہے اس کا اندازہ ملک میں نوجوان نسل کے رویہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ہمارے نوجوانوں میں احساس ذمہ داری اور ایک اچھے شہری کا​

 

شمشاد

لائبریرین
اسکول کے کتب خانے​
صفحہ ۲۹​
شعور کم ہے، کارکردگی کے اعتبار سے بھی ہم کامیاب نظر نہیں آتے، حب الوطنی بھی ہم میں بہت زیادہ نہیں ہے اور دین اسلام سے ہمارا رشتہ تو سب سے زیادہ کمزور معلوم ہوتا ہے۔​
اس ذمہ داری سے ہم کسی طرح بھی اپنے مدارس کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے اور سب سے زیادہ ذمہ داری ان اداروں کی ہے جو ان مدارس کی نگہداشت اور سرپرستی کرتے ہیں۔ اس میں اساتذہ کا برتاؤ اور نصاب تعلیم بھی کسی حدتک ذمہ دار ہے۔ کتب خانوں کی عدم موجودگی اور اصلاحی مواد کی غیر موجودگی بھی اسباب میں شامل ہیں۔​
صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق صاحب نے ان تمام خرابیوں کے پیش نظر ۱۹۷۸ء میں ایک تعلیمی کانفرنس کا اہتمام کیا اور اس میں ملک کے تعلیمی نظام کو اسلامی طرز پر ڈھالنے اور نظریہ پاکستان کو اپنانے کی اہمیت پر زور دیا۔ تعلیمی کانفرنس نے بھی سفارشات پیش کیں۔ (۵)​
سابقہ تجربات کی روشنی میں اگرچہ امید تو کم نظر آتی ہے کہ صورتِ حال سدھر جائے لیکن بہر حال ایک موہوم سی امید ہے کہ شاید وہ خواب شرمندہ تعبیر ہو جائے جس کے لیے یہ پاکستان وجود میں آیا تھا۔​
پانچسالہ منصوبہ (۱۹۷۸ – ۱۹۸۲) میں بھی صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لیے ۳۹ سفارشات پیش کی گئی ہیں۔ سابقہ منصوبوں کی طرح اس کا بھی اندازہ ہو جائے گا کہ اصل مقصد کے حصول کے لیے کیا اقدامات کئے جاتے ہیں۔​
کتب خانے بلا واسطہ طریقے سے بچوں کی ذہنی نشو و نما میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ اخلاقی، معاشرتی، سماجی، سیاسی اور معاشی خرابیاں جو معاشرہ میں پھیلی ہوئی ہیں ان کو معیاری اور اچھی کتابوں کی فراہمی سے کافی حد تک روکا جا سکتا ہے۔ اگر کتب خانوں میں ایسی کتابیں پابندی سے مہیا کی جائیں اور طلباء کو انتخاب کی آزادی کے ساتھ اسکول کے نصاب کے علاوہ بھی پڑھنے کی طرف راغب کیا جائے تو اس سے والدین ، اساتذہ اور مدارس کی ذمہ داریاں کافی حد تک احسن طریقے سے ادا ہو سکتی ہیں۔اگر ہمارے ملک میں اعلیٰ اور معیاری کتب، رسائل، اخبارات اور دیگر تعلیمی مواد پر مشتمل کتب خانے مدارس میں قائم کر دیئے جائیں تو ہماری تعلیمی زندگی کے ساتھ ساتھ پوری قومی زندگی میں ایک عظیم اصلاحی انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ ہم ذمہ دار افراد، اعلٰی کارکن، باشعور شہری، محب وطن اور باعمل مسلمان پیدا کر سکتے ہیں۔ دراصل اگر اچھے مسلمان بنانے کی کوشش کی جائے تو بقیہ تمام صفات خود بخود ان میں پیدا ہو جائیں گی۔ اسلام کے بنائے ہوئے معیار پر اگر ہم اپنی اور اپنے بچوں کی زندگیوں کو ڈھالیں تو بہترین انسانی خصوصیات خود بخود پیدا ہو جائیں گی۔ ان صفات کی جِلا میں اسکول اور اسکول کے کتب خانے بہترین خدمات انجام دے سکتے ہیں۔​

 

شمشاد

لائبریرین
اسکول کے کتب خانے​
صفحہ ۳۰​
باب ۲
اسکول کے تعلیمی پروگرام میں
کتب خانہ کا حصّہ
ابتدائی مدارس ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۳۱
ثانوی مدارس۔۔۔۔۔۔۔۔ ۳۴
 

شمشاد

لائبریرین
اسکول کے کتب خانے​
صفحہ ۳۱​
اسکول کے تعلیمی پروگرام میں کتب خانہ کا حصّہ
کتب خانوں کا بنیادی مقصد اسکول کے تعلیمی پروگرام کو کامیاب بنانا اور تقویت بخشنا ہے۔ اسکول میں چونکہ بنیادی مضامین کی تعلیم دی جاتی ہے لہذا اسکول کے کتب خانے ان مضامین سے متعلق کتب، رسائل اور ایسا مواد فراہم کرتے ہیں جو طلباء اور اساتذہ کے تقابلی مطالعہ کا موقعہ مہیا کر سکیں۔ اس کے علاوہ کتب خانے طلباء اور اساتذہ کے ذاتی رحجانات، نجی ذوق و شوق کی تسکین کے لیے بھی مواد مہیا کرنے میں مددگار ہوتے ہیں۔ کتب خانے طلباء کو ایسی کتب بھی مہیا کرتے ہیں جن کی مدد سے طلباء عالمی معلومات، بین الاقوامی مسائل، فنون لطیفہ، اخلاقی اقدار اور دینی و ملّی معلومات حاصل کر سکیں۔ ذہین اور قابل طلباء کے لیے اعلیٰ معیاری مواد بھی حاصل کرتے ہیں تاکہ اوسط طلباء کے مقابلہ میں ان کو اعلیٰ معیاری مواد میسر ہو سکے اور وہ اپنی معلومات میں مزید اضافہ کر سکیں۔​
کتب خانوں میں علمی مواد جمع کرتے وقت نصاب کو خاص طور پر پیش نظر رکھا جاتا ہے تا کہ طلباء اپنے مضامین کو احسن طریقے سے سمجھ سکیں اور مضامین میں مہارت حاصل کر سکیں۔ ہر مضمون کی بنیادی کتب مہیا کی جاتی ہیں۔ بیرونی ممالک میں تو اسکول کے کتب خانوں کے لیے بنیادی کتابوں کی فہرستیں وقتاً فوقتاً شائع ہوتی رہتی ہیں جن کی مدد سے لائبریرین حضرات مفید کتابوں کا اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ امریکن لائبریری ایسوسی ایشن اور ولسن کمپنی نیویارک نے ایسی خاص فہرستیں، کتابیات اور کیٹلاگ شائع کئے ہیں۔ ان کی تفصیل آئندہ اسباق میں آئے گی۔​
ابتدائی مدارس
ابتدائی مدارس میں کم عمر بچوں کے لیے سمعی و بصری مواد فراہم کرنے پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ کیونکہ بچے خوشنما تصویروں،خوبصورت کھلونوں اور کھیل کود کے سامان سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں اور علمی باتیں بھی سیکھتے ہیں۔ بچوں کو ٹیپ پر کہانی سُنانے، سلائڈز دکھانے، بلاکس سے مختلف چیزیں بنانے اور دیگر دلچسپ و معلوماتی کھیل سکھا کر تعلیمی عمل کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ابتدائی مدارس میں اس قسم کے​

 

شمشاد

لائبریرین
اسکول کے کتب خانے​
صفحہ ۳۲​
مواد کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔بچے بڑے شوق سے اپنے کتب خانوں میں جاتے ہیں اور ہر روز نئی نئی معلومات حاصل کرتے ہیں اور علمی باتیں سیکھتے ہیں۔​
ان مدارس کے کتب خانوں میں ایسی کتابیں فراہم کی جاتی ہیں جو مختلف موضوعات پر آسان زبان میں لکھی گئی ہوں ان میں رنگ برنگی تصاویر دی گئی ہوں۔ حروف بڑے استعمال کئے گئے ہوں، دیکھنے میں خوبصورت و خوشنما لگتی ہوں۔ یہ کتابیں اپنی ساکت میں ایسی ہوں کہ بچہ ہر کتاب کو دیکھ کر خود بخود اس کی طرف لپکے اور اس کو پڑھنے کا خواہشمند ہو۔ بڑی جماعتوں کے بچوں کے لئے ایسی کتابیں فراہم کی جائیں جو نہ صرف ان کے نصاب کے مضامیں کا احاطہ کرتی ہوں بلکہ روزمرہ کی زندگی سے متعلق معلومات فراہم کرتی ہوں۔ اسکول میں پڑھائے جانے والے مضامین پر کتابیں ایسی خریدی جائیں جو کہانیوں کی مدد سے موضوعات کی وضاحت کرتی ہوں۔ یعنی اگر سائنسی معلومات، تاریخی مقامات، ملک کے مشہور رہنما، جغرافیائی و تاریخی حقائق، دینی و اخلاقی اقدار پر کتابیں خریدی جائیں تو وہ ایسی ہوں جو کہانیوں کی طرز میں نفسِ مضمون کو بیان کرتی ہوں۔ ایسی کتابیں ہمارے ملک میں کئی ناشر شائع کرتے ہیں۔ ان میں :​
(۱) نیشنل بُک فاؤنڈیشن آف پاکستان، (۲) فیروز سنز، (۳) اسلامک پبلیکیشنز، (۴) ادارہ بتول (۵) شیخ غلام علی اینڈ سنز اور (۶) نیشنل بُک کاؤنسل آپ پاکستان وغیرہ شامل ہیں۔​
ابتدائی تعلیم کی ذمہ داری حکومت کے علاوہ بلدیاتی اداروں کی بھی ہے۔ یہ بلدیاتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ابتدائی مدارس میں تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ معیاری کتب خانوں کا قیام بھی عمل میں لائیں۔ ابتدائی مدارس کو مراکز تعلیمِ بالغاں کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ صبح کو ان مدارس میں بچے تعلیم پاتے ہیں اور شام کو بڑی عمر کے افراد تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ تعلیم بالغاں کے ئے بھی کتب خانے ازحد ضروری ہیں۔ ان کتب خانوں میں جو مواد فراہم کیا جاتا ہے وہ ہی تعلیم بالغاں کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح بچوں کو علمی صلاحیت بڑھانے کے لئے کتب خانوں کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح عمر رسیدہ لوگوں کو ان کی علمی صلاحیت کو برقرار رکھنے اور بڑھانے کے لئے کتب خانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر بڑی عمر کے لوگوں کو لکھنا پڑھنا سکھا کر فارغ کر دیا جائے اور ان کے لئے مزید پڑھنے لکھنے کا موقع فراہم نہ کیا جائے تو یہ رفتہ رفتہ علم کو بھل جائیں گے۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم بالغاں کے تحت علم حاصل کرنے والوں کو ابتدائی مدارس کے​

 
Top