ٹائپنگ مکمل اسکول کے کتب خانے

عائشہ عزیز

لائبریرین
اگلا ٹیگ سید زلفی بھائی

%25D8%25AF%25D8%25AF.gif
 

شمشاد

لائبریرین
اسکول کے کتب خانے​
صفحہ ۷۱​
کی بنوائی جاتی ہے۔ اگر میز ۳۰ انچ اونچی ہے تو کرسی ۱۸ انچ اونچی ہونی چاہیے اور میز ۳۵ انچ اونچی ہے تو کرسی ۲۰ انچ اونچی ہونی چاہیے اس میں ہتھے نہیں ہونا چاہییں۔ یہ کرسی گھومنے والی ہو تو بہتر ہے (۱۳)۔​
5- کارڈ کیٹلاگ
کتب خانہ میں جو بھی مواد اکٹھا کیا جاتا ہے اس کا ریکارڈ ۳ انچ x ۵ انچ جسامت کے کارڈز پر رکھا جاتا ہے۔ ان کارڈز کو ایک خاص قسم کی دراز میں رکھا جاتا ہے جس کو کارڈ کیبنٹ Card Cabinet کہا جاتا ہے۔ اس میں درازیں ہوتی ہیں۔ ہردراز میں آٹھ سو سے ایک ہزار کارڈز رکھے جا سکتے ہیں۔ اسکول کے کتب خانہ کے لئے کارڈ کیٹلاگ بہت ضروری ہے۔ کسی کتب خانہ میں دیکھ کر یہ بنوایا جا سکتا ہے۔ یہ لکڑی کا یا لوہے کا بن سکتا ہے، لکڑی کا اگر بن سکے تو بہتر ہے۔ کتب خانہ کے موجودہ مواد اور آئندہ سالوں میں اضافہ کو پیش نظر رکھ کر کیٹلاگ اتنا بڑا بنوایا جائے کہ اس میں کم از کم تیس ہزار کارڈ آ سکیں۔ کارڈ کیٹلاب کو دارالمطالعہ میں داخلی دروازے کے نزدیک مناسب جگہ پر رکھا جائے تا کہ ہر قاری اس کو سہولت سے دیکھ سکے۔​
اسی قسم کا ایک چھوٹا کیٹلاگ لائبریرین کے لئے بنوایا جائے جس میں کم از کم دس ہزار کارڈ آ سکتے ہوں۔ لائبریرین اس کیٹلاگ کو شیلف لسٹ Shelf List اور دیگر ضروری ریکارڈ کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔ دونوں کیٹلاگ کے نیچے پائے اور پہیے لگوانا ضروری ہیں تاکہ یہ زمین سے کچھ بلند ہوں اور ان کو قارئین اور لائبریری کا عملہ آسانی سے استعمال یا منتقل کر سکے (۱۴)۔​
6- دیگر فرنیچر و آلات
کتب خانہ میں بے شمار قسم کا فرنیچر اور آلات استعمال کئے جاتے ہیں۔ چند ضروری فرنیچر اور آلات کی تفصیل درج ذیل ہے۔​
1) دفتری میزیں مع درازوں کے لائبریرین اور عملہ کے استعمال کے لئے۔​
2) عام دفتری کرسیاں دستوں کے ساتھ لوہے یا لکٹری کی بنوائی جائیں اوران میں گدا ضرور مہیا کیا جائے۔ گھومنے والی کُرسیاں زیادہ کارآمد ہوتی ہیں۔​

3) دفتری ریکارڈ کے لئے الماریاں۔​

 

شمشاد

لائبریرین
اسکول کے کتب خانے​
صفحہ ۷۴​
1) فائلیں رکھنے کے لیے کیبنٹس​
2) ٹائپ رائٹر اور اس کی میز اور اسٹول​

3) کتب خانہ میں نمائشی کیبن بھی بنوانی چاہیے جس میں نئی کتابیں، رسائل یا کوئی خاص مواد نمائش کے لئے رکھا جا سکتا ہے۔ اس کو دیوار میں بھی لگایا جا سکتا ہے اور میز کی شکل کا بنوا کر زمین پر رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن ہر دو صورت میں شیشہ لگوانا چاہیے تاکہ قاری اس کو بغیر ہاتھ لگائے دیکھ سکیں۔​

4) نقشوں کے لیے خاص قسم کے اسٹینڈ بنوائے جائیں جن پر نقشوں کو لپیٹ کر سلسلہ وار رکھا جائے۔​

5) بڑی لغت کو ایک خاص قسم کی اسٹینڈ پر رکھا جائے تاکہ لوگ اس کو استعمال کرنے میں ضائع نہ کر دیں۔ اسی طرح بڑی اور بھاری اٹلس وغیرہ کے لئے مخصوص قسم کے شیلف بنوائے جو میز کی شکل کے ہوں نیچے کئی خانے بنوائے جائیں ان میں اٹلس رکھے جائیں اور جب دیکھنا ہو تو اٹلس کو نکال کر اوپر کی سطح پر رکھ کر آسانی سے دیکھ سکیں۔​

6) لائبریری کے دروازے کے باہر یا اندر دیوار پر ایک نوٹس بورڈ لگوایا جائے جس میں ضروری اعلانات یا اشتہارات لگائے جا سکیں۔​
5- سمعی و بصری مواد
سمعی و بصری مواد کے لئے الگ کمرہ مخصوص ہونا چاہیے جس میں یہ مواد سہولت کے ساتھ رکھا جا سکے۔ اس میں مخصوص قسم کی الماریاں بنوائیں جن میں فلم، فلم اسٹرپ، سلائیڈز، کیسٹ، ٹیپ اسپول، ریکارڈ ڈسک، ویڈیو ٹیپ وغیرہ رکھے جا سکیں۔ لہذا اگر کمرہ ایئر کنڈیشنڈ ہو تو مناسب ہے۔ ورنہ یہ کمرہ ایسی جگہ ہو جہاں سورج کی گرمی اور گرم ہوا سے محفوظ ہو۔ کمرہ کا درجہ حرارت ۲۵ ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ نہ ہو۔ زیادہ گرمی سے پلاسٹک، سلولائیڈ اور دیگر نازک مواد کے ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ یہ سامان چونکہ بہت قیمتی ہوتا ہے اس لئے ان کی حفاظت کا معقول انتظام کرنا چاہیے۔​

 

شمشاد

لائبریرین
اسکول کے کتب خانے​
صفحہ ۷۶​
آلات
جدید تعلیمی نظام کے پیش نظر آج کل مختلف قسم کے آلات او رمشینیں مہیا کی جاتی ہیں جو کتب خانہ میں استعمال کی جاتی ہیں اور انہیں کلاس روم میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ سارا مواد بجائے اسکول کے اسٹور میں رکھنے کے کتب خانہ کی تحویل میں رکھا جاتا ہے۔ پاکستانی کتب خانوں کے لئے چند ضروری آلات اور مشنیں تجویز کی جا رہی ہیں جو کو ہمارے اسکولوں میں لازمی طور پر مہیا کرنا چاہیے۔​
1) فلم پروجیکٹر​
2) سلائیڈ پروجیکٹر​

3) فلم اسٹرپ پروجیکٹر​

4) اورہیڈ پروجیکٹر یا اوپیک پروجیکٹر​

5) فلم اسکرین​

6) ٹیلی ویژن رنگین​

7) ریکارڈ پلیر​

8 ) کیسٹ ٹیپ ریکارڈر

9) ویڈیو ٹیپ ریکارڈر​

10) ریڈیو سیٹ​

11) کیمرہ (۱۵)​

مندرجہ بالا مواد خاصا قیمتی ہے۔ لیکن مؤثر طریقہ تدریس میں یہ مواد بہت ہی کارآمد ہے۔ جو اسکول یہ مواد فراہم کر سکیں گے ان کا تعلیمی پروگرام دوسرے اسکولوں کے مقابلہ میں بہت ہی کامیاب اور مؤثر ہو گا۔ اگر یہ مواد کوئی اسکول فراہم نہ کر سکے تو وہ مرکز وسائل کتب خانہ جات سے مستعار لے کر اپنے تعلیمی پروگرام میں استعمال کرے۔​
 

شمشاد

لائبریرین
اسکول کے کتب خانے​
صفحہ ۷۷​
باب ۷
انتخاب و حصول مواد
انتخاب کتب میں اساتذہ کا تعاون ۔۔۔۔۔۔۔​
انتخاب کتب میں طلباءو والدین کا انتخاب ۔۔ ۸۱​
کتابی اقدار کی جانچ پڑتال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
موضوعی کتب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۸۲​
ناول و افسانے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۸۳​
ناشرین کے کیٹلاگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
معیاری کتابیات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۸۴​
جرائد و رسال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۸۵​
اخبارات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
عام کتابیات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۸۶​
کتب خانوں کے مطبوعہ کیٹلاگ ۔۔۔۔۔۔​
سمعی و بصری مواد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۸۷​
رسائل و اخبارات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۸۹​
کتب خانہ کے مواد کی خریداری ۔۔۔۔۔۔۔ ۹۰​
رسائل، اخبارات و دیگر مواد ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۹۶​
 

زلفی شاہ

لائبریرین
ہے کہ کون سی نئی کتب بازار میں آئی ہیں۔ ان کو اگر دیکھ لیا جائے تو انتخاب میں خاصی مدد ملتی ہے۔ ہمارے ملک میں شائع ہونے والے چند رسائل قابلِ ذکر ہیں جن میں کتابوں پر تبصرے شائع ہوتےہیں۔
1۔ ماہنامہ کتاب
2۔ ماہنامہ افکار کراچی
3۔ اردو ڈائجسٹ
4۔ فاران
5۔ ماہنامہ اردو زبان
6۔ نونہال
7۔ بچوں کی دنیا
8۔ نگار
9۔ قومی زبان
10۔ افکار
1. Pakistan Library Bulletin​
2. Criterion​
3. Pakistan Quarterly​
4. Illustrated Weekly of Pakistan​
4۔ اخبارات​
پاکستان میں شائع ہونے والے کم وبیش تمام اخبارات میں نئی کتابوں پر تبصرے شائع ہوتے ہیں۔ ان تبصروں سے انتخاب کتب میں مدد لی جا سکتی ہے۔ اخبارات میں بچوں کی کتابوں پر بھی تبصرے شائع ہوتے ہیں۔
5۔ عام کتابیات
بعض ایسی کتابیات بھی شائع ہوتی ہیں جو محض کتابوں کی فہرست ہوتی ہیں۔ ان سے بھی اندازہ
اگلا ٹیگ ساجد بھائی
 

شمشاد

لائبریرین
اسکول کے کتب خانے​
صفحہ ۷۹​
انتخاب و حصول مواد
انتخاب مواد سب سے اہم فریضہ ہے جس کو لائبریرین کمال مہارت اور ذہانت سے انجام دیتا ہے۔ انتخابِ مواد کے لئے نہ صرف کتابیاتی مواد کا کتب خانہ میں ہونا ضروری ہے بلکہ لائبریرین کو کتب فروشوں اور ناشرین سے مستقل رابطہ رکھنا پڑتا ہے۔ ان کے ذریعہ لائبریرین عمدہ اور جدید ترین کتب سے آگاہ ہوتا رہتا ہے۔ کتب اور دیگر مواد کے انتخاب کے لئے مندرجہ ذیل نکات پیس نظر رکھنا ضروری ہیں۔​
1) تمام علوم پر بنیادی اور معیاری کتب کا انتخاب کرنا۔​
2) ایسا مواد حاصل کرنا جو اسکول کے نصابی مضامین میں معاون ہو۔​

3) ایسی کتب اور دیگر مواد فراہم کرنا جس کی طلب موجود ہو۔​

4) ایسا مواد اکٹھا کرنا جس کی نہ صرف مختلف مضامین میں حاجت ہو بلکہ جو تفریح اور علمی تجسس کے لئے مفید ہو۔​

5) مختلف مضامین پر کتب باقاعدگی اور پابندی سے بروقت مہیا کی جائیں۔​

6) بہت معیاری کتب کے مقابلہ میں ایسی کتب کو ترجیح دی جائے جو بار بار استعمال کی جا سکتی ہوں۔​

7) ایسی کتب جو معرکتہ الآرا اور کلاسیکی حیثیت رکھتی ہوں کتب خانہ کے لئے ضرور حاصل کی جائیں جس سے کتب خانہ کی اہمیت اور وقار میں اضافہ ہو۔​

8 ) کتب خانہ اور دیگر مواد کے انتخاب میں توازن اس طرح برقرار رکھا جائے کہ ہر مضمون پر کتب و رسائل ضرورت اور طلب کے مطابق ہوں۔​

9) ایسی کتب کو کتب خانہ سے خارج کیا جائے جو اپنے مضمون اور اہمیت کے اعتبار سے ناقابل استعمال ہو گئی ہوں۔​

10) ایسے موضوعات پر خصوصی لوازمہ جمعہ کیا جائے جن پر اساتذہ اور طلباء خصوصی مطالعہ کر رہے ہوں۔​
 

شمشاد

لائبریرین
اسکول کے کتب خانے​
صفحہ ۸۰​
1) کسی ایک مصنف کی تمام کبت نہیں خریدی جائیں بلکہ صرف و کتب خریدی جائیں جو معیاری ہوں اور اسکول کے لئے مناسب ہوں۔ اسی طرح کسی موضوع پر سلسلہ وار شائع ہونے والی کتب میں سے بھی صرف معیاری کتب ہی خریدی جائیں۔​
2) تحفتہً دی جانے والی کتب میں بھی صرف ان کتابوں کو قبول کرنا چاہیے جو اسکول کے لئے مفید ہوں۔ خوامخواہ غیر ضروری مواد جمع نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ ان کی وجہ سے تنظیم کتب میں خاصے مسائل پیش آتے ہیں۔​
عام کتابوں کے انتخاب کے وقت ان خصوصیات کو مدنظر رکھنا چاہیے :​
1) نفسِ مضمون کے اعتبار سے دلچسپ ہوں۔​
2) مختلف جماعتوں کے طلباء کے لئے ان کی علمی صلاحیت کے اعتبار سے ہم آہنگ ہوں۔​

3) نصابی کتب کے موضوعات سے مطابقت رکھتی ہوں۔​

4) پڑھنے والوں کو تخلیقی کام کرنے کی طرف متوجہ کرتی ہوں۔​

5) علمی اعتبار سے ذہنی اور دماغی تفریح کی حامل ہوں۔​

6) صحیح حقائق اور صداقت پر مبنی ہوں۔​

7) جدید اور صحیح معلومات فراہم کرتی ہوں۔​

8 ) طنز و مزاح کو خوبصورت انداز سے پیش کرتی ہوں۔​

9) جدید معلومات کی حامل ہوں۔ زبان صاف ستھری ہو۔​

10) جلد خوبصورت اور پائیدار ہو۔​

11) بچوں کے لحاظ سے سہل اور آسان ہوں۔​

12) تصاویر خوبصورت ہوں۔​

13) کتاب کی ساخت جاذب نظر ہو۔​

14) طباعت یا کتابت خوبصورت ہو۔​

مندرجہ بالا خصوصیات ہر کتاب میں کلی طور پر موجود ہوں تو بہتر ہے۔ تاہم ہر کتاب کے انتخاب میں ان خصوصیات میں سے چند کا ہونا ضروری ہے۔ بہرحال کتاب کے انتخاب کے وقت اتنا خیال​
 

مقدس

لائبریرین
61

باب 6

عمارت کتب خانہ فرنیچر و آلات

زمین کا رقبہ 64
فرنیچر 66
کتابوں کی الماریاں 68


پڑھنے والی میزیں
کرسیاں دار المطالعہ 70
اجراء کتب کی میز


کارڈ کیٹلاگ 72
دیگر فرنیچر و آلات

سمعی و بصری مواد 74
آلات 76


62

باب 6
عمارت کتب خانہ، فرنیچر و آلات
 

مقدس

لائبریرین
63

عمارت کتب خانہ، فرنیچر و آلات


عمارت کی ساخت اور خوبصورتی رہنے والوں یا کام کرنے والوں کی صحت و کارکردگی پر نمایاں اثر کرتی ہے۔ آج کل عمارت بناتے وقت ادارے اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ عمارت مٰن تمام جدید تقاضوں کا لحاظ رکھا جائے۔ اسی طرح کتب خانہ کی عمارت بھی کارجی اور داخلی طور پر ایسی جاذب نظر اور خوبصورت ہونا چاہیے کہ اس میں بیٹھ کر طلباء اور اساتذہ کو دلکشی محسوس ہو۔ کتب خانہ میں دلکشی نہ صرف علمی معلومات کے لیے ہو بلکہ تفریحی مواد اور دلچسپ مشاغل کے لیے بھی ہو۔ کتب خانہ کی بہترین طریقے سے آرائش و زیبائش کرنا چاہیے توکہ کتب خانہ میں جانے والوں کو بددلی یا بدمزگی کا احساس نہ ہو۔ اس میں صفائی کا معقول انتظام ہونا چاہیے۔ اس کئ اندر کا ماحول نہایت خوشگوار اور آرام دہ ہونا چاہیے تاکہ پرھنے والوں کو زیادہ سے زیادہ وقت کتب خانہ میں صرف کرنے کی خواہش ہو۔ کتب خانہ میں دارالمطالعہ اتنا وسیع اور عریض ہونا چاہیے کہ اس میں بیٹھنے والوں کو گھٹن اور تنگی کا احساس نہ ہو۔ دارالمطالعہ میں قارئین کے لیے میزیں، کرسیاں وافر ہونی چاہیں اور کتابوں کی الماریوں کے لیے مناسب گنجائش ہو۔ لائبریرین اور اس کے عملہ کے لیے الگ مناسب کمرے ہونے چاہیے۔


کتب خانہ کی عمارت، کمرے اور دیگر لوازمات کے لیے مناسب معیار اختیار کرنا ضروری ہے۔ کتب خانہ کی عمارت کے معیار کا انحصار طلباء اور اساتذہ کی تعدا پر ہوتا پے۔ نیز کتابوں کے لیے الماریوں، پڑھنے والوں کے لیے میزوں اور کرسیوں کی تعداد ، نقشہ جات کے لیے اسٹینڈ، خاکہ جات کی خصوصی الماریوں، سمعی و بصری مواد کے لیے مناسب کمرہ و مناسب فرنیچر اور دیگر عملہ کے لیے میزیں، کرسیاں اور دیگر لوازمات، لائبریری میں سہولت سے چلنے کی گنجائش وغیرہ کا معیار کے مطابق اہتمام کرنا ضروری ہوتا ہے۔ کتب خانہ کی عمارت اس طریقے سے تعمیر ہونی چاہیے کہ اس کے تمام کمروں کے دروازے کتب خانہ کے اندر ہی رہیں اور آمدورفت کا ذریعہ صرف ایک ہو۔ کتب خانہ کی عمارت میں مناسب روشنی اور تازہ ہوا کا انتظام ہو۔ یعنی روشندان اور کھڑکیاں ہونی چاہیں۔ سورج کی تیز روشنی اور گرم ہوا سے بچاؤ ک لیے کھڑکیوں اور دروازوں پر خوبصورت موٹے کپڑے کے پردے
 

مقدس

لائبریرین
64

آویزاں کئے جائیں۔
تمام حاجات اور ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستانی اسکول کے کتب خانوں کے لیے مندرجہ ذیل معیار تجویز کیا جا رہا ہے۔

زمین کا رقبہ


تعداد کتب * 1/5 مربع فٹ + تعداد قارئین* 25 مربع فٹ = کل رقبہ زمین
مثال کے طور پر اگر ہم 7500 کتب، 1200 طلباے اور 60 اساتذہ کے لیے رقبہ زمین متعین کریں تو ہم کو یہ فارمولا اختیار کرنا ہوگا۔ یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے۔ 5 فیصد طلباء کی تعداد اور 25 فیصد اساتذہ کی کل تعداد کے لحاظ سے رقبہ زمین کا تعین کیا جائے گا۔ کیونکہ طلباء اور اساتذہ ایک وقت میں کتب خانہ استعمال نہیں کرتے لہذا اس حساب سے ہماری ضرورت مندرجہ ذیل ہو گی۔
7500 * 1/15 + 75 * 25 = 3375 مربع فٹ
مندرجہ بالا تعداد طلباء اساتذہ اور کتب کے پیش نظر کم سے کم 2375 مربع فٹ عمارت کے لیے جگہ کی ضرورت ہو گی۔ اس کے علاوہ کتب خانہ میں عملہ کے لیے جگہ کی ضرورت ہو ھی جس کا معیار 100 مربع فٹ فی کس اور لائبریرین کے لیے کم از کم 300 ربع فٹ جگہ مہیا کی جانی چاہیے۔ اسی طرح عمارت میں دوسری سولتیں مثلاً غسل خانے، کیٹلاگ رکھنے کی جھہ۔ کتب جاری کرنے کی جگہ گیلریوں وغیرہ وغیرہ کے لئے بھی گنجائش رکھنی چاہیے۔

کتب خانہ کی عمارت کی منصوبہ بندی کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ کتب خانہ کا مواد دن بند بڑھتا ہے، قارئین کی تعداد میں بھی سال نہ سال اضافہ ہوتا ہے لہذا جب عمارت بنانے کے لیے منصوبہ تیار کیا جائے تو اس میں آئندہ 15 سے 29 سال تک ہونے والی توسیع کا خیاب رکھا جائے۔ عمارت بار بار نہیں بنائی جا سکتی اور اس پر کثیر رقم صرف ہوتی ہے لہذا عمارت اتنی توسیع و عریض بنائی جائے جو آئندہ کتابوں، رسائل۔ طلباء، اساتذہ، عملہ اور دیگر سہولتوں کے اضافے کو سمو سکے۔
65

اگر اسکول کے کتب خانہ کی نئی عمارت تعمیر کی کا رہی ہو تو اس کو اسکول کے مرکز میں ہونا چاہیے کیونکہ کتب خانہ کو تعلمی درسگاہ کا قلب تصور کیا جاتا ہے۔ کھیل کے میدان، کینٹین اور پرشور جگہوں سے دور رکھنا چاہیے۔
دارالمطالعہ میں میزیں اس طرح لگائی جائیں کہ ہر قاری کو کم از کم 25 مربع فٹ بیٹھنئ اور چلنے پھرنے کی جگہ مل سکے اور ہر میز پر 4 سے زائد کرسیاں نہ لگائی جائیں۔ میزوں، کرسیوں اور الماریوں کے درمیان بھی اتنی جنگائش رکھی جائے کہ قارئین کے چلنے کی جگہ بھی ہو اور کتب خانہ کا عملہ اپنا کام بھی کر سکے۔
اساتذہ کے لیے کتب خانہ مین الگ جگہ مہیا کرنا چاہیے۔ جہاں وہ اطمینان سے بیٹھ کر مطالعہ اور تحقیقی کام کر سکیں۔ ان کے لیے مخصوص مطالعاتی میز یا کیرل CARRELمہیا کی جائیں۔ مناسب ہو گا کہ اساتذہ کے لیے الگ کمرہ مہیا کیا جائے جس میں کم از کم دس اساتذہ کے بیٹھنے کی گنجائش ہو۔ اس کا رقبہ 50 مربع فٹ فی استاد کے حساب سے ہونا چاہیے۔ یعنی دس اساتذہ کے لیے 500 مربع فٹ مہیا کی جائے۔ اس میں کم سے کم دس مطالعاتی میزیں یا کیرل مہیا کی جائیں اور ایک بڑی میز جس پر دس آدمی بیٹھ سکیں فراہم کی جائے۔ ہر کیرل کے ساتھ ایک کرسی اور بڑی میز کے ساتھ کم سے کم 12 کرسیاں رکھی جائیں۔ اسی کمرے میں کتابیں رکھنے کے لیے دو یا تین الماریاں بھی مہیا کی جائیں تاکہ اساتذہ اپنے استعمال کی کتابیں اس میں رکھ سکیں۔
کتب خانہ میں دیواروں کا رن و روغن ایسا ہونا چاہیے جس سے قارئین کو فرحت اور آسودگی کا احساس ہو۔ روشنی کے لیے بلب لگانے کے بجائے ٹیوب لائٹس لگائی جائیں کیونکہ اس کی روشنی میں پڑھنے میں سہولت اور آرام محسوس ہوتا ہے۔ تازہ ہوا کے علاوہ چھت میں بجلی کے پنکھے لگائے جائین تاکہ گرمی کا احساس نہ ہو اگر ائیر کنڈیشنرز کا بندوبست ہو سکے تو یہ صورت بہتر ہو گی۔ دار المطالعہ کے فرش پر اگر ممکن ہو تو قالین بچھایا جائے ورنہ ایسے ٹائیل لگائے جائیں جن پر چلنے سے آواز پیدا نہ ہو۔ اگر ممکن ہو تو کتب خانہ کے اندر خوشنما پودوں کے گملے رکھ دئیے جائیں۔
کتب خانہ کے باہر ایسا انتظام کیا جائے کہ باہر ہی سے کتب کانہ مٰن جاذبیت پیدا ہو۔ اس کے چاروں طرف سبزہ اور پھولوں کے پودے لگائے جا سکتے ہین اگر سایہ دار درخت لگا دئیے جائیں تو اس کتب خانہ کے اندر کا ماحول خاصا فرحت بخش ہو جائے گا۔ کتب کانہ کے داخلی دروازے کے سامنے دونوں طرف خوشنما پھولوں کے گملے لگائے جائیں تاکہ قارئین کے ذہن پر داخل ہوتے
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 17​
باب 1​
اسکول کے کتب خانے بحیثیت تعلیمی قوت
اسکول کے کتب خانوں کی اہمیت و ضرورت تعلیمی نظام اور اسکول 19​
اسکول اور کتب خانہ 21​
پاکستان میں اسکول کے کتب خانے 26​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 39​
کتب خانے اور ان کے قاری​
اسکول کے کتب خانوں کا دائرہ خدمت بہت وسیع ہوتا ہے۔ یہ نہ صرف اساتذہ اور طلباء کو علمی خدمات مہیا کرتے ہیں بلکہ والدین اور اپنے علاقے کے ہر پڑھے لکھے فرد کو بھی علم کے حصول میں مدد دیتے ہیں۔ چھوٹے شہروں اور قصبات میں تو اسکول کے کتب خانے تمام علمی سرگرمیوں کا مرکز اور سر چشمہ ہوتے ہیں۔ اس نقطہ نظر کو اگر سامنے رکھا جائے تو اسکول کے کتب خانوں کی اہمیت واضح ہوجائے گی۔​
اساتذہ اور کتب خانے​
مدارس کے طریقہ تعلیم کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ استاد ہی وہ ذریعہ ہے جس کے توسط سے طلباء کو بنیادی علم حاصل ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے استاد کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے۔ اس ذمہ داری کو خوش اسلوبی سے انجام دینے کے لیے اس کو ہمہ وقت اپنے مضامین پر نئی اور قدیم کتب، رسائل، اخبارات اور دیگر مواد کا مطالعہ کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ وہ ان تمام تحقیقات، ایجادات اور نئے رجحانات سے واقف ہوجائے جو دنیا میں ظہور پذیر ہو رہے ہیں۔ ایک باخبر اور ذی علم استاد اپنے شاگردوں کو اتنا کچھ دے سکتا ہے کہ ان کی تشنگی باقی نہ رہے۔ استاد اپنی علمی صلاحیت کے بڑھانے اور تمام معلومات سے آشنا ہونے کے لیے کتب خانوں ہی کا سہارا لیتا ہے۔ کتب خانے ہی استاد کی علمی ضروریات کو پورا کرسکتے ہیں۔ ایک استاد اپنے مضمون کی تمام کتابیں اور رسائل نہیں خرید سکتا اور نہ ہی جمع کرسکتا ہے۔ اس کے لیے اسکول کے کتب خانے ہی تمام مطلوبہ مواد فراہم کر سکتے ہیں۔ اگر استاد اپنی علمیت بڑھانے کے خواہاں ہوں تو اسکول کے کتب خانے ان کے لیے مواد عوامی، جامعاتی، سرکاری محکمات اور تحقیقی اداروں کے کتب خانوں سے مستعار لے کر فراہم کر سکتے ہیں۔ کتب خانوں کا نظام اتنا ہمہ گیر اور عالمگیر ہے کہ لائبریرین اساتذہ اور طلباء کے لیے نہ صرف اپنے کتب خانوں کا مواد فراہم کر سکتا ہے بلکہ ملک اور بیرون ملک تمام کتب خانوں سے مواد مفت مستعار لے سکتا ہے۔ گویا اس طرح علم کے شیدائی​
 

مقدس

لائبریرین
66

وقت اچھے اثرات مرتب ہوں۔

فرنیچر

کتب خانوں میں مختلف قسم کا فرنیچر استعمال کیا جاتا ہے۔ ان میں کچھ لکڑی کا ہوتا ہے اور کچھ لوہے کا ہوتا ہے۔ میزیں ، کرسیاں، کیرلس، اسٹول، میز اجراء وغیرہ عموماً لکڑی کی بنوائی جاتی ہین۔ الماریاں، کیبینٹس CABINETES دفتری میزیں وغیرہ لوہے کی استعمال ہوتی ہیں۔ دونوں قسم کا فرنیچر اپنے استعمال کے اعتبار سے افادیت رکھتا ہے۔ لکڑی کا فرنیچر خوبصورت اور جاذب نظر ہوتا ہے۔ قارئین کے لیت پڑھنے والی میزیں اور کرسیاں لکڑی کیمناسب ہیں۔ بعض کتب خانوں میں میزیں لکڑی کی اور کرسیاں لوہے کی استعمال کی جاتی ہیں۔ بعض کتب خانوں میں کتابوں کی الماریاں لوہے کی استعمال کی جاتی ہین اور بعض میں لکڑی کی۔ اس سلسلہ میں مناسب یہ ہے کہ وہ فرنیچر جو زیادہ ادھر ادھر منتقل کیا جاتا ہو وہ لوہے کا بنوایا جائے اور جو کم منتقل کیا جاتا ہو وہ لکڑی کا بنوایا جائے، مناسب یہ ہو گا کہ پرھنے والی میزیں، اجراء کتب کی میز، کیرلس، استول وغیرہ لکڑی کے بنوائے جائین۔ الماریاں دار المطالعہ کے لیے، فائلیں رکھنے کے کیبینٹس، کارڈ کیٹلاگ، دفتری میزیں وغیرہ لوہے کی بنوائی جائیں تو بہتر ہے۔
ابتدائی اور چانوی مدارس کے کتب خانوں کے لیے فرنیچر کاص قسم کا ہوتا ہے اور وہ دیگر دفتری فرنیچر سے مختلف ہوتا ہے اس لیے ان کی خصوصیات کے اعتبار سے پیمائش الگ الگ دی جا رہی ہے

کتابوں کی الماریاں

کتابوں کی الماریوں کے ایک خانے میں ایک فٹ لمبائی والی عام کتاب 10 سے پندہ ، حوالہ جات کتب 5 سے 6 اور بچوں کی 18 سے 20 تک رکھی جاتی ہیں۔ ایک الماری میں 4 سے 6 خانے ہوتے ہیں اور ہر خانے کی لمبائی 3 فٹ اور الماری کی اونچائی 5 سے 6 فٹ ہونا چاہیے اور دونوں طرف سے کھلی ہونی چاہیے تاکہ دونوں طرف کتابیں رکھی جا سکیں۔ الماریاں لوہے کی بنوائی جائیں تو بہتر
 
Top