ذوالقرنین
لائبریرین
صفحہ 148
کی ہے۔ درخواست کرنے والے کو کتاب کی واپسی کی اطلاع دے دی جائے اگر درخواست کنندہ ایک ہفتہ تک نہیں آتا تو پھر کتاب دوسرے درخواست کنندہ کو دے دی جائے۔
کھلی اور بند الماریاں
اسکول کے کتب خانوں کے جائزے کے دوران اکثر کتب خانوں میں دیکھا گیا کہ کتابیں الماریوں میں بند ہیں اور الماریوں میں تالے لگے ہوئے ہیں۔ بعض کتب خانوں میں تو لوہے کی الماریوں میں کتابیں بند ہیں جن کو روشنی اور ہوا تک میسر نہیں۔ الماریوں کے تالے اس وقت کھولے جاتے تھے جب ہیڈ ماسٹر، ہیڈ مسٹریس یا اساتذہ کو کسی کتاب کی ضرورت ہوتی تھی۔ کتابیں بند ہونے کے باعث اکثر کتب خانوں میں دیمک اور کیڑوں کی خوراک بنی ہوئی تھیں۔ اسکول کے ذمہ دار افراد سے تالہ ڈالنے کی وجہ دریافت کی تو بتایا گیا کہ کتابیں گم ہوجانے کا خطرہ ہے۔ کتاب گم ہونے کی صورت میں اس کی قیمت لائبریرین کی تنخواہ سے کاٹی جاتی ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ وہ بچے جن کے والدین کے پیسے یا مجموعی طور پر پوری قوم کے پیسے سے جو اسکول اور کتب خانے قائم کیے جائے ہیں وہ ان کتابوں کا مطالعہ نہیں کر سکتے۔ یہ صورت حال انتہائی افسوناک اور قابل فکر ہے۔
کھلی الماریوں میں رکھی ہوئی کتابیں بمقابلہ بند الماریوں کے زیادہ استعمال ہوتی ہیں۔ بچوں کو کتابیں آزادی سے دیکھنے، پڑھنے اور گھر لے جانے سے ان میں پڑھنے کا ذوق و شوق بڑھتا ہے، مقابلہ کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور احساسِ ذمہ داری پیدا ہوتا ہے۔ اس کی مثال مندرجہ ذیل کتب خانوں کی روشنی میں دیکھئے۔
کتب خانہ الف : ایک ہزار روپے کی کتابیں خریدی گئیں۔ ان کو الماریوں میں بند کرکے تالے ڈال دئیے گئے ان میں سے مخصوص حضرات نے پورے سال میں صرف سو روپے کی قیمت کی کتابیں استعمال کیں۔ کوئی کتاب سال کے دوران گم نہیں ہوئی۔ لیکن مالیت کا 10 فیصد حصہ استعمال ہوا۔
کتب خانہ ب : ایک ہزارروپے کی کتابیں خریدی گئیں۔ ان کو کھلی الماریوں میں رکھا گیا۔ ان میں