ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
احبابِ کرام ، ایک سال اور قصۂ پارینہ ہوا ۔ کتابِ ماضی کی ضخامت کچھ اور سوا ہوئی ۔ آگے دیکھنے والے آگے کی طرف نئے سال کو دیکھ رہے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ماضی پر نظر ڈالے بغیر مستقبل کا راستہ نہیں کھلتا۔ آگے کی طرف رہنمائی نہیں ہوتی۔ یہ ایک پرانی غزل ماضی میں جھانکنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ اشعار ایامِ حاضر کا شکوہ نہیں بلکہ ایامِ گزشتہ کا شکریہ ہے۔


***

اس قدر ڈر گئے کچھ شورشِ ایام سے لوگ
اب تو بس گھر سے نکلتے ہیں کسی کام سے لوگ

اک زمانہ تھا کہ خوش باش نظر آتے تھے
ہر طرف جادۂ دیروز پہ خوش گام سے لوگ

شاملِ قال تھا اک حرفِ تشکّر دن رات
مشکلوں میں بھی گزر کرتے تھے آرام سے لوگ

ہر طرف سکۂ اخلاص و وفا رائج تھا
سب کو ملتے تھے برابر کئی انعام سے لوگ

شاملِ حال بہر حال رہا کرتے تھے
مل کے لڑتے تھے کبھی گردشِ ایام سے لوگ

سچ کہا کرتے تھے خائف نہ تھے آئینوں سے
کم ڈرا کرتے تھے اندیشۂ انجام سے لوگ

اک تبسم پہ ہوا کرتے تھے سودے دل کے
دستِ الفت پہ بِکا کرتے تھے بے دام سے لوگ

آنکھ میں شرم تھی اور دل میں حیا ہوتی تھی
خود نمائی سے بہت دور تھے زر فام سے لوگ

سرخیِ رنگِ حیا پر تھی وفا کی شبنم
تروتازہ نظر آتے تھے گل اندام سے لوگ

۔ق۔

ملنے والوں سے ترے ہم نے بھی مل کر دیکھا
بس وہی عام سی باتیں ہیں وہی عام سے لوگ

جانے کیوں تم کو عزیز اس قدر آخر ہیں ظہیرؔ
ٹوٹے پھوٹے سے ، یہ مجبور سے ، ناکام سے لوگ

***
ظہیرؔاحمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2020​
 
احبابِ کرام ، ایک سال اور قصۂ پارینہ ہوا ۔ کتابِ ماضی کی ضخامت کچھ اور سوا ہوئی ۔ آگے دیکھنے والے آگے کی طرف نئے سال کو دیکھ رہے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ماضی پر نظر ڈالے بغیر مستقبل کا راستہ نہیں کھلتا۔ آگے کی طرف رہنمائی نہیں ہوتی۔ یہ ایک پرانی غزل ماضی میں جھانکنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ اشعار ایامِ حاضر کا شکوہ نہیں بلکہ ایامِ گزشتہ کا شکریہ ہے۔


***

اس قدر ڈر گئے کچھ شورشِ ایام سے لوگ
اب تو بس گھر سے نکلتے ہیں کسی کام سے لوگ

اک زمانہ تھا کہ خوش باش نظر آتے تھے
ہر طرف جادۂ دیروز پہ خوش گام سے لوگ

شاملِ قال تھا اک حرفِ تشکّر دن رات
مشکلوں میں بھی گزر کرتے تھے آرام سے لوگ

ہر طرف سکۂ اخلاص و وفا رائج تھا
سب کو ملتے تھے برابر کئی انعام سے لوگ

شاملِ حال بہر حال رہا کرتے تھے
مل کے لڑتے تھے کبھی گردشِ ایام سے لوگ

سچ کہا کرتے تھے خائف نہ تھے آئینوں سے
کم ڈرا کرتے تھے اندیشۂ انجام سے لوگ

اک تبسم پہ ہوا کرتے تھے سودے دل کے
دستِ الفت پہ بِکا کرتے تھے بے دام سے لوگ

آنکھ میں شرم تھی اور دل میں حیا ہوتی تھی
خود نمائی سے بہت دور تھے زر فام سے لوگ

سرخیِ رنگِ حیا پر تھی وفا کی شبنم
تروتازہ نظر آتے تھے گل اندام سے لوگ

۔ق۔

ملنے والوں سے ترے ہم نے بھی مل کر دیکھا
بس وہی عام سی باتیں ہیں وہی عام سے لوگ

جانے کیوں تم کو عزیز اس قدر آخر ہیں ظہیرؔ
ٹوٹے پھوٹے سے ، یہ مجبور سے ، ناکام سے لوگ

***
ظہیرؔاحمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2020​
بہت اعلیٰ ظہیر بھائی
 

محمد وارث

لائبریرین
عمدہ غزل ہے ظہیر صاحب، کیا کہنے۔

ہر طرف جادۂ دیروز پہ خوش گام سے لوگ، واہ کیا اچھا کہا ہے۔ اور یہ شعر تو بہت پسند آیا:

اک تبسم پہ ہوا کرتے تھے سودے دل کے
دستِ الفت پہ بِکا کرتے تھے بے دام سے لوگ

لاجواب!
 
احبابِ کرام ، ایک سال اور قصۂ پارینہ ہوا ۔ کتابِ ماضی کی ضخامت کچھ اور سوا ہوئی ۔ آگے دیکھنے والے آگے کی طرف نئے سال کو دیکھ رہے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ماضی پر نظر ڈالے بغیر مستقبل کا راستہ نہیں کھلتا۔ آگے کی طرف رہنمائی نہیں ہوتی۔ یہ ایک پرانی غزل ماضی میں جھانکنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ اشعار ایامِ حاضر کا شکوہ نہیں بلکہ ایامِ گزشتہ کا شکریہ ہے۔


***

اس قدر ڈر گئے کچھ شورشِ ایام سے لوگ
اب تو بس گھر سے نکلتے ہیں کسی کام سے لوگ

اک زمانہ تھا کہ خوش باش نظر آتے تھے
ہر طرف جادۂ دیروز پہ خوش گام سے لوگ

شاملِ قال تھا اک حرفِ تشکّر دن رات
مشکلوں میں بھی گزر کرتے تھے آرام سے لوگ

ہر طرف سکۂ اخلاص و وفا رائج تھا
سب کو ملتے تھے برابر کئی انعام سے لوگ

شاملِ حال بہر حال رہا کرتے تھے
مل کے لڑتے تھے کبھی گردشِ ایام سے لوگ

سچ کہا کرتے تھے خائف نہ تھے آئینوں سے
کم ڈرا کرتے تھے اندیشۂ انجام سے لوگ

اک تبسم پہ ہوا کرتے تھے سودے دل کے
دستِ الفت پہ بِکا کرتے تھے بے دام سے لوگ

آنکھ میں شرم تھی اور دل میں حیا ہوتی تھی
خود نمائی سے بہت دور تھے زر فام سے لوگ

سرخیِ رنگِ حیا پر تھی وفا کی شبنم
تروتازہ نظر آتے تھے گل اندام سے لوگ

۔ق۔

ملنے والوں سے ترے ہم نے بھی مل کر دیکھا
بس وہی عام سی باتیں ہیں وہی عام سے لوگ

جانے کیوں تم کو عزیز اس قدر آخر ہیں ظہیرؔ
ٹوٹے پھوٹے سے ، یہ مجبور سے ، ناکام سے لوگ

***
ظہیرؔاحمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2020​
واہ ، ظہیر بھائی . بہت خوب ! نہایت اعلیٰ غزل ہے . داد قبول فرمائیے .
 

یاسر شاہ

محفلین
اس قدر ڈر گئے کچھ شورشِ ایام سے لوگ
اب تو بس گھر سے نکلتے ہیں کسی کام سے لوگ

اک زمانہ تھا کہ خوش باش نظر آتے تھے
ہر طرف جادۂ دیروز پہ خوش گام سے لوگ

اک تبسم پہ ہوا کرتے تھے سودے دل کے
دستِ الفت پہ بِکا کرتے تھے بے دام سے لوگ

آنکھ میں شرم تھی اور دل میں حیا ہوتی تھی
خود نمائی سے بہت دور تھے زر فام سے لوگ

سرخیِ رنگِ حیا پر تھی وفا کی شبنم
تروتازہ نظر آتے تھے گل اندام سے لوگ

۔ق۔

ملنے والوں سے ترے ہم نے بھی مل کر دیکھا
بس وہی عام سی باتیں ہیں وہی عام سے لوگ

جانے کیوں تم کو عزیز اس قدر آخر ہیں ظہیرؔ
ٹوٹے پھوٹے سے ، یہ مجبور سے ، ناکام سے لوگ
واہ کیا ہی عمدہ اشعار ہیں ،لطف آگیا پڑھ کر -
سچ کہا کرتے تھے خائف نہ تھے آئینوں سے
کم ڈرا کرتے تھے اندیشۂ انجام سے لوگ
یہ بھی خوب ہے -آئینے اور آئین کی جمع کو ایک کردیا -
ہر طرف سکۂ اخلاص و وفا رائج تھا
سب کو ملتے تھے برابر کئی انعام سے لوگ
الله تعالیٰ جزائے خیر دے، قرآن یاد دلا دیا -
اُولٰٓئِكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّؕ
-

ایک خوبصورت غزل پہ داد اور دعائیں قبول فرمائیے -اللہ جل شانہ آپ کو ہمیشہ عافیت سے رکھے -آمین
 
اس قدر ڈر گئے کچھ شورشِ ایام سے لوگ
اب تو بس گھر سے نکلتے ہیں کسی کام سے لوگ
اپنا شہر یاد آگیا :(
ملنے والوں سے ترے ہم نے بھی مل کر دیکھا
بس وہی عام سی باتیں ہیں وہی عام سے لوگ

جانے کیوں تم کو عزیز اس قدر آخر ہیں ظہیرؔ
ٹوٹے پھوٹے سے ، یہ مجبور سے ، ناکام سے لوگ
آہا!!! کیا کہنے!!! دبرر :)
 

صابرہ امین

لائبریرین
لفظ لفظ موتیوں کی طرح خوبصورت اور قیمتی ۔ ماشا اللہ!

خوبصورت اشعار سے مزین غزل ۔ بہت ساری داد قبول کیجیے۔

رشک کچھ کچھ حسد میں بدلتا جا رہا ہے۔ اللہ خیر کرے۔ یعنی ہماری خیر ۔ :grin:
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت خوب ماشاءاللہ
لگتا ہے نین بھائی کی نثر نے آپ کو یہ غزل یاد کرا دی۔ 🙂
اس غزل میں بھی میرا تذکرہ کر دیا ہے ظہیراحمدظہیر بھائی نے۔۔۔ دوسرے مصرعے میں دیکھے تو میرے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں

ملنے والوں سے ترے ہم نے بھی مل کر دیکھا
بس وہی عام سی باتیں ہیں وہی عام سے لوگ
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت ہی عمدہ اور اعلی غزل ہے ظہیر بھائی۔۔۔ شاندار۔۔۔ ماشاءاللہ۔۔۔ نئے دنوں پر پرانے دنوں کا شکریہ بہت خوب لکھا آپ نے۔۔۔۔ ماشاءاللہ۔۔۔ اور ایسا لکھا کہ نئے دنوں کا نوحہ بھی بیاں ہوگیا۔۔۔ الہم زد فزد

اک تبسم پہ ہوا کرتے تھے سودے دل کے
دستِ الفت پہ بِکا کرتے تھے بے دام سے لوگ

ملنے والوں سے ترے ہم نے بھی مل کر دیکھا
بس وہی عام سی باتیں ہیں وہی عام سے لوگ

یہ دو اشعار حد سے سوا پسند آئے۔۔۔ کیسے سندر ہیں۔۔۔ اعلی
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت اعلیٰ ظہیر بھائی
بہت شکریہ ، بہت نوازش!
آپ بزمِ سخن سے غیر حاضر ہیں آجکل ، تابش بھائی ۔ کیفیت نامے میں ایک شعر لگانے سے کام نہیں چلے گا۔

کرکٹ کھاگئی سخن داں کیسے کیسے
:grin:
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
عمدہ غزل ہے ظہیر صاحب، کیا کہنے۔

ہر طرف جادۂ دیروز پہ خوش گام سے لوگ، واہ کیا اچھا کہا ہے۔ اور یہ شعر تو بہت پسند آیا:

اک تبسم پہ ہوا کرتے تھے سودے دل کے
دستِ الفت پہ بِکا کرتے تھے بے دام سے لوگ

لاجواب!
بہت نوازش ، جناب وارث ! سراسر ذرہ نوازی ہے آپ کی۔ اللّٰہ آپ کو سلامت رکھے ۔ شاد و آباد رہیں ۔ حرفِ خام کو یونہی اعتبار بخشتے رہیں ۔ بہت شکریہ!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ کیا ہی عمدہ اشعار ہیں ،لطف آگیا پڑھ کر -

یہ بھی خوب ہے -آئینے اور آئین کی جمع کو ایک کردیا -

الله تعالیٰ جزائے خیر دے، قرآن یاد دلا دیا -
اُولٰٓئِكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّؕ
-

ایک خوبصورت غزل پہ داد اور دعائیں قبول فرمائیے -اللہ جل شانہ آپ کو ہمیشہ عافیت سے رکھے -آمین
بہت شکریہ ، بہت نوازش ! اللّٰہ کریم آپ کو خوش رکھے ۔
اِنعام کا سن کر اَنعام کی آیت کا یاد آجانا بھی بندے پر اللّٰہ کی عنایت ہے ۔ اللّٰہ کریم ہم سب کو قرآن سے جوڑ دے۔ آمین
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جانے کیوں تم کو عزیز اس قدر آخر ہیں ظہیرؔ
ٹوٹے پھوٹے سے ، یہ مجبور سے ، ناکام سے لوگ
ماشاءاللّٰه
بھیا ہم بلا اجازت یہ خوبصورت شعر اپنے نام کرتے ہیں۔
مکمل غزل تمام محفلین کے نام۔
بالکل ، بیشک! یہ شعر آپ ہی کا ہے اور آپ ہی کے لیے ہے ، معان بھائی ۔
بیشک آپ بہت محبتی آدمی ہیں ۔ آپ میرے پسندیدہ ترین محفلین میں سے ہیں ۔ اللّٰہ کریم آپ کو سلامت رکھے ، شاد و آباد رکھے ، دین و دنیا کی فلاح نصیب فرمائے ۔ ہر قدم آسانیاں عطا فرمائے۔ آمین
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
لفظ لفظ موتیوں کی طرح خوبصورت اور قیمتی ۔ ماشا اللہ!

خوبصورت اشعار سے مزین غزل ۔ بہت ساری داد قبول کیجیے۔

رشک کچھ کچھ حسد میں بدلتا جا رہا ہے۔ اللہ خیر کرے۔ یعنی ہماری خیر ۔ :grin:
بہت شکریہ ، بہت نوازش ، خواہر صابرہ! اللّٰہ آپ کو خوش رکھے، ذوق سلامت رکھے۔
جب حسد پوری طرح ہوجائے تو مطلع فرمائیے گا ۔ ناک سے تین انچ دور تیز مرچوں کی دُھونی دینے سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ دھواں دھوں دُھونی کے لیے ہیاں ہُواں دیکھنے کے بجائے اس خاکسار کو حکم دیجے گا ۔
 
Top