2) پہلی دفعہ عائشہ سے جان پہچان/بات چیت کا آغاز کب اور کیسے ہوا یا ابھی تک بات چیت کا آغاز نہیں ہوا؟
پھر وہی الٹا سوال! ہم نے کہا تو کہ عائشہ بٹیا رانی ہماری دلاری پری ہیں اور ہمیشہ سے ہیں۔ افف!!! ہم نے کہا ہمیشہ سے یعنی ہمیشہ سے۔۔۔ اب بھی سمجھ میں نہیں آیا؟۔۔۔ اچھا تو ایک اور قصہ سنیں۔۔۔
بہت دنوں کی بات ہے۔ ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک ننھی پری اور ان کے بھیا رہتے تھے۔ ننھی پری کی اولین ذمہ داریوں میں، گھر کو اپنی پیاری پیاری شرارتوں اور مسکانوں سے معطر رکھنا تھا جبکہ بھیا کا کام تھا کہ اسکول سے واپسی پر گھر کی اکلوتی بھینس کو چرانے لے جانا اور تالاب میں نہلا کر واپس لانا۔ ننھی پری کو لگتا تھا کہ بھیا ان کو زیادہ وقت نہیں دیتے اور ان کے ساتھ کھیلنے کے بجائے اسکول سے لوٹ کر بھینس چرانے چلے جاتے ہیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے، ننھی پری کو ضد لگ گئی کہ بھیا کے ساتھ بھینس چرانے جانا ہے۔ گھر میں سبھی نے لاکھ سمجھایا لیکن ان کو نہ ماننا تھا نہ مانیں۔ خیر تھک ہار کر یہ طے پایا گیا کہ اتنی بضد ہیں تو آج ساتھ لیے چلتے ہیں لیکن شام کو جلدی لوٹ آئیں گے۔ ایک رومال میں دو روٹیاں، کچے آم کی چٹنی اور کچے پیاز کی پوٹلی باندھی۔ اس بوتل میں صراحی سے نکال کر پانی بھرا جس کی گردن پر دھاگے سے چھلا بنا کر باندھ دیا گیا تھا کہ لٹکانے میں سہولت ہو۔ دھوپ تیز تھی اور ننھی پری ساتھ تھیں اس لیے پرانی چھتری بھی ساتھ لے لی جس میں جا بجا کپڑا پھٹ رہا تھا اور دو ایک تیلیاں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں پھر بھی دھوپ سے راحت ملتی تھی۔ چھتری کو موچی کی دوکان پر مرمت کے لیے دینے کی ضرورت تھی لیکن بارش کا موسم ابھی دور تھا۔ القصہ بھینس کی گردن کو کھونٹے سے بندھی رسی سے آزاد کیا، کھانے کی پوٹلی اور پانی کی بوتل کو چھتری کے مڑے ہوئے ہتھے میں لٹکایا، ایک ہاتھ میں چھتری اور لاٹھی سنبھالی اور دوسرے ہاتھ میں ننھی پری کی انگلیاں تھام کر بھینس کے پیچھے چل پڑے۔ آج روز کی طرح کوئی کتاب ساتھ لے جانے کی بھی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ بھیا کے ساتھ ننھی پری جو تھیں۔
یوں تو گرمی کا موسم تھا اور گھاس خال خال ہی نظر آتی تھی لیکن کھیت کی منڈیروں کے اطراف اتنی گھاس تھی کہ بھینسیں چر سکتیں۔ بھیا اپنی ننھی پری کے ساتھ ارہر کے کھیت کے پاس والی منڈیر پر سائے میں بیٹھے اسکول کے قصے سنا رہے تھے۔ بھینس چرتے چرتے ذرا دور چلی گئی تو دونوں بھائی بہن اٹھ کر آگے جا بیٹھے۔ ننھی پری آخر تھیں تو ننھی سی ہی، اس پر دھوپ کی تمازت اور اتنی دیر تک پیدل چلنے کے باعث تھکان ان کے چہرے سے مترشح تھی۔ بھیا نے پوٹلی کھولی اور اپنی ننھی منی سی دلاری سی بہن کو روٹیاں کھلائیں، بوتل سے پانی پلایا، اپنی پگڑی کھول کر منڈیر پر بچھا دی اور ننھی پری سے اس پر سو جانے کو کہا۔ ارہر کی چھاؤں کچھ اتنی گھنی نہ تھی اس لیے دھوپ چھن چھن کر ننھی پری کے بالوں اور گالوں پر پڑ رہی تھی۔ لہٰذا بھیا نے چھتری کھول کر ننھی پری کے سرھانے رکھ دیا اور وہ ہوا سے اڑ نہ جائے اس لیے اس کے ہتھے پر مٹی کے دھیلے رکھ دیے۔ ننھی پری سو گئیں اور بھیا بار بار بھینس کو ہانک کر آس پاس ہی رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔
شام ڈھلنے لگی تھی اور کچھ دیر میں گھر واپس جانے کا وقت ہو رہا تھا کہ تبھی ایک جنگی طیارہ سطح زمین کے انتہائی قریب سے چنگھاڑیں مارتا ہوا گذرا جس سے خوف زدہ ہو کر ننھی پری اٹھ بیٹھیں اور چیخ کر پاس بیٹھے بھیا سے لپٹ گئیں۔ ادھر بھینس بدک کر بگ ٹٹ ایک طرف کو منہ اٹھائے بھاگی۔ بھیا کے ہاتھ پاؤں پھول گئے کہ ایسے میں بھینس کو سنبھالیں یا ننھی پری کو؟ ان کو تنہا گھر واپس جانے کو بھی نہیں کہہ سکتے تھے لہٰذا چھتری کو کھیت کی منڈیر کے پاس چھپایا، ننھی پری کو گود میں اٹھا کر کندھوں پر لٹایا اور لاٹھی لے کر بھینس کے پیچھے پیچھے بھاگے۔ بھینس تھی کہ بھاگی ہی چلی جا رہی تھی حتیٰ کہ نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ ننھی پری کو گود میں سنبھال کر دوڑنے کے باعث بھیا کی ٹانگیں اور ہاتھ جواب دے رہے تھے۔ سورج غروب ہو چلا تھا اور اندھیرا پھیلنے لگا تھا۔ بالآخر تھک ہار کر ایک پیڑ کے نیچے بیٹھ گئے اور پریشان سی گھبرائی ہوئی ننھی پری کہنے لگیں کہ بھیا اب گھر واپس چلیں ہمیں اندھیرے سے ڈر لگتا ہے اور آپ تھک بھی گئے ہیں۔ اب جو بھیا نے غور کیا تو پایا کہ اپنے گاؤں سے کوسوں دور چار گاؤوں کا فاصلہ طے کر آئے ہیں اور واپس گھر پہونچنے میں کم از کم ایک گھنٹہ ضرور لگے گا۔ حسن اتفاق چاندنی رات تھی اور آسمان بھی صاف تھا اس لیے راستوں کا تعین آسان تھا۔ خیر واپسی کا قصد کیا اور بھیا نے ننھی پری سے کہا کہ بیٹا آپ کچھ دور پیدل چل سکیں تو اچھا ہوگا اس کے بعد ہم آپ کو گود میں اٹھا لیں گے۔
ابھی کچھ دور ہی لوٹے تھے کہ ایک تالاب کے پاس سے گزر ہوا تو دیکھا کہ تالاب کے پانی کی سطح مرتعش ہے اور اس پر چاندنی رقصاں ہے۔ ذرا غور سے دیکھا تو خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا کیوں کہ اپنی بھینس کو اس ملگجے اندھیرے میں دور سے پہچان سکتے تھے۔ بھیا کی آہٹ پا کر بھینس جلدی سے کنارے آ گئی اور مانوس سی آواز نکالی۔ بقیہ واپسی کا سفر بھینس کی پیٹھ پر سواری کر کے طے ہوا۔ ننھی پری اور بھیا آگے پیچھے بھینس کی پیٹھ پر بیٹھ گئے اور بھینس سبک خرامی کرتے ہوئے گاؤں کی جانب چل پڑی۔ اس کی چال کے جھولے میں ننھی پری کو نیند آتے دیر نہیں لگی لیکن وہ بھیا کے بازؤں میں تھیں اس لیے گرنے کا امکان نہیں تھا۔ سارے راستے بھیا یہی دعا کرتے آئے کہ ایسے میں کوئی اور طیارہ نہ گذر جائے کہ اس دفعہ بھینس بدکی تو ان کی ہڈیوں کو بھی خطرہ تھا۔ گاؤں سے کچھ فاصلے پر تھے جب محسوس ہوا کہ بھیا کو کچھ لوگ آوازیں دے کر بلا رہے ہیں اور گاؤں کی جانب سے ٹارچوں کی روشنیاں اندھرے میں سوراخ کر رہی ہیں۔ پھر بھیا نے ہتھیلیوں کو منہ کے پاس رکھ کر جوابی آواز لگائی اور لوگ ٹارچوں سمیت آواز کی جانب بڑھنے لگے۔ گھر پہونچ کر پتا چلا کہ لوگ بے حد پریشان تھے، محلے کے کچھ لوگ آس پاس کے گاؤں میں ڈھونڈنے چلے گئے تھے۔ گھر میں سبھی رو رہے تھے اور سارا گاؤں اتنی رات تک اکٹھا تھا۔ امی جان نے بڑھ کر ننھی پری کو کلیجے سے لگایا اور بھیا کو اس بات پر ڈانٹ پڑی کہ بھینس کو اس کے حال پر چھوڑ کر گھر کیوں نہیں بھاگ آئے۔۔۔ ۔۔۔ اب وہ کسی کو کیا بتاتے کہ کس کو خبر تھی، بھینس اتنی دور چلی جائے گی۔