ڈوبنے والا تھا اور ساحل پر چہروں کا ہجوم
پل کی مہلت تھی میں کس کو آنکھ بھر کر دیکھتا
تو بھی دل کو اِک لہو کی بوند سمجھا ہے فراز
آنکھ گر ہوتی تو قطرے میں سمندر دیکھتا
عالمِ بے خودی میں سب رقص میں تھے گزشتہ شب
ہوش کہاں کہ دیکھتا کون کدھر تھا رقص میں
میری بساطِ شاعری رقص گہِ خیال تھی
میرا قلم تھا رقص میں میرا ہنر تھا رقص میں