اشعار - حروف تہجی کے لحاظ سے

سیما علی

لائبریرین
ڈوبنے والا تھا اور ساحل پر چہروں کا ہجوم
پل کی مہلت تھی میں کس کو آنکھ بھر کر دیکھتا
تو بھی دل کو اِک لہو کی بوند سمجھا ہے فراز
آنکھ گر ہوتی تو قطرے میں سمندر دیکھتا
 

سیما علی

لائبریرین
ذاغ دشتی ہو رہا ہے ہمسرِ شاہیں و چرغ
کتنی سرعت سے بدلتا ہے مزاجِ روز گار
چھا گئی آشفتہ ہو کر وسعتِ افلاک پر
جس کو نادانی سے ہم سمجھے تھے اک مشتِ غبار
 

سیما علی

لائبریرین
زخموں کی نمائش کا سلیقہ نہیں ہم کو
وہ ہیں کہ انہیں شوقِ مسیحائی بہت ہے
لوگوں سے تعارف نہ کوئی جان نہ پہچان
دل ہے کہ اسی بزم کا شیدائی بہت ہے
 

سیما علی

لائبریرین
سجانا چاہتے تھے محفل ِ دل
مگر تنہائی باقی رہ گئی ہے
مجھے بھی شوقِ منزل تھا مگر اب
شکستہ پائی باقی رہ گئی ہے
 

سیما علی

لائبریرین
صاف جب تک نہ ترے ذہن کے جالے ہوں گے
کیسے تحریر محبت کے مقالے ہوں گے
کیا ہمیں نیند بھی آئے گی تری خواہش پر؟
کیا فقط خواب ہی ہم دیکھنے والے ہوں گے
 

سیما علی

لائبریرین
عالمِ بے خودی میں سب رقص میں تھے گزشتہ شب
ہوش کہاں کہ دیکھتا کون کدھر تھا رقص میں
میری بساطِ شاعری رقص گہِ خیال تھی
میرا قلم تھا رقص میں میرا ہنر تھا رقص میں
 

سیما علی

لائبریرین
فیض اس نخیلِ تمنا سے ہزاروں کو ملا
ہم ہی محروم رہے برگ و ثمر سے اس کے
آج تک یاد ہے وہ شامِ جدائی ساجد
اٹھ کے جس حال میں ہم آئے ہیں در سے اس کے
 

سیما علی

لائبریرین
فصلِ گُل کیا کر گئی آشُفتہ سامانوں کے ساتھ
ہاتھ ہیں اُلجھے ھُوئے اب تک گرِیبانوں کے ساتھ

پیرِ مے خانہ کی اِک لغزش کا حاصِل کُچھ نہ پُوچھ
زِندگی ھے آج تک گردِش میں پیمانوں کے ساتھ

سُرُورؔ بارہ بنکوی
 

سیما علی

لائبریرین
کلیسا ميں حرم ميں دیر ميں جانے سے کیا ہو گا
کرم ہو گا نہ جب تک ان کا دیوانے سے کیا ہو گا

مزہ جب ہے کہ دم نکلے تمہارے آستانے پر
تمہاری یاد میں بے موت مر جانے سے کیا ہو گا

فناؔ بلند شہری
 
Top