بہت شکریہ استادِ گرامی ۔۔ آپ کی تعریف اور اصلاح کا بھی ۔۔۔ بہت خوشی ہوئی آپ کی تعریف سےخٰالات تو اچھے ہیں لیکن پیشکش میں الفاظ کی نشست میں روانی نہیں۔
’کیا‘ پگر سوالیہ ہے، جسے ’کا‘ باندھا جانا چاہئے تھا۔
اب گلہ ہو بھی تو کیا تقدیر سے
کیا جا سکتا ہے
شکریہ ۔۔پہلے تین اشعار میں جو رد و بدل کیا اس سے نکھار آگیا ہےنکلا جائے وقت ہر تدبیر سے
اب گلہ ہو بهی تو کیوں تقدیر سے
خون کب تک زخم سے جاری رہے
لوگ مرہم رکه چکے شمشیر سے
خواب دیکهوں میں بہار شوق کا
مت ڈرا ہمدم کسی تعبیر سے
اے نگاہ مرد مومن تو بتا
حق کہیں غالب ہوا شمشیر سے
وقت نکلا جائے ہے تدبیر سےنکلا جاتا وقت ہے تدبیر سے
اب گلہ ہو بھی کیا تقدیر سے
ختم کا ۔ت ۔ ساکن ہو نا چاہیے۔سب تمنائیں ختم ہیں نورؔ اب
مت ڈرا اے ہمدم تو تقدیر سے
ت کس اصول کت تحت ساکن ہوگا ۔۔آگاہ کیجیئے ۔ختم کا ۔ت ۔ ساکن ہو نا چاہیے۔
اور دوسرا وزن ٹھیک نہیں آیا۔یو ں ہو سکتا ہے۔
مت ڈرا ہمد م مجھے تقدیر سے
نکلا جائے وقت ہر تدبیر سے
اب گلہ ہو بهی تو کیوں تقدیر سے
خون کب تک زخم سے جاری رہے
لوگ مرہم رکه چکے شمشیر سے
خواب دیکهوں میں بہار شوق کا
مت ڈرا ہمدم کسی تعبیر سے
اے نگاہ مرد مومن تو بتا
حق کہیں غالب ہوا شمشیر سے
ہو او کیا بات ہے عظیم صاحبنکلا جائے وقت ہر تدبیر سے
اب گلہ ہو بهی تو کیوں تقدیر سے
خون کب تک زخم سے جاری رہے
لوگ مرہم رکه چکے شمشیر سے
خواب دیکهوں میں بہار شوق کا
مت ڈرا ہمدم کسی تعبیر سے
اے نگاہ مرد مومن تو بتا
حق کہیں غالب ہوا شمشیر سے
اردو میں" ختم" کا۔ ت ۔ ہمیشہ ساکن ہی ہوتا ہے۔ت کس اصول کت تحت ساکن ہوگا ۔۔آگاہ کیجیئے ۔
منزل سے فاصلے تھے، اور درد قافلے میں
کیا مسکراتی میں؟ سب کھویا ہے راستے میں
تھیں فرقتیں مقدر ، رنجش بنی قرابت
ہر موڑ پہ ہی یادیں آئیں مقابلے میں
کمال ہے آپ کو نظر آرہا ہے سبآج تو نور ہی نور ہے یہاں ۔۔۔