اصلاح و مشورہ

عمر سیف

محفلین
UOTE="عمر سیف, post: 1638248, member: 669"]آپ بہت مزاقئے ہو ۔۔
آپ یہ دیکھیں انہوں نے ہمیں مرحوم نہیں سمجھا ۔۔
عمر بھائی اللہ آپ کو عمر خضر عطا فرمائیں ۔میں نے آپ کو مرحوم نہیں بلکہ نور جی کے جواب میں مرحوم بصارت لکھا ہے۔[/QUOTE]
جناب میں بھی مزاق ہی کر رہا تھا ۔۔ :)
 
مندرجہ ذیل دونوں ہی صورتوں میں پہلے اور دوسرے مصرعوں کا زمانہ ایک نہیں ہے اور ان میں کوئی ربط بنتا نظر نہیں آتا۔ پہلے مصرع میں "تھے" کی وجہ سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ماضی کا کوئی قصہ سنایا جا رہا ہے۔ ددوسرے مصرع میں یہ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ سفر تمام ہو گیا، یا اسے درمیان میں ترک کر دیا اور بعد میں کسی کو عذر پیش کیا جا رہا ہے کہ سفر میں مسکان کیوں مفقود تھی۔ :) :) :)
منزل سے فاصلے تھے، اور درد قافلے میں
کیا مسکراتی میں؟ سب کھویا ہے راستے میں
منزل سے فاصلے تھے، کانٹے تھے راستے میں
اب کیسے مسکراؤں، سب کھویا مسکرانے میں
یہاں دوسرے مصرے کے اخیر میں "مسکرانے" کا محل نہیں، نہ تو وزن کے اعتبار سے اور نہ ہی معنویت کے اعتبار سے۔ کیونکہ پہلے مصرع میں منزل سے دوری اور راہ کی تکلیفوں کا ذکر ہے جبکہ دوسرے میں مسکرانا نہ مسکرانے کا عذر بن رہا ہے۔ ایک صورت شاید کچھ یوں بنے:

منزل تھا فاصلے پر، پُر خار راستہ تھا

اور اگر مطلع میں استعمال کرنا ہے تو:

منزل تھا فاصلے پر کانٹے تھے راستے میں
یا
منزل تھا فاصلے پر اور خار راستے میں

دوسرے مصرع کو کچھ یوں کیا جا سکتا ہے:

کیا خاک مسکراتی، سب کھویا راستے میں

سچ تو یہ ہے کہ دونوں مصرعوں کی معنویت اور ان کا باہم ربط اب بھی کچھ مبہم سا ہی ہے، لیکن اس پر اس سے زیادہ کچھ کہنے کا مطلب ہوا کہ شاعر کے منہ میں الفاظ اور خیال دونوں ٹھونسے جا رہے ہیں۔ :) :) :)
 

گل زیب انجم

محفلین
مندرجہ ذیلآئونوں ہی صورتوں میں پہلے اور دوسرے مصرعوں کا زمانہ ایک نہیں ہے اور ان میں کوئی ربط بنتا نظر نہیں آتا۔ پہلے مصرع میں "تھے" کی وجہ سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ماضی کا کوئی قصہ سنایا جا رہا ہے۔ ددوسرے مصرع میں یہ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ سفر تمام ہو گیا، یا اسے درمیان میں ترک کر دیا اور بعد میں کسی کو عذر پیش کیا جا رہا ہے کہ سفر میں مسکان کیوں مفقود تھی۔ :) :) :)


یہاں دوسرے مصرے کے اخیر میں "مسکرانے" کا محل نہیں، نہ تو وزن کے اعتبار سے اور نہ ہی معنویت کے اعتبار سے۔ کیونکہ پہلے مصرع میں منزل سے دوری اور راہ کی تکلیفوں کا ذکر ہے جبکہ دوسرے میں مسکرانا نہ مسکرانے کا عذر بن رہا ہے۔ ایک صورت شاید کچھ یوں بنے:

منزل تھا فاصلے پر، پُر خار راستہ تھا

اور اگر مطلع میں استعمال کرنا ہے تو:

منزل تھا فاصلے پر کانٹے تھے راستے میں
یا
منزل تھا فاصلے پر اور خار راستے میں

دوسرے مصرع کو کچھ یوں کیا جا سکتا ہے:

کیا خاک مسکراتی، سب کھویا راستے میں

سچ تو یہ ہے کہ دونوں مصرعوں کی معنویت اور ان کا باہم ربط اب بھی کچھ مبہم سا ہی ہے، لیکن اس پر اس سے زیادہ کچھ کہنے کا مطلب ہوا کہ شاعر کے منہ میں الفاظ اور خیال دونوں ٹھونسے جا رہے ہیں۔ :) :) :)
ایک عرض کرنا چاہتا ہوں کہ منزل کے آگے لفظ تھا آئے گا یا تھی آئے گی۔
 

گل زیب انجم

محفلین
QUOTE="zulfi, post: 1637690, member: 9420"]
گل زیب انجم۔۔۔صاحب ذرا بحر بھی دیکھا کریں یہ شعر کس بحر میں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اور آپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔؟
ساری حسرتیں، ساری امیدیں ڈوب گئی پانی میں
دیکھا اُن کو جب غیروں کے قافلے میں۔[/QUOTE]
جی آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔
خاکم نےیہ مصرعہ از راہ مزاح لکھ دیا تھا۔ائندہ ایسی کوتائی سے اجتناب کرے گا۔
 
آداب عرض ہے حضرت!

دراصل ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مبتدی کے لیے وزن کو سمجھنے کی خاطر عروض کی بھول بھلیوں میں کھوجانے کے بجائے کوئی دوسرا طریقہ ( مثلاً گانوں اور گیتوں کے ذریعے) اپنانا زیادہ بہتر ہوسکتا ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
وقت نکلا جائے ہے تدبیر سے
اب گلہ ہو بھی تو کیا تقدیر سے

خون کب تک زخم سے جاری رہے
لوگ مرہم رکھ چکے شمشیر سے

خواب دیکهوں میں بہار شوق کا
مت مچا تو شور اب زنجیر سے

زخم تھے جو سب پرانے، بھا گئے
لطف کیا ہو شوخیِ تحریر سے

سب تمنائیں ہوئیں اب نورؔ ختم
مت ڈرا اے ہمدم تو تقدیر سے

محترم الف عین ۔۔۔​
 
مدیر کی آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
عاطف والے مشورے کے بعد درست ہو گئی ہے غزل۔ البتہ ایک بات
زخم تھے جو سب پرانے، بھا گئے
÷÷اردو میں یہ مشکل ہے کہ الفاظ کے درمیان واضح سپیس نظر نہیں آتی۔ ھالانکہ یہاں بھا اور گئے دو الفاظ ہونے چاہئیں اور ہیں بھی، لیکن کوئی بغیر سپیس کے ’بھاگئے‘ یونی دوڑ بھاگ والا بھاگئے سمجھے تو ۔۔ کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گرو!!!!
 

نور وجدان

لائبریرین
وقت نکلا جائے ہے تدبیر سے
اب گلہ ہو بھی تو کیا تقدیر سے

خون کب تک زخم سے جاری رہے
لوگ مرہم رکھ چکے شمشیر سے

خواب دیکهوں میں بہار شوق کا
مت مچا تو شور اب زنجیر سے

سب پرانے زخم جو بھا اور گئے
لطف کیا ہو شوخیِ تحریر سے

سب تمنائیں ہوئیں اب نورؔ ختم
مت ڈراہمدم مجھے تو تقدیر سے

بہت وقت گزرنے کے بعد اصلاح کی ۔۔۔ آپ کے اور باقیک احباب کے مشورے قابلِ قیمت ہیں ۔۔یونہی سکھاتے رہیں ۔۔ شکریہ الف عین استادِ محترم
 
خون کب تک زخم سے جاری رہے
لوگ مرہم رکھ چکے شمشیر سے
پہلا مصرع استمراری ہے جبکہ دوسرے مصرعے میں اتمام دیکھنے کو مل رہا ہے، ہمارے خیال میں یوں تو بات بنتی نظر نہیں آ رہی۔ :) :) :)
خواب دیکهوں میں بہار شوق کا
مت مچا تو شور اب زنجیر سے
ہم نے اس طرح زنجیر کا حوالہ عموماً عدل کی گہار کے لیے کنایتاً استعمال ہوتے ہوئے دیکھا ہے، یہاں پہلے مصرع میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آ رہی جس کا اس معاملے سے دور کا بھی کوئی ناتہ ہو۔ کیا ہم سے سمجھنے میں کوئی غلطی ہو رہی ہے؟ :) :) :)
سب پرانے زخم جو بھا اور گئے
لطف کیا ہو شوخیِ تحریر سے
یہاں "بھا اور گئے" کا کیا مطلب ہوا؟ اور زخموں کا شوخی تحریر سے کیا تعلق؟ :) :) :)
سب تمنائیں ہوئیں اب نورؔ ختم
مت ڈراہمدم مجھے تو تقدیر سے
دوسرا مصرع شاید وزن میں نہیں آتا۔ :) :) :)
 

الف عین

لائبریرین
شمشیر والے شعر میں ابن سعید کی بات میں دم ہے۔ جس پر میں نے غور نہیں کیا تھا۔
البتہ زنجیر والے شعر میں ان سے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔یہاں زنجیر سے اشارہ موسم بہار میں لوگوں کو جنون ہونا اور پا بہ زنجیر کیا جانا مراد ہے، زنجیر عدل نہیں۔
بھا گئے میں دونوں الفاظ کے درمیان ’اور‘ لگا دینے سے مصرع کی روانی مجروح ہوتی ہے۔
’تو‘ اب بھی ٹائپو ہے یا نور سعدیہ شیخ واقعی اسے درست سمجھتی ہیں؟
 
Top