۵۔ غزل
اقبال
(کابل میں لکھے گئے)
مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دِل نوازی کا
مروت حسنِ عالم گیر ہے مردان ِ غازی کا
شکایت ہے مجھے یارب! خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
بہت مدت کے نخچیروں کا اندازِ نگہ بدلا
کہ میں نے فاش کرڈالا طریقہ شاہبازی کا
قلندر جُز دوحرفِ لاالہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہہِ شہر قاروں ہے لُغت ہائے حجازی کا
حدیثِ بادہ و مینا و جام آتی نہیں مجھ کو
نہ کر خارا شگافوں سے تقاضہ شیشہ سازی کا
کہاں سے تو نے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا
(بالِ جبریل)
ہم
ہمارے تو لہو میں ہے سلیقہ نے نوازی کا
غزل منّی کی ہو، گانا عطا اللہ نیازی کا
وہ کیا مکتب تھا جس کا تذکرہ کرتے تھے حضرت جی
کہ اب تو اصطبل ہے اِک یہاں ترکی و تازی کا
ہوئے آزاد تو نخچیر کا انداز یوں بدلا
نیا ہم نے بنا ڈالاطریقہ شاہبازی کا
لُغت افرنگ کی اب تو ہمارے پاس ہے گرچہ
’’فقیہہِ شہر قاروں ہے لُغت ھائے حجازی کا‘‘
خدا کو اور خودی کو بھول کر دِل کا یہ عالم ہے
نیا سودا سمایا ہے خداوندِ مجازی کا
یہ جو اقبال نے سیکھی ، عجب ہی تھی یہ درویشی
مگر اب تو زمانہ لد گیا ہے بے نیازی کا