اقبال اور ہم ۔ نئی پیروڈیاں

ایک چوتھی صورت بھی ہے، جیسے اقبال نے ’’پیر و مرید‘‘ میں کیا ہے۔
ایک شعر مولانا روم کا (ظاہر ہے وہ تو فارسی ہی میں ہے) اور اس کے تسلسل یا جواب یا مطابقت سے ایک شعر اپنا (وہ اردو میں ہے)، بحر وہی ہے مولانا روم کے شعر والی۔ اس کو چلئے ’’مکالمہ‘‘ کہہ لیجئے۔

مزید پھر عرض کروں گا۔
 
اور ۔۔۔ یہ سوال کہ میں کہنا کیا چاہ رہا ہوں؛ ابھی تو خود مجھ پر بھی واضح نہیں ہے۔

ہاں، ’’ٹھیک کہہ را بھائی‘‘ اگرچہ ’’عجب کہہ را بھائی‘‘ ۔
 
کچھ ہی وقت جاتا ہے کہ محمد یعقوب آسی بھائی ہماری جانب دوبارہ متوجہ ہوتے ہیں، اسی اثنا میں ہم ایک اور منظوم پیروڈی پیش کیے دیتے ہیں

۶۔ محراب گُل افغان کے افکار
محراب گُل افغان کے افکار
اقبال
تری دُعا سے قضا تو بدل نہیں سکتی
مگر ہے اِس سے یہ ممکن کہ تُو بدل جائے
تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا
عجب نہیں ہے کہ یہ چارسُو بدل جائے
وہی شراب، وہی ہاے و ہُو رہے باقی
طریقِ ساقی و رسمِ کُدو بدل جائے
تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
مری دُعا ہے تری آرزو بدل جائے
ہم
تری دُعا سے قضا بھی بدل نہیں سکتی
اگر نہیں ہے یہ ممکن کہ تو بدل جائے
عجب ہے تیرا خودی کا یہ فلسفہ شاعر
میں چا ہتا ہوں کہ یہ تُند خُو بدل جائے
’’وہی شراب وہی ہاے و ہو رہے باقی‘‘
یہی نہ ہو کہ بس اک تیری خُو بدل جائے
عجیب رنگ ترے اور عجیب باتیں ہیں
مری دُعا ہے تری گفتگو بدل جائے
 
7۔نصیحت

نصیحت از علامہ اقبال
(بانگِ درا)
بچہٗ شاہیں سے کہتا تھا عقابِ سالخورد
اے ترے شہپر پہ آساں رِفعتِ چرخِ بریں
ہے شباب اپنے لُہو کی آگ میں جلنے کانام
سخت کوشی سے ہے تلخِ زندگانی انگبیں
جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزا ہے اے پسر!
وہ مزا شاید کبوتر کے لُہو میں بھی نہیں
ہم​
نصیحت(پیروڈی)
از محمد خلیل الرحمٰن
اپنے بچے سے یہ کہتا تھا کوئی جاگیر دار
اے تری پگڑی پہ نازاں رفعتِ چرخِ بریں
قہرناکی سے ہے قائم اپنا جاگیری نظام
سخت گیری سے ہے تلخِ زندگانی انگبیں
اپنے ہاری پر جھپٹنے میں مزا جو ہے پسر!
وہ مزا شاید کہ ہاری کے لُہو میں بھی نہیں
 
7۔نصیحت

نصیحت از علامہ اقبال
(بانگِ درا)
بچہٗ شاہیں سے کہتا تھا عقابِ سالخورد
اے ترے شہپر پہ آساں رِفعتِ چرخِ بریں
ہے شباب اپنے لُہو کی آگ میں جلنے کانام
سخت کوشی سے ہے تلخِ زندگانی انگبیں
جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزا ہے اے پسر!
وہ مزا شاید کبوتر کے لُہو میں بھی نہیں
ہم​
نصیحت(پیروڈی)
از محمد خلیل الرحمٰن
اپنے بچے سے یہ کہتا تھا کوئی جاگیر دار
اے تری پگڑی پہ نازاں رفعتِ چرخِ بریں
قہرناکی سے ہے قائم اپنا جاگیری نظام
سخت گیری سے ہے تلخِ زندگانی انگبیں
اپنے ہاری پر جھپٹنے میں مزا جو ہے پسر!
وہ مزا شاید کہ ہاری کے لُہو میں بھی نہیں
خدا کی پناہ خلیل صاحب کیا غضب ڈھا دیا
روح اقبال کی طرف سے دعوہ ہتک عزت کے لئے تیار رہئے :laughing3:
 
سید شہزاد ناصر بھائی!
ایک ہی نشست میں پورا دھاگہ پڑھنے پر بھی شکریہ قبول فرمائیے
بھائی جی پڑھ تو لیا ہے تبصرہ کرنے کے لئے الفاظ ڈھونڈ رہا ہوں
پیروڈی بہت ہی مشکل اور دقیق فن ہے بڑے بڑے اساتذہ فن اس بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑ دیتے ہیں
دوسرے پیروڈی میں حد ادب اور حفط مراتب کا خیال رکھنا اس سے بھی مشکل ہے
اللہ آپ کے قلم کی تابناکیاں اسی طرح قائم رکھے آمین
 

یوسف-2

محفلین
۵۔ غزل

اقبال
(کابل میں لکھے گئے)
مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دِل نوازی کا
مروت حسنِ عالم گیر ہے مردان ِ غازی کا
شکایت ہے مجھے یارب! خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
بہت مدت کے نخچیروں کا اندازِ نگہ بدلا
کہ میں نے فاش کرڈالا طریقہ شاہبازی کا
قلندر جُز دوحرفِ لاالہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہہِ شہر قاروں ہے لُغت ہائے حجازی کا
حدیثِ بادہ و مینا و جام آتی نہیں مجھ کو
نہ کر خارا شگافوں سے تقاضہ شیشہ سازی کا
کہاں سے تو نے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا
(بالِ جبریل)
ہم
ہمارے تو لہو میں ہے سلیقہ نے نوازی کا
غزل منّی کی ہو، گانا عطا اللہ نیازی کا
وہ کیا مکتب تھا جس کا تذکرہ کرتے تھے حضرت جی
کہ اب تو اصطبل ہے اِک یہاں ترکی و تازی کا
ہوئے آزاد تو نخچیر کا انداز یوں بدلا
نیا ہم نے بنا ڈالاطریقہ شاہبازی کا
لُغت افرنگ کی اب تو ہمارے پاس ہے گرچہ
’’فقیہہِ شہر قاروں ہے لُغت ھائے حجازی کا‘‘
خدا کو اور خودی کو بھول کر دِل کا یہ عالم ہے
نیا سودا سمایا ہے خداوندِ مجازی کا
یہ جو اقبال نے سیکھی ، عجب ہی تھی یہ درویشی
مگر اب تو زمانہ لد گیا ہے بے نیازی کا
بہت خوب خلیل بھائی ۔ زبردست
 

یوسف-2

محفلین
۴۔ غزل​
میں محفِل کا شاعر بنا چاہتا ہوں​
مری شاعری دیکھ ، کیا چاہتا ہوں​
غزل ہو کہ ہو نظمِ پابند، کچھ ہو​
میں اشعار پر واہ وا چاہتا ہوں​
یہ دھاگے مبارک رہیں محفلیں کو​
میں دھاگے کا بس اِک سِرا چاہتا ہوں​
میں شاعر بڑا ہوں ، میں شاعِر بڑا ہوں
یہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں
الف عین ہوں یا ہوں آسی یا وارث​
میں شاگِرد اِن کا بنا چاہتا ہوں​
میں واہی تباہی بکے جارہا ہوں​
’’بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں‘‘​
محمد خلیل الرحمٰن​
در ایں چہ شک ۔ سارے ”بڑے شاعر“ اسی طرح تو بڑے ”بنتے“ ہیں۔ میر صاحب بھی تو؛
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
کہتے کہتے آخر کو ایک دن بڑے شاعر بن ہی گئے تھے نا۔ سو کیپ اِٹ اَپ :p
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ماشاءاللہ۔ بہت خوب خلیل بھائی۔ :)

خصوصاً ان دنوں تو ایسے ہی الفاظ پاکستانی عوام کا وردِ زبان ہیں ۔ :)

3۔ شکر و شکایت از اقبال
اقبال​
میں بندہ ناداں ہوں مگر شکر ہے تیرا​
رکھتا ہوں نہاں خانہ لاہوت سے پیوند​
اک ولولہ تازہ دیا میں نے دلوں کو​
لاہور سے تا خاک بخارا و سمرقند​
تاثیر ہے یہ میرے نفس کی کہ خزاں میں​
مرغان سحر خواں مری صحبت میں ہیں خورسند​
لیکن مجھے پیدا کیا اس دیس میں تو نے​
جس دیس کے بندے ہیں غلامی پہ رضامند​
(ضرب کلیم)​
ہم​
میں بندہ ناچیز ہوں پر شکر خدا کا​
مطلب جو نکلتا ہو وہاں میں ہوں خرد مند​
جب آیا سیاست میں تو لیڈر ہی بنا میں​
نوٹوں کی سیاست کو سمجھتا ہوں میں گلقند​
تاثیر ہے یہ سحر بیانی میں جو میری​
کرتی ہے یہ اکثر مجھے بس جھوٹ کی پابند​
لیکن مری تقدیر کی یہ دیکھیے خوبی​
اس دیس میں سب میری غلامی پہ رضامند​
 
محمد خلیل الرحمٰن صاحب کے مزاج اورقلم میں روانی بہت ہے ماشاءاللہ۔ خوب لکھتے ہیں اور ان کی تحریروں میں ان کا علم جھلکتا ہے۔
ع: اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ​

محاکات (parody) اور محاکات نگاری کے بارے میں اپنی کچھ گزارشات پیش کرنے جا رہا ہوں۔ آج ہی کوئی تین چار بار لکھا مگر یہ بجلی کی آنکھ مچولی غالب رہی اور لکھا لکھایا حرفِ غلط کی طرح مٹ گیا۔ ممکن ہے وہ حرفِ غلط ہی رہا ہو، ویسے فی زمانہ حرفِ غلط مٹتا نہیں ہے۔ وہ ’’ہمارا حرفِ غلط‘‘ رہا ہو گا، اس لئے مٹ گیا شاید کہ ہم ٹھہرے پرانے وقتوں کے لوگ اور ہماری باتوں کا بھی وہی عالم ہے کہ
ع: دیتے ہیں بادہ ظرفِ قدح خوار دیکھ کر​
 
سید شہزاد ناصر صاحب کے اس فرمان کو صاد کرتا ہوں کہ:
پیروڈی بہت ہی مشکل اور دقیق فن ہے بڑے بڑے اساتذہ فن اس بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑ دیتے ہیں​
دوسرے پیروڈی میں حد ادب اور حفط مراتب کا خیال رکھنا اس سے بھی مشکل ہے​

اس پر اضافہ یہ کرنا چاہتا ہوں کہ محاکات میں اور کسی طرح ہزل (مزاحیہ غزل) میں ایک امتیاز یہ ہونا چاہئے کہ محاکات میں ہر بیت کا تعلق اصل سے قائم نظر آئے جس پر محاکات بنی گئی ہے، ہزل میں یہ ضروری نہیں۔ یوں محاکات وہ ہے کہ اس کی بناء کا چہرہ گویا محاکات نگار کے تانے ہوئے نئے پردے میں سے جھانکتا محسوس ہو۔

مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ محمد خلیل الرحمٰن کی مندرجہ بالا محاکات نمبر 7 میں یہ خوبی بدرجۂ اتم موجود ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
نصیحت(پیروڈی)
از محمد خلیل الرحمٰن
اپنے بچے سے یہ کہتا تھا کوئی جاگیر دار
اے تری پگڑی پہ نازاں رفعتِ چرخِ بریں
قہرناکی سے ہے قائم اپنا جاگیری نظام
سخت گیری سے ہے تلخِ زندگانی انگبیں
اپنے ہاری پر جھپٹنے میں مزا جو ہے پسر!
وہ مزا شاید کہ ہاری کے لُہو میں بھی نہیں

اس میں طنز اور مزاح کے ساتھ ساتھ وہ خوبیاں بھی موجود ہیں جن کی توقع سید شہزاد ناصر صاحب رکھتے ہیں اور جو اس فقیر کی منشاء بھی ہے۔ اس محاکات کو خاصے کی چیز بنانے والا ایک عنصر اور ہے: دورِ حاضر کا المیہ، ہاری کی زندگی جسے زندگی کہنا بھی شاید محل نظر ہو۔


شذرہ: اس فقیر نے پیروڈی کے لئے ایک اصطلاح ’’محاکات‘‘ متعارف کرانے کی کوشش کی ہے۔
 
اِک شوخ کزن، شوخ مثالِ نگہِ حور
آرام سے فارغ، صفتِ جوہر سیماب
واہ کیا کہنے۔۔۔
اس شوخ کی جو بات کری تُونے ہمنشیں۔۔
اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے
(غالب سے معذرت کے ساتھ)
 
محراب گل خان کے افکار کی محاکات:

عجب ہے تیرا خودی کا یہ فلسفہ شاعر
میں چا ہتا ہوں کہ یہ تُند خُو بدل جائے
’’وہی شراب وہی ہاے و ہو رہے باقی‘‘
یہی نہ ہو کہ بس اک تیری خُو بدل جائے
مناسب ہو گا کہ ان میں پہلے شعر کا قافیہ کوئی اور لے آئیے۔
 
محاکات۔4: مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

بہت خوب لکھا جناب آپ نے! اور یہ شاگرد بننے کی بھی خوب کہی۔ آپ تو خود استاد ہیں صاحب، یہ والے یا وہ والے۔ عربی لغات کے حوالے سے ایک سوال آپ کو پیش کروں گا، مگر نجی پیغام میں۔

تاہم اس فن پارے میں بنائے محاکات کا روئے زیبا کسی قدر مدھم لگتا ہے (نمبر 7 کے مقابلے میں)۔


محمد خلیل الرحمٰن
 
سید شہزاد ناصر صاحب کے اس فرمان کو صاد کرتا ہوں کہ:


اس پر اضافہ یہ کرنا چاہتا ہوں کہ محاکات میں اور کسی طرح ہزل (مزاحیہ غزل) میں ایک امتیاز یہ ہونا چاہئے کہ محاکات میں ہر بیت کا تعلق اصل سے قائم نظر آئے جس پر محاکات بنی گئی ہے، ہزل میں یہ ضروری نہیں۔ یوں محاکات وہ ہے کہ اس کی بناء کا چہرہ گویا محاکات نگار کے تانے ہوئے نئے پردے میں سے جھانکتا محسوس ہو۔

مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ محمد خلیل الرحمٰن کی مندرجہ بالا محاکات نمبر 7 میں یہ خوبی بدرجۂ اتم موجود ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:


اس میں طنز اور مزاح کے ساتھ ساتھ وہ خوبیاں بھی موجود ہیں جن کی توقع سید شہزاد ناصر صاحب رکھتے ہیں اور جو اس فقیر کی منشاء بھی ہے۔ اس محاکات کو خاصے کی چیز بنانے والا ایک عنصر اور ہے: دورِ حاضر کا المیہ، ہاری کی زندگی جسے زندگی کہنا بھی شاید محل نظر ہو۔


شذرہ: اس فقیر نے پیروڈی کے لئے ایک اصطلاح ’’محاکات‘‘ متعارف کرانے کی کوشش کی ہے۔
خادم آداب بجا لاتا ہے
مستند ہے آپ کا فرمایا ہوا :notworthy:
 
Top