8۔ پھولوں کی شہزادی
اقبال
پھولوں کی شہزادی
( بانگِ درا)
کلی سے کہہ رہی تھی ایک دِن شبنم گلستاں میں
رہی میں ایک مدت غنچہ ہائے باغِ رِضواں میں
تمہارے گلستاں کی کیفیت سرشار ہے ایسی
نگہ فردوس در دامن ہے میری چشمِ حیراں میں
سناہے کوئی شہزادی ہے حاکم اس گلستاں کی
کہ جس کے نقشِ پاسے پھول ہوں پیدا بیاباں میں
کبھی ساتھ اپنے اس کے آستاں تک مجھ کو تو لے چل
چھپاکر اپنے دامن میں برنگِ موجِ بو لے چل
کلی بولی سریر آراٗ ہماری ہے وہ شہزادی
درخشاں جس کی ٹھوکر سے ہوں پتھر بھی نگیں بن کر
مگر فطرت تری اُفتندہ اور بیگم کی شان اُونچی
نہیں ممکن کہ تو پہنچے ہماری ہم نشیں بن کر
پہنچ سکتی ہے تو لیکن ہماری شاہزادی تک
کسی دُک درد کے مارے کا اشکِ آتشین بن کر
نظر اُس کی پیامِ عید ہے اہلِ محرّم کو
بنادیتی ہے گوہر غم زدوں کے اشکِ پیہم کو
ہم
پھولوں کی شہزادی
محمد خلیل الرحمٰن
کسی ماسی سے بولا ایک لڑکا یوں گلستاں میں
رہی تو ایک مدت سامنے والے خیاباں میں
اجی اُس گھر کی کھڑکی سے چمک ایسی ہویدا ہے
بسی کچھ دِن سے وہ دلہن ہے میری چشمِ حیراں میں
سنا ہے کوئی شہزادی کہیں سے رہنے آئی ہے
’’کہ جِس کے نقشِ پاسے پھول ہوں پیدا بیاباں میں‘‘
’’کبھی ساتھ اپنے اس کے آستاں تک مجھ کو تو لے چل‘‘
چھپاکر کالی چادر میں برنگِ موجِ بو لے چل
کہا ماسی نے’ گو وہ ہے یقیناً ایک شہزادی‘
’’درخشاں جس کی ٹھوکر سے ہو پتھر بھی نگیں بن کر‘‘
مگر تو ایک آوارہ ہے اور بیگم کی شان اونچی
نہیں ممکن کہ تو پہنچے مِرا واں ہمنشیں بن کر
وہ غصے کی ذرا سی تیز ہے اور ڈانٹ دیتی ہے
کسی لڑکے نے بے شرمی سے کوشش کی کمیں بن کر
یہاں سے بھاگ اے کمبخت اور بس اپنا رستہ لے
جہاں کہتی ہے ماں جاکر اسی لڑکی کو اپنا لے
محمود احمد غزنوی،
سید شہزاد ناصر،
نایاب ،
محمدعلم اللہ اصلاحی،
محمد بلال اعظم ،