سید عمران
محفلین
اس رباعی کو ملاحظہ فرمائیے۔ اس میں حاسدین کے حسد کا کافی سامان ہے۔ اگر اُنہیں نکالنے کے لیے کیڑے مکوڑے نہیں مل سکیں گے تو آخری حربہ آزمائیں گے، اس رباعی کے سرے سے رباعی ہونے کے انکاری ہوجائیں گے، اصلاح فن کے نام پر نت نئے اشکالات سامنے لائیں گے۔ تاہم ان کے حسد کو پرے رکھ کر بنظرِ نیوٹرل دیکھا جائے تو آشکار ہوگا کہ اس رباعی میں مستری موصوف نے استر کاری کے کیا کیا جوہر دکھائے ہیں۔عشق قاتل سے بھی مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟
سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟
کفر و شرک کے نہاں سمندر کی عمیق گہرائیوں میں اتر کر بدی کے دھاگے میں ظلمت کی سیاہ بختی کی مانند کالے موتی تلاش کر لائے ہیں۔ یہ محنت شاقہ آج تک کسی کے نصیب میں نہیں لکھی گئی تھی۔ ایسے پیچدہ عقیدہ کو بیان کرنے کے لیے جو سلاست و روانی کی جولانی اس مستری نے دکھائی ہے اس نے فن کے بڑے بڑے اساتذہ کو اپنی اصلاح کے لیے شاعر کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے پر مجبور کردیا۔
اس رباعی میں شاعر نے گناہگاروں کو رکھ رکھ کے جو چپیڑے رسید کیے ہیں وہ آج تک سخت سے سخت مولوی اور غالی سے غالی شاعر نہ کرسکا۔ خیال کی یہ اونچی اڑان جس طرح اس شاعر نما مستری کو نصیب ہوئی کسی مستری نما شاعر کے حصہ میں کبھی نہ آسکی۔
رباعی کیا ہے گویا کوزے میں سمندر بند کردیا، اس کوزے کو کھول دیا جائے تو مطالب و معانی کے دریا کے دریا بہہ پڑیں گے ۔ اس رباعی میں اہل فن کے ذوق کے مطابق کیا کچھ چاٹ مسالہ نہیں ہے، عشق و عاشقی بھی ہے، قاتل مقتول اور قتل و غارت گری بھی، ابلیس بھی ہے اور ہمدردی بھی اور خدا اور محبت بھی۔ غرض دین و دنیا اور ان کے تمام تر متعلقات جس طرح سموئے ہیں وہ نیک اور بدی کا ’’حسین امتزاج‘‘ بن کے رہ گیا ہے۔