تعارف السلام علیکم

ہما بٹیا اردو محفل میں خوش آمدید۔ امید ہے کہ اب تک آپ کا وقت محفل میں خوشگوار گزرا ہوگا اور اس کی لت لگ چکی ہوگی، جو کہ مضر صحت بھی نہیں۔ گاہے گاہے آپ کے عمدہ کلام سے مستفید ہونے کا موقع ملتا رہتا ہے اور آج اس لڑی پر نگاہ پڑی تو خیال آیا کہ شاید ہم نے باقاعدہ خوش آمدید نہیں کہا۔ :) :) :)

پچھلے صفحات پر امریکہ، ایلینوئے، اور شکاگو وغیرہ کا ذکر پڑھ کر یاد آیا کہ آج سے ٹھیک تین برس قبل ہم ویک اینڈ پر شکاگو گئے تھے، یہ بات اس لیے بھی یاد ہے کیونکہ ہماری موجودہ نمائندہ تصویر شکاگو کے ایکوئریم کے پاس کھینچی گئی تھی اور آج ہی ہمارے فون نے یاد ماضی کی ذیل میں "فلیش بیک" کے عنوان کے تحت یہ تصویر دکھائی۔ :) :) :)

کچھ سموسوں کا ذکر بھی نظروں سے گزرا، اس پر یاد آیا کہ سموسے صرف بر صغیر کی کمزوری نہیں بلکہ یہاں امریکی لوگوں کو بھی کافی مرغوب ہیں۔ کوئی ایک ماہ قبل کا ذکر ہے، ہم ایک کانفرینس کے لیے یوروپ کے دورے پر جانے والے تھے۔ اس سے ایک روز قبل یونیورسٹی میں فٹ بال کا میچ تھا۔ میچ کے روز کیمپس کے آس پاس کی ساری پارکنگ لاٹس پوری طرح بھری ہوتی ہیں۔ ہم یوں ہی ٹہلتے ٹہلتے کیمپس سے متصل دریا کے کنارے جا پہنچے۔ وہاں قریبی پارکنگ لاٹ میں ہمارے کچھ کولیگ اور اساتذہ موجود تھے اور ٹیل گیٹ میں مصروف تھے۔ ہائے ہیلو کے بعد یوں ہی فیکلٹیز کی بات چل نکلی تو ایک ٹیچر مسز برونیل (جن کے ذمہ ڈیپارٹمنٹ میں تمام کورسیز کے لیے فیکلٹیز کی فراہمی کا کام ہے) کہنے لگیں کہ ڈیپارٹمنٹ کو اساتذہ کی بہت ضرورت ہے اور اگلے سیمسٹر ہم آپ کو گھیرنے والے ہیں۔ اس پر ہم نے خوشگوار انداز میں کہا کہ ہم نے آپ کی بات سنی ہی نہیں۔ اس پر وہاں موجود ڈاکٹر مشیل کہنے لگیں کہ مسئلہ کیا ہے، آپ ماڈرن ویب ٹیکنولوجیز پر کوئی کورس پڑھا دیجیے۔ تو ہم نے کہا کہ مشکل یہ ہے کہ ڈیپارٹمنٹ کو الیکٹیو کورسیز کے لیے نہیں بلکہ پرانے گھسے پٹے روایتی کورسیز کے لیے اساتذہ درکار ہیں اور ہم ان سے دور ہی بھلے۔ مسز برونیل نے مذاقاً کہا کہ ہم آپ کی ایڈوائزر ڈاکٹر مشیل سے کہہ کر آپ کی گریجوئیشن رکوا دیں گے اور تب تک نہیں جانے دیں گے جب تک کم از کم ایک کورس نہ پڑھا دیں۔ ہم نے کہا کہ ہم آپ کو کیوں بتائیں کہ ڈاکٹر مشیل ہماری ایڈوائزر نہیں ہیں۔ تو ڈاکٹر مشیل کہنے لگیں کہ وہ تو ٹھیک ہے لیکن تھیسس کمیٹی کی ممبر تو ہوں اور میں نے دستخط نہ کیا تو تھیسس کا بیڑا پار نہیں لگے گا۔ ہم نے ڈاکٹر مشیل سے مخاطب ہو کر کہا، یہ بتائیے کہ آپ کے آفس میں کتنے سموسے بھجوائیں اور کب؟ اس پر محفل قہقہوں سے گونج اٹھی اور مسز برونیل نے ہمیں گلے سے لگا کر کہا، شرارتی لڑکے، ایسی رشوت کی نہیں ہوتی۔ قصہ مختصر اینکہ اس کے بعد کافی دیر تک سموسوں پر بات چلتی رہی، اس کے انواع، حجم، اور اجزائے داخلی پر تبصرے ہوئے، نیز یہ کہ کوئی بھی اس گفتگو میں اپنی پسند اور نا پسند بتا کر اپنا حصہ ڈالنے سے پیچھے نہیں رہنا چاہتا تھا۔ :) :) :)
 
ہما بٹیا اردو محفل میں خوش آمدید۔ امید ہے کہ اب تک آپ کا وقت محفل میں خوشگوار گزرا ہوگا اور اس کی لت لگ چکی ہوگی، جو کہ مضر صحت بھی نہیں۔ گاہے گاہے آپ کے عمدہ کلام سے مستفید ہونے کا موقع ملتا رہتا ہے اور آج اس لڑی پر نگاہ پڑی تو خیال آیا کہ شاید ہم نے باقاعدہ خوش آمدید نہیں کہا۔ :) :) :)

پچھلے صفحات پر امریکہ، ایلینوئے، اور شکاگو وغیرہ کا ذکر پڑھ کر یاد آیا کہ آج سے ٹھیک تین برس قبل ہم ویک اینڈ پر شکاگو گئے تھے، یہ بات اس لیے بھی یاد ہے کیونکہ ہماری موجودہ نمائندہ تصویر شکاگو کے ایکوئریم کے پاس کھینچی گئی تھی اور آج ہی ہمارے فون نے یاد ماضی کی ذیل میں "فلیش بیک" کے عنوان کے تحت یہ تصویر دکھائی۔ :) :) :)

کچھ سموسوں کا ذکر بھی نظروں سے گزرا، اس پر یاد آیا کہ سموسے صرف بر صغیر کی کمزوری نہیں بلکہ یہاں امریکی لوگوں کو بھی کافی مرغوب ہیں۔ کوئی ایک ماہ قبل کا ذکر ہے، ہم ایک کانفرینس کے لیے یوروپ کے دورے پر جانے والے تھے۔ اس سے ایک روز قبل یونیورسٹی میں فٹ بال کا میچ تھا۔ میچ کے روز کیمپس کے آس پاس کی ساری پارکنگ لاٹس پوری طرح بھری ہوتی ہیں۔ ہم یوں ہی ٹہلتے ٹہلتے کیمپس سے متصل دریا کے کنارے جا پہنچے۔ وہاں قریبی پارکنگ لاٹ میں ہمارے کچھ کولیگ اور اساتذہ موجود تھے اور ٹیل گیٹ میں مصروف تھے۔ ہائے ہیلو کے بعد یوں ہی فیکلٹیز کی بات چل نکلی تو ایک ٹیچر مسز برونیل (جن کے ذمہ ڈیپارٹمنٹ میں تمام کورسیز کے لیے فیکلٹیز کی فراہمی کا کام ہے) کہنے لگیں کہ ڈیپارٹمنٹ کو اساتذہ کی بہت ضرورت ہے اور اگلے سیمسٹر ہم آپ کو گھیرنے والے ہیں۔ اس پر ہم نے خوشگوار انداز میں کہا کہ ہم نے آپ کی بات سنی ہی نہیں۔ اس پر وہاں موجود ڈاکٹر مشیل کہنے لگیں کہ مسئلہ کیا ہے، آپ ماڈرن ویب ٹیکنولوجیز پر کوئی کورس پڑھا دیجیے۔ تو ہم نے کہا کہ مشکل یہ ہے کہ ڈیپارٹمنٹ کو الیکٹیو کورسیز کے لیے نہیں بلکہ پرانے گھسے پٹے روایتی کورسیز کے لیے اساتذہ درکار ہیں اور ہم ان سے دور ہی بھلے۔ مسز برونیل نے مذاقاً کہا کہ ہم آپ کی ایڈوائزر ڈاکٹر مشیل سے کہہ کر آپ کی گریجوئیشن رکوا دیں گے اور تب تک نہیں جانے دیں گے جب تک کم از کم ایک کورس نہ پڑھا دیں۔ ہم نے کہا کہ ہم آپ کو کیوں بتائیں کہ ڈاکٹر مشیل ہماری ایڈوائزر نہیں ہیں۔ تو ڈاکٹر مشیل کہنے لگیں کہ وہ تو ٹھیک ہے لیکن تھیسس کمیٹی کی ممبر تو ہوں اور میں نے دستخط نہ کیا تو تھیسس کا بیڑا پار نہیں لگے گا۔ ہم نے ڈاکٹر مشیل سے مخاطب ہو کر کہا، یہ بتائیے کہ آپ کے آفس میں کتنے سموسے بھجوائیں اور کب؟ اس پر محفل قہقہوں سے گونج اٹھی اور مسز برونیل نے ہمیں گلے سے لگا کر کہا، شرارتی لڑکے، ایسی رشوت کی نہیں ہوتی۔ قصہ مختصر اینکہ اس کے بعد کافی دیر تک سموسوں پر بات چلتی رہی، اس کے انواع، حجم، اور اجزائے داخلی پر تبصرے ہوئے، نیز یہ کہ کوئی بھی اس گفتگو میں اپنی پسند اور نا پسند بتا کر اپنا حصہ ڈالنے سے پیچھے نہیں رہنا چاہتا تھا۔ :) :) :)

انکل بہت خوشی ہوئی آپکا مراسلہ دیکھ کر۔ اتنے عرصے بعد کسی نے بٹیا کہا تو اور بھی اچھا لگا ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ کوبے زوال رکھے۔ آ پ کا سموسے والا واقعہ پڑھ کر مجھے بھی اپنے انٹرن شپ کے دن یاد آگئے ۔ میں نے اپنی ٹریننگ یو ڈبلیو میڈیسن میں کی ۔ جب بھی ڈیپارٹمنٹ میں کوئی تقریب ہوتی مجھ سے ضرور فرمائش ہوتی تھی کہ سموسے یا چکن پکوڑے( بغیر مرچوں کے:))بنا کر لاؤں ۔ میرے ساتھ ایک مصر ی دوست بھی ہوتی تھیں ۔ ان کا حمس اور پیٹا بریڈ بھی بہت شوق سے کھائے جاتے تھے ۔ اب تو حمس ہر اسٹور میں دستیاب ہے۔ آپ نے ایڈلر پلانیٹیریم کا ذکر کیا تو بے ساختہ ہونٹوں پر مسکراہٹ سی آگئی۔ ایک وقت تھا کہ میں اور حمید تقریبا ہر دوسرے تیسرے مہینے شکاگو جایا کرتے تھے۔حمید کا سارا خاندان امریکا میں پھیلا ہوا ہے ۔اور آئےدن کوئی نہ کوئی مہمان ہمارے یہاں آیا رہتا تھا ۔ جب بھی کوئی کسی دوسری اسٹیٹ سے ملنے آتا اسے ویک اینڈ پر شکاگو گھمانے لے جانا پڑتا تھا ۔ شکاگو کی ہر ہر چیز کو اتنی دفعہ دیکھ لیا تھا کہ مجھے شکاگو کے نام سے وحشت سی ہونے لگی تھی ۔ ایک دفعہ تو میں نے دھمکی بھی دیدی کہ میں ہسپتال کی نوکری چھوڑکر شکاگو میں ٹور گائڈ کا کام شروع کردوں گی۔ خیر۔ اب تو سب کچھ بدل گیا ہے ۔ آپ کی باتیں پڑھ کر کچھ دیر کے لئےسب پرانی باتیں یاد آگئیں ۔ شکاگو ہے ویسےبہت خوبصورت اور زندہ شہر ۔ میرا مشاہدہ ہے کہ دریا کنارے آباد تمام شہر بہت جیتے جاگتےاور ایک خاص فضا اپنے اند رلئے ہوتے ہیں۔ ان شہروں کا ایک عجب مزاج سا ہوتا ہے۔یا پھرہوسکتا ہےایسا صرف مجھے ہی محسوس ہوتا ہو۔ ارے یہ میں کہاں اور کس قسم کی باتیں لے بیٹھی ۔ بقول شخصے خاتونانہ باتیں :):)۔ مجھے تو آپ کا شکریہ ادا کرنا تھاآپکے خوش آمدید کہنے پر ۔ اردو محفل کی لت ابھی پوری طرح تو نہیں پڑی لیکن لت پڑنا اتنا مشکل بھی نہیں ۔ اتنے اچھے اچھے لوگ یہاں موجود ہیں ۔ قسم کی قسم کی گفتگو (یا شاید بھانت بھانت کی کہنا زیادہ بہتر ہوگا:)) ہمہ وقت ہوتی رہتی ہے ۔ لیکن اس کشاکشِ حیات کا کیا کیا جائے کہ ایک ایک لمحے کا حساب رکھتی ہے ۔ کتنا اچھا ہوتا اگر ویک اینڈ پانچ دن کا ہوتا اور صرف باقی دو دن کام کرنا ہوتا ۔:):):)
ابن سعید
 

Saif ullah

محفلین
میراتعلق کراچی سے ہے ۔ گزشتہ دس برس سے امریکا میں مقیم ہوں ۔ ایک مقامی ہسپتال میں ڈائی ٹیشین کا کام کرتی ہوں ( جس کا ترجمہ ہمارے ایک چچا کے بقول مشیر امور غذائی بنتا ہے ) ۔ شعر و ادب سے بچپن ہی سے لگاؤ رہا ہے ۔ تھوڑا بہت ٹوٹا پھوٹا لکھتی بھی ہوں اور ستم یہ کہ اسے سنانے اور چھپوانے کی کوشش بھی کرتی ہوں ۔ امید ہے کہ آپ درگذر سے کام لیں گے ۔ :disdain:
خوش آمدید
 
Top