ایسی مسجد کو مسمار کرنے اور اس کے بانی (سرپرست) کی بابت رسول اللہ ﷺ کا حکم کہ وہ فاسق ہے:
کچھ منافقین رسول اللہ (ص) کے پاس آئے او رعرض کیا، ہمیں اجازت دیجیئے کہ ہم قبیلہ ''بنى سالم'' کے درمیان''مسجد قبا''کے قریب ایک مسجد بنالیں تاکہ ناتواں بیمار اور بوڑھے جو کوئی کام نہیں کرسکتے اس میں نماز پڑھ لیا کریں_ اسى طرح جن راتوں میں بارش ہوتى ہے ان میں جو لوگ آپ(ص) کى مسجد میں نہیں آسکتے اپنے اسلامى فریضہ کو اس میں انجام دے لیا کریں_ یہ اس وقت کى بات ہے جب پیغمبر خد (ص) جنگ تبوک کا عزم کرچکے تھے آنحضرت(ص) نے انھیں اجازت دےدی_ انھوں نے مزید کہا: کیا یہ بھى ممکن ہے کہ آپ(ص) خود آکر اس میں نماز پڑھیں؟نبى اکرم(ص) نے فرمایا: اس وقت تو میں سفر کا ارادہ کر چکا ہوں البتہ واپسى پر خدا نے چاہا تو اس مسجد میں آکر نماز پڑھوں گا_جب آپ(ص) جنگ تبوک سے لوٹے تو یہ لوگ آپ(ص) کے پاس آئے اور کہنے لگے ہمارى درخواست ہے کہ آپ(ص) ہمارى مسجد میں آکر اس میں نماز پڑھائیں اورخدا سے دعا کریں کہ ہمیں برکت دے _ یہ اس وقت کى بات ہے جب ابھى آنحضرت(ص) مدینہ کے دروازے میں داخل نہیں ہوئے تھے اس وقت وحى خدا کا حامل فرشتہ نازل ہوا اور خدا کى طرف سے پیغام لایا او ران کے کرتوت سے پردہ اٹھایا_
اس کے فوراً بعد رسول اللہ (ص) نے حکم دیا کہ مذکورہ مسجد کو جلا دیا جائے او راسکے باقى حصے کو مسمارکردیا جائے او راس کى جگہ کوڑاکرکٹ ڈالاجایا کرے_
ان لوگوں کے ظاہراًکام کو دیکھا جائے تو ہمیں شروع میں تو اس حکم پر حیرت ہوئی کہ کیا بیماروں اوربوڑھوں کى سہولت کے لئے اوراضطرارى مواقع کے لئے مسجد بنانا برا کام ہے جبکہ یہ ایک دینى او رانسانى خدمت معلوم ہوتى ہے کیا ایسے کام کے بارے میں یہ حکم صادر ہوا ہے؟لیکن اگر ہم اس معاملہ کى حقیقت پر نظر کریں گے تو معلوم ہوگا کہ یہ حکم کس قدر بر محل اور جچاتلا تھا_ اس کى وضاحت یہ ہے کہ'' ابو عامر''نامى ایک شخص نے عیسائیت قبول کرلى تھى اور راہبوں کے مسلک سے منسلک ہوگیا تھا _ اس کا شمار عابدوں میں ہوتا تھا ، قبیلہ خزرج میں اس کا گہرا اثرورسوخ تھا _ رسول اللہ(ص) نے جب مدینہ کى طرف ہجرت کى او رمسلمان آپ(ص) کے گرد جمع ہوگئے تو ابو عامر جو خودبھى پیغمبر(ص) کے ظہور کى خبر دینے والوں میں سے تھا،اس نے دیکھا کہ اس کے ارد گرد سے لوگ چھٹ گئے ہیں اس پر وہ اسلام کے مقابلے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا ،وہ مدینہ سے نکلا اور کفار مکہ کے پاس پہنچا،اس نے ان سے پیغمبر اکرم(ص) کے خلاف جنگ کے لئے مدد چاہى اور قبائل عرب کو بھى تعاون کى دعوت دى ،وہ خود مسلمانوں کے خلاف جنگ احد کى منصوبہ بندى میں شریک رہا تھا،اور راہنمائی کرنے والوں میں سے تھا،اس نے حکم دیا کہ لشکر کى دو صفوں کے درمیان گڑھے کھوددے جائیں _اتفاقاً پیغمبر اسلام(ص) ایک گڑھے میں گر پڑے ،آپ(ص) کى پیشانى پر زخم آئے اور دندان مبارک ٹوٹ گئے _ جنگ احد ختم ہوئی،مسلمانوں کو اس میدان میں آنے والى مشکلات کے باوجود اسلام کى آواز بلند تر ہوئی او رہر طرف صدا ئے اسلام گونجنے لگی، تو وہ مدینہ سے بھاگ گیا او ربادشاہ روم ہرقل کے پاس پہنچا تاکہ اس سے مددچاہے اور مسلمانوں کى سرکوبى کے لئے ایک لشکر مہیا کرے_
اس نکتے کا بھى ذکر ضرورى ہے کہ اس کى ان کارستانیوں کى وجہ سے پیغمبر اسلام(ص) نے اسے ''فاسق''کالقب دے رکھاتھا_
http://www.maaref-foundation.com/urdu/quran/qesas_quran/67.htm