حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جو عمارتیں تیار کرائیں
عمارات جو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تیار کرائیں، تین قسم کی تھیں :
1 – مذہبی : جیسے مساجد وغیرہ، ان کا بیان تفصیل کے ساتھ مذہبی صیغے میں آئے گا۔ یہاں اس قدر کہنا کافی ہے کہ بقول صاحب روضۃ الاحباب چار ہزار مسجدیں تعمیر ہوئیں۔
2 – فوجی : جیسے قلعے، چھاؤنیاں، بارکیں، ان کا بیان فوجی انتظامات میں آئے گا۔
3 - ملکی : مثلاً دارالامارۃ وغیرہ، اس قسم کی عمارتوں کے تفصیلی حالات معلوم نہیں۔ لیکن ان کی اقسام کی تفصیل حسبِ ذیل ہے :
1 – دارالامارۃ : یعنی صوبجات اور اضلاع کے حکام جہاں قیام رکھتے تھے اور جہاں ان کا دفتر رہتا تھا۔ کوفہ و بصرہ کے دارالامارۃ کا حال طبری و بلاذری نے کسی قدر تفصیل سے لکھا ہے۔
2 – دفتر : دیوان یعنی جہاں دفتر کے کاغذات رہتے تھے۔ فوج کا دفتر بھی اسی مکان میں رہتا تھا۔
3 – خزانہ : بیت المال – یعنی خزانے کا مکان – یہ عمارت مضبوط اور مستحکم ہوتی تھی۔ کوفہ کے بیت المال کا ذکر بیت المال کے حال میں گزر چکا ہے۔
4 – قید خانے : مدینہ منورہ کے قید خانے کا حال صیغہ پولیس کے بیان میں گزر چکا ہے۔ بصرہ میں جو قید خانہ تھا وہ دارالامارۃ کی عمارت میں شامل تھا۔ (فتوح البلدان صفحہ 347)۔
5 – مہمان خانے : مہمان خانے، یہ مکانات اس لیے تعمیر کئے گئے تھے کہ باہر والے جو دو چار روز کے لیے شہر میں آ جاتے تھے وہ ان مکانات میں ٹھہرائے جاتے تھے۔ کوفہ میں جو مہمان خانہ بنا اس کی نسبت علامہ بلاذری نے لکھا ہے امر ان یتخذلمن یرد من الافاق دارا فکانوا ینزلونھا (فتوح البلدان صفحہ 27
۔ مدینہ منورہ کا مہمان خانہ 17 ہجری میں تعمیر ہوا۔ چنانچہ ابن حیان نے کتاب الثقاۃ میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔
اس موقع پر یہ بتانا ضروری ہے کہ عمارتوں کی نسبت یہ نہیں خیال کرنا چاہیے کہ بڑی شان و شوکت کی ہوتی تھیں۔ اسلام فضول تکلفات کی اجازت نہیں دیتا۔ زمانہ بعد میں جو کچھ ہوا ہوا لیکن اس وقت تک اسلام بالکل اپنی سادہ اور اصلی صورت میں تھا۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نہایت اہتمام تھا کہ یہ سادگی جانے نہ پائے۔ اس کے علاوہ اس وقت تک بیت المال پر حاکم وقت کو آزادانہ اختیارات حاصل نہ تھے۔ بیت المال تمام قوم کا سرمایہ سمجھا جاتا تھا۔ اور لوگ اس کا اصلی مصرف یہ سمجھتے تھے کہ چونا پتھر کی بجائے زیادہ تر آدمیوں کے کام آئے۔ یہ خیال مدتوں تک رہا۔ اور اسی کا اثر تھا کہ جب ولید بن عبد الملک نے دمشق کی جامع مسجد پر ایک رقم کثیر صرف کر دی تو عام ناراضگی پھیل گئی۔ اور لوگوں نے علانیہ کہا کہ بیت المال کے روپیہ کا یہ مصرف نہیں ہے۔ بہرحال حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں جو عمارتیں بنیں وہ عموماً اینٹ اور گارے کی تھیں۔ بصرہ کا ایوان حکومت بھی اسی حیثیت کا تھا۔ (فتح البلدان صفحہ 347)۔ البتہ فوجی عمارتیں نہایت مضبوط اور مستحکم ہوتی تھیں۔