"الفاروق " از شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی رحمتہ اللہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
شام کا سفر اور رعایا کی خبر گیری

ان تمام باتوں پر بھی ان کو تسلی نہ ہوئی تھی۔ فرماتے کہ عمال رعایا کی پرواہ نہیں کرتے اور ہر شخص مجھ تک پہنچ نہیں سکتا۔ اس بناء پر ارادہ کیا تھا کہ شام، جزیرہ، کوفہ اور بصرہ کا دورہ کریں اور ہر جگہ دو دو مہینے ٹھہریں۔ لیکن موت نے فرصت نہ دی۔ تاہم اخیر دفعہ جب شام کا سفر کیا تو ایک ایک ضلع میں ٹھہر کر لوگوں کی شکایتیں سنیں اور داد رسی کی۔ اس سفر میں ایک پرعبرت واقعہ پیش آیا۔ دارالخلافہ کو واپس آ رہے تھے کہ راہ میں ایک خیمہ دیکھا۔ سواری سے اتر کر خیمہ کے قریب گئے۔ ایک بڑھیا عورت نظر آئی۔ اس سے پوچھا عمر کا کچھ حال معلوم ہوا؟

اس نے کہا ہاں شام سے روانہ ہو چکا لیکن خدا اس کو غارت کرے۔ آج تک مجھ کو اس کے ہاں سے ایک حبہ بھی نہیں ملا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا، اتنی دور کا حال عمر کو کیونکر معلوم ہو سکتا ہے۔

بولی کہ " اس کو رعایا کا حال معلوم نہیں تو خلافت کیوں کرتا ہے" حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو سخت رقت ہوئی اور بے اختیار رو پڑے۔ ہم اس موقع پر متعدد حکایتیں نقل کرتے ہیں جس سے اندازہ ہو گا کہ رعایا کے آرام و آسائش اور خبر گیری میں ان کو کس قدر سرگرمی اور ہمدردی تھی۔

ایک دفعہ ایک قافلہ مدینہ منورہ میں آیا اور شہر کے باہر اترا۔ اس کی خبر گیری اور حفاظت کے لئے خود تشریف لے گئے۔ پہرہ دیتے پھرتے تھے کہ ایک طرف سے رونے کی آواز آئی۔ ادھر متوجہ ہوئے، دیکھا تو ایک شیر خوار بچہ ماں کی گود میں رہ رہا تھا۔ ماں کو تاکید کی کہ بچے کو بہلائے۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر ادھر سے گزر ہوا تو بچے جو روتا پایا۔ غیظ میں آ کر فرمایا کہ تو بڑی بے رحم ماں ہے۔

اس نے کہا کہ تم کو اصل حقیقت معلوم نہیں، خواہ مخواہ مجھ کو دق کرتے ہو۔ بات یہ ہے کہ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حکم دیا ہے کہ بچے جب تک ماں کا دودھ نہ چھوڑیں، بیت المال سے اس کا وظیفہ مقرر نہ کیا جائے۔ میں اس غرض سے اس کا دودھ چھڑاتی ہوں اور یہ اس وجہ سے روتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو رقت ہوئی اور کہا کہ ہائے عمر! تو نے کتنے بچوں کا خون کیا ہو گا۔ اسی دن سے منادی کرا دی کہ بچے جس دن سے پیدا ہوں اسی تاریخ سے ان کے روزینے مقرر کر دیئے جائیں گے۔ اسلم (حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا غلام) کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ رات کو گشت کے لئے نکلے۔ مدینہ سے تین میل پر صرار نامی ایک مقام ہے۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ایک عورت کچھ پکا رہی ہے اور دو تین بچے رو رہے ہیں۔ پاس جا کر حقیقت حال دریافت کی۔ اس نے کہا کہ کئی وقتوں سے بچوں کو کھانا نہیں ملا۔ ان کے بہلانے کے لئے خالی ہانڈی میں پانی ڈال کر چڑھا دی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اسی وقت اٹھے۔ مدینہ میں آ کر بیت المال سے آٹا، گوشت، گھی اور کھجوریں لیں اور اسلم سے کہا کہ میرے پیٹھ پر رکھ دو۔ اسلم نے کہا کہ میں لئے چلتا ہوں۔ فرمایا ہاں! لیکن قیامت کے روز میرا بار تم نہیں اٹھاؤ گے۔ غرض سب چیزیں خود اٹھا کر لائے اور عورت کے آگے رکھ دیں۔ ان نے آٹا گوندھا، ہانڈی چڑھائی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ خود چولہا پھونکتے جاتے تھے۔ کھانا تیار ہوا تو بچوں نے خوب سیر ہو کر کھایا اور اچھلنے کودنےلگے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بچوں کو دیکھتے تھے اور خوش ہوتے تھے۔ عورت نے کہا، خدا تم کو جزائے خیر دے۔ سچ یہ ہے کہ امیر المومنین ہونے کے قابل تم ہو نہ کہ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ۔

ایک دفعہ رات کو گشت کر رہے تھے کہ ایک بدو اپنے خیمہ سے باہر زمین پر بیٹھا ہوا تھا۔ پاس جا کر بیٹھے اور ادھر ادھر کی باتیں شروع کیں۔ دفعتہً خیمہ سے رونے کی آواز آئی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پوچھا کہ کون روتا ہے؟ اس نے کہا کہ میری بیوی درد زہ میں مبتلا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ گھر پر آئے اور اور ام کلثوم (حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زوجہ تھیں) کو ساتھ لیا۔ بدو سے اجازے لے کر ام کلثوم کو خیمہ میں بھیجا۔ تھوڑی دیر بعد بچہ پیدا ہوا۔ ام کلثوم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو پکارا کہ امیر المومنین اپنے دوست کو مبارکباد دیجیئے۔ امیر المومنین کا لفظ سن کر بدو چونک پڑا اور مؤدب ہو کر بیٹھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ نہیں کچھ خیال نہ کرو۔ کل میرے پاس آنا میں اس بچہ کی تنخواہ مقرر کر دوں گا۔

عبد الرحمٰن بن عوف کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ رات کو میرے مکان پر آئے۔ میں نے کہا آپ نے کیوں تکلیف کی۔ مجھ کو بلا لیا ہوتا۔ فرمایا کہ ابھی مجھے معلوم ہوا ہے کہ شہر سے باہر ایک قافلہ اترا ہے۔ لوگ تھکے ماندے ہوں گے۔ آؤ ہم تم چل کر پہرہ دیں۔ چنانچہ دونوں اصحاب گئے اور رات بھر پہرہ دیتے رہے۔

جس سال عرب میں قحط پڑا، ان کی عجیب حالت ہوئی۔ جب تک قحط رہا، گوشت، گھی، مچھلی، غرض کوئی لذیذ چیا نہ کھائی۔ نہایت خضوع سے دعائیں مانگتے تھے کہ " اے خدا! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو میری شامت اعمال سے تباہ نہ کرنا۔" اسلم، ان کے غلام، کا بیان ہے کہ قحط کے زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو جو فکر و تردد رہتا تھا اور اس سے قیاس کیا جاتا تھا کہ اگر قحط رفع نہ ہوا تو وہ اسی غم میں تباہ ہو جائیں گے (یہ تمام روایتیں کنز العمال جلد 6 صفحہ 343 میں مستند حوالوں سے منقول ہیں)۔ قحط کا جو انتظام حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کیا تھا اس کو ہم اوپر لکھ آئے ہیں۔

ایک دفعہ ایک بدو ان کے پاس آیا، اور یہ اشعار پڑھے :

یا عمر الخیر خیر الجنۃ اکس
بناتی و امھنہ اقسم باللہ لتفعلنہ​

"اے عمر! لطف اگر ہے تو جنت کا ہے۔ میری لڑکیوں کو کپڑے پہنا۔ خدا کی قسم تجھ کو یہ کرنا ہو گا۔"

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا اور میں تمہارا کہنا نہ کروں تو کیا ہو گا۔ بدو نے کہا

تکون عن حالی لتسئلنہ والواقف المسئول یبھتنہ اما الی نار و اما جنۃ

"تجھ سے قیامت کے روز میری نسبت سوال ہو گا اور تو ہکا بکا رہ جائے گا۔ پھر یا دوزخ کی طرف یا بہشت کی طرف جانا ہوگا۔"

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس قدر روئے کہ داڑھی تر ہو گئی۔ غلام سے کہا کہ میرا یہ کرتا اس کو دے۔ اس وقت اس کے سوا اور کوئی چیز میرے پاس نہیں۔ (سیرۃ العمرین و ازالتہ اخفاء)۔

ایک دفعہ رات کو گشت کر رہے تھے کہ ایک عورت اپنے بالا خانے پر بیٹھی یہ اشعار گا رہی تھی۔

تطاول ھذا الیل وازور جانبہ
و لیس الی جنبی خلیل الاعبہ​

"رات کالی ہے اور لمبی ہوتی جا رہی ہے اور میرے پہلو میں میرا دوست نہیں، جس سے خوش فعلی کروں۔"

اس عورت کا شوہر جہاد پر گیا ہوا تھا اور وہ اس کے فراق میں یہ درد انگیز اشعار پڑھ رہی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو سخت قلق ہوا ارو کہا کہ میں زنان عرب پر بڑا ظلم کیا ہے۔ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے پاس آئے اور پوچھا کہ عورت کتنے دن مرد کے بغیر بسر کر سکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ چار مہینے۔ صبح ہوتے ہی ہر جگہ حکم بھیج دیا کہ کوئی سپاہی چار مہینے سے زیادہ باہر نہ رہنے پائے۔

سعید بن یربوع ایک صحابی تھے جن کی آنکھیں جاتی رہی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان سے کہا کہ آپ جمعہ میں کیوں نہیں آتے۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس آدمی نہیں کہ مجھ کو راستہ بتائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک آدمی مقرر کیا جو ہمیشہ ان کے ساتھ ساتھ رہتا تھا۔ (اسد الغلبہ تذکرہ سعد بن یربوع)۔

ایک دفعہ لوگوں کو کھانا کھلا رہے تھے۔ ایک شخص کو دیکھا بائیں ہاتھ سے کھا رہا ہے۔ پاس جا کر کہا کہ دہنے ہاتھ سے کھاؤ۔ اس نے کہا جنگ موتہ میں میرا دایاں ہاتھ جاتا رہا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو رقت ہوئی۔ اس کے برابر بیٹھ گئے اور رو رو کر کہنے لگے کہ افسوس تم کو وضو کون کراتا ہو گا۔ سر کون دھوتا ہو گا؟ کپڑے کون پہناتا ہو گا؟ پھر ایک نوکر مقرر کر دیا اور اس کے لئے تمام ضروری چیزیں خود مہیا کر دیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
امامت اور اجتہاد

امامت کا منصب، در حقیقت نبوت کا ایک شعبہ ہے اور امام کی فطرت قریب قریب پیغمبر کی فطرت کی طرح ہوتی ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب لکھتے ہیں " واز میان امت جمعے ہستند کہ جوہر نفس ایشاں قریب جوہر انبیاء مخلوق شدہ و ایں جماعہ داراصل فطرت خلفائے انبیاء اند درامت۔ (ازالتہ الخفاء جلد اول صفحہ 90)۔

مذہبی عقائد اور احکام اگرچہ بظاہر سادہ اور صاف ہیں کیونکہ صانع عالم کا اعتقاد اس کی صفات کمال کا اعتراف، سزا و جزا کا یقین، زہد و عبادت، محاسن اخلاق یہی چیزیں تمام مذاہب کے اصل الاصول اور احکام ہیں اور یہ سب بظاہر سادہ اور صاف باتیں ہیں۔ لیکن ان کے مسائل میں اشتبا اور ابھام اس قدر ہے کہ اگر نکتہ سنجی اور دقیقہ رسی سے کام نہ کیا جائے تو ان کی حقیقت بالکل بدل جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باوجود اس کے کہ یہ مسائل قریباً تمام مذاہب میں مشترک تھے۔ تاہم کم و بیش سب میں غلطیاں واقع ہوئیں۔ اسلام انہی غلطیوں کو مٹانے کے لئے آیا اور تاکید کے ساتھ ان پر توجہ دلائی۔ لیکن چونکہ عام طبائع نکتہ سنج نہیں ہوتیں۔ اس لئے ہر زمانے میں اکثر لوگ اصل حقیقیت سے دور ہو جاتے ہیں اور اسی لئے آئمہ اور مجددین کی ضرورت باقی رہی کہ ان اسرار پر پردہ نہ پڑ جائے۔ مثلاً اسلام نے شرک کو کس قدر زور و شور سے مٹایا۔ لیکن غور سے دیکھو تو قبروں اور مزاروں کے ساتھ عوام تو ایک طرف بعض خواص کو جو طرز عمل ہے اس میں اب بھی کس قدر شرک کا مخفی اثر موجود ہے۔ گو استفادہ عن القبور اور حصول برکت کے خوشنما الفاظ نے ان پر پردہ ڈال رکھا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان نازک اور مشتبہ مسائل میں جس طرح اصل حقیقیت کو سمجھا اور جس جرات و دلیری سے اس کو لوگوں کے سامنے ظاہر کیا۔ اس کی نظیر صحابہ کے زمانے میں بہت کم ملتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
مسئلہ قضا و قدر

الٰہیات کا ایک بڑا نازک مسئلہ قضا و قدر کا مسئلہ ہے۔ جس میں عموماً بڑے بڑے آئمہ مذہب کو غلطیاں واقع ہوئیں۔ یہاں تک کہ اکابر صحابہ میں سے بھی بعض کو اشتباہ ہوا۔ طاعون عمواس کے زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب شام کا سفر کیا تو مقام سرغ میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہاں وبا کی نہایت شدت ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے واپسی کا ارادہ کیا۔ حضرت ابو عبیدہ نے اس خیال سے کہ جو ہوتا ہے قضائے الہٰی سے ہوتا ہے نہایت طیش میں آ کر کہا کہ افرارا من قدر اللہ یعنی قضا الہٰی ہی بھاگتے ہو؟

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس نازک مسئلے کو ان مختصر اور بلیغ الفاظ میں حل فرمایا۔ (یہ واقعہ مفصل طور پر صحیح مسلم باب الطاعون میں مذکور ہے)

نعم نفر من قدر اللہ الی قدر اللہ
یعنی " ہاں ہم خدا کے حکم سے خدا کے حکم کی طرف بھاگتے ہیں۔"

اسلام کا اصول شعائر اللہ کی تعظیم ہے۔ اسی بناء پر کعبہ اور حجر اسود وغیرہ کے احترام کا حکم ہے لیکن اس کی صورت صنم پرستی سے بہت کچھ ملتی جلتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ تمام مذاہب میں اسی طرح کے اصولوں سے رفتہ رفتہ صنم پرستی قائم ہو گئی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مختلف موقعوں پر لوگوں کو اس غلط فہمی میں پڑنے سے بار رکھنے کے لیے فرمایا :

انی اعلم انک حجر و انک لا تضر ولا تنفع
"میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔"
 

شمشاد

لائبریرین
تعظیم شائر اللہ

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ قول مذاق عام سے جس قدر الگ تھا اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ بہت سے محدثین نے جہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے وہاں یہ روایت بھی اضافہ کی ہے کہ اسی وقت حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کو ٹوکا اور ثابت کیا کہ حجر اسود فائدہ اور نقصان دونوں پہنچا سکتا ہے۔ کیونکہ وہ قیامت میں لوگوں کی نسبت شہادت دے گا۔ لیکن یہ اضافہ محض غلط اور بناوت ہے۔ چنانہ ناقدین فن نے اس کی تصریح کی ہے۔

ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درخت کے نیچے لوگوں سے جہاد پر بیعت لی تھی۔ اس بناء پر یہ درخت متبرک سمجھا جانے لگا اور لوگ اس کی زیارت کو آنے لگے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ دیکھ کر اس کو جڑ سے کٹوا دیا۔ (ازالتہ الخفاء حصہ دوم صفحہ 91- علامہ زرقانی نے شرح مواہب لدنیہ میں بیعت رضوان کے واقعہ کے ذکر میں لکھا ہے کہ ابن سعد نے طبقات میں اس واقعہ کو قلمبند صحیح روایت کیا ہے)۔ ایک دفعہ سفر حج سے واپس آ رہے تھے۔ راستے میں ایک مسجد تھی جس میں ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تھی۔ اس خیال سے لوگ اس طرف دوڑے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اہل کتاب انہی باتوں کی بدولت تباہ ہوئے کہ انہوں نے پیغمبروں کی یادگاروں کو عبادت گاہ بنا لیا تھا۔ (ازالۃ الخفاء حصہ دوئم صفحہ 91)۔
 

شمشاد

لائبریرین
نبی کے اقوال و افعال کہاں تک منصب نبوت سے تعلق رکھتے ہیں

نبوت کی حقیقت کی نسبت عموماً لوگ غلطی کرتے آئے ہیں اور اسلام کے زمانے میں بھی یہ سلسلہ بند نہیں ہوا۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ نبی کا ہر قول و فعل خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ بعض حضرات نے ذرا ہمت سے کام لے کر صرف معاشرت کی باتوں مو مستثنیٰ کیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نبی جو حکم منصب نبوت کے تحت نبی کی حیثیت سے دیتا ہے وہ بے شبہ خدا کر طرف سے ہوتا ہے۔ باقی امور وقت اور ضرورت کے لحاظ سے ہوتے ہیں تشریعی اور مذہبی نہیں ہوتے۔ اس مسئلے کو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بالکل صاف اور واضح کر دیا۔ خراج کی تشخیص، جزیہ کا تعین، ام ولد کی خرید و فروخت (یہ مسئلہ کہ بیع ام ولد حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بند کی یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے، صحیح یہ ہے کہ منع حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کی تشہیر فرمائی۔ محمد عبد اللہ غفرلہ مفتی خیر المدارس ملتان) وغیرہ وغیرہ مسائل کے متعلق امام شافعی نے اپنی کتابوں میں نہایت ادعا کے ساتھ احادیث سے استدلال کیا ہے اور ان مسائل میں جہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا طریق عمل مختلف ہے بڑی دلیری سے ان پر قدح کی ہے لیکن امام شافعی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ نکتہ نظر انداز کر دیا ہے کہ یہ امور منصب نبوت سے تعلق نہیں رکھتے اس لئے ان مسائل میں خود شارع علیہ السلام کی طرف سے ہر شخص کو اجتہاد کی اجازت ہے۔ چنانچہ اس بحث کی تفصیل آگے آتی ہے۔ شریعت کے احکام کے متعلق بہت بڑا اصول جو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے قائم کیا۔ یہ تھا کہ شریعت کے تمام احکام مصالح عقلی پر مبنی ہیں۔

مذہبی احکام کے متعلق شروع سے دو خیال چلے آتے ہیں۔ ایک یہ کہ ان میں عقل کا دخل نہیں، دوسرا کہ کہ اس کے تمام احکام اصول عقلی پر مبنی ہیں۔ یہی دوسرا خیال علم اسرار الدین کی بنیاد ہے۔ یہ علم اگرچہ اب مستقل فن بن گیا ہے اور شاہ ولی اللہ صاحب کی مشہور کتاب ہے )حجتہ اللہ البالغہ) خاص اسی فن میں ہے۔ تاہم ہر زمانے میں بہت کم لوگ اس اصول کو تسلیم کرتے تھے۔ جس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ دقیق فن عام طبائع کی دسترس سے باہر تھا اور کچھ یہ کہ مذہبی محویت اور دلدادگی کی بظاہر شان ہی یہ ہے کہ ہر بات بغیر چوں چرا کے مان لی جائے اور رائے و عقل سے کچھ دخل نہ دیا جائے۔
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے علم اسرار الدین کی بنیاد ڈالی

لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اسی دوسرے اصول کے قائل تھے اور وہ سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے علم اسرار الدین کی بنیاد ڈالی۔ شاہ ولی اللہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے حجتہ اللہ البالغہ میں لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ، حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ، زید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ، عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے اس علم سے بحث کی اور اس کے وجوہ ظاہر کئے (حجتہ اللہ البالغہ صفحہ 6)۔

شاہ صاحب نے جن لوگوں کا نام لیا، ان میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت 13 برس کی تھی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کس سِن (عمر) جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت دس گیارہ برس سے زیادہ نہ تھا۔ زید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ کس سِن (عمر) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے وقت 11 برس کا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت کل 18 برس کی تھیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سب بزرگ اس علم کے ترقی دینے والے ہوں گے۔ لیکن اولیت کا منصب عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ہی کو حاصل ہوا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ مسائل شریعت کی نسبت ہمیشہ مصالح اور وجوہ پر زیادہ غور کرتے تھے۔ اور اگر ان کے خیال میں کوئی مسئلہ خلاف عقل ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کر لیتے تھے۔ سفر میں جو قصر نماز کا حکم دیا گیا تھا وہ اس بناء پر تھا کہ ابتدائے اسلام میں راستے محفوظ نہ تھے اور کافروں کی طرف سے ہمیشہ خوف کا سامنا رہتا تھا۔ چنانچہ قرآن مجید میں خود ارشاد ہوتا ہے لیس علیكم جناح ان تقصر وا من الصلوة ان خفتم ان یفتنكم الذین كفروا لیكن جب راستے مامون ہو گئے تب بھی قصر کا حکم باتی رہا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اس پر استعجاب ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اب سفر میں قصر کیوں کیا جاتا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ خدا کا انعام ہے (صحیح مسلم احادیث نماز سفر)۔

حج کے اراکان میں رمل ایک رکن ہے طواف کرتے وقت تین دوڑوں میں آہستہ آہستہ دوڑتے چلے جاتے ہیں۔ اس کی ابتداء یوں ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ سے مکہ تشریف لائے تو کافروں نے مشہور کیا کہ مسلمان ایسے نحیف اور کمزور ہو گئے کہ کعبہ کا طواف بھی نہیں کر سکتے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر رمل کا حکم دیا (صحیح مسلم)۔

اس کے بعد یہ فعل معمول بہ ہو گیا چنانچہ آئمہ اربعہ اس کو حج کی ایک ضروری سنت سمجھتے ہیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ صاف کہا مالنا و للرمل انما کنار اینا بہ المشرکین و قد اھلکھم اللہ (صحیح بخاری باب الرمل) یعنی اب ہم کو رمل سے کیا غرض! اس سے مشرکوں کو رعب دلانا مقصود تھا سو ان کو خدا نے ہلاک کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جیسا کہ شاہ ولی اللہ صاحب نے حجتہ اللہ البالغہ میں لکھا ہے رمل کے ترک کا ارادہ بھی لیا تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یادگار سمجھ کر رہنے دیا۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے خاص تربیت یافتہ تھے، ان سے جب کہا گیا کہ لوگ رمل کو سنت سمجھتے ہیں کہا غلط سمجھتے ہیں (ازالتہ الخفاء صفحہ 165 حصہ دوئم)۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فقہ کے مسائل اس کثرت سے بیان کئے ہیں کہ ایک مستقل رسالہ تیار ہو سکتا ہے۔ ان تمام مسائل میں یہ خصوصیت صاف نظر آتی ہے کہ یہ مصالح عقلی کے موافق ہیں۔ اس سے بداہتہً ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس علم (اسرار الدین) کے بہت بڑے استاد اور ماہر تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اخلاق اسلامی کا محفوظ رکھنا اور ترقی دینا

منصب امامت کے لحاظ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا سب سے بڑا کارنامہ جو تھا وہ یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو جس قسم کے برگزیدہ اور پاکیزہ اخلاق کی تعلیم دی تھی اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا اصلی مقصد تھا جیسا کہ خود ارشاد فرمایا۔

لا تمم مکارم الاخلاق حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے فیض سے قوم میں وہ اخلاق محفوظ رہے اور نئی قومیں جو اسلام میں داخل ہوتی گئیں اسی اثر سے متاثر ہوتی گئیں

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ خود اسلامی اخلاق کی مجسم تصویر تھے۔ ان کا خلوص انقطاع الی اللہ لذائذ دنیا سے اجتناب حفظ لسان، حق پرستی، راست گوئی یہ اوصاف خود بخود لوگوں کے دلوں میں اثر کر جاتے تھے اور ہر شخص جو ان کی صحبت میں رہتا تھا، کم و بیش اس قالب میں ڈھل جاتا تھا۔ مسور بن مخرمہ کا بیان ہے کہ ہم اس غرض سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ رہتے تھے کہ پرہیز گاری اور تقویٰ سیکھ جائیں۔ مؤرخ مسعودی نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنی کے حالات اس جملے سے شروع کئے ہیں کہ ان میں جو اوصاف تھے وہ ان کے تمام افسروں اور عہدہ داروں میں پھیل گئے تھے۔ پھر نمونے کے طور پر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالٰی عنہ، ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ، سعید بن عامر وغیرہ کے نام اور ان کے اوصاف لکھے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فخر و غرور کا استیصال​

عرب میں جو اخلاق ذمیمہ، جاہلیت کی یادگار رہ گئے تھے وہ نسب کا فخر و غرور عام لوگوں کی تحقیر، ہجو و بد گوئی، عشق و ہوا پرستی، بادہ نوشی اور مے پرستی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان تمام بیہودہ اخلاق کا استیصال کر دیا۔ جو چیزیں فخر و غرور کی علامت تھیں، بالکل مٹا دیں۔ لڑائیوں میں قبائل اپنے قبیلوں کی جے پکارتے تھے، اس کو حکماً بند کر دیا۔ آقا اور نوکر کی جو تمیز تھی بالکل اٹھا دی۔ ایک دفعہ صفوان بن امیہ نے جب بہت سے معزز لوگوں کے ساتھ ان کی دعوت کی اور نوکروں کو کھانے پر نہیں بٹھایا تو نہایت برافروختہ ہو کر کہا کہ " خدا ان سے سمجھے جو نوکروں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔"

ایک دفعہ بہت سے لوگ ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جو بڑے رتبے کے صحابی تھے ملنے گئے۔ جب وہ مجلس سے اٹھے اور تعظیم کے لئے لوگ ان کے ساتھ ساتھ چلے، اتفاق سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ادھر آ نکلے۔ یہ حالت دیکھ کر ابی کے ایک کوڑا لگایا۔ ان کو تعجب ہوا اور کہا خیر ہے! یہ آپ کیا کرتے ہیں؟ فرمایا او ماتری فتنۃ للمتبوع مذلۃً للگابع (اسد الغابہ ترجمہ زبر قان) یعنی تم نہیں جانتے یہ امر متبوع کے لئے فتنہ اور تابع کے لئے ذلت ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ہجو کی ممانعت

ہجو و بد گوئی کا ذریعہ شعر و شاعری کا فن تھا۔ شعراء جابجا لوگوں کی ہجو لکھتے تھے اور چونکہ عرب میں شعر کو رواج عام حاصل تھا، اس لئے یہ ہجویں نہایت جلد مشتہر ہو جاتی تھیں اور ان سے سینکڑوں مفاسد پیدا ہوتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ہجو گوئی کو ایک جرم قرار دیا اور اس کے لئے سزا مقرر کی۔ چنانچہ یہ امر بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اولیات میں شمار کیا جاتا ہے۔ حطیہ اس زمانے کا مشہور شاعر تھا اور سودا کی طرح فن ہجو گوئی میں کمال رکھتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کو طلب کر کے ایک تہہ خانے میں قید کیا اور اس شرط پر چھوڑا کہ پھر کبھی کسی کی ہجو نہیں لکھے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قریش نے جب تدبیروں سے عاجز ہو کر مسلمانوں کی اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہجویں کہنی شروع کیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان کو ترکی بترکی جواب دینے کی اجازت دی تھی۔ یہ اشعار قریش کے اسلام لانے کے بعد بھی متداول تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے عہد خلافت میں حکم دیا کہ وہ نہ پڑھے جائیں کیونکہ ان سے پرانی رنجشیں تازہ ہوتی ہیں۔ (آغاز ندہ تذکرہ حسان بن ثابت 12)۔
 

شمشاد

لائبریرین
ہوس پرستی کی روک تھام

عشق و ہوس پرستی کا بھی بڑا ذریعہ یہی شعر و شاعری تھا۔ شعراء زیادہ تر رندانہ اور اوباشانہ اشعار لکھتے تھے اور ان میں اپنے معشوقوں کے نام تصریح کے ساتھ لیتے تھے۔ مذاق عام ہونے کی وجہ سے یہ اشعار بچہ بچہ کی زبان پر چڑھ جاتے تھے اور اس کی وجہ سے رندی و آوارگی ان کے خمیر میں داخل ہو جاتی تھی۔
 

شمشاد

لائبریرین
شاعری کی اصلاح

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے قطعی حکم دیا کہ شعراء عورتوں کی نسبت عشقیہ اشعار نہ لکھنے پائیں۔ چنانچہ صاحب اسد الغابہ نے حمید بن ثور کے تذکرے میں اس واقعہ کو ان الفاظ میں لکھا ہے تقدم عمر بن الخطاب الی الشعراء ان لا یتشبب احد با مراۃ الا جلدہَ
 

شمشاد

لائبریرین
شراب خوری

شراب پینے کی جو سزا پہلے سے مقرر تھی اس کو زیادہ سخت کر دیا۔ یعنی پہلے 40 درے مارے جاتے تھے۔ انہوں نے 40 سے 80 درے کر دیئے۔ ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ باوجود اس کے کہ اس زمانے میں دولت کی کثرت اور فتوحات کی وسعت کی وجہ سے عیش و عشرت کے لئے بے انتہا سامان مہیا ہو گئے تھے۔ تاہم لوگ عیس و عشرت میں مبتلا نہ ہونے پائے اور جس پاک اور مقدس زندگی کی بنیاد شارع علیہ السلام نے ڈالی تھی وہ اسی استواری کے ساتھ قائم رہی۔
 

شمشاد

لائبریرین
آزادی اور حق گوئی قائم رکھنا

اخلاق کی پختگی اور استواری کا اصلی سر چشمہ آزادی اور خودداری ہے۔ اس لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس پر بہت توجہ کی اور یہ وہ خصوصیت ہے جو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی کے سوا اور خلفا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ بنو امیہ تو شروع ہی سے آزادی کے دشمن نکلے۔ یہاں تک کہ عبد الملک نے قطع حکم دے دیا کہ کوئی شخص اس کے احکام پر زبان نہ کھولنے پائے۔ حضرت عثمان و حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہم نے البتہ آزادی سے تعرض نہیں کیا۔ لیکن اس کے خطرات کی روک تھام نہ کر سکے جس کی بدولت حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت تک نوبت پہنچی اور جناب امیر کو جمل و صفین کے معرکے پیش آئے۔ برخلاف اس کے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نہایت اعلٰی درجہ کی آزادی قائم رکھنے کے باوجود حکومت کے جبروت میں ذرا کمی نہ آنے دی۔

مختلف موقعوں پر تحریر و تقریر سے جتا دیا کہ ہر شخص ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہوا ہے اور ادنٰی سے ادنٰی آدمی بھی کسی کے آگے ذلیل ہو کر نہیں رہ سکتا۔ عمرو بن العاص کے معزز فرزند نے جب ایک قبطی کو بے وجہ مارا تو خود اسی کے ہاتھ سے مجمع عام میں سزا دلوائی اور عمرو بن العاص اور ان کے بیٹے کی طرف مخاطب ہو کر یہ الفاظ کہے۔

منذکم تعبد تم الناس و قد ولدتھم امھاتھم احرارا۔
"یعنی تم لوگوں نے آدمیوں کو غلام کب سے بنا لیا۔ ان کی ماؤں نے تو ان کو آزاد جنا تھا۔"

عرب میں جو لوگ ان کو معزز ہوتے تھے وہ اپنے قبیلہ کے سید یعنی آقا کہلاتے تھے اور ان سے کم رتبہ کے لوگ ان الفاظ سے مخاطب کرتے تھے۔ جعلنی اللہ فدائک بابی و امی۔ یعنی خدا مجھ کر آپ پر قربان کر دے۔ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔

چونکہ ان الفاظ سے غلامی اور محکومی کی بو آتی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مختلف موقعوں پر ان کی نسبت ناراضگی ظاہر کی۔ ایک شخص نے خود ان کی شان میں کہا تھا کہ جعلنی فداءک تو فرمایا کہ ان یھینک اللہ یعنی اگر تو ایسا کرے گا تو خدا تجھ کو ذلیل کرے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اس طریق عمل نے لوگوں کو جس قدر آزادی اور صاف گوئی پر دلیر کر دیا تھا اس کا صحیح اندازہ ذیل کے واقعات سے ہو گا۔

ایک دفعہ انہوں نے منبر پر چڑھ کر کہا۔ صاحبو! اگر میں دنیا کی طرف جھک جاؤں تو تم لوگ کیا کرو گے۔ ایک شخص کھڑا ہو گیا اور تلوار میان سے کھینچ کر بولا کہ " تمہارا سر اڑا دیں گے" حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آزمانے کو ڈانٹ کر کہا "کیا میری شان میں تو یہ الفاظ کہتا ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں تمہاری شان میں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا " الحمد للہ قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ میں کج ہوں گا تو سیدھا کر دیں گے۔"

عراق کی فتح کے بعد اکثر بزرگوں نے عیسائی عورتوں سے شادیاں کر لی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حذیفہ بن الیمان کو لکھا کہ میں اس کو ناپسند کرتا ہوں۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ حکم آپ کی ذاتی رائے ہے یا شرعی حکم ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے لکھا کہ میری ذاتی رائے ہے۔ حذیفہ نے لکھ بھیجا کہ آپ کی ذاتی رائے کی پابندی ہم لوگوں پر ضروری نہیں۔ چنانچہ باوجود حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ممانعت کے کثرت سے لوگوں نے شادیاں کیں۔ مؤرخ یعقوبی نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تمام عمالوں کا مال و اسباب نیلام کر کے آدھا مال بیت المال میں داخل کر دیا تو ایک عامل نے جس کا نام ابو بکرہ تھا صاف کہا کہ اگر یہ مال خدا کا تھا تو کل بیت المال میں داخل کرنا چاہیے تھا اور ہمارا تھا تو اس سے تم کو لینے کا کیا حق تھا؟

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تقلید اور ان کی تعلیم و تربیت کا یہ اثر ہوا کہ جماعت اسلامی کا ہر ممبر پاکیزہ نفسی، نیک خوئی، حلم و تواضع، جرأت مندی و آزادی، حق پرستی و بے نیازی کی تصویر بن گیا۔ تاریخ کے مرقع میں اس وقت کی مجالس اور محافل کا نقشہ دیکھو تو ہر شخص کے حلیہ میں یہ خط و خال صاف نظر آتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
اجتہاد کی حیثیت محدث و فقیہ ہونا، اجتہاد ے منصب حدیث و فقہ

حدیث و فقہ کا فن درحقیقت تمام تر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ساختہ و پرواختہ ہے۔ صحابہ رضوان اللہ تعالٰی علیہم میں اور لوگ بھی محدث اور فقیہ تھے۔ چنانچہ ان کی تعداد 20 سے متجاوز بیان کی گئی ہے۔ لیکن فن کی ابتداء حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہوئی اور فن کے اصول و قواعد اول انہوں نے ہی قائم کئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
احادیث کا تفحص

حدیث کے متعلق پہلا کام جو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کیا وہ یہ تھا کہ روایتوں کی تفحص و تلاش پر توجہ کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں احادیث کے اسقصاء کا خیال نہیں کیا گیا تھا۔ جس کو کوئی مسئلہ پیش آتا تھا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کر لیتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ کسی صحابی کو فقہ کے تمام ابواب کے متعلق حدیثیں محفوظ نہ تھیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں زیادہ ضرورتیں پیش آئیں۔ اس لئے مختلف صحابہ سے استفسار کرنے کی ضرورت پیش آئی اور احادیث کے استقراء کا راستہ نکلا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں زیادہ کثرت سے واقعات پیش آئے کیونکہ فتوحات کی وسعت اور نو مسلمون کی کثرت نے سینکڑوں نئے مسائل پیدا کر دیئے تھے۔ اس لحاظ سے انہوں نے احادیث کی زیادہ تفتیش کی تا کہ مسائل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کے موافق طے کئے جائیں۔ اکثر ایسا ہوتا کہ جب کوئی نئی صورت پیش آتی، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ مجمع عام میں جس میں اکثر صحابہ موجود ہوتے تھے پکار کر کہتے کہ اس مسئلے کے متعلق کسی کو کوئی حدیث معلوم ہے؟ تکبیر جنازہ، غسل جنابت، جزیہ مجوس اور اس قسم کے بہت سے مسائل ہیں جن کی نسبت کتب احادیث میں نہایت تفصیل مذکور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مجمع صحابہ سے استفسار کر کے احادیث نبوی کا پتہ لگایا۔
 

شمشاد

لائبریرین
حدیث کی اشاعت

چونکہ حدیث جس قدر زیادہ شائع و مشتہر کی جائے اسی قدر اس کو قوت حاصل ہوتی ہے اور پچھلوں کے لئے قابل استناد قرار پاتی ہے۔ اس لئے اس کی نشر و اشاعت کی بہت سی تدبیریں اختیار کیں۔

۱ – احادیث نبوی کو بالفاظہا نقل کر کے اضلاع کے حکام کے پاس بھیجتے تھے جس سے ان کی عام اشاعت ہو جاتی تھی۔ یہ حدیثیں اکثر مسائل اور احکام کے متعلق ہوتی تھیں۔

2 – صحابہ میں جو لوگ فن حدیث کے ارکان تھے۔ ان کو مختلف ممالک میں حدیث کی تعلیم کے لئے بھیجا۔ شاہ ولی اللہ صاحب لکھتے ہیں چنانچہ فاروق اعظم عبد اللہ بن مسعود رلبا جمعے بکوفہ فرستاد، معقل بن یسار و عبد اللہ بن معقل و عمران بن حصین رابہ بصرہ، عبادہ بن صامت و ابو دردا را شام معاویہ بن ابی سفیان کہ امیر شام بود قدغن بلیغ نوشت کہ از حدیث ایشان تجاوز نکند (ازالۃ اخفاء صفحہ 6 حصہ دوم)۔
 

شمشاد

لائبریرین
ایک دقیق نکتہ

اس موقع پر ایک دقیق نکتہ خیال رکھنے کے قابل ہے۔ وہ یہ ہے کہ عام خیال یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حدیث کی اشاعت میں بہت کچھ اہتمام کیا لیکن خود بہت کم حدیثیں روایت کیں۔ چنانچہ کل وہ مرفوع احادیث ۔۔۔۔ جو ان سے بروایت صحیح مروی ہین ستر سے زیادہ نہیں۔ یہ خیال بظاہر صحیح ہے۔ لیکن واقع میں یہاں ایک غلط فہمی ہے۔ محدثین کے نزدیک یہ اصول مسلم ہے کہ صحابی جب کوئی ایسا مسئلہ بیان کرے جس میں رائے اور اجتہاد کو دخل نہیں تو گو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہ لے لیکن مطلب یہی ہو گا کہ اس نے رسول اللہ سے سنا ہے اور واقع میں یہ اصول بالکل عقل کے مطابق ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مثلاً تمام ممالك میں لكه بهیجا كه زكوٰۃ فلاں فلاں چیزوں پر فرض ہے اور اس حساب سے فرض ہے۔ تو اس احتمال کا محل نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ خود شارع ہیں اور اپنی طرف سے احکام صادر کرتے ہیں۔ لامحالہ اس کے یہی معنی ہوں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کے متعلق احکام صادر فرمائے تھے، زیادہ سے زیادہ اس احتمال کا موقع باقی رہتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حدیث کا مطلب صحیح نہیں سمجھا اور اس لئے ممکن کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقدار کی تعداد کو فرض نہ کیا ہو بلکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کو اپنی فہم کے مطابق فرض سمجھا ہے لیکن یہ احتمال خود ان احادیث میں بھی قائم رہتا ہے جن میں صحابی نے علانیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیا ہو۔

اس اصول کی بناء پر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خطبوں میں، تحریری ہدایتوں میں، فرامین میں، نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ کے متعلق جو اصولی مسائل بیان کئے وہ درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام ہیں۔ گو انہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہ لیا ہو۔

شاہ ولی اللہ صاحب تحریر فرماتے ہیں ہفتم آنکہ مضمون احادیث در خطب خود ارشاد فرمایند تا اصل احادیث بآں موقوف خلیفہ قوت یا بدینکہ بغور سخن نمیر سند در ہندانکہ در متفق علیہ از حضرت صدیق صحیح شد مگر شش حدیث و از فاروق اعظم بہ صحت نرسید مگر قریب ہفتا و حدیث ایں رانمی فمہند و نمی دانند کہ حضرت فاروق تمام علم حدیث را اجمالاً تقویت داوہ اعلان نمودہ۔
 

شمشاد

لائبریرین
احادیث میں فرق مراتب

حدیث کے حقحص و جستجو اور اشاعت و ترویج کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جو کچھ کیا اگرچہ وہ خود مہتم بالشان کام تھا۔ لیکن اس باب میں ان کی فضیلت کا اصلی کارنامہ ایک اور چیز ہے جو انہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ احادیث کی طرف اس وقت جو میلان عام تھا وہ خود بخود احادیث کی اشاعت کا بڑا سبب تھا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس میں جو نکتہ سنجیاں کیں اور فرق مراتب پیدا کیا اس پر کسی کی نگاہ نہیں پڑی تھی۔ سب سے پہلے انہوں نے اس پر توجہ دی کہ احادیث میں زیادہ قابل اعتناء کسی قسم کی حدیثیں ہیں؟ کیونکہ گو، رسول اللہ کا ہر قول و فعل عقیدت کیشوں کے لئے گنجینہ مراد ہے، لیکن یہ ظاہر ہے کہ ایک دوسرے پر فضیلت ہے۔ اس بناء پر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تمام تر توجہ ان احادیث کی روایت اور اشاعت پر مبذول کی جن سے عبادت یا اخلاق کے مسائل مستنبط ہوتے تھے جو حدیثیں ان مضامین سے الگ تھیں ان کی روایت کے ساتھ چنداں اعتناء نہیں کیا۔ اس میں ایک بڑا نکتہ یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اقوال و افعال جو منصب رسالت سے تعلق رکھتے ہیں اور جو بشری حیثیت سے متعلق ہیں باہم مختلط نہ ہونے پائیں۔ شاہ ولی اللہ صاحب لکھتے ہیں " باستقراء تمام معلوم شد کہ فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نظر دقیق و تفریق میان احادیث کہ بہ تبلیغ شرائع و تکمیل افراد بشر تعلق دارد، از غیر آں مصروف می ساخت، لہٰذا احادیث شمائل آنحضرت صلعم و احادیث سنن زوائد در لباس و عادات کمتر روایت می کرد بدووجہ یکے آنکہ اینھااز علوم تکلیفیہ و تشریعیہ نیستِ از سنن زوائد بہ سنن ہدیٰ مشتبہ گرود۔" (ازالۃ اخفاء حصہ دوم صفحہ 141)۔

سب سے بڑا کام جو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس فن کے متعلق کیا، وہ حدیثوں کے تحقیق و تنقید اور فن جرح و تعدیل کا ایجاد کرنا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
روایت کی چھان بین

آج کل بلکہ مدت مدید سے یہ حالت ہے کہ جو چیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دی جاتی ہے گو صحیح نہ ہو اس کو فوراً رواج اور قبول عام حاصل ہو جاتا ہے۔ اسی بناء پر یہودیوں کی تمام مزخرفات احادیث نبوی کے مجموعہ میں شامل ہو گئیں۔ محدثین نے اتنا کیا کہ جرح و تعدیل کے روک ٹوک کے ذریعے سے روک دیا۔ لیکن جب کسی راوی کی تعدیل ان کے نزدیک ثابت ہو جاتی تھی تو پھر اس پر ان کی زیادہ توجہ نہیں ہوتی تھی۔ اس کے ساتھ قرون اول کی نسبت انہوں نے یہ عام کلیہ قائم کر لیا تھا کہ کسی روایت میں ضعف کا احتمال نہیں ہو سکتا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس نکتہ سے واقف تھے کہ جو چیزیں خصائص بشری ہیں ان سے کوئی زمانہ مشتثنیٰ نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لئے وہ احادیث کی چھان بین میں تمام وہی احتمالات ملحوظ رکھتے تھے جو محدثین نے زمانہ مابعد میں پیدا کئے۔

ایک دفعہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ ان سے ملنے آئے اور تین دفعہ استیذان کے طور پر کہا، کہ " السلام علیکم ابو موسیٰ حاضر ہے۔"

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس وقت کسی کام میں مصروف تھے اس لئے متوجہ نہ ہو سکے۔ کام سے فارغ ہو چکے تو فرمایا کہ ابو موسیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ کہاں ہیں؟ وہ آئے تو تو پوچھا کہ تم کیوں واپس گئے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ تین دفعہ اذن مانگو۔ اگر پھر بھی اجازت نہ ملے تو واپس چلے جاؤ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا اس روایت کا ثبوت دو۔ ورنہ میں تم کو سزا دوں گا۔

ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ صحابہ کے پاس گئے اور حقیقت بیان کی۔ چنانچہ ابو سعید نے آ کر شہادت دی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے۔ حضرت ابی ابن کعب نے کہا کہ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ! تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو عذاب دینا چاہتے ہو؟ فرمایا کہ میں نے ایک روایت سنی اور تصدیق کرنی چاہی۔ (یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ متعدد طریق سے صحیح مسلم باب الاستیذان میں مذکور ہے)۔ فقہ کا ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے کہ جس عورت کو طلاق بائن دی جائے اس کو عدت کے زمانے تک نان و نفقہ ملنا چاہیے یا نہیں؟

قرآن مجید میں ہے کہ اسکنوھن مین حیث سکنتم جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مکان ملنا چاہیے اور مکان کے ساتھ نفقہ خود ایک لازمی چیز ہے۔ فاطمہ بنت قیس ایک صحابیہ تھی۔ ان کو ان کے شوہر نے طلاق بائن دی۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں کہ مجھ کو نان نفقہ کا حق ہے یا نہیں، ان کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " نہیں " فاطمہ نے یہ روایت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سامنے بیان کی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہ لانترک کتاب اللہ بقول امراۃ لاندری لعلھا حفظت اونسیت یعنی ہم قرآن کو ایک عورت کے کہنے سے نہیں چھوڑ سکتے۔ معلوم نہین اس کو حدیث یاد رہی یا نہیں۔

سقط کا مسئلہ پیش آیا تو حضرت عمر رضی الله تعالٰی عنہ نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی عنہم سے مشورہ کیا۔ مغیرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کے متعلق ایک حدیث روایت کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا اگر تم سچے ہو تو اور کوئی گواہ لاؤ۔ چنانچہ جب محمد بن مسلمہ نے تصدیق کی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی نے تسلیم کیا۔ اسی طرح حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مقدمہ میں جب ایک حدیث پیش کی گئی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ تائیدی شہادت طلب کی اور جب بہت سے لوگوں نے شہادت دی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ گو مجھ کو تمہاری طرف سے بدگمانی نہ تھی۔ لیکن میں نے حدیث کی نسبت اپنا اطمینان کرنا چاہا۔ (یہ دونوں روایتیں تذکرہ الحفاظ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حال میں مذکور ہیں)۔
 

شمشاد

لائبریرین
کثرت روایت سے روکنا

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو چونکہ اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ روایت میں خواہ مخواہ کمی بیشی ہو جاتی ہے۔ اس لئے روایت کے بارے میں سخت احتیاط شروع کی۔ اس کے متعلق انہوں نے جو بندشیں کیں آج کل لوگوں کو ان پر مشکل سے یقین آ سکتا ہے۔ اس لئے میں اس موقع پر خود کچھ نہ لکھوں گا۔ بلکہ بڑے بڑے محدثین نے جو لکھا ہے اس کو نقل کر کے لفظی ترجمہ کر دوں گا۔ علامہ ذہبی نے جس سے بڑھ کر ان کے بعد کوئی محدث نہیں کزرا اور جو حافظ اب حجر و سخاوی وغیرہ کے شیخ الشیوخ ہیں۔ تذکرۃ الحفاظ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حالات میں لکھتے ہیں۔

وقد کان عمر من وجلہ ان یخطی الصاھب علی رسول اللہ یامرھم ان یقلوا الروایۃ عن بیھم الثلا یتشاغل بالاحادیث عن حفظ القرآن عن قرظۃ بن کعب قال لما سیرنا عمر الی العراق۔ مشی معنا عمرو قال اتدرون لما شیعتکم قالو انعم مکرمۃ لنا۔ قال ومع ذالک و انکم تاتون احل قریۃ لھم دوی بالقرآن کدوی النحل فلا تصدوھم بالاحادیث فتشغلوھم جردوا القرآن و اقلو الروایۃ عن رسول اللہ و انا شریککم فلما قدم قرظۃ قالوا حدثنا فقال نہانا عمر عن ابی سلمۃ عن ابی ھریرۃ قلت لہ کنت تحدث فی زمان عمر ھکذا فقال لو کنت احدث فی زمان عمر مثل مااحدثکم فضربنی بمخفقۃ ان عمر جس ثلثۃ ابن مسعود و ابا لدرداء ابا مسعود الانصاری رقال قد اکثرتم الحدیث عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔

یعنی " حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس ڈر سے کہ صحابہ کرام روایت کرنے میں غلطی نہ کریں صحابہ کر حکم دیتے تھے کہ رسول اللہ سے کم روایت کریں تا کہ لوگ حدیث میں مشغول ہو کر قرآن کے یاد کرنے سے غافل نہ ہو جائیں۔ قرظہ بن کعب سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ہم کو عراق پر روانہ کیا تو خود مشایعت کو نکلے اور کہا کہ تم کو معلوم ہے کہ میں کیوں تمہارے ساتھ ساتھ آیا ہوں؟ لوگوں نے کہا ہماری عزت بڑھانے کو، فرمایا کہ ہاں لیکن اس کے ساتھ یہ غرض بھی ہے کہ تم لوگ ایسے مقام میں جاتے ہو جہاں کے لوگوں کی آواز شہد کی مکھیوں کی طرح قرآن پڑھنے میں گونجتی رہتی ہے تو ان کو حدیثوں میں نہ پھنسا لینا۔ قرآن میں آمیزش نہ کرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کم روایت کرو اور میں تمہارا شریک ہوں۔ پس جب قرظہ وہاں پہنچے تو لوگوں نے کہا کہ حدیث بیان کیجیئے۔ انہوں نے کہا کہ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ہم کو منع کیا ہے۔ ابو سلمہ کہتے ہیں کہ ہم نے ابو ہریرہ سے پوچھا کہ آپ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں بھی اسی طرح حدیثیں روایت کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں ایسا کرتا تو عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ مجھ کو درے سے مارتے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کو محبوس کیا اور کہا کہ تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت حدیثیں روایت کرنی شروع کر دی ہیں۔

مسند دارمی میں قرظہ بن کعب کی روایت کو نقل کر کے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ مطلب تھا کہ غزوات کے متعلق کم روایت کی جائے۔ اس سے فرائض اور سنن مقصود نہیں۔

شاہ ولی اللہ صاحب دارمی کے قول کو نقل کر کے لکھتے ہیں، میرے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شمائل اور عادات کی حدیثیں مراد ہیں۔ کیونکہ ان سے کوئی غرض شرعی متعلق نہیں یا وہ حدیثیں مقصود ہیں جن کے حفظ اور ضبط میں کافی اہتمام نہیں کیا گیا (ازالتہ اخفاء صفحہ 141 حصہ دوم)۔

ہمارے نزدیک ان تاویلات کی ضرورت نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مقصد خود انہی کی تصریح سے معلوم ہو سکتا ہے۔ مؤرخ بلاذری نے جو محدث بھی ہیں، انساب الاشراف میں روایت کی ہے کہ لوگوں نے ان سے کوئی مسئلہ پوچھا تو فرمایا۔

لو لا انی اکرہ ان ازید فی الحدیث او انقص لحدثتکم بہ۔

یعنی " اگر مجھے ڈر نہ ہوتا کہ حدیث کی روایت کرنے میں مجھ سے کچھ کمی بیشی ہو جائے گی تو میں حدیث بیان کرتا۔"

مؤرخ مذکور نے اس روایت کو بسند متصل روایت کیا ہے اور رواۃ یہ ہیں۔ محمد بن سعد، عبد الحمید بن عبد الرحمٰن الحمافی، نعمان بن ثابت (ابو حنیفہ)، موسی بن طلحہ، ابو الحوتکیہ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اپنی نسبت جو ڈر تھا وہی اوروں کی نسبت بھی ہونا چاہیے تھا۔ اس خیال کی تصدیق اس سے اور زیادہ ہوتی ہے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ جو مقامات علمی میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے تربیت یافتہ خاص تھے ان کی نسبت محدثین نے لکھا ہے کہ۔

یشدد فی الرویۃ و یزجر تلامذتہ عن التھاون فی ضبط الالفاظ (تذکرہ الحفاظ تذکرہ عبد اللہ بن مسعود)

یعنی "وہ روایت میں سختی کرتے تھے اور اپنے شاگردوں کو ڈانٹتے رہتے تھے کہ الفاظ حدیث کے محفوظ رکھنے میں بے پرواہی نہ کریں۔"

محدثین نے بھی لکھا ہے کہ وہ کم حدیثیں روایت کرتے تھے یہاں تک کہ سال سال بھر قال رسول نہیں کہتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو روایت کے بارے میں جو احتیاط تھی اگرچہ ان سے پہلے بھی اکابر صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کو تھی۔ علامہ ذہبی نے تذکرہ الحفاظ میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حال میں لکھا ہے کہ سب سے پہلے جس نے احادیث کے باب میں احتیاط کی وہ ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے۔ علامہ موصوف نے حاکم سے یہ بھی روایت کیا ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے 500/ حدیثیں قلمبند کی تھیں۔ لیکن پھر ان کو آگ میں جلا دیا اور کہا کہ ممکن ہے کہ میں نے ایک شخص کو ثقہ سمجھ کر اس کے ذریعہ سے روایت کی ہو اور وہ درحقیقت ثقہ نہ ہو، لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی احتیاط اور دیگر صحابہ رضوان اللہ تعالٰی علیہم کی احتیاط میں فرق تھا اور صحابہ صرف راوی کے ثقہ اور عدم ثقہ ہونے کا لحاظ رکھتے تھے کہ راوی نے واقعہ کی پوری حقیقیت سمجھی یا نہیں۔ حضرت عائشہ نے اسی بناء پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ پر اکثر مواخذات کئے ورنہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ثقہ ہونے میں ان کو بھی کلام نہ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روک ٹوک اور ضبط و احتیاط سے اگرچہ یہ نتیجہ ضروری ہوا کہ حدیثیں کم روایت کی گئیں۔ لیکن وہ ہر قسم کے احتمالات سے بے داغ تھیں۔ ان کے بعد اگرچہ احادیث کو بہت وسعت ہو گئی لیکن وہ اعتماد اور قوت کا وہ پایہ نہ رہا۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے نہایت سچ لکھا ہے کہ " ہر چند جمع صحابہ عدول اندو روایت ہمہ مقبول، عمل بموجب آنچہ بروایت صدوق ازایشاں ثابت شود، لازم، اما درمیان آنچہ از حدیث و فقہ درز من فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ بود، آنچہ بعد وے حدث شدہ فرق مابین السموت والارض است۔" (ازالۃ الخفاء صفحہ 141)۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top