شمشاد
لائبریرین
شام کا سفر اور رعایا کی خبر گیری
ان تمام باتوں پر بھی ان کو تسلی نہ ہوئی تھی۔ فرماتے کہ عمال رعایا کی پرواہ نہیں کرتے اور ہر شخص مجھ تک پہنچ نہیں سکتا۔ اس بناء پر ارادہ کیا تھا کہ شام، جزیرہ، کوفہ اور بصرہ کا دورہ کریں اور ہر جگہ دو دو مہینے ٹھہریں۔ لیکن موت نے فرصت نہ دی۔ تاہم اخیر دفعہ جب شام کا سفر کیا تو ایک ایک ضلع میں ٹھہر کر لوگوں کی شکایتیں سنیں اور داد رسی کی۔ اس سفر میں ایک پرعبرت واقعہ پیش آیا۔ دارالخلافہ کو واپس آ رہے تھے کہ راہ میں ایک خیمہ دیکھا۔ سواری سے اتر کر خیمہ کے قریب گئے۔ ایک بڑھیا عورت نظر آئی۔ اس سے پوچھا عمر کا کچھ حال معلوم ہوا؟
اس نے کہا ہاں شام سے روانہ ہو چکا لیکن خدا اس کو غارت کرے۔ آج تک مجھ کو اس کے ہاں سے ایک حبہ بھی نہیں ملا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا، اتنی دور کا حال عمر کو کیونکر معلوم ہو سکتا ہے۔
بولی کہ " اس کو رعایا کا حال معلوم نہیں تو خلافت کیوں کرتا ہے" حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو سخت رقت ہوئی اور بے اختیار رو پڑے۔ ہم اس موقع پر متعدد حکایتیں نقل کرتے ہیں جس سے اندازہ ہو گا کہ رعایا کے آرام و آسائش اور خبر گیری میں ان کو کس قدر سرگرمی اور ہمدردی تھی۔
ایک دفعہ ایک قافلہ مدینہ منورہ میں آیا اور شہر کے باہر اترا۔ اس کی خبر گیری اور حفاظت کے لئے خود تشریف لے گئے۔ پہرہ دیتے پھرتے تھے کہ ایک طرف سے رونے کی آواز آئی۔ ادھر متوجہ ہوئے، دیکھا تو ایک شیر خوار بچہ ماں کی گود میں رہ رہا تھا۔ ماں کو تاکید کی کہ بچے کو بہلائے۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر ادھر سے گزر ہوا تو بچے جو روتا پایا۔ غیظ میں آ کر فرمایا کہ تو بڑی بے رحم ماں ہے۔
اس نے کہا کہ تم کو اصل حقیقت معلوم نہیں، خواہ مخواہ مجھ کو دق کرتے ہو۔ بات یہ ہے کہ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حکم دیا ہے کہ بچے جب تک ماں کا دودھ نہ چھوڑیں، بیت المال سے اس کا وظیفہ مقرر نہ کیا جائے۔ میں اس غرض سے اس کا دودھ چھڑاتی ہوں اور یہ اس وجہ سے روتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو رقت ہوئی اور کہا کہ ہائے عمر! تو نے کتنے بچوں کا خون کیا ہو گا۔ اسی دن سے منادی کرا دی کہ بچے جس دن سے پیدا ہوں اسی تاریخ سے ان کے روزینے مقرر کر دیئے جائیں گے۔ اسلم (حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا غلام) کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ رات کو گشت کے لئے نکلے۔ مدینہ سے تین میل پر صرار نامی ایک مقام ہے۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ایک عورت کچھ پکا رہی ہے اور دو تین بچے رو رہے ہیں۔ پاس جا کر حقیقت حال دریافت کی۔ اس نے کہا کہ کئی وقتوں سے بچوں کو کھانا نہیں ملا۔ ان کے بہلانے کے لئے خالی ہانڈی میں پانی ڈال کر چڑھا دی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اسی وقت اٹھے۔ مدینہ میں آ کر بیت المال سے آٹا، گوشت، گھی اور کھجوریں لیں اور اسلم سے کہا کہ میرے پیٹھ پر رکھ دو۔ اسلم نے کہا کہ میں لئے چلتا ہوں۔ فرمایا ہاں! لیکن قیامت کے روز میرا بار تم نہیں اٹھاؤ گے۔ غرض سب چیزیں خود اٹھا کر لائے اور عورت کے آگے رکھ دیں۔ ان نے آٹا گوندھا، ہانڈی چڑھائی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ خود چولہا پھونکتے جاتے تھے۔ کھانا تیار ہوا تو بچوں نے خوب سیر ہو کر کھایا اور اچھلنے کودنےلگے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بچوں کو دیکھتے تھے اور خوش ہوتے تھے۔ عورت نے کہا، خدا تم کو جزائے خیر دے۔ سچ یہ ہے کہ امیر المومنین ہونے کے قابل تم ہو نہ کہ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ۔
ایک دفعہ رات کو گشت کر رہے تھے کہ ایک بدو اپنے خیمہ سے باہر زمین پر بیٹھا ہوا تھا۔ پاس جا کر بیٹھے اور ادھر ادھر کی باتیں شروع کیں۔ دفعتہً خیمہ سے رونے کی آواز آئی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پوچھا کہ کون روتا ہے؟ اس نے کہا کہ میری بیوی درد زہ میں مبتلا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ گھر پر آئے اور اور ام کلثوم (حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زوجہ تھیں) کو ساتھ لیا۔ بدو سے اجازے لے کر ام کلثوم کو خیمہ میں بھیجا۔ تھوڑی دیر بعد بچہ پیدا ہوا۔ ام کلثوم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو پکارا کہ امیر المومنین اپنے دوست کو مبارکباد دیجیئے۔ امیر المومنین کا لفظ سن کر بدو چونک پڑا اور مؤدب ہو کر بیٹھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ نہیں کچھ خیال نہ کرو۔ کل میرے پاس آنا میں اس بچہ کی تنخواہ مقرر کر دوں گا۔
عبد الرحمٰن بن عوف کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ رات کو میرے مکان پر آئے۔ میں نے کہا آپ نے کیوں تکلیف کی۔ مجھ کو بلا لیا ہوتا۔ فرمایا کہ ابھی مجھے معلوم ہوا ہے کہ شہر سے باہر ایک قافلہ اترا ہے۔ لوگ تھکے ماندے ہوں گے۔ آؤ ہم تم چل کر پہرہ دیں۔ چنانچہ دونوں اصحاب گئے اور رات بھر پہرہ دیتے رہے۔
جس سال عرب میں قحط پڑا، ان کی عجیب حالت ہوئی۔ جب تک قحط رہا، گوشت، گھی، مچھلی، غرض کوئی لذیذ چیا نہ کھائی۔ نہایت خضوع سے دعائیں مانگتے تھے کہ " اے خدا! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو میری شامت اعمال سے تباہ نہ کرنا۔" اسلم، ان کے غلام، کا بیان ہے کہ قحط کے زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو جو فکر و تردد رہتا تھا اور اس سے قیاس کیا جاتا تھا کہ اگر قحط رفع نہ ہوا تو وہ اسی غم میں تباہ ہو جائیں گے (یہ تمام روایتیں کنز العمال جلد 6 صفحہ 343 میں مستند حوالوں سے منقول ہیں)۔ قحط کا جو انتظام حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کیا تھا اس کو ہم اوپر لکھ آئے ہیں۔
ایک دفعہ ایک بدو ان کے پاس آیا، اور یہ اشعار پڑھے :
یا عمر الخیر خیر الجنۃ اکس
بناتی و امھنہ اقسم باللہ لتفعلنہ
بناتی و امھنہ اقسم باللہ لتفعلنہ
"اے عمر! لطف اگر ہے تو جنت کا ہے۔ میری لڑکیوں کو کپڑے پہنا۔ خدا کی قسم تجھ کو یہ کرنا ہو گا۔"
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا اور میں تمہارا کہنا نہ کروں تو کیا ہو گا۔ بدو نے کہا
تکون عن حالی لتسئلنہ والواقف المسئول یبھتنہ اما الی نار و اما جنۃ
"تجھ سے قیامت کے روز میری نسبت سوال ہو گا اور تو ہکا بکا رہ جائے گا۔ پھر یا دوزخ کی طرف یا بہشت کی طرف جانا ہوگا۔"
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس قدر روئے کہ داڑھی تر ہو گئی۔ غلام سے کہا کہ میرا یہ کرتا اس کو دے۔ اس وقت اس کے سوا اور کوئی چیز میرے پاس نہیں۔ (سیرۃ العمرین و ازالتہ اخفاء)۔
ایک دفعہ رات کو گشت کر رہے تھے کہ ایک عورت اپنے بالا خانے پر بیٹھی یہ اشعار گا رہی تھی۔
تطاول ھذا الیل وازور جانبہ
و لیس الی جنبی خلیل الاعبہ
و لیس الی جنبی خلیل الاعبہ
"رات کالی ہے اور لمبی ہوتی جا رہی ہے اور میرے پہلو میں میرا دوست نہیں، جس سے خوش فعلی کروں۔"
اس عورت کا شوہر جہاد پر گیا ہوا تھا اور وہ اس کے فراق میں یہ درد انگیز اشعار پڑھ رہی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو سخت قلق ہوا ارو کہا کہ میں زنان عرب پر بڑا ظلم کیا ہے۔ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے پاس آئے اور پوچھا کہ عورت کتنے دن مرد کے بغیر بسر کر سکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ چار مہینے۔ صبح ہوتے ہی ہر جگہ حکم بھیج دیا کہ کوئی سپاہی چار مہینے سے زیادہ باہر نہ رہنے پائے۔
سعید بن یربوع ایک صحابی تھے جن کی آنکھیں جاتی رہی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان سے کہا کہ آپ جمعہ میں کیوں نہیں آتے۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس آدمی نہیں کہ مجھ کو راستہ بتائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک آدمی مقرر کیا جو ہمیشہ ان کے ساتھ ساتھ رہتا تھا۔ (اسد الغلبہ تذکرہ سعد بن یربوع)۔
ایک دفعہ لوگوں کو کھانا کھلا رہے تھے۔ ایک شخص کو دیکھا بائیں ہاتھ سے کھا رہا ہے۔ پاس جا کر کہا کہ دہنے ہاتھ سے کھاؤ۔ اس نے کہا جنگ موتہ میں میرا دایاں ہاتھ جاتا رہا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو رقت ہوئی۔ اس کے برابر بیٹھ گئے اور رو رو کر کہنے لگے کہ افسوس تم کو وضو کون کراتا ہو گا۔ سر کون دھوتا ہو گا؟ کپڑے کون پہناتا ہو گا؟ پھر ایک نوکر مقرر کر دیا اور اس کے لئے تمام ضروری چیزیں خود مہیا کر دیں۔