حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی کی شہادت
(26 ذوالحجہ 23 ہجری – 644 عیسوی)
(کل مدت خلافت دس برس چھ مہینے چار دن)
مدینہ منورہ میں فیروز نامی ایک پارسی غلام تھا۔ جس کی کنیت ابو لولو تھی، اس نے ایک دن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے آ کر شکایت کی کہ میرے آقا مغیرہ بن شعبہ نے مجھ پر بہت بھاری محصول مقرر کیا ہے۔ آپ کم کرا دیجئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تعداد پوچھی۔ اس نے کہا روزانہ دو درہم (قریباً سات آنے)۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پوچھا، تو کون سا پیشہ کرتا ہے، بولا کہ "نجاری نقاشی، آہنگری" فرمایا کہ " ان صنعتوں کے مقابلہ میں رقم کچھ بہت نہیں ہے۔ فیروز دل میں سخت ناراض ہو کر چلا گیا۔
دوسرے دن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ صبح کی نماز کو نکلے تو فیروز خنجر لے کر مسجد میں آیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حکم سے کچھ لوگ اس کام پر مقرر تھے کہ جب جماعت کھڑی ہو تو صفیں درست کریں۔ جب صفیں درست ہو جاتیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ تشریف لاتے تھے اور امامت کراتے تھے۔ اس دن بھی حسب معمول صفیں درست ہو چکیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ امامت کے لئے برھے۔ اور جوں ہی نماز شروع کی، فیروز نے دفعتہً گھات میں سے نکل کر چھ وار کئے جن میں ایک ناف کے نیچے پڑا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فوراً عبد الرحمن بن عوف کا ہاتھ پکڑ کر اپنی جگہ کھڑا کر دیا۔ اور خود زخم کے صدمہ سے گر پڑے۔
عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسی حالت میں نماز پڑھائی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سامنے بسمل پڑے تھے۔ فیروز نے اور لوگوں کو بھی زخمی کیا لیکن بالآخر پکڑا گیا، اور ساتھ ہی اس نے خود کُشی کر لی۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو لوگ گھر لائے۔ سب سے پہلے انہوں نے پوچھا کہ " میرا قاتل کون تھا۔" لوگوں نے کہا کہ " فیروز" فرمایا کہ الحمد اللہ کہ میں ایسے شخص کے ہاتھ سے نہیں مارا گیا جو اسلام کا دعویٰ رکھتا ہو۔ لوگوں کو خیال تھا کہ زخم چنداں کاری نہیں۔ غالباً شفا ہو جائے۔ چنانچہ ایک طبیب بلایا گیا۔ اس نے نبیند اور دودھ پلایا۔ اور دونوں چیزیں زخم کی راہ سے باہر نکل آئیں۔ اس وقت لوگوں کو یقین ہو گیا کہ وہ اس زخم سے جانبر نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ لوگوں نے ان سے کہا کہ " اب آپ اپنا ولی عہد منتخب کر جائیے۔"
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عبد اللہ اپنے فرزند کو بلا کر کہا کہ " عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے پاس جاؤ اور کہو کہ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ آپ سے اجازت طلب کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ عبد اللہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے پاس آئے، وہ رو رہی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا سلام کہا اور پیغام پہنچایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے کہا کہ " اس جگہ کو میں اپنے لئے محفوظ رکھنا چاہتی تھی۔ لیکن آج میں عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اپنے پر ترجیح دوں گی۔" عبد اللہ واپس ائے۔ لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خبر کی۔ بیٹے کی طرف مخاطب ہوئے اور کہا کہ کیا خبر لائے؟ انہوں نے کہا کہ جو آپ چاہتے تھے۔ فرمایا " یہی سب سے بڑی آرزو تھی۔"
اس وقت اسلام کے حق میں جو سب سے اہم کام تھا وہ ایک خلیفہ کا انتخاب کرنا تھا۔ تمام صحابہ بار بار حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے درخواست کرتے تھے کہ اس مہم کو آپ طے کر جائیے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خلافت کے معاملہ پر مدتوں غور کیا تھا۔ اور اکثر سوچا کرتے تھے۔ بار بار لوگوں نے ان کو اس حالت میں دیکھا کہ سب سے الگ متفکر بیٹھے کچھ سوچ رہے ہیں۔ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ خلافت کے باب میں غلطاں و پیچاں ہیں۔
مدت کے غور فکر پر بھی ان کے انتخاب کی نظر کسی شخص پر جمتی نہ تھی۔ بارہا ان کے منہ سے بیساختہ آہ نکل گئی۔ کہ "افسوس بار گراں کا کوئی اٹھانے والا نظر نہیں آتا۔" تمام صحابہ میں اس وقت چھ شخص تھے جن پر انتخاب کی نگاہ پڑ سکتی تھی، علی، عثمان، زبیر، طلحہ، سعد بند ابھی وقاص، عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہم۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ان سب میں کچھ نہ کچھ کمی پاتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اور بزرگوں کی نسبت جو خوردہ کیریاں کیں، گو ہم نے ان کو ادب سے نہیں لکھا لیکن ان میں اجئے کلام نہیں البتہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے متعلق جو نکتہ چینی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زبانی عام تاریخوں میں منقول ہے۔ یعنی یہ کہ ان کے مزاج میں ظرافت ہے۔ یہ ایک خیال ہی خیال معلوم ہوتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ ظریف تھے مگر اسی قدر جتنا لطیف المزاج بزرگ ہو سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے تعلقات قریش کے ساتھ کچھ ایسے پیچ در پیچ تھے کہ قریش کسی طرح ان کے آگے سر نہیں جھکا سکتے تھے۔ علامہ طبری نے اس معاملے کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے خیالات مکالمہ کی صورت میں نقل کئے ہیں۔ ہم ان کو اس موقع پر اس لئے درج کر رہے ہیں کہ اس سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے خیالات کا راز سربستہ معلوم ہو جائے گا۔ مکالمہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہوا۔ جو حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہم قبیلہ اور طرفدار تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ : کیوں عبد اللہ بن عباس! علی رضی اللہ تعالٰی عنہ ہمارے ساتھ کیوں نہیں شیریک ہوئے؟
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ : میں نہیں جانتا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ : تمہارے باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچیرے بھائی ہو۔ پھر تمہاری قوم تمہاری طرفدار کیوں نہیں ہوئی؟
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ : میں نہیں جانتا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ : لیکن میں جانتا ہوں، تمہاری قوم تمہارا سردار ہونا گوارا نہیں کرتی تھی۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ : کیوں ؟
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ : وہ یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ ایک ہی خاندان میں نبوت اور خلافت دونوں آ جائیں۔ شاید تم یہ کہو گے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تم کو خلافت سے محروم کر فیا۔ لیکن خدا کی قسم یہ بات نہیں۔ ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وہ کیا جس سے زیادہ مناسب کوئی بات نہیں ہو سکتی تھی۔ اگر وہ تم کو خلافت دینا بھی چاہتے تو ان کو ایسا کرنا تمہارے حق میں کچھ مفید نہ ہوتا۔
دوسرا مکالمہ اس سے زیادہ مفید ہے کچھ باتیں تو وہی ہیں جو پہلے مکالمہ میں گزریں کچھ نئی ہیں۔ اور وہ یہ ہیں :
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ : کیوں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ تمہارے نسبت میں بعض باتیں سنا کرتا تھا، لیکن میں نے اس خیال سے اس کی تحقیق نہیں کی کہ تمہاری عزت میری آنکھوں میں کم نہ ہو جائے۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ : وہ کیا باتیں ہیں؟
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ : میں نے سنا ہے کہ تم کہتے ہو کہ لوگوں نے ہمارے خاندان سے خلافت حسداً ظلماً چھین لی۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ : ظلماً کی نسبت تو میں نہیں کہہ سکتا، کیونکہ یہ بات کسی پر مخفی نہیں۔ لیکن حسداً تو اس میں تعجب کیا ہے۔ ابلیس نے آدم پر حسد کیا اور ہم لوگ آدم ہی کی اولاد ہیں پھر محسود ہوں تو کیا تعجب ہے؟
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ : افسوس خاندان بنی ہاشم کے دلوں سے پرانے رنج اور کینے نہ جائیں گے۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ : ایسی بات نہ کہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہاشمی ہی تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ : اس تذکرے کو جانے دو۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ : بہت مناسب۔ (دیکھو تاریخ طبری صفحہ 2768 تا 2771)
ان مکالمات سے علاوہ اصل واقعہ کے تم اس بات کا بھی اندازہ کر سکو گے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مبارک عہد میں لوگ کس دلیری اور بے باکی سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ اور یہ زیادہ تر اسی وجہ سے تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ خود آزادی اور حق گوئی کو قوم میں پھیلانا چاہتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس کا انہوں نے مختلف موقعوں پر اظہار بھی کر دیا تھا۔ چنانچہ طبری وغیرہ میں ان کے ریمارکس کس بتفصیل مذکور ہیں۔ مذکورہ بالا بزرگوں میں وہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو سب سے بہتر جانتے تھے۔ لیکن بعض اسباب سے ان کی نسبت قطعی فیصلہ نہیں کر سکتے تھے۔ (طبری صفحہ 2777)۔
غرض وفات کے وقت جب لوگوں نے اصرار کیا تو فرمایا کہ " ان چھ شخصوں میں جس کی نسبت کثرت رائے ہو وہ خلیفہ منتخب کر لیا جائے۔"
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو قوم اور ملک کی بہبودی کا جو خیال تھا اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ عین کرب و تکلیف کی حالت میں جہاں تک ان کی قوت اور حواس نے یاوری کی اسی دھن میں مصروف رہے۔ لوگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ " جو شخص خلیفہ منتخب ہو اس کو میں وصیت کرتا ہوں کہ پانچ فرقوں کے حقوق کا نہایت خیال رکھے۔ مہاجرین، انصار، اعراب و اہل عرب جو اور شہروں میں جا کر آباد ہو گئے ہیں۔ اہل ذمہ (یعنی عیسائی، یہودی، پارسی جو اسلام کی رعایا تھے)۔" پھر ہر ایک کے حقوق کی تصریح کی، چنانچہ اہل ذمہ کے حق میں جو الفاظ کہے وہ یہ تھے " میں خلیفہ وقت کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ خدا کی ذمہ داری اور رسول اللہ کی ذمہ داری کی لحاظ رکھے۔ یعنی اہل ذمہ سے جو اقرار ہے وہ پورا کیا جائے۔ ان کے دشمنوں سے لڑا جائے اور ان کو ان کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دی جائے۔"
قوم کے کام سے فراغت ہو چکی تو اپنے ذاتی مطالب پر توجہ کی۔ عبد اللہ اپنے بیٹھے کو بلا کر کہا کہ مجھ پر کس قدر قرض ہے۔ معلوم ہوا کہ چھیاسی ہزار درہم، فرمایا کہ میرے متروکہ سے ادا ہو سکے تو بہتر ورنہ خاندان عدی سے درخواست کرنا اور اگر وہ بھی پورا نہ کر سکیں توکل قیرش سے۔ لیکن قریش کے علاوہ اوروں کو تکلیف نہ دینا۔ یہ صحیح بخاری کی روایت ہے۔ (دیکھو کتاب المناقب باب قصۃ البیعہ والاتفاق علی عثمان) لیکن عمر بن شیبہ نے کتاب المدینہ میں بسند صحیح روایت کیا ہے کہ نافع جو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے غلام تھے، کہتے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ پر قرض کیونکر رہ سکتا تھا۔ حالانکہ ان کے ایک وارث نے اپنے حصہ وراثت کو ایک لاکھ میں بیچا تھا۔ (دیکھو فتح الباری مطبوعہ مصر جلد 7 صفحہ 52)۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ پر چھیاسی ہزار کا قرض ضرور تھا۔ لیکن وہ اس طرح ادا کیا گیا کہ ان کا مسکونہ مکان بیچ ڈالا گیا۔ جس کو امیر معاویہ نے خریدا۔ یہ مکان باب السلام اور باب رحمت کے بیچ میں واقع تھا۔ اور اس مناسبت سے کہ اس سے قرض ادا کیا گیا، ایک مدت تک دار القضا کے نام سے مشہور رہا۔ چنانچہ " خلاصۃ الوفانی اخبار دار المصطفیٰ" میں یہ واقعہ بتفصیل مذکور ہے۔ (دیکھو کتاب مذکور مطبوعہ مصر صفحہ 179 – 129)۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تین دن کے بعد انتقال کیا۔ اور محرم کی پہلی تاریخ ہفتہ کے دن مدفون ہوئے۔ نماز جنازہ صہیب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پڑھائی۔ حضرت عبد الرحمٰن، حضرت علی، حضرت عثمان، طلحہ، سعد بن ابی وقاص، عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ نے قبر میں اُتارا اور وہ آفتاب عالمتاب خاک میں چھپ گیا۔