"الفاروق " از شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی رحمتہ اللہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
کرمان 23 ہجری (644 عیسوی)

(اس کا قدیم نام کرمانیہ ہے۔ حدود اربعہ یہ ہیں : شمال میں کوہستان جنوب میں بھر عمان مشرق میں سیستان مغرب میں فارس ہے۔ امانہ سابق میں اس کا دار الصدر کر اسیر (بیروسیر) تھا۔ جس کی جگہ اب جبرفت آباد ہے۔)

کرمان کی فتح پر سہیل بن عدی مامور ہوئے تھے۔ چنانچہ 23 ہجری میں ایک فوج لے کر جس کا ہراول بشیر بن عمر التجلی کی افسری میں تھا۔ کرمان پر حملہ آور ہوئے۔ یہاں کے مرزبان نے قفس وغیرہ سے مدد طلب کر کے مقابلہ کیا۔ لیکن وہ خود میدان جنگ میں نسیر کے ہاتھ سے مارا گیا۔ چونکہ آگے کچھ روک ٹوک نہ تھی، جبرفت اور سیرجان تک فوجیں بڑھتی چلی گئیں۔ اور بے شمار اونٹ اور بکریاں غنیمت میں ہاتھ آئیں۔ جبرفت کرمان کی تجارت گاہ اور سرجان کرمان کا سب سے بڑا شہر تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
سیستان 23 ہجری (644 عیسوی)

(سیستان کو عرب سجستان کہتے ہیں۔ حدود اربعہ یہ ہیں : شمال میں ہرات، جنوب میں مکران، مشرق میں سندھ اور مغرب میں کوہستان۔ یہاں کا مشہور شہر زرنج ہے جہاں میوہ افراط سے پیدا ہوتا ہے۔ رقبہ 25000 مربع میل ہے۔)

یہ ملک عاصم بن عمر کے ہاتھ سے فتح ہوا۔ باشندے سرحد پر برائے نام لڑ کر بھاگ نکلے عاصم برابر بڑھتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ زرنج کا جو سیستان کا دوسرا نام ہے، محاصرہ کیا۔ محصوروں نے چند روز کے بعد اس شرط پر صلح کی درخواست کی ان کی تمام اراضی حمی سمجھی جائے۔ مسلمانون نے یہ شرط منظور کر لی۔ اور اس طرح وفا کی کہ جب مرزروعات کی طرف نکلے تھے تو جلدی سے گزر جاتے تھے کہ زراعت چھو تک نہ جائے۔ اس ملکے کے قبضے میں آنے سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ سندھ سے لے کر نہر بلخ تک جس قدر ممالک تھے ان کی فتح کی کلید ہاتھ میں آ گئی۔ چنانچہ وقتاً فوقتاً ان ملکوں پر حملے ہوتے رہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
مکران 23 ہجری (644 عیسوی)

(آج کل مکران کا نصف حصہ بلوچستان کہلاتا ہے۔ اگرچہ مؤرخ بلاذری فتوحات فاروقی کی آمد سندھ کے شہر دیبل تک لکھتا ہے۔ مگر طبریٰ نے مکران ہی کو اخیر حد قرار دیا ہے۔ اس لیے ہم نے بھی نقشہ میں فتوحات فاروقی کی وہیں تک حد قرار دی ہے۔)

مکران پر حکم بن عمرو التغلبی مامور ہوئے تھے۔ چنانچہ 23 ہجری میں روانہ ہو کر نہر مکران کے اس طرف فوجیں اتاریں، مکران کا بادشاہ جس کا نام راسل تھا خود پار اتر کر آیا اور صف آرائی کی۔ ایک بڑی جنگ کے بعد راسل نے شکست کھائی اور مکران پر قبضہ ہو گیا۔ حکم نے نامہ فتح کے ساتھ چند ہاتھی بھی جو لوٹ میں میں آئے تھے، دربار خلافت میں بھیجے۔ صحار عبدی جو نامہ فتح لے کر گئے تھے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان سے مکران کا حال پوچھا، انہوں نے کہا " ارضً سھلھا جبلً ماء ھاوشلً و ثمر ھاوقلً و عدوھا بطلً و خیرھا قلیلً و شرھا طویلً والکثیر بھا قلیلً۔" حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا واقعات کے بیان کرنے میں قافیہ بندی کا کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں واقعی حالات بیان کرتا ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے لکھ بھیجا کہ فوجیں جہاں تک پہنچ چکی ہیں وہیں رک جائیں۔ چنانچہ فتوحات فاروقی کی اخیر حد یہی مکران ہے لیکن یہ طبریٰ کا بیان ہے۔ مؤرخ بلاذری کی روایت ہے کہ دیبل کے نشیبی حصہ اور تھانہ تک فوجیں آئیں۔ اگر یہ صحیح ہے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد میں اسلام کا قدم سندھ و ہندوستان میں بھی آ چکا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
خراسان کی فتح اور یزدگرد کی ہزیمت
23 ہجری (644 عیسوی)

(علامہ بلاذری کے نزدیک تمام ماورا النہر فرغانہ، خوارزم، طخارستان اور سیستان کا رقبہ خراسان میں داخل تھا مگر اصل یہ ہے کہ اس کے حدود ہر زمانے میں مختلف رہے ہیں۔ اس کے مشہور شہر نیشاپور، مرو، ہرات، بلخ، طوس فسا اور ابی درد وغیرہ تھے۔ جن میں سے پچھلےبا بالکل ویران ہیں۔)


اوپر ہم لکھ آئے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جن جن افسروں کو ملک گیری کے علم بھیجے تھے ان میں احتف بن قیس بھی تھے۔ اور ان کو خراسان کا علم عنایت ہوا تھا۔ احتف نے 22 ہجری میں خراسان کا رخ کیا۔ طیسن ہو کر ہرات پہنچے اور اس کو فتح کر کے مرد شاہجہان پر بڑھے، یزدگر شاہنشاہ فارس یہیں مقیم تھا۔ ان کی آمد سن کر مرور رود چلا گیا۔ اور خاقان چین اور دیگر سلاطین کو استمداد کے نامے لکھے۔ احتف نے مرد شاہجہان پر حارثہ بن النیمان باہلی چھوڑا اور خود مرورود کی طرف بڑھے۔ یزدگرد یہاں سے بھی بھاگا۔ اور سیدھا بلخ پہنچا۔ اس اثناء میں کوفہ سے امدادی فوجیں آ گئیں جس سے میمنہ و میسرہ وغیرہ کے افسر علقمہ بن الضری، ربعی بن عامر التمیمی، عبد اللہ بن ابی عقیل السقنی ابن ام غزال الہمدانی تھے۔ احتف نے تازہ دم فوج لے کر بلخ پر حملہ کیا۔ یزدگرد نے شکست کھائی اور دریا اتر کر خاقان کی حکومت میں چلا گیا۔ احتف نے میدان خالی پا کر ہر طرف فوجیں بھیج دیں اور نیشاپور طخارستان تک فتح کر لیا۔ مرورود کو تخت گاہ قرار دے کر مقام کیا۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کونامہ لکھا کہ خراسان اسلام کے قبضہ میں آ گیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ فتوحات کی وسعت کو چنداں پسند نہیں کرتے تھے۔ خط پڑھ کر فرمایا کہ ہمارے اور خراسان کے بیچ میں آگ کا دریا حائل ہوتا تو خوب ہوتا، احتف کے مردانہ حوصلوں کی اگرچہ تعریف کی اور فرمایا کہ احتف شرقیوں کا سرتاج ہے۔ تاہم جواب نامہ میں لکھا کہ جہاں تک پہنچ چکے ہو وہاں سے آگے نہ بڑھنا، ادھر یزدگرد خاقان کے پاس گیا اور اس نے بڑی عزت و توقیر کی۔ اور ایک فوج کثیر ہمراہ لے کر یزدگرد کے ساتھ خراسان روانہ ہوا۔ احتف جو بیس ہزار فوج کے ساتھ بلخ میں مقیم تھے، خاقان کی آمد سن کر مرورد کو روانہ ہوا۔ اور وہاں پہنچ کر مقام کیا۔ خاقان بلخ ہوتا ہوا مرورود پہنچا۔ یزدگرد سے الگ ہو کر مروشاہجہان کی طرف بڑھا۔ احتف نے کھلے میدان میں مقابلہ کرنا مناسب نہ سمجھا، نہر اتر کر ایک میدان میں جس کی پشت پر پہاڑ تھا، صف آرائی کی۔ دونوں فوجیں مدت تک آمنے سامنے صفیں جمائے پڑی رہیں۔ صبح اور شام ساز و سامان سے آراستہ ہو کر میدان جنگ میں جاتے تھے۔ اور چونکہ ادھر سے کچھ جواب نہیں دیا جاتا تھا۔ بغیر لڑے واپس آ جاتے تھے۔ ترکوں کا عام دستور ہے کہ پہلے تین بہادر جنگ میں باری باری طبل و دمامہ کے ساتھ جاتے ہیں پھر سارا لشکر جنبش میں آتا ہے۔ ایک دن احنف خود میدان میں گئے، ادھر سے معمول کے موافق ایک طبل و علم کے ساتھ نکلا۔ احنف نے حملہ کیا۔ اور دیر تک رد و بدل رہی۔ آخر احنف نے جوش میں آ کر کہا۔

ان علی کل رئیس حقا
ان یخضب الصعدۃ او یندقا​

قاعدے کے موافق دو اور بہادر ترک میدان میں آئے اور احنف کےہاتھ سے مارے گئے۔ خاقان جب خود میدان میں آیا تو اس نے بہادروں کی لاشیں میدان میں پڑی دیکھیں، چونکہ شگون بُرا تھا۔ نہایت پیچ و تاب کھایا اور فوج سے کہا کہ ہم بے فائدہ پرایا جھگڑا کیوں مول لیں۔ چنانہ اسی وقت کوچ کا حکم دے دیا۔

یزد گرد مرد شاہجہان کا محاصرہ کئے پڑا تھا کہ یہ کبر پہنچی، فتح سے ناامید ہو کر خزانہ اور جواہر خانہ ساتھ لیا اور ترکستان کا قصد کیا۔ درباریوں نے یہ دیکھ کر ملک کی دولت ہاتھ سے نکلی جاتی ہے۔ روکا اور جب اس نے نہ مانا تو برسر مقابل آ کر تمام مال اور اسباب ایک ایک کر کے چھین لیا۔ یزدگرد بے سر و سامان خاقان کے پاس پہنچا۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اخیر خلافت تک فرغانہ میں جو خاقان کا دارالسلطنت تھا، مقیم رہا۔ احنف نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو فتح نامہ لکھا۔ قاصد مدینہ پہنچا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تمام آدمیوں کو جمع کر کے مژدہ فتح سنایا۔ اور ایک پُر اثر تقریر کی۔ آخر میں فرمایا کہ آج مجوسیوں کی سلطنت برباد ہو گئی۔ اور اب وہ اسلام کو کسی طرح ضرر نہیں پہنچا سکتے۔ لیکن اگر تم بھی راست کرداری پر ثابت قدم نہ رہے تو خدا تم سے بھی حکومت چھین کر دوسروں کے ہاتھ میں دے دے گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
مصر کی فتح 20 ہجری (641ء)

مصر کی فتح اگرچہ فاروقی کارناموں میں داخل ہے۔ لیکن اس کے بانی مبانی عمرو بن العاص تھے وہ اسلام سے پہلے تجارت کا پیشہ کرتے تھے۔ اور مصر ان کی تجارت کا جولا نگاہ تھا۔ اس زمانے میں مصر کی نسبت گو اس قسم کا خیال بھی ان کے دل میں نہ گزرا ہو گا۔ لیکن اس کی زرخیزی اور شادابی کی تصویر ہمیشہ ان کی نظر میں پھرتی رہتی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے شام کو جا اخیر سفر کیا اس میں یہ ان سے ملے اور مصر کی نسبت گفتگو کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پہلے احتیاط کے لحاظ سے انکار کیا۔ لیکن آخر ان کے اصرار پر راضی ہو گئے۔ اور چار ہزار فوج ساتھ کر دی۔ اس پر بھی ان کا دل مطمئن نہ تھا۔ عمرو سے کہا کہ خدا کا نام لے کر روانہ ہو۔ لیکن مصر پہنچنے سے پہلے اگر میرا خط پہنچ جائے تو الٹے پھر آنا۔ عریش پہنچے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا خط پہنچا۔ اگرچہ اس میں آگے بڑھنے سے روکا تھا۔ لیکن چونکہ شرطیہ حکم تھا۔ عمرو نے کہا اب تو ہم مصر کی حد میں آ چکے ہیں۔ (مقریزی وغیرہ میں لکھا ہے کہ قاصد مقام رفج میں عمرو سے ملا۔ انہوں نے اس خیال سے کہ آگے بڑھنے سے منع کیا ہو گا قاصد سے خط نہیں لیا اور کہا کہ جلدی کیا ہے منزل پر پہنچ کر لے لوں گا۔ عریش کے قریب پہنچے تو خط لے کر کھولا اور پڑھا اور کہا کہ امیر المومنین نے لکھا ہے کہ "مصر نہ پہنچ چکے ہو تو رک جانا۔" لیکن ہم تو مصر کی حد میں آ چکے ہیں لیکن عمرو بن العاص کی نسبت ایسی حیلہ بازی کے اتہام کی کیا ضرورت ہے۔ اولاً تو بلاذری وغیرہ نے تصریح کی ہے کہ خط ان کو عریش ہی میں ملا لیکن رفج ملا ہو تو بھی حرج نہیں کیونکہ رفج خود مصر میں داخل ہے)۔

غرض عریش سے چل کر فرما پہنچے، یہ شہر بحر روم کے کنارے پر واقع ہے۔ اور گو اب ویران پڑا ہے لیکن اس زمانے میں آباد تھا۔ اور جالینوس کی زیارت گاہ ہونے کی وجہ سے ایک ممتاز شہر گنا جاتا تھا۔ یہاں سرکاری فوج رہتی تھی۔ اس نے شہر سے نکل کر مقابلہ کیا۔ اور ایک مہینے تک معرکہ کارزار گرم رہا۔ بالآخر رومیوں نے شکست کھائی۔ عمرو فرما سے چل کر بلبیس، اور ام دنین کو فتح کرتے ہوئے فسطاط پہنچے۔ فسطاط اس زمانے میں کف دست میدان تھا۔ اور اس قطعہ زمین کا نام تھا، جو دریائے نیل اور جبپ مقطم کے بیچ میں واقع ہے۔ اور جہاں اس وقت زراعت کے کھیت یا چراگاہ کے تختے تھے لیکن چونکہ یہاں سرکاری قلعہ تھا، اور رومی سلطنت کے حکام جو مصر میں رہتے تھے یہیں رہا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ چونکہ دریائے نیل پر واقع تھا، اور جہاز اور کشتیاں قلعہ کے دروازے پر آ کر لگتی تھیں۔ ان وجوہ سے سرکاری ضرورتوں کے لیے نہایت مناسب مقام تھا۔ عمرو نے اول اسی کو تاکا اور محاصرہ کی تیاریاں کیں۔ مقوقس جو مصر کا فرمانروا اور قیصر کا باجگزار تھا، عمرو بن العاص سے پہلے قلعہ میں پہنچا تھا اور لڑائی کا بندوبست کر رہا تھا۔ قلعہ کی مضبوطی اور فوج کی قلت کو دیکھ کر عمرو نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خط لکھا۔ اور اعانت طلب کی۔ انہوں نے دس ہزار فوج اور چار افسر بھیجے اور خط میں لکھا کہ ان افسروں میں ایک ایک ہزار ہزار سوار کے برابر ہے۔ یہ افسر زبیر بن العوام، عبادہ بن الصامت، مقداد بن عمرو، سلمہ بن مخلد تھے۔ زبیر کا جو رتبہ تھا اس کے لحاظ سے عمرو نے ان کو افسر بنایا۔ اور محاصرہ وغیرہ کے انتظامات ان کے ہاتھ میں دیئے۔ انہوں نے گھوڑے پر سوار ہو کر خندق کے چاروں طرف چکر لگایا۔ اور جہاں جہاں مناسب تھا، مناسب تعداد کے ساتھ سوار اور پیادے متعین کئے۔ اس کے ساتھ منجیقوں سے پتھر برسانے شروع کئے۔ اس پر پورے ساتھ مہینے گزر گئے اور فتح و شکست کا کچھ فیصلہ ہوا۔ زبیر نے ایک دن تنگ آ کر کہا آج میں مسلمانوں پر فدا ہوتا ہوں۔ یہ کہہ کر ننگی تلوار ہاتھ میں لی اور سیڑھی لگا کر قلعہ کی فصیل پر چڑھ گئے۔ چند اور صحابہ نے ان کا ساتھ دیا۔ فصیل پر پہنچ کر سب نے ایک ساتھ تکبیر کے نعرے بلند کئے۔ ساتھ ہی تمام فوج نے نعرہ مارا کہ قلعہ کی زمین دہل اٹھی۔ عیسائی یہ سمجھ کر کہ مسلمان قلعہ کے اندر گھس آئے۔ بدحواس ہو کر بھاگے۔ زبیر نے فصیل سے اتر کر قلعہ کا دروازہ کھول دیا اور تمام فوج اندر گھس آئی۔ مقوقس نے یہ دیکھ کر صلح کی درخواست کی۔ اور اسی وقت سب کو امان دے دی گئی۔

ایک دن عیسائیوں نے عمرو بن العاص اور افسران فوج کی دھوم دھام سے دعوت کی۔ عمرو بن العاص نے قبول کر لی۔ اور سلیقہ شعار لوگوں کو ساتھ لے گئے۔

دوسرے دن عمرو نے ان لوگوں کی دعوت کی۔ رومی بڑے تزک و احتشام سے آئے۔ اور مخملی کرسیوں پر بیٹھے۔ کھانے میں خود مسلمان بھی شریک تھے۔ اور جیسا کہ عمرو نے پہلے سے حکم دیا تھا سادہ عربی لباس میں تھے۔ اور عربی انداز اور عادات کے موافق کھانے بیٹھے، کھانا بھی سادہ یعنی معمولی گوشت اور روٹی تھی۔ عربوں نے کھانا شروع کیا تو گوشت کی بوٹیاں شوربے میں ڈبو ڈبو کر اس زور سے دانتوں سے نوچتے تھے کہ شوربے کے بھینٹیں اڑ کر رومیوں کے کپڑوں پر پڑتی تھیں۔ رومیوں نے کہا کہ وہ لوگ کہاں ہیں جو کل ہماری دعوت میں تھے۔ یعنی وہ ایسے گنوار اور بےسلیقہ نہ تھے۔ عمرو نے کہا " وہ اہل الرائے تھے، اور یہ سپاہی ہیں۔"

مقوقس نے اگرچہ تمام مصر کے لئے معاہدہ صلح لکھوایا تھا۔ لیکن ہرقل کو جب خبر ہوئی تو اس نے نہایت ناراضگی ظاہر کی اور لکھ بھیجا کہ قبطی اگر عربوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے تو رومیوں کی تعداد کیا کم تھی۔ اسی وقت ایک عظیم فوج روانہ کی کہ اسکندریہ پہنچ کر مسلمانوں کے مقابلے کے لئے تیار ہو۔
 

شمشاد

لائبریرین
اسکندریہ کی فتح 21 ہجری (42 – 641ء)

قسطاط کی فتح کے بعد عمرو نے چند روز تک یہاں قیام کیا۔ اور یہیں سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خط لکھا کہ فسطاط فتح ہو چکا۔ اجازت ہو تو اسکندریہ پر فوجیں بڑھائی جائیں۔ وہاں سے منظوری آئی، عمرو نے کوچ کا حکم دیا۔ اتفاق سے عمرو کے خیمہ میں ایک کبوتر نے گھونسلا بنا لیا تھا۔ خیمہ اکھاڑا جانے لگا تو عمرو کی نگاہ پڑی، حکم دیا کہ اس کو یہیں رہنے دو کہ ہمارے مہمان کو تکلیف نہ ہونے پائے۔ چونکہ عربی میں خیمہ کو فسطاط کہتے ہیں اور عمرو نے اسکندریہ سے واپس آ کر اسی خیمہ کے قریب شہر بسایا، اس لئے خود شہر بھی فسطاط کے نام سے مشہور ہو گیا۔ اور آج تک یہی نام لیا جاتا ہے۔ بہر حال 21 ہجری میں عمرو نے اسکندریہ کا رخ کیا۔ اسکندریہ اور فسطاط کے درمیان میں رومیوں کی جو آبادیاں تھیں انہوں نے سدراہ ہونا چاہا۔ چنانچہ ایک جماعت عظیم سے جس میں ہزاروں قبطی بھی تھے، فسطاط کی طرف بڑھے کہ مسلمانوں کو روک لیں۔ قام کریون نے دونوں حریفوں کا سامنا ہوا۔ مسلمانوں نے نہایت طیش میں آ کر جنگ کی اور بے شمار عیسائی مارے گئے۔ پھر کسی نے روک ٹوک کی جرات نہ کی اور عمرو نے اسکندریہ پہنچ کر دم لیا۔ مقوقس جزیہ دے کر صلح کرنا چاہتا تھا۔ لیکن رومیوں کے ڈر سے نہیں کر سکتا تھا۔ تاہم یہ درخواست کی کہ ایک مدت معین کے لیے صلح ہو جائے۔ عمرو نے انکار کیا۔ مقوقس نے مسلمانوں کو مرعوب کرنے کے لیے شہر کے تمام آدمیوں کو حکم دیا کہ ہتھیار لگا کر شہر پناہ کی فصیل پر مسلمانوں کے سامنے صف جما کر کھڑے ہوں، عورتیں بھی اس حکم میں داخل تھیں اور اس غرض سے کہ پہچانی نہ جا سکیں۔ انہوں نے شہر کی طرف منہ کر لیا تھا۔ عمرہ نے کہلا بھیجا کہ ہم تمہارا مطلب سمجھتے ہیں، لیکن تم کو معلوم نہیں کہ ہم اب تک جو ملک فتح کئے کثرت فوج کے بل پر نہیں کئے۔ تمہارا بادشاہ ہرقل جس ساز و سامان سے ہمارے مقابلہ کو آیا تم کو معلوم ہے اور جو نتیجہ ہوا وہ بھی مخفی نہیں (فتوح البدان صفحہ 225)۔ مقوقس نے کہا سچ ہے۔ "یہی عرب ہیں جنہوں نے ہمارے بادشاہ کو قسطنطنیہ پہنچا کر چھوڑا۔" اس پر رومی سردار نہایت غضبناک ہوئے۔ مقوقس کو بہت بُرا کہا اور لڑائی کی تیاریاں شروع کیں۔

مقوقس کی مرضی چونکہ جنگ کی نہ تھی، اس لئے عمرو سے اقرار لے لیا تھا کہ " چونکہ میں رومیوں سے الگ ہوں، اس وجہ سے میری قوم (یعنی قطبی) کو تمہارے ہاتھ سے ضرر نہ پہنچنے پائے۔" قبطیوں نے صرف یہی نہیں کیا کہ اس معرکے میں دونوں سے الگ رہے بلکہ مسلمانوں کو بہت کچھ مدد دی۔ فسطاط سے اسکندریہ تک فوج کے آگے آگے پلوں کی مرمت کرتے اور سڑکیں بناتے گئے۔ خود اسکندریہ کے محاصرہ میں بھی رسد وغیرہ کا انتظام انہی کی بدولت ہو سکا۔ رومی کبھی کبھی قلعہ سے باہر نکل نکل کر لڑتے تھے۔ ایک دن سخت معرکہ ہوا۔ تیر و خدنگ سے گزر کر تلوار کی نوبت آئی۔ ایک رومی نے صف سے نکل کر کہا کہ جس کا دعویٰ ہو تنہا میرے مقابلے کو آئے۔ مسلمہ بن مخلد نے گھوڑا بڑھایا۔ رومی نے ان کو زمین پر دے مارا۔ اور جھک کر تلوار مارنا چاہتا تھا کہ ایک سوار نے آ کر جان بچائی، عمرو کو اس پر اس قدر غصہ آیا کہ متانت ایک طرف مسلمہ کے رتبہ کا بھی خیال نہ کر کے کہ کہ "زنخوں کو میدان جنگ میں آنے کی کیا ضرورت ہے۔" مسلمہ کو نہایت ناگوار ہوا۔ لیکن مصلحت کے لحاظ سے کچھ نہ کہا۔ لڑائی کا زور اسی طرح قائم رہا۔ آخر مسلمانوں نے اس طرح دل توڑ کر حملہ کیا کہ رومیوں کو دباتے ہوئے قلعہ کے اندر گھس گئے۔ دیر تک قلعہ کے صحن میں معرکہ رہا۔ آخر میں رومیوں نے سنبھل کر ایک ساتھ حملہ کیا۔ اور مسلمانوں کو قلعہ سے باہر نکال کر دروازے بند کر دیئے۔ اتفاق یہ کہ عمرو بن العاص اور مسلمہ اور دو شخص اندر رہ گئے۔ رومیوں نے ان لوگوں کو زندہ گرفتار کرنا چاہا۔ لیکن ان لوگوں نے مردانہ وار جان دینی چاہی تو انہوں نے کہا کہ دونوں طرف سے ایک ایک آدمی مقابلے کو نکلے، اگر ہمارا آدمی مارا گیا تو ہم تم کو چھوڑ دیں گے کہ قلعہ سے نکل جاؤ اور تمہارا آدمی مارا جائے تو تم سب ہتھیار ڈال دو گے۔

عمرو بن العاص نے نہایت خوشی سے منظور کیا۔ اور خود مقابلے کے لئے نکلنا چاہا۔ مسلمہ نے روکا کہ تم فوج کے سردار ہو۔ تم پر آنچ آئی تو انتظام میں خلل ہو گا۔ یہ کہہ کر گھوڑا بڑھایا۔ رومی بھی ہتھیار سنبھال چکا تھا۔ دیر تک وار ہوتے رہے۔ بالآخر مسلمہ نے ایک ہاتھ مارا کہ رومی وہیں ڈھیر ہو کر رہ گیا۔ رومیوں کو معلوم نہ تھا کہ ان میں کوئی سردار ہے۔ انہوں نے اقرار کے موافق قلعہ کا دروازہ کھول دیا۔ اور سب صحیح سلامت باہر نکل آئے۔ عمرو نے مسلمہ سے اپنی پہلی گستاخی کی معافی مانگی اور انہوں نے نہایت صاف دلی سے معاف کر دیا۔

محاصرہ جس قدر طول کھینچتا جاتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو زیادہ پریشانی ہوتی تھی۔ چنانچہ عمرو کو خط لکھا کہ " شاید تم لوگ وہاں رہ کر عیسائیوں کی طرح عیش پرست بن گئے ہو۔ ورنہ فتح میں اس قدر دیر نہ ہوتی۔ جس دن میرا خط پہنچے تمام فوج کو جمع کر کے جہاد پر خطبہ دو اور پھر اس طرح حملہ کر کہ جن کو میں نے افسر کر کے بھیجا تھا فوج کے آگے ہوں اور تمام فوج ایک دفعہ دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ عمرو نے تمام فوج کو یکجا کر کے خطبہ پڑھا اور ایک پُر اثر تقریر کی کہ بجھے ہوئے جوش تازہ ہو گئے۔ عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالٰی عنہ کو جا برسوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے تھے بلا کر کہا کہ اپنا نیزہ مجھ کے دیجیئے۔ خود سر سے عمامہ اتارا اور نیزہ پر لگا کر ان کو حوالہ کیا کہ یہ سپہ سالار کا علم ہے اور آج اپ سپہ سالار ہیں۔ زبیر بن العوام اور مسلمہ بن مخلد کو فوج کا ہراول کیا۔ غرض اس سروسامان سے قلعہ پر دھاوا ہوا کہ پہلے ہی حملہ میں شہر فتح ہو گیا۔ عمرو نے اسی وقت معاویہ بن خدیج کو بلا کر کہا کہ جس قدر تیز جا سکو جاؤ۔ اور امیر المؤمنین کو مژدہ فتح سناؤ۔ معاویہ اونٹنی پر سوار ہوئے اور دو منزلہ سہ منزلہ کرتے ہوئے مدینہ پہنچے۔ چونکہ ٹھیک دوپہر کا وقت تھا۔ اس خیال سے کہ یہ آرام کا وقت ہے، بارگاہ خلافت میں جانے سے پہلے سیدھے مسجد نبوی کا رخ کیا۔ اتفاق سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی لوندی ادھر آ نکلی اور ان کو مسافر کی ہیئت میں دیکھ کر پوچھا کہ کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟ انہوں نے کہا کہ اسکندریہ سے۔ اس نے اسی وقت جا کر خبر کی اور ساتھ ہی واپس آئی کہ چلو امیر المؤمنین بلاتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اتنا بھی انتظار نہیں کر سکتے تھے، خود چلنے کے لیے تیار ہوئے اور چادر سنبھال رہے تھے کہ معاویہ پہنچ گئے۔ فتح کا حال سن کر زمین پر گرے اور سجدۂ شکر ادا کیا۔ اٹھ کر مسجد میں ائے اور منادی کرا دی الصلوۃ جامعہ سنتے ہی تمام مدینہ امڈ آیا۔ معاویہ نے سب کے سامنے فتح کے حالات بیان کئے۔ وہاں سے اٹھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ ان کے گھر پر گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے لونڈی سے پوچھا کچھ کھانے کو ہے۔ وہ روٹی اور روغن زیتون لائی۔ مہمان کے آگے رکھا اور کہا کہ آنے کے ساتھ ہی میرے پاس کیوں نہیں چلے آئے۔ انہوں نے کہا میں نے خیال کیا کہ یہ آرام کا وقت ہے، شاید آپ سوتے ہوں۔ فرمایا افسوس تمہارا میری نسبت یہ خیال ہے۔ میں دن کو سوؤں گا تو خلافت کا بار کون سنبھالے گا۔ (یہ تمام تفصیل مقرریزی سے لی گئی ہے۔)

عمرو اسکندریہ کی فتح کے بعد قسطاط کو واپس گئے اور وہاں شہر بسانا چاہا۔ الگ الگ قطعے متعین کئے۔ اور داغ بیل ڈال کر عرب کی سادہ وضع کی عمارتیں تیار کرائیں۔ تفصیل اس کے دوسرے حصے میں آئے گی۔

اسکندریہ اور فسطاط کے بعد اگرچہ عمرو کا کوئی حریف نہیں رہا تھا۔ تاہم چونکہ مصر کے تمام اضلاع میں رومی پھیلے ہوئے تھے۔ ہر طرف تھوڑی تھوڑی فوجیں روانہ کیں کہ آئندہ کسی خطرے کا احتمال نہ رہ جائے۔ چنانچہ خارجہ بن حذافہ العدوی فیوم، اشموتین، احمیم، بشر دوات، معید اور اس کے تمام مضافات میں چکر لگا آئے اور ہر جگہ لوگوں نے خوشی سے جزیہ دینا قبول کیا۔ اسی طرح عمیر بن وہب الجمحی نے تینس دمیاط، تونہ ، دمیرہ، شطا، وقبلہ، بنا، بوہیر کو مسخر کیا۔ عقبہ بن عامر الجھنی نے مصر کے تمام نشیبی حصے فتح کئے۔ (فتوح البلدان صفحہ 217)۔

چونکہ ان لڑائیوں میں نہایت کثرت سے قبطی اور رومی گرفتار ہرئے تھے۔ عمرو نے دربار خلافت کو لکھا کہ ان کی نسبت کیا کیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جواب لکھا کہ سب کو بلا کر کہہ دو کہ ان کو اختیار ہے کہ مسلمان ہو جائیں یا اپنے مذہب پر قائم رہیں۔ اسلام قبول کریں گے تو ان کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ ورنہ جزیہ دینا ہو گا۔ جو تمام ذمیوں سے لیا جاتا ہے۔ عمرو نے تمام قیدی جو تعداد میں ہزاروں سے زیادہ تھے، ایک جگہ جمع کئے، عیسائی سرداروں کو طلب کیا۔ اور مسلمان و عیسائی الگ الگ ترتیب سے آمنے سامنے بیٹھے۔ بیچ میں قیدیوں کا گروہ تھا۔ فرمان خلافت پڑھا گیا تو بہت سے قیدیوں نے جو مسلمانوں میں رہ کر اسلام کے ذوق سے آشنا ہو گئے تھے، اسلام قبول کیا اور بہت سے اپنے مذہب پر قائم رہے۔ جب کوئی شخص اسلام کا اظہار کرتا تھا تو مسلمان اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے تھے اور خوشی سے بچھے جاتے تھے۔ اور جب کوئی شخص عیسائیت کا اقرار کرتا تھا تو تمام عیسائیوں میں مبارکباد کا غل پڑتا تھا۔ اور مسلمان اس قدر غمزدہ ہوتے تھے کہ بہت سوں کے آنسو نکل پرتے تھے۔ دیر تک یہ سلسلہ جاری رہا اور دونوں فریق اپنے اپنے حصہ رسدی کے موافق کامیاب آئے۔ (طبری صفحہ 272 – 283)۔
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی کی شہادت
(26 ذوالحجہ 23 ہجری – 644 عیسوی)
(کل مدت خلافت دس برس چھ مہینے چار دن)

مدینہ منورہ میں فیروز نامی ایک پارسی غلام تھا۔ جس کی کنیت ابو لولو تھی، اس نے ایک دن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے آ کر شکایت کی کہ میرے آقا مغیرہ بن شعبہ نے مجھ پر بہت بھاری محصول مقرر کیا ہے۔ آپ کم کرا دیجئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تعداد پوچھی۔ اس نے کہا روزانہ دو درہم (قریباً سات آنے)۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پوچھا، تو کون سا پیشہ کرتا ہے، بولا کہ "نجاری نقاشی، آہنگری" فرمایا کہ " ان صنعتوں کے مقابلہ میں رقم کچھ بہت نہیں ہے۔ فیروز دل میں سخت ناراض ہو کر چلا گیا۔

دوسرے دن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ صبح کی نماز کو نکلے تو فیروز خنجر لے کر مسجد میں آیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حکم سے کچھ لوگ اس کام پر مقرر تھے کہ جب جماعت کھڑی ہو تو صفیں درست کریں۔ جب صفیں درست ہو جاتیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ تشریف لاتے تھے اور امامت کراتے تھے۔ اس دن بھی حسب معمول صفیں درست ہو چکیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ امامت کے لئے برھے۔ اور جوں ہی نماز شروع کی، فیروز نے دفعتہً گھات میں سے نکل کر چھ وار کئے جن میں ایک ناف کے نیچے پڑا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فوراً عبد الرحمن بن عوف کا ہاتھ پکڑ کر اپنی جگہ کھڑا کر دیا۔ اور خود زخم کے صدمہ سے گر پڑے۔

عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسی حالت میں نماز پڑھائی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سامنے بسمل پڑے تھے۔ فیروز نے اور لوگوں کو بھی زخمی کیا لیکن بالآخر پکڑا گیا، اور ساتھ ہی اس نے خود کُشی کر لی۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو لوگ گھر لائے۔ سب سے پہلے انہوں نے پوچھا کہ " میرا قاتل کون تھا۔" لوگوں نے کہا کہ " فیروز" فرمایا کہ الحمد اللہ کہ میں ایسے شخص کے ہاتھ سے نہیں مارا گیا جو اسلام کا دعویٰ رکھتا ہو۔ لوگوں کو خیال تھا کہ زخم چنداں کاری نہیں۔ غالباً شفا ہو جائے۔ چنانچہ ایک طبیب بلایا گیا۔ اس نے نبیند اور دودھ پلایا۔ اور دونوں چیزیں زخم کی راہ سے باہر نکل آئیں۔ اس وقت لوگوں کو یقین ہو گیا کہ وہ اس زخم سے جانبر نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ لوگوں نے ان سے کہا کہ " اب آپ اپنا ولی عہد منتخب کر جائیے۔"

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عبد اللہ اپنے فرزند کو بلا کر کہا کہ " عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے پاس جاؤ اور کہو کہ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ آپ سے اجازت طلب کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ عبد اللہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے پاس آئے، وہ رو رہی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا سلام کہا اور پیغام پہنچایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے کہا کہ " اس جگہ کو میں اپنے لئے محفوظ رکھنا چاہتی تھی۔ لیکن آج میں عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اپنے پر ترجیح دوں گی۔" عبد اللہ واپس ائے۔ لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خبر کی۔ بیٹے کی طرف مخاطب ہوئے اور کہا کہ کیا خبر لائے؟ انہوں نے کہا کہ جو آپ چاہتے تھے۔ فرمایا " یہی سب سے بڑی آرزو تھی۔"

اس وقت اسلام کے حق میں جو سب سے اہم کام تھا وہ ایک خلیفہ کا انتخاب کرنا تھا۔ تمام صحابہ بار بار حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے درخواست کرتے تھے کہ اس مہم کو آپ طے کر جائیے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خلافت کے معاملہ پر مدتوں غور کیا تھا۔ اور اکثر سوچا کرتے تھے۔ بار بار لوگوں نے ان کو اس حالت میں دیکھا کہ سب سے الگ متفکر بیٹھے کچھ سوچ رہے ہیں۔ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ خلافت کے باب میں غلطاں و پیچاں ہیں۔

مدت کے غور فکر پر بھی ان کے انتخاب کی نظر کسی شخص پر جمتی نہ تھی۔ بارہا ان کے منہ سے بیساختہ آہ نکل گئی۔ کہ "افسوس بار گراں کا کوئی اٹھانے والا نظر نہیں آتا۔" تمام صحابہ میں اس وقت چھ شخص تھے جن پر انتخاب کی نگاہ پڑ سکتی تھی، علی، عثمان، زبیر، طلحہ، سعد بند ابھی وقاص، عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہم۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ان سب میں کچھ نہ کچھ کمی پاتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اور بزرگوں کی نسبت جو خوردہ کیریاں کیں، گو ہم نے ان کو ادب سے نہیں لکھا لیکن ان میں اجئے کلام نہیں البتہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے متعلق جو نکتہ چینی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زبانی عام تاریخوں میں منقول ہے۔ یعنی یہ کہ ان کے مزاج میں ظرافت ہے۔ یہ ایک خیال ہی خیال معلوم ہوتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ ظریف تھے مگر اسی قدر جتنا لطیف المزاج بزرگ ہو سکتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے تعلقات قریش کے ساتھ کچھ ایسے پیچ در پیچ تھے کہ قریش کسی طرح ان کے آگے سر نہیں جھکا سکتے تھے۔ علامہ طبری نے اس معاملے کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے خیالات مکالمہ کی صورت میں نقل کئے ہیں۔ ہم ان کو اس موقع پر اس لئے درج کر رہے ہیں کہ اس سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے خیالات کا راز سربستہ معلوم ہو جائے گا۔ مکالمہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہوا۔ جو حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہم قبیلہ اور طرفدار تھے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ : کیوں عبد اللہ بن عباس! علی رضی اللہ تعالٰی عنہ ہمارے ساتھ کیوں نہیں شیریک ہوئے؟
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ : میں نہیں جانتا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ : تمہارے باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچیرے بھائی ہو۔ پھر تمہاری قوم تمہاری طرفدار کیوں نہیں ہوئی؟
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ : میں نہیں جانتا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ : لیکن میں جانتا ہوں، تمہاری قوم تمہارا سردار ہونا گوارا نہیں کرتی تھی۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ : کیوں ؟
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ : وہ یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ ایک ہی خاندان میں نبوت اور خلافت دونوں آ جائیں۔ شاید تم یہ کہو گے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تم کو خلافت سے محروم کر فیا۔ لیکن خدا کی قسم یہ بات نہیں۔ ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وہ کیا جس سے زیادہ مناسب کوئی بات نہیں ہو سکتی تھی۔ اگر وہ تم کو خلافت دینا بھی چاہتے تو ان کو ایسا کرنا تمہارے حق میں کچھ مفید نہ ہوتا۔

دوسرا مکالمہ اس سے زیادہ مفید ہے کچھ باتیں تو وہی ہیں جو پہلے مکالمہ میں گزریں کچھ نئی ہیں۔ اور وہ یہ ہیں :

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ : کیوں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ تمہارے نسبت میں بعض باتیں سنا کرتا تھا، لیکن میں نے اس خیال سے اس کی تحقیق نہیں کی کہ تمہاری عزت میری آنکھوں میں کم نہ ہو جائے۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ : وہ کیا باتیں ہیں؟
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ : میں نے سنا ہے کہ تم کہتے ہو کہ لوگوں نے ہمارے خاندان سے خلافت حسداً ظلماً چھین لی۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ : ظلماً کی نسبت تو میں نہیں کہہ سکتا، کیونکہ یہ بات کسی پر مخفی نہیں۔ لیکن حسداً تو اس میں تعجب کیا ہے۔ ابلیس نے آدم پر حسد کیا اور ہم لوگ آدم ہی کی اولاد ہیں پھر محسود ہوں تو کیا تعجب ہے؟
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ : افسوس خاندان بنی ہاشم کے دلوں سے پرانے رنج اور کینے نہ جائیں گے۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ : ایسی بات نہ کہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہاشمی ہی تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ : اس تذکرے کو جانے دو۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ : بہت مناسب۔ (دیکھو تاریخ طبری صفحہ 2768 تا 2771)

ان مکالمات سے علاوہ اصل واقعہ کے تم اس بات کا بھی اندازہ کر سکو گے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مبارک عہد میں لوگ کس دلیری اور بے باکی سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ اور یہ زیادہ تر اسی وجہ سے تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ خود آزادی اور حق گوئی کو قوم میں پھیلانا چاہتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور اس کا انہوں نے مختلف موقعوں پر اظہار بھی کر دیا تھا۔ چنانچہ طبری وغیرہ میں ان کے ریمارکس کس بتفصیل مذکور ہیں۔ مذکورہ بالا بزرگوں میں وہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو سب سے بہتر جانتے تھے۔ لیکن بعض اسباب سے ان کی نسبت قطعی فیصلہ نہیں کر سکتے تھے۔ (طبری صفحہ 2777)۔

غرض وفات کے وقت جب لوگوں نے اصرار کیا تو فرمایا کہ " ان چھ شخصوں میں جس کی نسبت کثرت رائے ہو وہ خلیفہ منتخب کر لیا جائے۔"

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو قوم اور ملک کی بہبودی کا جو خیال تھا اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ عین کرب و تکلیف کی حالت میں جہاں تک ان کی قوت اور حواس نے یاوری کی اسی دھن میں مصروف رہے۔ لوگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ " جو شخص خلیفہ منتخب ہو اس کو میں وصیت کرتا ہوں کہ پانچ فرقوں کے حقوق کا نہایت خیال رکھے۔ مہاجرین، انصار، اعراب و اہل عرب جو اور شہروں میں جا کر آباد ہو گئے ہیں۔ اہل ذمہ (یعنی عیسائی، یہودی، پارسی جو اسلام کی رعایا تھے)۔" پھر ہر ایک کے حقوق کی تصریح کی، چنانچہ اہل ذمہ کے حق میں جو الفاظ کہے وہ یہ تھے " میں خلیفہ وقت کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ خدا کی ذمہ داری اور رسول اللہ کی ذمہ داری کی لحاظ رکھے۔ یعنی اہل ذمہ سے جو اقرار ہے وہ پورا کیا جائے۔ ان کے دشمنوں سے لڑا جائے اور ان کو ان کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دی جائے۔"

قوم کے کام سے فراغت ہو چکی تو اپنے ذاتی مطالب پر توجہ کی۔ عبد اللہ اپنے بیٹھے کو بلا کر کہا کہ مجھ پر کس قدر قرض ہے۔ معلوم ہوا کہ چھیاسی ہزار درہم، فرمایا کہ میرے متروکہ سے ادا ہو سکے تو بہتر ورنہ خاندان عدی سے درخواست کرنا اور اگر وہ بھی پورا نہ کر سکیں توکل قیرش سے۔ لیکن قریش کے علاوہ اوروں کو تکلیف نہ دینا۔ یہ صحیح بخاری کی روایت ہے۔ (دیکھو کتاب المناقب باب قصۃ البیعہ والاتفاق علی عثمان) لیکن عمر بن شیبہ نے کتاب المدینہ میں بسند صحیح روایت کیا ہے کہ نافع جو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے غلام تھے، کہتے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ پر قرض کیونکر رہ سکتا تھا۔ حالانکہ ان کے ایک وارث نے اپنے حصہ وراثت کو ایک لاکھ میں بیچا تھا۔ (دیکھو فتح الباری مطبوعہ مصر جلد 7 صفحہ 52)۔

حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ پر چھیاسی ہزار کا قرض ضرور تھا۔ لیکن وہ اس طرح ادا کیا گیا کہ ان کا مسکونہ مکان بیچ ڈالا گیا۔ جس کو امیر معاویہ نے خریدا۔ یہ مکان باب السلام اور باب رحمت کے بیچ میں واقع تھا۔ اور اس مناسبت سے کہ اس سے قرض ادا کیا گیا، ایک مدت تک دار القضا کے نام سے مشہور رہا۔ چنانچہ " خلاصۃ الوفانی اخبار دار المصطفیٰ" میں یہ واقعہ بتفصیل مذکور ہے۔ (دیکھو کتاب مذکور مطبوعہ مصر صفحہ 179 – 129)۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تین دن کے بعد انتقال کیا۔ اور محرم کی پہلی تاریخ ہفتہ کے دن مدفون ہوئے۔ نماز جنازہ صہیب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پڑھائی۔ حضرت عبد الرحمٰن، حضرت علی، حضرت عثمان، طلحہ، سعد بن ابی وقاص، عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ نے قبر میں اُتارا اور وہ آفتاب عالمتاب خاک میں چھپ گیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

فتوحات پر ایک اجمالی نظر

پہلے حصے میں تم فتوحات کی تفصیل پڑھ آئے ہو۔ اس سے تمہارے دل پر اس عہد کے مسلمانوں کے جوش، ہمت، عزم و استقلال کا قوی اثر پیدا ہوا ہو گا۔ لیکن اسلاف کی داستان سننے میں تم نے اس کی پروا نہ کی ہو گی کہ واقعات کو فلسفہ تاریخی کی نگاہ سے دیکھا جائے۔

لیکن ایک نکتہ سنج مؤرخ کے دل میں فوراً یہ سوالات پیدا ہوں گے کہ چند صحرا نشینوں نے کیونکر فارس و روم کا دفتر الٹ دیا! کیا یہ تاریخ عالم کا کوئی مستثنیٰ واقعہ ہے؟ آخر اس کے اسباب کیا تھے۔ کیا ان واقعات کو سکندر و چنگیز کی فتوھات سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی؟ جو کچھ ہوا اس میں فرمانروائے خلافت کا کتنا حصہ تھا؟ ہم اس موقع پر انہی سوالات کا جواب دینا چاہتے ہیں۔ لیکن اجمال کے ساتھ پہلے یہ بتا دینا ضروری ہے کہ فتوحات فاروقی کی وسعت اور اس کے حدود اربعہ کیا تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فتوحات فاروقی کی وسعت

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مقبوضہ ممالک کا کل رقبہ 2251030/میل مربع یعنی مکہ سے شمال کی جانب 1036/ مشرق کی جانب 1087/ جنوب کی جانب 483/ میل تھا۔ مغرب کی جانب چونکہ صرف جدہ تک حد حکومت تھی اس ہیے وہ قابل ذکر نہیں۔

اس میں شام، مصر، عراق، جزیرہ، خوزستان، عراق، عجم، آرمینیہ، آذر بائیجان، فارس، کرمان، خراسان اور مکران جس میں بلوچستان کا حصہ آ جاتا ہے۔ شامل تھا، ایشیائے کوچک پر جس کو اہل عرب روم کہتے ہیں 20 ہجری میں حملہ ہوا تھا لیکن وہ فتوحات کی فہرست میں شمار ہونے کے قابل نہیں۔ یہ تمام فتوحات خاص حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فتوحات ہیں۔ اور اس کی تمام مدت دس برس سے کچھ ہی زیادہ ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فتح کے اسباب یورپین مؤرخوں کی رائے کے موافق

پہلے سوال کا جواب یورپین مؤرخوں نے یہ دیا ہے کہ اس وقت فارس و روم دونوں سلطنتیں اوج اقبال سے گر چکی تھیں۔ فارس میں خسرو پرویز کے بعد نظام سلطنت بالکل درہم برہم ہو گیا تھا۔ کیونکہ کوئی لائق شخص جو حکومت کو سنبھال سکتا موجود نہ تھا۔ دربار کے عمائدین و ارکان میں سازشیں شروع ہو گئی تھیں۔ اور انہی سازشوں کی بدولت تخت نشینوں میں ادل بدل ہوتا رہتا تھا۔ چنانچہ تین چار برس کے درصے میں ہی عنان حکومت چھ سات فرمانبرداؤں کے ہاتھ میں آئی اور نکل گئی۔ ایک اور وجہ یہ ہوئی کہ نوشیرواں سے کچھ پہلے مزوکیہ فرقہ کا بہت زور ہو گیا تھا۔ جو الحاد و زندقہ کی طرف مائل تھا۔ نوشیرواں نے گو تلوار کے ذریعے سے اس مذہب کو دبا دیا تھا۔ لیکن بالکل مٹا نہ سکا۔ اسلام کا قدم جب فارس میں پہنچا تو اس فرقے کے لوگوں نے مسلمانوں کو اس حیثیت سے اپنا پشت پناہ سمجھا کہ وہ کسی کے مذہب و عقائد سے تعرض نہیں کرتے تھے۔ عیسائیوں میں نسٹورین فرقہ جس کو اور کسی حکومت میں پناہ نہیں ملتی تھی وہ اسلام کے سایہ میں آ کر مخالفوں کے ظلم سے بچ گیا۔ اس طرح مسلمانوں کو دو بڑے فرقوں کی ہمدردی اور اعانت مفت میں ہاتھ آ گئی۔ روم کی سلطنت خود کمزور ہو چکی تھی۔ اس کے ساتھ عیسائیت کے باہمی اختلافات ان دونوں زوروں پر تھے۔ اور چونکہ اس وقت تک مذہب کو نظام حکومت میں دخل تھا اس لیے اس اختلاف کا اثر مذہبی خیالات تک محدود نہ تھا بلکہ اس کی وجہ سے خود سلطنت کمزور ہوتی جاتی تھی۔
 

شمشاد

لائبریرین
یورپین مؤرخین کی رائے کی غلطی

یہ جواب گو واقعیت سے بالکل خالی نہیں، لیکن جس قدر واقعیت ہے اس سے زیادہ طرز استدلال کی ملمع سازی ہے۔ جو یورپ کا خاص انداز ہے۔ بے شبہ اس وقت فارس و روم کی سلطنتیں اپنے عروج پر نہیں رہی تھیں، لیکن اس کا صرف اس قدر نتیجہ ہو سکتا تھا کہ وہ پرزور قوی سلطنت کا مقابلہ نہ کر سکتیں نہ یہ کہ عرب جیسی بے سر و سامان قوم سے ٹکرا کر پرزے پرزے ہو جاتیں۔ روم و فارس گو کسی حالت میں تھے تاہم فنون جنگ میں ماہر تھے۔ یونان میں خاص قواعد حرب پر جو کتابیں لکھی گئی تھیں اور جو اب تک موجود ہیں رومیوں میں ایک مدت تک ان کا عملی رواج رہا۔ اس کے ساتھ رسد کی فراوانی، سر و سامان کی بہتات، آلات جنگ کے تنوع فوجوں کی کثرت میں کمی نہیں آئی تھی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی ملک پر چڑھ کر جانا نہ تھا بلکہ اپنے ملک میں اپنے قلعوں میں اپنے مورچوں میں رہ کر اپنے ملک کی حفاظت کرنی تھی، مسلمانوں کے حملے سے ذرا ہی پہلے خسرو پرویز کے عہد میں جو ایران کی شان و شوکت کی عین شباب تھا۔ قیصر روم نے ایران پر حملہ کیا اور ہر قدم پر فتوحات حاصل کرتا ہوا اصفہان تک پہنچ گیا۔ شام کے صوبے جو ایرانیوں نے چھین لیے تھے واپس لے لیے اور نئے سرے سے نظم و نسق قائم کیا۔

ایران میں خسرو پرویز تک تو عموماً مسلم ہے کہ سلطنت کو نہایت جاہ جلال تھا۔ خسرو پرویز کی وفات سے اسلامی حملے تک صرف تین چار برس کی مدت ہے۔ اتنے تھوڑے عرصے میں ایسی قوم اور قدیم سلطنت کہاں تک کمزور ہو سکتی تھی۔ البتہ تخت نشینوں کی ادل بدل سے نظام میں فرق آ گیا تھا۔ لیکن چونکہ سلطنت کے اجزأ یعنی خزانہ، فوج اور محاصل میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ اس لیے جب یزد گرد تخت نشین ہوا اور درباریوں نے اصلاح کی طرف توجہ کی تو فوراً نئے سرے سے وہی ٹھاٹھ قائم ہو گئے۔ مزوکیہ فرقہ گو ایران میں موجود تھا۔ لیکن ہم کو تمام تاریخ میں ان سے کسی قسم کی مدد ملنے کا حال معلوم نہیں ہوتا۔ اسی طرح فرقہ نسٹورین کی کوئی اعانت یا ان سے کسی قسم کی مدد ملنے کا حال معلوم نہیں ہوتا۔ اسی طرح فرقہ نسٹورین کی کوئی اعانت کی کوئی اعانت ہم کو معلوم نہیں۔ عیسائیت کے اختلاف مذہب کا اثر بھی کسی واقعہ پر خود یورپین مؤرخوں نے کہیں نہیں بتایا۔

اب عرب کی حالت دیکھو! تمام فوجیں جو مصر و ایران و روم کی جنگ میں مصروف تھیں ان کی مجموعی تعداد کبھی ایک لاکھ تک بھی نہ پہنچی۔ فنون جنگ سے واقفیت کا یہ حال تھا کہ یرموک پہلا معرکہ ہے جس میں عرب میں تعبیہ کے طرز پر صف آرائی کی۔ خود، زرہ، چلتہ، جوشن، پحتر، چار آئینہ، آہنی دستانے، جہلم موزے جو ہر ایرانی سپاہی کا لازمی ملبوس جنگ تھا۔ (بن قتیبہ نے اخبار الطوال میں لکھا ہے۔ یہ چیزیں ہر سپاہی کو استعمال کرنی پڑتی تھیں۔) اس میں سے عربوں کے پاس صرف زرہ تھی اور وہ بھی اکثر چمڑے کی ہوتی تھی۔ رکاب لوہے کی بجائے لکڑی کی ہوتی تھی۔ آلات جنگ میں گرز و کمند سے عرب بالکل آشنا نہ تھے۔ تیر تھے لیکن ایسے چھوٹے اور کم حیثیت کہ قادسیہ کے معرکے میں ایرانیوں نے جب پہلے پہل ان کو دیکھا تو سمجھا کہ تکلے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فتوحات کے اصلی اسباب

ہمارے نزدیک اس سوال کا اصلی جواب صرف اس قدر ہے کہ مسلمانوں میں اس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت جو جوش، عزم، استقلال، بلند حوسلگی، دلیری پیدا ہو گئی تھی اور جس کو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اور زیادہ قوی اور تیز کر دیا تھا۔ روم اور فارس کی سلطنتیں عین عروج کے زمانے بھی اس کی ٹکر نہیں اٹھا سکتی تھیں۔ البتہ اس کے ساتھ اور چیزیں بھی مل گئی تھیں۔ جنہوں نے فتوحات میں نہیں بلکہ قیام حکومت میں مدد دی۔ اس میں سب سے مقدم چیز مسلمانوں کی راست بازی اور دیانتداری تھی۔ جو ملک فتح ہوتا تھا وہاں کے لوگ مسلمانوں کی راست بازی کے اس قدر گرویدہ ہو جاتے تھے کہ باوجود اختلاف مذہب کے ان کی سلطنت کا زوال نہیں چاہتے تھے۔ یرموک کے معرکہ میں مسلمان جب شام کے اضلاع سے نکلے تو تمام عیسائی رعایا نے پکارا کہ " خدا تم کو پھر اس ملک میں لائے۔" اور یہودیوں نے توریت ہاتھ میں لے کر کہا کہ " ہمارے جیتے جی قیصر اب یہاں نہیں آ سکتا۔"

رومیوں کی حکومت جو شام و مصر میں تھی وہ بالکل جابرانہ تھی۔ اس لیے رومیوں نے جو مقابلہ کیا وہ سلطنت اور فوج کے زور سے کیا۔ رعایا ان کے ساتھ نہ تھی۔ مسلمانوں نے جب سلطنت کا زور توڑا تو آگے مطلع صاف تھا۔ یعنی رعایا کی طرف سے کسی قسم کی مزاحمت نہ ہوئی، البتہ ایران کی حالت اس سے مختلف تھی۔ وہاں سلطنت کے نیچے بہت سے بڑے بڑے رئیس تھے جو بڑے بڑے اضلاع اور صوبوں کے مالک تھے۔ وہ سلطنت کے لیے نہیں بلکہ خود اپنی ذاتی حکومت کے لیے لڑتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ پائے تخت کے فتح کر لینے پر بھی فارس میں ہر قدم پر مسلمانوں کو مزاحمتیں پیش آئیں لیکن عام رعایا وہاں بھی مسلمانوں کی گرویدہ ہوتی جاتی تھی۔ اور اس لیے فتح کے بعد بقائے حکومت میں ان سے بہت مدد ملتی تھی۔

ایک اور بڑا سبب یہ تھا کہ مسلمانوں کا اول حملہ شام و عراق پر ہوا۔ اور دونوں مقامات میں کثرت سے عرب آباد تھے۔ شام میں دمشق کا حاکم غسانی خاندان کا تھا جو برائے نام قیصر کا محکوم تھا۔ عراق میں نخمی خاندان والے دراصل ملک کے مالک تھے۔ گو کسریٰ کو خراج کے طور پر کچھ دیتے تھے، ان عربوں نے اگرچہ اس وجہ سے کہ عیسائی ہو گئے تھے۔ اول اول مسلمانوں کا مقابلہ کیا۔ لیکن قومی اتحاد کا جذبہ رائیگاں نہیں جا سکتا تھا۔ عراق کے بڑے بڑے رئیس بہت جلد مسلمان ہو گئے اور مسلمان ہو جانے پر وہ مسلمانوں کے دست و بازو بن گئے۔ (آگے چل کر ایک موقع پر ہم نے ان کے نام بھی تفصیل سے لکھے ہیں)۔ شام میں بھی آخر عربوں نے اسلام قبول کر لیا اور رومیوں کی حکومت سے آزاد ہو گئے۔ سکندر اور چنگیز وغیرہ کا نام لینا یہاں بالکل بے موقع ہے، بے شبہ ان دونوں نے بڑی بڑی فتوحات حاصل کیں۔ لیکن کیونکر؟ قہر، ظلم اور قتل عام کی بدولت چنگیز کا حال توسب کو معلوم ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
سکندر وغیرہ کی فتوحات​

سکندر کی یہ کیفیت ہے کہ جب اس نے شام کی طرف شہر صور کو فتح کیا تو چونکہ وہاں کے لوگ دیر تک جم کر لڑے تھے اس لیے قتل عام کا حکم دیا اور ایک ہزار شہریوں کے سر شہر پناہ کی دیوار پر لٹکا دیئے۔ اس کے ساتھ 30 ہزار باشندوں کو لونڈی غلام بنا کر بیچ ڈالا۔ جو لوگ قدیم باشندے اور آزادی پسند تھے۔ ان میں ایک شخص کو بھی زندہ نہ چھوڑا۔ اسی طرح فارس میں اصطخر کو فتح کیا تو تمام مردوں کو قتل کر دیا۔ اسی طرح کی اور بھی بے رحمیاں اس کے کارناموں میں مذکور ہیں۔ عام طور پر مشہور ہے کہ ظلم اور ستم سے سلطنت برباد ہو جاتی ہے۔ یہ اس لحاظ سے صحیح ہے کہ ظلم کی بقا نہیں۔ چنانچہ سکندر اور چنگیز کی سلطنتیں بھی دیرپا نہ ہوئیں لیکن فوری فتوحات کے لیے اسی قسم کی سفاکیاں کارگر ثابت ہوئی ہیں۔ ان کی وجہ سے ملک کا ملک مرعوب ہو جاتا ہے۔ اور چونکہ رعایا کا بڑا گروہ ہلاک ہو جاتا ہے، اس لیے بغاوت و فساد کا اندیشہ باقی نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ چنگیز، بخت نصر، تیمور، نادر شاہ جتنے بڑے بڑے فاتح گزرے ہیں سب کے سب سفاک بھی تھے۔

لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فتوحات میں کبھی سرمو قانون و انصاف سے تجاوز نہیں ہو سکتا تھا۔ آدمیوں کا قتل عام ایک طرف، درختوں کے کاٹنے تک کی اجازت نہ تھی۔ بچوں اور بوڑھوں سے بالکل تعرض نہیں کیا جا سکتا تھا۔ بجز عین معرکہ کارزار کے کوئی شخص قتل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ دشمن سے کسی موقع پر بدعہدی یا فریب دہی نہیں کی جا سکتی تھی۔ افسروں کو تاکیدی احکام دیئے جاتے تھے۔

فان قاتلو کم فلا تغدروا ولا تمثلوا ولا تقتلوا ولیداً (کتاب الخراج صفحہ 130)

"یعنی دشمن تم سے لڑائی کریں تو تم ان سے فریب نہ کرو۔ کسی کی ناک کان نہ کاٹو۔ کسے بچے کو قتل نہ کرو۔"

جو لوگ مطیع ہو جاتے تھے ان سے دوبارہ اقرار لے کر درگزر کی جاتی تھی، یہاں تک کہ جب عربسوس والے تین تین دفعہ متواتر اقرار کر کے پھر گئے، تو صرف اس قدر کیا کہ ان کو وہاں سے جلا وطن کر دیا لیکن اس کے ساتھ ان کی کل جائیداد مقبوضہ کی قیمت ادا کر دی۔ خیبر کے یہودیوں کو سازش اور بغاوت کے جرم میں نکالا تو ان کی مقبوضہ ارضیات کا معاوضہ دے دیا اور اضلاع کے حکام کو احکام بھیج دیئے کہ جدھر سے ان لوگوں کا گزر ہو ان کو ہر طرح کی اعانت دی جائے۔ اور جب کسی شہر میں قیام پذیر ہوں تو ایک سال تک ان سے جزیہ نہ لیا جائے۔

جو لوگ فتوحات فاروقی کی حیرت انگیزی کا جواب دیتے ہیں کہ دنیا میں اور بھی ایسے فاتح گزرے ہیں، ان کو یہ دکھانا چاہیے کہ اس احتیاط، اس قید، اس پابندی، اس درگزر کے ساتھ دنیا میں کس حکمران نے ایک چپہ بھر زمین بھی فتح کی ہے۔

اس کے علاوہ سکندر اور چنگیز وغیرہ خود ہر موقع اور ہر جنگ میں شریک رہتے تھے اور خود سپہ سالار بن کر فوج کو لڑاتے تھے۔ اس کی وجہ سے علاوہ اس کے کہ فوج کو ایک ماہر سپہ سالار ہاتھ آتا تھا۔ فوج کے دل قوی رہتے تھے۔ اور ان میں بالطبع اپنے آقا پر فدا ہو جانے کا جوش پیدا ہوتا تھا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ تمام مدت خلافت میں ایک دفعہ بھی کسی جنگ میں شریک نہیں ہوئے۔ فوجیں ہر جگہ کام کر رہی تھی۔ البتہ ان کی باگ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہاتھ میں رہتی تھی۔ ایک اور صریحی فرق یہ ہے کہ سکندر وغیرہ کی فتوحات گزرنے والے بادل کی طرح تھیں۔ ایک دفعہ زور سے آیا اور نکل گیا۔ ان لوگوں نے جو ممالک فتح کئے وہاں کوئی نظم حکومت نہیں قائم کیا۔ اس کے برخلاف فتوحات فاروقی میں یہ استواری تھی کہ جو ممالک اس وقت فتح ہوئے تیرہ سو برس گزرنے پر آج بھی اسلام کے قبضے میں ہیں اور خود حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد میں ہر قسم کے ملکی انتظامت وہاں قائم ہو گئے تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فتوحات میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا اختصاص

آخری سوال کا جواب عام رائے کے موافق یہ ہے کہ فتوحات میں خلیفۂ وقت کی چنداں تحقیق نہ تھی۔ اس وقت کے جوش اور عزم کی جو حالت تھی وہ خود تمام فتوحات کی کفیل تھی۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ صحیح نہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں بھی تو آخر وہی مسلمان تھے۔ لیکن کیا نتیجہ ہوا؟ جوش اور اثر بے شبہ برقی قوتیں ہیں۔ لیکن یہ قوتیں اسی وقت کام دے سکتی ہیں جب کام لینے والا بھی اسی زور و قوت کا ہو۔ قیاس اور استدلال کی ضرورت نہیں۔ واقعات خود اس کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ فتوحات کے تفصیلی حالات پڑھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ تمام فوج پتلی کی طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اشاروں پر حرکت کرتی تھی۔ اور فوج کا جو نظم و نسق تھا وہ خاص ان کی سیاست و تدبیر کی بدولت تھا۔ اسی کتاب میں آگے چل کر جب تم مفصل طور پر پڑھو گے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فوج کی ترتیب، فوجی مشقیں، بارکوں کی تعمیر، گھوڑوں کی پرداخت، قلعوں کی حفاظت، جاڑے اور گرمی کے لحاظ سے حملوں کا تعین، فوج کی نقل و حرکت، پرچہ نویسی کا انتظام، افسران فوجی کا انتخاب، قلعہ شکن آلات کا استعمال، یہ اور اس قسم کے امور کے متعلق کیا کیا انتظام خود ایجاد کئے۔ اور ان کو کس عجیب و غریب زور و قوت کے ساتھ قائم رکھا تو تم خود فیصلہ کر لو گے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بغیر یہ کل مطلق کام نہیں دے سکتی تھی۔

عراق کی فتوحات میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے درحقیقت خود سپہ سالاری کا کام کیا تھا۔ فوج جب مدینہ سے روانہ ہوئی تو ایک ایک منزل بلکہ راستہ تک خود متعین کر دیا تھا اور اس کے موافق تحریری احکام بھیجتے رہتے تھے۔ فوج قادسیہ کے قریب پہنچی تو موقع کا نقشہ منگوا بھیجا اور اس کے لحاظ سے فوج کی ترتیب اور صف آرائی سے متعلق ہدائتیں بھجیں۔ جس قدر افسر جن جن کاموں پر مامور ہوتے تھے، ان کے خاص حکم کے موافق مامور ہوتے تھے۔

تاریخ طبری میں عراق کے واقعات کو تفصیل سے دیکھو تو صاف نظر آتا ہے کہ ایک بڑا سپہ سالار دور سے تمام فوجوں کو لڑا رہا ہے اور جو کچھ ہوتا ہے اس کے اشاروں پر ہوتا ہے۔ ان تمام لڑائیوں میں جو دس برس کی مدت میں پیش آئیں، سب سے زیادہ خطرناک دو موقعے تھے۔ ایک نہاوند کا معرکہ جب ایرانیوں نے فارس کے صوبہ جات میں ہر جگہ نقیب دوڑا کر تمام ملک میں آگ لگا دی تھی۔ اور لاکھوں فوج مہیا کر کے مسلمانوں کی طرف بڑھے تھے۔ دوسرے جب قیصر روم نے جزیرہ والوں کی اعانت سے دوبارہ حمص پر چڑھائی کی تھی۔ ان دونوں معرکوں میں صرف حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حسن تدبیر تھی، جس نے ایک طرف ایک اٹھتے ہوئے طوفان کو دبا دیا۔ اور دوسری طرف ایک کوہ گراں کے پرخچے اڑا دیئے۔ چنانچہ ہم ان واقعات کی تفصیل پہلے حصے میں لکھ آئے ہیں۔

ان واقعات کی تفصیل کے بعد یہ دعویٰ صاف ثابت ہو جاتا ہے کہ جب سے دنیا کی تاریخ معلوم ہے آج تک کوئی شخص فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے برابر فاتح اور کشور کشا نہیں گزرا جو فتوحات اور عدل دونوں کا جامع ہو۔
 

شمشاد

لائبریرین
نظام حکومت​

اسلام میں خلافت یا حکومت کی بنیاد اگرچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد میں پڑی۔ لیکن حکومت کا دور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد سے شروع ہوتا ہے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی دو سالہ خلافت میں اگرچہ بڑی بڑی مہمات کا فیصلہ وا۔یعنی عرب کے مرتدوں کا خاتمہ ہو گیا۔ اور بیرونی فتوحات شروع ہوئیں۔ تاہم حکومت کا کوئی خاص نظام نہیں قائم ہوا۔ اور نہ اتنا مختصر زمانہ اس کے لیے کافی ہو سکتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک طرف تو فتوحات کو وسعت دی کہ قیصر و کسریٰ کی وسیع سلطنتیں ٹوٹ کر عرم میں مل گئیں۔ دوسری طرف حکومت و سلطنت کا نظام قائم کیا اور اس کو اس قدر ترقی دی کہ ان کی وفات تک حکومت کے جس قدر مختلف شعبے ہیں سب وجود میں آ چکے تھے۔

لیکن قبل اس کے کہ ہم حکومت کے قوائد و آئین کی تفصیل بتائیں، پہلے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس حکومت کی ترکیب اور ساخت کیا تھی؟ یعنی شخصی تھی یا جمہوری؟ اگرچہ اس وقت عرب کا تمدن جس حد تک پہنچا تھا، اس کے لحاظ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت پر جمہوری یا شخصی دونوں میں سے کسی ایک کا بھی اطلاق نہیں ہو سکتا تھا لیکن ایسے موقع پر صرف اس ایک بات کا پتہ لگانا کافی ہے کہ حکومت کا جو انداز تھا وہ جمہوریت سے ملتا تھا یا شخصیت سے ملتا تھا۔ یعنی سلطنت کا میلان ذاتی اختیار پر تھا یا عام رائے پر۔
 

شمشاد

لائبریرین
جمہوری اور شخصی سلطنت کا موازنہ

جمہوری اور شخصی طریق حکومت میں جو چیز سب سے بڑھ کر مابہ الامتیاز ہے، وہ عوام کی مداخلت اور عدم مداخلت ہے یعنی حکومت میں جس قدر رعایا کو دخل دینے کا زیادہ حق حاصل ہو گا اسی قدر اس میں جمہوریت کا عنصر زیادہ ہو گا۔ یہاں تک کہ سلطنت جمہوری کی آخری حد یہ ہے کہ مسند نشین حکومت کے ذاتی اختیارات بالکل فنا ہو جائیں اور وہ جماعت کا صرف ایک ممبر رہ جائے پر خلاف اس کے شخصی سلطنت میں تمام دار و مدار صرف ایک شخص پر ہوتا ہے۔ اس بنأ پر شخصی سلطنت سے خواہ مخواہ نتائج ذیل پیدا ہوتے ہیں۔

1 – بجائے اس کے کہ ملک کے تمام قابل اشخاص کی قابلیتیں کام میں آئیں۔ صرف چند ارکان سلطنت کی عقل و تدبیر پر کام چلتا ہے۔

2 - چونکہ بجز چند عہدیداروں کے اور لوگوں کو ملکی انتظامات سے کچھ سروکار نہیں ہوتا۔ اس لیے قوم کے اکثر افراد سے انتظامی قوت اور قابلیت رفتہ رفتہ معدوم ہونے لگتی ہے۔

۳ - مختلف فرقوں اور جماعتوں کے خاص خاص حقوق کی اچھی طرح حفاظت نہیں ہوتی۔ کیونکہ جن لوگوں کو ان حقوق سے غرض ہے ان کو انتظام سلطنت میں دخل نہیں ہوتا اور جن لوگوں کو دخل ہوتا ہے ان کو غیروں کے حقوق سے اس قدر ہمدردی نہیں ہو سکتی جتنی کہ خود ارباب حقوق کو ہو سکتی ہے۔ چونکہ بجز چند ارکان سلطنت کے کوئی شخص ملکی اور قومی کاموں میں دخل دینے کا مجاز نہیں ہوتا۔ اس لیے قوم میں ذاتی اغراض کے سوا قومی کارناموں کا مذاق معدوم ہو جاتا ہے۔ یہ نتائج شخصی سلطنت کے لوازم ہیں۔ اور کبھی اس سے جدا نہیں ہو سکتے۔ بر خلاف اس کے جمہوری سلطنت میں اس کے برعکس نتائج ہوں گے۔ اس بنأ پر جس سلطنت کی نسبت جمہوری یا شخصی حکومت کا حیثیت سے بحث ہو، اس کی نوعیت کا اندازہ نتائج سے بھی کیا جا سکتا ہے۔

یہ نہیں خیال کرنا چاہیے کہ جمہوریت کا طریق عرب کا فطری مذاق تھا اور اس لیے عرب میں جو حکومت قائم ہوتی وہ خواہ مخواہ جمہوری ہوتی۔ عرب میں مدت سے تین وسیع حکومتیں تھیں لخمی، حمیری، غسانی لیکن یہ سب شخصی تھیں۔ قبائل کے سردار جمہوری اصولوں پر انتخاب کئے جاتے تھے، لیکن ان کو کسی قسم کی ملکی حکومت حاصل نہ تھی بلکہ ان کی حیثیت سپہ سالاروں یا قاضیوں کی ہوتی تھی۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت نے بھی اس بحث کا کچھ فیصلہ نہیں کیا۔ گو ان کا انتخاب کثرت رائے پر ہوا تھا۔ لیکن وہ ایک فوری کاروائی تھی چنانچہ خود حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا :

" فلا یغتون امر ان یقول انما کانت بیعۃ ابی بکر فلتۃ و تمت الا و انھا قد کانت کذالک لکن اللہ و فی شرھا۔"

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے گرد و پیش جو سلطنتیں تھیں وہ بھی جمہوری نہ تھیں۔ ایران میں تو سرے سے کبھی یہ مذاق ہی نہیں پیدا ہوا۔ روم البتہ کسی زمانے میں اس شرف سے ممتاز ہوا تھا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے سے پہلے وہاں شخصی حکومت قائم ہو چکی تھی۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں تو وہ بالکل ایک جابرانہ خود مختار سلطنت رہ گئی تھی۔ غرض حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بغیر کسی مثال اور نمونے کے جمہوری حکومت کی بنیاد ڈالی اور اگرچہ وقت کے اقتضأ سے اس کے تمام اصول و فروع مرتب نہ ہو سکے تاہم جو چیزیں حکومت جمہوری کی روح ہیں سب وجود میں آ گئیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت میں مجلس شوریٰ (کونسل)

اس میں سب کا اصل الاصول مجلس شوریٰ کا انعقاد تھا۔ یعنی جب کوئی انتظام کا مسئلہ پیش آتا تھا تو ہمیشہ ارباب شوریٰ کی مجلس منعقد ہوتی تھی۔ اور کوئی امر بغیر مشورہ اور کثرت رائے کے عمل میں نہیں آ سکتا تھا۔ تمام جماعت اسلام میں اس وقت دو گروہ تھے جو کل قوم کے پیشوا تھے اور جن کو تمام عرب نے گویا اپنا قائم مقام تسلیم کر لیا تھا۔ یعنی مہاجرین و انصار۔
 

شمشاد

لائبریرین
مجلس شوریٰ کے ارکان اور اس کے انعقاد کا طریقہ

مجلس شوریٰ میں ہمیشہ لازمی طور پر ان دونوں گروہ کے ارکان شریک ہوتے تھے۔ انصار بھی دو قبیلوں میں منقسم تھے۔ اوس و خزرج۔ چنانچہ ان دونوں خاندانوں کا مجلس شوریٰ میں شریک ہونا ضروری تھا۔ مجلس شوریٰ کے تمام ارکان کے نام اگرچہ ہم نہیں بتا سکتے، تاہم اس قدر معلوم ہے کہ حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبد الرحمٰن بن عوف، حضرت معاذ بن جبل، ابی بن کعب اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم شامل تھے۔ (کنز العمال حوالہ طبقات ابن سعد جلد 3 صفحہ 134 مطبوعہ حیدر آباد)۔ مجلس کے انعقاد کا یہ طریقہ تھا کہ پہلے ایک منادی اعلان کرتا تھا کہ الصلوٰۃ جامعہ یعنی سب لوگ نماز کے لیے جمع ہو جائیں۔ جب لوگ جمع ہو جاتے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ مسجد نبوی میں جا کر دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔ نماز کے بعد منبر پر چڑھ کر خطبہ دیتے تھے اور بحث طلب امر پیش کیا جاتا تھا۔ (تاریخ طری صفحہ 2574)۔
 

شمشاد

لائبریرین
مجلس شوریٰ کے جلسے

معمولی اور روزمرہ کے کاروبار میں اس مجلس کے فیصلے کافی سمجھے جاتے تھے لیکن جب کوئی امر اہم پیش آتا تھا تو مہاجرین اور انصار کا اجلاس عام ہوتا تھا اور سب کے اتفاق سے وہ امر طے پایا جاتا تھا۔ مثلاً عراق و شام کے فتح ہونے پر جب بعض صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اصرار کیا کہ تمام مفتوحہ مقامات فوج کی جاگیر میں دے دیئے جائیں تو بہت بڑی مجلس منعقد ہوئی۔ جس میں تمام قدمائے مہاجرین اور انصار میں سے عام لوگوں کے علاوہ دس بڑے سردار جو تمام قوم میں ممتاز تھے اور جن میں پانچ شخص قبیلہ اوس اور پانچ قبیلہ خزرج کے تھے، شریک ہوئے۔ کئی دن تک مجلس کے جلسے رہے اور نہایت آزادی و بیباکی سے لوگوں نے تقریریں کیں۔ اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جو تقریر (تمام تفصیل کتاب الخراج قاضی ابو یوسف صفحہ 14 تا 15 میں ہے۔) کی اس کے جستہ جستہ فقرے ہم اس لحاظ سے نقل کرتے ہیں کہ اس سے منصب خلافت کی حقیقت اور خلیفہ وقت کے اختیارات کا اندازہ ہوتا ہے۔

" الی لم از عجکم الا لان نشر کوافی امانتی فیما حملت من امور کم فانی واحد کا حد کم۔ ولست اریدان یتبعوا اھذا الذی ہوای۔"

21 ہجری میں جب نہاوند کا سخت معرکہ پیش آیا اور عجمیوں نے اس سر و سامان سے تیاری کی کہ لوگوں کے نزدیک خود خلیفہ وقت کا اس مہم پر جانا ضروری ٹھہرا تو بہت بڑی مجلس شوریٰ منعقد ہوئی۔ حضرت عثمان، طلحہ بن عبید اللہ، زبیر بن العوام، عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہم وغیرہ نے باری باری کھڑے ہو کر تقریریں کیں۔ اور کہا کہ آپ کا خود موقع جنگ پر جانا مناسب نہیں۔ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کھڑے ہوئے اور ان لوگوں کی تائید میں تقریر کی۔ غرض کثرت رائے سے یہی فیصلہ ہوا کہ خود حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ موقع جنگ پر نہ جائیں۔ اسی طرح فوج کی تنخواہ، دفتر کی ترتیب، عمال کا تقرر، غیر قوموں کی تجارت کی آزادی اور ان پر محصول کی تشخیص۔ اسی قسم کے بہت سے معاملات ہیں جن کی نسبت تاریخوں میں بہ تصریح مذکور ہے کہ مجلس شوریٰ میں پیش ہو کر طے پائے۔ ان امور کے پیش ہوتے وقت ارکان مجلس نے جو تقریریں کیں وہ بھی تاریخوں میں مذکور ہیں۔

مجلس شوریٰ کا انعقاد اور اہل الرائے کی مشورت استحسان و تبرع کے طور پر نہ تھی، بلکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مختلف موقعوں پر صاف صاف فرمایا تھا کہ مشورے کے بغیر خلافت سرے سے جائز ہی نہیں، ان کے خاص الفاظ یہ ہیں :

" لا خلافۃ الا عن مشورۃ " (کنز العمال بحوالہ مصنف بن ابی شیبہ جلد 3 صفحہ 139)۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top