قانون مال گزاری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اصلاحات
البتہ ایک محقق کی نگاہ اس بات پر پڑتی ہے کہ اس صیغے میں فتوحات فاروقی کی خاص ایجادات اور اصلاحیں کیا ہیں اور ہم اسی خاص پہلو پر نگاہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ سب سے بڑا انقلاب جو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس صیغے میں کیا اور جس کی وجہ سے رعایا کی بہبودی اور خوشحالی دفعتہً نہایت ترقی کر گئی، یہ تھی کہ زمینداری اور ملکیت زمین کا قدیم جابرانہ قانون مٹا دیا۔ رومیوں نے جب شام اور مصر پر قبضہ کیا تو تمام ارضیات اصلی باشندوں سے چھین کر کچھ افسران فوج اور کچھ اراکین دربار کو دے دیں کچھ شاہی جاگیریں قرار پائیں۔ کچھ کلیسا اور چرچ پر وقف کر دیں۔ اصل باشندوں کے ہاتھ میں ایک چپہ زمین بھی نہیں رہی۔ وہ صرف کاشتکاری کا حق رکھتے تھے۔ اور اگر مالک زمین ان کی کاشتکاری کی زمین کو کسی کے ہاتھ منتقل کرتا تھا تو زمین کے ساتھ کاشتکار بھی منتقل ہو جاتے تھے۔ اخیر میں باشندوں کو بھی کچھ زمینداریاں ملنے لگیں۔ لیکن زمینداری کی حفاظت اور اس سے متمع ہونے کے لیے رومی زمینداروں سے اعانت لینی پڑتی تھی۔ اس بہانے سے زمیندار خود زمین پر متصرف ہو جاتے تھے۔ اور وہ غریب کاشتکار کا کاشتکار ہی رہتا تھا۔ یہ طریقہ کچھ رومی سلطنت کے ساتھ مخصوص نہ تھا۔ بلکہ جہاں تک ہم کو معلوم ہے تمام دنیا میں قریب قریب یہی طریقہ جاری تھا کہ زمین کا بہت بڑا حصہ افسران فوج یا ارکان دولت کی جاگیر میں دے دیا جاتا تھا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ملک پر قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس ظالمانہ قانون کو مٹا دیا۔ رومی تو اکثر ملک کے مفتوح ہوتے ہی نکل گئے۔ اور جو رہ گئے ان کے قبضے سے بھی زمین نکال لی گئی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان تمام اراضیات کو جو شاہی جاگیریں تھیں یا جن پر رومی افسر قابض تھے، باشندگان ملک کے حوالے کر دیا۔ اور بجائے اس کے کہ وہ مسلمان افسروں یا فوجی سرداروں کو عنایت کی جاتیں، قاعدہ بنا دیا کہ مسلمان کسی حالت میں ان زمینوں پر قابض نہیں ہو سکتے۔ یعنی مالکان اراضی کو قیمت دے کر خریدنا چاہیں تو خرید بھی نہیں سکتے۔ یہ قاعدہ ایک مدت تک جاری رہا۔ چنانچہ لیث بن سعد نے مصر میں کچھ زمین مول لی تھی تو بڑے بڑے پیشوایان مذہب مثلاً امام مالک، نافع بن یزید بن البیعہ نے ان پر سخت اعتراض کیا۔ (مقریزی صفحہ 215)۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اہل عرب کو جو ان ممالک میں پھیل گئے تھے زراعت کی ممانعت کر دی۔ چنانچہ تمام فوجی افسروں کے نام احکام بھیج دیئے کہ لوگوں کے روزینے مقرر کر دیئے گئے ہیں۔ اس لیے کوئی شخص زراعت نہ کرنے پائے۔ یہ حکم اس قدر سختی سے دیا گیا کہ شریک عطفی ایک شخص نے مصر میں زراعت خرید کر لی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کو بلا کر سخت مواخذہ کیا اور فرمایا کہ تجھ کو ایسی سزا دوں گا کہ اوروں کو عبرت ہو۔ (حسن المحاضرہ صفحہ 93)۔
ان قاعدوں سے ایک طرف تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس عدل و انصاف کا نمونہ قائم کیا۔ جس کی نظیر دنیا میں کہیں موجود نہ تھی۔ کیونکہ کسی فاتح قوم نے مفتوحین کے ساتھ کبھی ایسی رعایت نہیں برتی تھی۔ دوسری طرف زراعت اور آبادی کو اس سے نہایت ترقی ہوئی۔ اس لیے کہ اصلی باشندے جو مدت سے ان کاموں میں مہارت رکھتے تھے عرب کے خانہ بدوش بدوان کی برابری نہیں کر سکتے تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس تدبیر نے فتوحات کی وسعت میں بڑا کام دیا۔ فرانس کے ایک نہایت لائق مصنف نے لکھا ہے کہ یہ بات مسلم ہے کہ اسلام کی فتوحات میں خراج اور مال گزاری کے معاملہ کو بہت دخل ہے۔ رومن سلطنت میں باشندگان ملک کو جو سخت خراج ادا کرنا پڑتا تھا۔ اس نے مسلمانوں کی فتوحات کو نہایت تیزی سے بڑھایا۔ مسلمانوں کے حملوں کا جو مقابلہ کیا گیا وہ اہل ملک کی طرف سے نہ تھا بلکہ حکومت کی طرف سے تھا۔ مصر میں خود قبطی کاشتکاروں نے یونانیوں کے برخلاف مسلمانوں کو مدد دی، دمشق اور حمص میں عیسائی باشندوں نے ہرقل کو فوج کے مقابلے میں شہر پناہ کے دروازے بند کر دیئے اور مسلمانوں سے کہہ دیا کہ ہم تمہارے حکومت کو بمقابلہ بے رحم رومیوں کے بہت زیادہ پسند کرتے ہیں۔
یہ نہیں خیال کرنا چاہیے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے غیر قوموں کے ساتھ انصاف کرنے میں اپنی قوم کی حق تلفی کی یعنی ان کو زراعت اور فلاحت سے روک دیا۔ درحقیقت اس سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بڑی انجام بینی کا ثبوت ملتا ہے۔ عرب کے اصلی جوہر دلیری، بہادری، جفاکشی، ہمت، عزم اسی وقت تک قائم رہے جب تک وہ کاشتکاری اور زمینداری سے الگ رہے۔ جس دن انہوں نے زمین کو ہاتھ لگایا، اسی دن یہ تمام اوصاف بھی ان سے رخصت ہو گئے۔