شمشاد
لائبریرین
خراجی اور عشری
نوعیت قبضہ کے لحاظ سے زمین کی ایک اور تقسیم۔ یعنی خراجی اور عشری۔ خراجی کا بیان اوپر گزر چکا ہے۔ عشری اس زمین کا نام تھا جو مسلمانوں کے قبصے میں ہوتی تھی۔ اور جس کے اقسام حسب ذیل تھے :
1 – عرب کی زمین جس کے قابضین اوائل اسلام میں مسلمان ہو گئے تھے۔ مثلاً مدینہ منورہ وغیرہ۔
2 – جو زمین کسی ذمی کے قبضے سے نکل کر مسلمانوں کے قبضے میں آتی تھی، مثلاً لاوارث مر گیا، یا مفرور ہو گیا، یا بغاوت کی یا استغفیٰ دے دیا۔
3 – جو افتادہ زمین کسی حیثیت سے کسی کی ملک نہیں ہوتی تھی۔ اور اس کو کوئی مسلمان آباد کر لیتا تھا۔
ان اقسام کی تمام زمینیں عشری کہلاتی تھیں اور چونکہ مسلمانوں سے جو کچھ لیا جاتا تھا وہ زکوٰۃ کی مد میں داخل تھا، اس لیے ان زمینوں پر بجائے خراج کے زکوٰۃ مقرر تھی جس کی مقدار اصل پیداوار کا دسواں حصہ ہوتا تھا۔ یہ شرح خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمائی تھی۔ اور وہی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد میں بھی قائم رہی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اتنا کیا کہ ایران وغیرہ کی جو زمینیں مسلمانوں کے قبضے میں آئیں اگر وہ ذمیوں کی قدیم نہروں یا کنوؤں سے سیراب ہوتی تھیں تو ان پر خراج مقرر کیا۔ چنانچہ اس قسم کی زمینیں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ و خباب وغیرہ کے قبضے میں تھیں اور ان سے خراج لیا جاتا تھا۔ اور اگر خود مسلمان نئی نہر یا کنواں کھوڈ کر اس کی آبپاشی کرتے تھے تو اس پر ریایتہً عشرہ مقرر کیا جاتا تھا۔ (کتاب الخراج صفحہ 35 تا 37)۔
مسلمانوں کے ساتھ عشر کے تخصیص اگرچہ بظاہر ایک قسم کی ناانصافی یا قومی ترجیح معلوم ہوتی ہے لیکن فی الواقع ایسا نہیں ہے۔ اولاً تو مسلمانوں کو بمقابلہ ذمیوں کے بہت سی زائد رقمیں ادا کرنی پڑتی تھیں مثلاً مویشی پر زکوٰۃ، گھوڑوں پر زکوٰۃ، روپے پر زکوٰۃ۔ حالانکہ ذمی ان تمام محصولات سے بالکل مستثنیٰ تھے۔ اس بناء پر خاص زمین کے معاملے میں جو نہایت اقل قلیل مسلمانوں کے قبضے میں آئی تھی اس قسم کی رعایت بالکل مقتضائے انصاف تھی۔ دوسرے یہ کہ عشر ایک ایسی رقم تھی جو کسی حالت میں کم یا معاف نہیں ہو سکتی تھی۔ یہاں تک کہ خود خلیفہ یا بادشاہ معاف کرنا چاہے تو معاف نہیں کر سکتا تھا۔ بخلاف اس کے خراج میں تخفیف اور معافی دونوں جائز تھی۔ اور وقتاً فوقتاً اس پر عمل درآمد بھی ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ خراج سال میں صرف ایک دفعہ لیا جاتا تھا۔ بخلاف اس کے عشر کا یہ حال تھا کہ سال میں جتنی فصلیں ہوتی تھیں سب کی پیداوار سے الگ الگ وصول کیا جاتا تھا۔