پوری غزل کے ہر شعر میں تکرار
شور ہے ہر طرف سحاب سحاب
ساقیا ساقیا! شراب شراب
آبِ حیواں کو مے سے کیا نسبت
پانی پانی ہے اور شراب شراب
رند بخشے گئے قیامت میں
شیخ کہتا رہا حساب حساب
اک وہی مست با خبر نکلا
جس کو کہتے تھے سب خراب خراب
مجھ سے وجہِ گناہ جب پوچھی
سر جھکا کے کہا شباب شباب
جام گرنے لگا تو بہکا شیخ
تھامنا تھامنا کتاب کتاب
کب وہ آتا ہے سامنے کشفیؔ
جس کی ہر اک ادا حجاب حجاب
٭
کشفیؔ ملتانی