میں اپنے آپ کا نہیں تو میرا کون ہو قمر رقیب تو رقیب ہے ، حبیب بھی خلاف ہے
رباب واسطی محفلین نومبر 3، 2018 #81 میں اپنے آپ کا نہیں تو میرا کون ہو قمر رقیب تو رقیب ہے ، حبیب بھی خلاف ہے
رباب واسطی محفلین نومبر 3، 2018 #82 خواب یہ ہے کہ وہ حقیقت تھا یہ حقیقت ہے کوئی خواب تھا وہ افروز سعیدہ
زیرک محفلین نومبر 3، 2018 #83 الفاظ 'بار'، 'کہا'، 'دل' اور 'سے' کی تکرار سو بار کہا دل سے ''چل بھول ہی جا اس کو'' ہر بار کہا دل نے ''تم دل سے نہیں کہتے''
الفاظ 'بار'، 'کہا'، 'دل' اور 'سے' کی تکرار سو بار کہا دل سے ''چل بھول ہی جا اس کو'' ہر بار کہا دل نے ''تم دل سے نہیں کہتے''
زیرک محفلین نومبر 3، 2018 #85 ایک سخن ہوا نہیں، ایک کلام تھا ضرور میرا تو ذکر ہی نہ تھا پر تِرا نام تھا ضرور
محمد تابش صدیقی منتظم نومبر 3، 2018 #86 جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا غالبؔ
محمد تابش صدیقی منتظم نومبر 3، 2018 #87 ہے خیالِ حُسن میں حُسنِ عمل کا سا خیال خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا غالبؔ
محمد تابش صدیقی منتظم نومبر 3، 2018 #88 غم اگرچہ جاں گسل ہے، پہ کہاں بچیں کہ دل ہے غمِ عشق گر نہ ہوتا، غمِ روزگار ہوتا غالبؔ
محمد تابش صدیقی منتظم نومبر 3، 2018 #89 عشق بھی ہو حجاب میں ، حسن بھی ہو حجاب میں یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر اقبالؒ
محمد تابش صدیقی منتظم نومبر 3، 2018 #91 روزِ حساب جب مرا پیش ہو دفترِ عمل آپ بھی شرمسار ہو، مجھ کو بھی شرمسار کر اقبالؒ
محمد تابش صدیقی منتظم نومبر 3، 2018 #93 پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے جو مشکل اب ہے یا رب پھر وہی مشکل نہ بن جائے اقبالؒ
زیرک محفلین نومبر 3، 2018 #94 دل کی تکرار مسلسل دل کی بے چینی کو کیا کہتے ہیں دل والو تمہیں معلوم ہو شاید، مجھے تو آگہی کم ہے
زیرک محفلین نومبر 3، 2018 #95 پاکستان کی سیاسی افراتفری پہ تکرار کرتا ایک شعر سینچا تھا جسے زہر سے، نفرت سے، لہو سے اب تم کو مبارک ہو وہی پیڑ جواں ہے
پاکستان کی سیاسی افراتفری پہ تکرار کرتا ایک شعر سینچا تھا جسے زہر سے، نفرت سے، لہو سے اب تم کو مبارک ہو وہی پیڑ جواں ہے
محمد تابش صدیقی منتظم نومبر 3، 2018 #96 رحم کیا کر، لطف کیا کر، پوچھ لیا کر، آخر ہے میرؔ اپنا، غم خوار اپنا، پھر زار اپنا، بیمار اپنا میرؔ
محمد تابش صدیقی منتظم نومبر 3، 2018 #97 خوں نہ ہوا دل چاہیے جیسا گو اب کام سے جاوے گا کام اپنے وہ کیا آیا جو کام ہمارے آوے گا میرؔ
زیرک محفلین نومبر 3، 2018 #98 میں تیری مست نگاہی کا بھرم رکھ لوں گا ہوش آیا بھی تو کہہ دوں گا مجھے ہوش نہیں بہزاد لکھنوی
زیرک محفلین نومبر 3، 2018 #99 تو نہیں ہے نہ سہی کیف نہیں غم ہی سہی یہ بھی کیا کم ہے کہ خالی مرا آغوش نہیں بہزاد لکھنوی
زیرک محفلین نومبر 3، 2018 #100 بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا اگر اس طرۂ پُر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے مرزا غالب