سید عاطف علی
لائبریرین
بس پھر تو آپ گنتی کو ہی طاق نسیان پر رہنے دیں اور اسی میں جس قدر عافیت میسر ہے، غنیمت جانیں !لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جو خود پکائیں وہ پراٹھا نہیں ہوتا۔ 😐
چٹ بھی میری اور پٹ بھی میری ۔واہ ۔
بس پھر تو آپ گنتی کو ہی طاق نسیان پر رہنے دیں اور اسی میں جس قدر عافیت میسر ہے، غنیمت جانیں !لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جو خود پکائیں وہ پراٹھا نہیں ہوتا۔ 😐
عشق کی مے سے ہے لبریز مرا سارا وجود
بن پئے میرے رگ و پے میں بہکتی ہے غزل
یا اللہ، گھر کے باہر لوگ ہم سے کتنا ڈرتے ہیں !اب اگر میں نے متفق کا بٹن دبا دیا تو بات ڈانٹ سے بڑھ کر مار کھانے تک جا سکتی ہے۔
یعنی سات تھے۔۔۔
یعنی یک نہ شد دو شد!!!ہاہاہاہا ۔ یہ ہوا نہلے پہ دہلا ۔۔۔ ۔ بلکہ چھکیّ پہ ستّہ !
پراٹھے کھاتے وقت تعداد کے بارے میں میں خود اکثر نسیان کا شکار ہوجاتا ہوں۔ اہلِ خانہ یاد دلاتے ہیں تو پھر بلاوجہ کی ایک بیکار بحث گنتی کے بارے میں شروع ہوجاتی ہے۔ نو ، بارہ ، تیرہ یا پندرہ ۔ بھلا اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ ہر ایک کا اپنا اپنا گننے کا طریقہ ہوتا ہے۔
اس اہم تغذیاتی موضوع پر آپ خواہرانِ محترم کی مزیدگفتگو کا سنجیدگی سے انتظار رہے گا۔
تیار ہوتے وقت اتنا تو خواتین بھی نہیں سوچتیں جتنا آپ نے سوچ لیا۔ کمال ہے!!اس محاورے کا پس منظر کیا ہوسکتا ہے وہ صاف ظاہر ہے۔ اچھی طرح تیار ہونے کے بعد (بلکہ تیار شیار ہونے کے بعد ) خواتین جو سلوک ڈریسر کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے رخِ روشن کے ساتھ کرتی ہیں
جس طرح نوک پلک درست کرنے کے چکر میں دعوت میں دو گھنٹے تاخیر سے پہنچنا نارمل بات ہے اسی طرح غزل کا سامعین کے سامنے تاخیر سے جلوہ افروز ہونا بھی متوقع سمجھا چاہیئے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ نوک پلک سنوارنے میں ذرا تاخیر تو ہوجاتی ہے لیکن وڈیو اچھی بنتی ہے ۔
بالکل صحیح۔ اپنے ہاتھ کے پراٹھے میں مجھے وہ مزا کبھی آیا ہی نہیں جو باجی یا امی کے پراٹھوں میں آتا تھا۔ خاص کر امی کے پراٹھے ۔ ۔ اف!!!لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جو خود پکائیں وہ پراٹھا نہیں ہوتا۔ 😐
یہ بات البتہ آپ کی درست ہے کہ اس "شاہکار" کو کھانے کے بعد آپ کبھی بھول نہیں سکتے۔
اچانک سے یہ اشعار ذہن میں آگئے!اس شعر کے توسط سے ایک نئی ضمنی بحث کا آغاز کرنا چاہتا ہوں اور اس کی ابتدا کچھ سوالات سے کرتا ہوں۔
۔ سچا شعر کیا ہوتا ہے ؟
۔ سچا شعر کہنے کے لیےکسی احساس اور کیفیت کا ذاتی تجربہ ضروری ہونا ضروری ہے یا مروجہ شعری روایات کی تقلید سے کام چلایا جاسکتا ہے؟
- اگرچہ غالب کہہ گئے ہیں کہ بنتی نہیں ہے بادۂ و ساغر کہے بغیر لیکن کیا یہ بات ایک آفاقی کلیے کا درجہ رکھتی ہے؟
اس بارے میں اپنی ناقص رائے جلد ہی پیش کرتا ہوں اور محولہ بالا شعر کا تنقیدی تجزیہ بھی ۔ فی الحال شرکا کی سوچ کو مہمیز دینے کے لیے کچھ سوالات پیش کیے ہیں ۔
صابرہ امین
ظہیر بھائی ، آپ کا اِخْتِلاف رائے سَر آنكھوں پر . عام طور پر آپ كے دلائل سننے كے بعد اِتِّفاق كے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا ، لیکن بصد معذرت عرض ہے کہ اِس مرتبہ آپ كے دلائل مجھے متاثر نہیں کر سکے . وجہ حسب ذیل ہے .عرفان بھائی ، اس نکتے پر آپ سے بصد ادب اختلاف کی جسارت کروں گا ۔ میری رائے میں تو "جیسے جذبات دھڑکتے ہوں مرے دل میں کہیں" اچھا پیرایۂ اظہار ہے۔ شاعری کی خوبصورتی ہی یہ ہے کہ اس میں لفظوں کے ( Concrete) یعنی جامد اور لغوی پہلو کے بجائے (abstract) تجریدی پہلو کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ شاعری اور نثر دونوں میں اس طرح کا طرز بیان تو بہت عام ہے کہ کسی لفظ کی معنوی رعایات اور خصوصیات کا لحاظ رکھتے ہوئے اس کی جگہ کسی دوسرے لفظ کو استعمال کرلیا جاتا ہے۔ مثلاً "ابھی تو میرا دل جوان ہے" کہنے کے بجائے "ابھی تو میرے دل میں جوانی دھڑکتی ہے" کہا جائے تو بالکل بھی نامناسب نہیں ہوگا کہ دھڑکنا زندگی کی علامت اور اس کا قائم مقام ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ " فیض کی یہ نظم سانس لیتی اور دھڑکتی محسوس ہوتی ہے۔" غلط نہیں بلکہ خوبصورت اور بلیغ جملہ کہلایا جائے گا۔ شاعری میں تو ستارے اور پھول باتیں کرسکتے ہیں ، شام گنگنا سکتی ہے ، رات روسکتی ہے ، انگلیاں چیخ سکتی ہیں ، آنکھیں مسکراسکتی ہیں ۔ وغیرہ وغیرہ۔ یعنی یہ کہنا چاہیئے کہ قلمکار کو معقولیت اور روایت کی حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے کسی حد تک لفظوں سے کھیلنے کی اجازت تو ہے ۔ میری رائے میں اگر شعر میں لفظوں اور فقروں کو بالکل جامد اور منطقی انداز سے دیکھا جائے تو پھر اردو کے اچھے خاصے اشعار قلمزد کرنے پڑیں گے ۔ جیسے ایک مشہور شعر جو ضرب المثل کا درجہ اختیار کرگیا ہے:
میرے ہاتھوں کے تراشے ہوئے پتھر کے صنم
آج بت خانے میں بھگوان بنے بیٹھے ہیں
اب یہاں یہ اعتراض اٹھایا جاسکتا ہے کہ پتھر کے بت خود تو بھگوان نہیں بنتے بلکہ انسان انہیں بھگوان بناتے ہیں۔ لیکن شعر کی خوبصورتی ہی "بنے بیٹھے ہیں" کے الفاظ میں ہے۔ اور اسی پیرایۂ اظہار کی وجہ سے یہ شعر کم ظرف و احسان فراموش آدمی پر منطبق کیا جاتا ہے ۔
مصرع ِ زیرِ بحث کے دفاع میں تو بہت سارے شعری نظائر پیش کیے جاسکتے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ اس طرح کے اشعار آپ نے بھی دیکھے ہوں گے :
جس کے سینے میں دھڑکتی ہے صدائے فقرا
جس کے اعصاب کو ڈستا ہے رخِ زردِگدا
(جوش ملیح آبادی)
دھڑکتی رہتی ہے دل میں طلب کوئی نہ کوئی
پکارتا ہے مجھے روز و شب کوئی نہ کوئی
(احمد مشتاق)
شعر کا حسن ہو نغموں کی جوانی ہو تم
اک دھڑکتی ہوئی شاداب کہانی ہو تم
(ساحر لدھیانوی)
عرفان بھائی ، اس تنقیدی نشست کا مقصد ہی یہ ہے کہ کسی بھی زیرِ بحث نکتے پر شرکا اپنے اپنے نقطۂ نظر کے مطابق اظہارِ خیال کریں ۔ اختلافِ رائے ہر شخص کا حق ہے اور اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے ۔ کسی نکتے پر مختلف آرا سامنے آنے سے نہ صرف شاعر بلکہ دیگر قارئین کی سوچ اور فکر کو بھی وسعت ملتی ہے۔ خاکسار کا ایک شعر ہے:ظہیر بھائی ، آپ کا اِخْتِلاف رائے سَر آنكھوں پر . عام طور پر آپ كے دلائل سننے كے بعد اِتِّفاق كے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا ، لیکن بصد معذرت عرض ہے کہ اِس مرتبہ آپ كے دلائل مجھے متاثر نہیں کر سکے . وجہ حسب ذیل ہے .
میرا بھی یہی خیال ہے ۔ اور اسی لیے میں نے لفظوں کے تجریدی استعمال پر معقولیت اور روایت کی قید لگائی تھی ۔ یہ دیکھیے گا۔تجریدی ( abstract) خیال باندھنے کا کوئی نپا تلا اصول نہیں ہے . ہَم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اگر چہرے اور آنكھوں کا بولنا روا ہے تو میز اور کرسی کا بولنا بھی چلے گا . ہر تجریدی خیال اپنے آپ میں نادر ہوتا ہے ، اور ہر تجریدی خیال کو اول اول باندھنے پر سوال اٹھنا فطری ہے .
یعنی یہ کہنا چاہیئے کہ قلمکار کو معقولیت اور روایت کی حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے کسی حد تک لفظوں سے کھیلنے کی اجازت تو ہے ۔
جی ظہیر بھائی ، شاعر کی آزادی پر آپ نے جو قید لگائی ہے ، وہ میں نے دیکھی تھی ، لیکن بات بنی نہیں . مجھے لگتا ہے کہ یہاں نظریے کا فرق کارفرما ہے . آپ نے جو حد مقرر کی ہے وہ میری حد سے وسیع تر ہے . میرے ذہن کو تَجْرِید كے نام پر ’دِل کی طرح‘ یا ’دِل کی جگہ‘ دیگر چیزوں کا دھڑکنا قبول ہے . لیکن ’دِل كے اندر‘ کسی شئے کا دھڑکنا میرے ذہن كے لیے ایک بالاتر درجے کی تَجْرِید ہے جس كے لیے وہ ابھی تیار نہیں . اور یہ معاملہ صرف میرے ساتھ ہی نہیں ، اوروں كے ساتھ بھی ہے . شاید اسی لیے اَحْمَد مشتاق صاحب كے علاوہ کسی نے اِس قسم کا خیال نہیں باندھا . مثالوں كے تجزیے سے میں یہی ثابت کرنا چاہ رہا تھا .عرفان بھائی ، اس تنقیدی نشست کا مقصد ہی یہ ہے کہ کسی بھی زیرِ بحث نکتے پر شرکا اپنے اپنے نقطۂ نظر کے مطابق اظہارِ خیال کریں ۔ اختلافِ رائے ہر شخص کا حق ہے اور اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے ۔ کسی نکتے پر مختلف آرا سامنے آنے سے نہ صرف شاعر بلکہ دیگر قارئین کی سوچ اور فکر کو بھی وسعت ملتی ہے۔ خاکسار کا ایک شعر ہے:
اختلافاتِ نظر خود ہیں اُجالے کا ثبوت
جس جگہ روشنی ہوگی وہاں سائے ہونگے
میرا بھی یہی خیال ہے ۔ اور اسی لیے میں نے لفظوں کے تجریدی استعمال پر معقولیت اور روایت کی قید لگائی تھی ۔ یہ دیکھیے گا۔
جہاں تک کسی تجریدی خیال کو اول اول استعمال کرنے کا تعلق ہے تو سوال اسی صورت میں اٹھنا چاہیے جب وہ استعمال معقو ل نہ ہو یا کسی مستند روایت کے برخلاف جارہا ہو۔ مثلاً اگر کوئی شاعر محبوب کے لب کو پہلی دفعہ تتلی سے تشبیہ دے تو میری رائے میں یہ تشبیہ معقول بھی ہے اور ہونٹ کو گلاب کی پنکھڑی کہنے کی روایت کے قریب بھی ہے۔ اس استعمال پر سوال اٹھانا مشکل ہے ۔ لیکن اگر کوئی لب کوجگنو سے تشبیہ دے تو پھر توسوال اٹھانا بنتا ہے۔
جی ہاں ۔ یہ بھی نکتۂ زیرِ بحث کی ایک مثال ہے کہ کس طرح ایک ہی مصرع طرح سے مختلف شعرا اپنی فکر اور زاویہٌ نظر کے مطابق مختلف النوع مضامین پیدا کرتے ہیں ۔
ایک ہی موضوع کو اپنے اپنے زاویۂ نظرسے دیکھنے کے بارے میں شکیل بدایونی اور ساھر لدھیانوی کے تاج محل پر اشعار کی مشہور مثال بھی پیش کی جاسکتی ہے ۔
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
اس موقع پر ایک دلچسپ متعلقہ مثال اور یاد آتی ہے جوایک زمانے سے سنتا آرہا ہوں ۔ پہلی دفعہ یہ اشعار مجھے میرے بچپن میں میرے ایک ماموں نے سنائے تھے ۔ کہتے ہیں کہ کسی شاعر نے یہ شعر کہا:
واعظ شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کر
یا وہ جگہ بتادے جہاں پر خدا نہیں
اس پر ایک دوسرے شاعر نے در جوابِ آں غزل یہ کہا:
اٹھ جا لعیں یہاں سے ، یہ پینے کی جا نہیں
ملحد کے دل میں پی کہ جہاں پر خدا نہیں
وفا شعار بیوی نے یقیناً شوہرِ نامدار کی یہ خواہش پوری کردی ہوگی اور بہت جلد ایمبولینس والے گھر پر آگئے ہوں گے ۔
زاہد شراب پینے دے مجھے مسجد میں بیٹھ کر
ہے کوئی ایسی جگہ بتا جہاں خدا نہیں
(غالب)
مسجد خدا کا گھر ہے کوئی پینے کی جگہ نہیں
کافر کے دل میں چلے جا وہاں خدا نہیں
(اقبال)
کافر کے دل سے ہی دیکھ کر آیا ہوں فراز
اس کے دل میں بھی خدا ہے لیکن اسے پتہ نہیں
(فراز)
معمولی سی ردّوبدل کے ساتھ عرصہ دراز سے یہ اشعار کتابی چہرہ و غیر کتابی چہرہ والی سائٹس پر گھوم رہیں ہیں۔ براہِ مہربانی انکے متعلق کوئی مستند حوالہ فراہم کیجئے۔ تاکہ اندھا دھند پھیلانے والوں کا ھاتھ روکا جا سکے۔
محمد عبدالرؤوف صاحب کھلی اپورچونیٹی ہے پیش کر دیں اپنا کوئی شاہکار ۔۔ آپریشن کے لیے ۔۔۔سرجن ظہیر صاحب کی معاونت کے لیے عرفان علوی اور وقار صاحب موجود ہیں بقیہ نشتر زنی کے فرائض محترمہ صابرہ صاحبہ انجام دینگی اضافی اسٹاف کے لیے ایک ایکسپرٹ کو بھی طلب کیا جاسکتا ہے ۔۔۔نیز دیگر شعراء کو دعوت دی جاتی ہے کہ اپنے کلام تنقیدی بحث کے لیے ذاتی مکالمے میں بھیج دیں تاکہ مارچ کے لیے انتخاب کیا جا سکے۔
ان شاءاللہ کوشش کرتے ہیں 🙂محمد عبدالرؤوف صاحب کھلی اپورچونیٹی ہے پیش کر دیں اپنا کوئی شاہکار ۔۔ آپریشن کے لیے ۔۔۔سرجن ظہیر صاحب کی معاونت کے لیے عرفان علوی اور وقار صاحب موجود ہیں بقیہ نشتر زنی کے فرائض محترمہ صابرہ صاحبہ انجام دینگی اضافی اسٹاف کے لیے محترمہ یاسمین صاحبہ بھی آسکتی ہیں ۔ ۔ گُلِ یاسمیں کو بھی طلب کیا جاسکتا ہے ۔۔۔
آج کل آپ انگریزی میں شاعری کر رہے ہیں اور ہم انگریزی شاعری سے نابلد ہیں۔ان شاءاللہ کوشش کرتے ہیں 🙂
گل بہن کا اس لڑی میں آنا تو یقینی ہے اگر میری کاوش اس لڑی میں آپریشن کے لیے تشریف لے آئی تو 🙂
اللہ اللہ ، یہاں صرف چھری یا نشتر کا استعمال کھانا بنانے کے لیے ہی ہوتا ہے۔ آپ سے ایسی امید نہ تھی۔۔
جی ہا ں ، بالکل ٹھیک فرمایا آپ نے ۔ اُن کی تیاری کے دوران دو گھنٹے ٹہل ٹہل کر سوچنے کے علاوہ کیا بھی کیا جاسکتا ہے ۔ 😐تیار ہوتے وقت اتنا تو خواتین بھی نہیں سوچتیں جتنا آپ نے سوچ لیا۔ کمال ہے!!
بہت اچھا سوال ہے۔ اگلے مراسلے میں تفصیلی جواب ملاحظہ فرمائیے ۔سچا شعر شائد دل کی آواز ہوتا ہے۔ آپ کے جذبات و خیالات کو بے لاگ انداز میں بغیر کسی مصنوعیت کے پیش کرتا ہو۔۔۔
جی بالکل جب معلوم ہی نہ ہو کہ کوئی بھی احساس ہمارے دل میں کیا کیفیت پیدا کرتا ہے اس کو کیسے بیان کیا جا سکتا ہے ۔ ۔
آپ نے بلا قصد و ارادہ نہ صرف محاکات کی تعریف بیان کردی بلکہ تخیل پر بھی ننھی سی لیزر بیم ڈال دی ۔دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ اگر انداز بیان کی قدرت اور طاقت رکھتے ہوں تو رائی سے بھی پہاڑی سلسلہ شروع کر دیتے ہیں بلکہ ان کی کہانیاں سچے واقعات کی نسبت زیادہ دلچسپ اور کامیاب ہوتی ہیں۔ اپنے خدا اپنے ہاتھوں بنانے والوں نے ان دیومالائی خداؤں کے بارے میں ایسی ایسی دلچسپ کہانیاں بیان کی ہیں کہ الامان الحفیظ! تو عشق کا مزہ چھکے بغیر بھی قوت تخیل کے زور پر شاندار غزل لکھی جا سکتی ہے۔ اتنی شاندار کہ شاید اصل عشق کہیں پیچھے ہی رہ جائے ۔ ۔