صابرہ امین
لائبریرین
واہ واہ ۔ ۔ اس کو تو یاد کرنا چاہیے۔!!صابرہ امین ، آپ کی غزل کا یہ شعر سطحی سا ہے۔ ایک بات تو یہ کہ یہ شعر ایک سپاٹ سا بیانیہ ہے ۔ اور دوسری بات یہ کہ اظہار کا یہ اسلوب وہ تاثر پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہورہا کہ جو مطلوب ہے ۔ مصرعِ اول میں "اس" کا لفظ بے معنی حشو و زائد میں شمار ہوگا۔ "اس" ایک لفظِ اشارہ ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کس محبت کی طرف اشارہ کررہا ہے۔نظم یا مسلسل غزل میں تواس لفظِ اشارہ کے استعمال کی صورت ممکن ہوسکتی ہے لیکن غزل کے مفردشعر میں یہاں اس کا کوئی محل نہیں ۔ جدائی کے بیان سے محبت کا وجود ویسے ہی ثابت ہورہا ہے سو محبت کہنے کی بھی کوئی خاص ضرورت نہیں ۔ تیسری بات یہ کہ "ہر شام" کہنے کی کوئی معنویت نظر نہیں آ رہی۔ شام ہی کیوں؟؟ چوتھی بات یہ کہ خوف کی بھی کوئی خاص توجیہہ یا توضیح نظر نہیں آتی۔( اگرچہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ شاعر عرصہٌ ہجر میں مختلف قسم کے اندیشوں یا خوف سے گزررہا ہے)۔
میں اس شعر کے حوالے سے ایک تکنیکی گُر بیان کرنا چاہوں گا جو بیانیے کو بہتر اور مؤثر بنانے کے لیے شاعری میں اکثر استعمال کیا جاتا ہے اور وہ ہے غیر مرئی شے کی تجسیم ۔
یعنی کسی غیر مرئی شے کوایک شخصیت یا کردار کا روپ دے دینا۔ شاعری میں اس تکنیک کے مناسب استعمال سے ایک ڈرامائی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے قاری کے ذہن میں ایک بہترتصویر جنم لیتی ہے اور شعر کے ابلاغ میں مدد دیتی ہے۔ مثال کے طور پر فیض کی یہ نظم دیکھیے:
اور کچھ دیر میں ، جب پھر مرے تنہا دل کو
فکر آ لے گی کہ تنہائی کا کیا چارہ کرے
درد آئے گا دبے پاؤں لیے سرخ چراغ
وہ جو اک درد دھڑکتا ہے کہیں دل سے پرے
شعلہء درد جو پہلو میں لپک اٹھے گا
دل کی دیوار پہ ہر نقش دمک اٹھے گا
حلقہء زلف کہیں، گوشہء رخسار کہیں
ہجر کا دشت کہیں، گلشنِ دیدار کہیں
لطف کی بات کہیں، پیار کا اقرار کہیں
دل سے پھر ہوگی مری بات کہ اے دل اے دل
۔ ۔ ۔ الخ
نہ صرف سپاٹ پن ختم ہوا بلکہ ایسا لگا کہ تانبے کے پرانے برتن پر قلعی کر دی گئی ہو۔ زبردست بنا دیا ہے اس شعر کو آپ نے !! کیا اس کو مزید سوچنے کی ضرورت ہے؟اس نظم میں دل ، درد اور ہجر کی تجسیم کرکے شاعر نے ایک تمثیل پیدا کردی ہے ۔ چنانچہ نظم میں ایک ساکت سے منظر نامے کے بجائے حرکت اور فعالیت نظر آتی ہے ۔
اسی تکنیک کو آپ کے زیرِ بحث شعر پر استعمال کیا جائے تو میری رائے میں ایک صورت یہ پیدا کی جاسکتی ہے:
اپنے شانوں پہ جدائی کے عذابوں کو لیے
شہرِ فرقت میں ہر اک گام ٹھٹکتی ہے غزل
اس طرح سے میری رائے میں بیانیے کا سپاٹ پن ختم ہوجاتا ہے اورقاری تک ایک بہتر لفظی تصویر پہنچتی ہے ۔ دوسرے مصرع کو کئی اور صورتیں دے کر مختلف منظر نامے بھی پیدا کیے جاسکتے ہیں ۔
مرزا غالب کا استاد ذوق سے ایک سوال؟؟
یہ بس دن میں ایک خواب دیکھ رہی ہوں۔۔ ذہن کہاں سے کہاں لے جاتا ہے۔ وللہ
آخری تدوین: