جی آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس معاہدہ سے دونوں فریقین کو فیس سیونگ مل گئی۔
سلیم صافی
افغانستان میں امن آرہا ہے؟
فوٹو: فائل
قطر کے دارالحکومت دوحا میں آج تاریخ رقم ہونے جا رہی ہے، گزشتہ سال فروری میں شروع ہونیوالے امریکہ طالبان مذاکرات آج 29 فروری کو دونوں کی ڈیل پر منتج ہو رہے ہیں۔
19 سال کی خونریزی، تباہی، ہزاروں افغانوں کی قربانی، لاکھوں کے دربدر ہونے، ارب ہا ڈالروں کے خرچے، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے لاکھوں بموں کے استعمال اور طالبان کی طرف سے سینکڑوں خودکش دھماکوں کے بعد آج امریکہ اور طالبان ڈیل پر متفق ہو رہے ہیں۔
ایک دوسرے کی رہائی کے بدلے میں طالبان اور افغان حکومت کی قید سے رہائی پانے والے آسٹریلیا کے پروفیسر ٹموٹی ویکس اور جلال الدین حقانی مرحوم کے صاحبزادے انس حقانی آج دوحا میں ہونیوالی اس تاریخی تقریب میں دوستوں کی حیثیت سے شرکت کر رہے ہیں۔
یہ ڈیل تاریخی رہے گی کیونکہ اس کے نتیجے میں امریکہ اور طالبان کی براہِ راست جنگ ختم ہو جائے گی اور صرف افغانستان نہیں بلکہ افغانستان سے جڑے بہت سے ممالک پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
میں اسے ڈیل کا نام اس لئے بھی دے رہا ہوں کہ اس کے ذریعے دونوں فریق ماضی کے اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گئے، امریکی ماضی میں افغانستان سے نکلنے کو تیار نہیں تھے اور اس ڈیل کے نتیجے میں بتدریج ان کی افواج نکلیں گی جبکہ طالبان القاعدہ جیسی تنظیموں کے ساتھ اپنے تعلق کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے اور اپنی سرزمین کو کسی بیرونی ملک کے خلاف استعمال نہ کرنے کی گارنٹی دینے پر تیار ہوگئے جس کیلئے وہ ماضی میں تیار نہ تھے۔
اسی طرح نائن الیون کے بعد امریکی طالبان کو مکمل ختم کرنے کے متمنی تھے اور ان کو کسی بھی شکل میں سیاسی نظام کا حصہ بنانے پر آمادہ نہ تھے، اب وہ طالبان کے وجود کو تسلیم کرکے انہیں افغانستان کے سیاسی نظام کا حصہ بنانے پر آمادہ ہوگئے۔
اسی طرح طالبان ماضی میں احمد شاہ مسعود، گلبدین حکمت یار، حامد کرزئی اور ڈاکٹر اشرف غنی جیسے دیگر افغانوں کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں تھے لیکن اب ان کے ساتھ بیٹھ کر مشترکہ نظام بنانے پر تیار ہو گئے جس کا اظہار طالبان کے نائب امیر سراج الدین حقانی نے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے آرٹیکل میں کیا۔
اسی طرح ماضی میں طالبان اپنی امارت اسلامی کی بحالی پر اصرار کرتے تھے اور افغان آئین کے مطابق کسی سیاسی نظام کا حصہ بننے پر آمادہ نہیں تھے، وہ اسلامی نظام پر بدستور اصرار کر رہے ہیں لیکن اب وہ دیگر افغان دھڑوں کے ساتھ نئے سیاسی نظام کی تشکیل کیلئے مذاکرات پر تیار ہو گئے۔
یوں تبدیلی دونوں طرف آئی ہے اور اس تبدیلی تک پہنچنے کے لئے جن لوگوں نے بنیادی کردار ادا کیا ان میں امریکہ کی طرف سے زلمے خلیل زاد، پاکستان کی طرف سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید، طالبان کی طرف سے ملا عبدالغنی برادر، ملا امیر خان متقی اور انس حقانی جیسے لوگوں نے بنیادی کردار ادا کیا۔
اسی طرح پس پردہ طالبان کے نائب امیر اور جلال الدین حقانی کے صاحبزادے سراج الدین حقانی اور سابق افغان صدر حامد کرزئی اور ان کے دست راست عمر زاخیلوال کا کردار بھی بنیادی اہمیت کا حامل رہا۔
طالبان پر اثر و رسوخ رکھنے والی بعض پاکستانی دینی شخصیات نے بھی اہم کردار ادا کیا اور ان سب کی کوششوں کے ثمر کے طور پر آج قطر میں تاریخی ڈیل ہونے جا رہی ہے لیکن مکرر عرض ہے کہ یہ ڈیل افغانستان میں امن کی ضمانت نہیں۔
ایسا نہیں ہوگا کہ یکدم افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج نکل جائیں گی بلکہ ان کا انخلا مرحلہ وار اور انٹرا افغان یا بین الافغان مذاکرات کی کامیابی سے مشروط ہوگا، اسی طرح طالبان بھی کل سے سیاسی نظام کا حصہ نہیں بنیں گے بلکہ بین الافغان مذاکرات کے دوران وہ اپنی امارت اسلامی کی بحالی یا پھر کم از کم اپنی ترجیحات کے مطابق سیاسی نظام کی تشکیل پر اصرار کریں گے۔
اسی طرح قطر ڈیل تک پہنچنے کے عمل میں پاکستان نے تو ڈٹ کر تعاون کیا لیکن افغانستان کے دیگر پڑوسی یا پھر چین، ایران، بھارت یا روس جیسی طاقتیں بھی اس پراسیس کو سبوتاژ نہیں کر رہی تھیں۔
بھارت امریکہ کے ڈر سے ایسا نہیں کر سکتا تھا جبکہ ایران، چین اور روس بھی افغانستان سے نیٹو افواج کا انخلا چاہتے تھے، اس لئے وہ بھی سہولت کار رہے، یہی وجہ ہے کہ قطر ڈیل پر دستخطوں کے دوران ان سب ممالک کے نمائندے شریک ہوں گے لیکن اب بین الافغان مفاہمت کے سلسلے میں علاقائی طاقتیں اپنی اپنی پراکسیز کو نئے نظام میں سمونے اور اپنی اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کریں گی۔
یوں امریکہ اور طالبان کی ڈیل کا مرحلہ جتنا آسان تھا، بین الافغان مفاہمت کا عمل اتنا مشکل ہوگا، یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ امریکہ اور طالبان کے مذاکرات میں بنیادی طور پر دو فریق یعنی امریکہ اور طالبان تھے اور دونوں کے اہداف اور خدشات بھی واضح تھے لیکن پھر بھی کسی نتیجے تک پہنچنے میں ایک سال کا وقت لگا جبکہ بین الافغان مذاکرات کے سلسلے میں دو نہیں کئی فریق ہونگے۔
مذاکرات صرف افغان حکومت سے نہیں بلکہ اس میں حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ، رشید دوستم، گلبدین حکمت یار، استاد محقق، افغان سول سوسائٹی اور خواتین کے نمائندے بھی ہوں گے، اب حامد کرزئی جیسے لوگ اگر طالبان کے معاملے میں مفاہمانہ رویہ رکھتے ہیں تو امراللہ صالح جیسے لوگ انتہائی سخت موقف رکھتے ہیں۔
بین الافغان مذاکرات کے سلسلے میں تمام طالبان کو بھی ایک صفحے پر لانا ہوگا اور دوسری طرف کابل میں بیٹھی ہوئی سیاسی قوتوں کو پہلے آپس میں طالبان سے متعلق ایک صفحے پر لانا ہوگا اور پھر دونوں کے درمیان مشترکہ بنیادوں پر نظام تشکیل دینا ہوگا لیکن قریب کی تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ افغانوں نے ایک بات پر اتفاق کیا ہے کہ وہ کسی بات پر متفق نہیں ہوں گے۔
امن کی اصل کنجی بین الافغان مفاہمت ہے نہ کہ امریکہ طالبان ڈیل، اگر اسّی کی دہائی میں خلق اور پرچم کے رہنماؤں کے برہان الدین ربانی اور حکمت یار جیسے قائدین کے ساتھ بین الافغان مذاکرات کامیاب ہوتے تو سوویت یونین کو مداخلت کا موقع نہ ملتا۔
پھر اگر مجاہدین آپس میں نہ لڑتے تو طالبان کا ظہور نہیں ہو سکتا تھا، پھر اگر طالبان اور مجاہدین کے بین الافغان مذاکرات کامیاب ہوتے اور ان کے درمیان جنگیں نہ ہوتیں تو امریکہ اور نیٹو کو مداخلت کا موقع نہ ملتا۔
اسی طرح اگر اب بین الافغان مذاکرات کامیاب ہوئے اور افغان غیروں کے معاملے میں جو لچک دکھاتے ہیں، وہ انہوں نے ایک دوسرے کیلئے دکھا دی تو افغانستان میں امن قائم ہو سکتا ہے لیکن اگر بین الافغان مفاہمت کا عمل کامیاب نہ ہوا تو نہ صرف بیرونی مداخلتوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا بلکہ خاکم بدہن خانہ جنگی کی صورت میں ایسی تباہی آسکتی ہے کہ ہم ماضی کی تباہیوں کو بھول جائیں۔
اس لئے اب کابل میں بیٹھے ہوئی افغان قیادت اور طالبان کو ایک دوسرے کیلئے اس سے زیادہ لچک دکھانا ہوگی جو انہوں نے امریکہ اور دیگر بیرونی طاقتوں کیلئے دکھائی اور پاکستانی قیادت کو بین الافغان مذاکرات کی کامیابی کیلئے اس سے بھی زیادہ محنت کرنا ہوگی جو اس نے امریکہ اور طالبان کی ڈیل کے سلسلے میں کی ہے۔
عدنان عمر