پہلے تو اس تاخیر سے جواب کے لیے معذرت میں ایک اہم پوسٹ اپنی دانست میں چھوڑ کر گیا تھا لیکن حسب معمول میری دن و رات میں جاری مصروفیات جو مجھے اس فورم سے دور کر دیتی ہیں
جناب فیصل عظیم صاحب جو سوالات آپ نے اٹھائے اور جو ویڈیوز وغیرہ آپ نے یہاں پوسٹ کیں ان میں سے بیشتر میرے علم میں ہیں درحقیقت میں اسی لیے چاہ رہا تھا کہ ایک علیحدہ تھریڈ خاص طالبان اور امریکی پالیسیزز اور سلوک وغیرہ کے حوالے سے کھلے جس میں یہ سارے اور دیگر مباحث اٹھائے جائیں مگر خیر۔
دیکھیئے پہلے تو میں ایک بات یہ صاف کردوں کہ میں طالبان کو ان کی بہت سی خوبیوںکی وجہ سے پسند کرتا ہوں اور امریکا کو اس کے بیشتر مظالم کی وجہ سے سخت ناپسند کرتا ہوں لیکن اول الذکر کی بعض خامیوں کا میں ناقد اور آخر الذکر کے بعض محاسن کا میں قدردان ہوں جیسا کہ اسی فورم پر پہلے کی جانے والی اپنی ایک پوسٹ میں امریکا کا ایک مثبت رخ میں نے واضح کیا تھا۔تاہم یہ ضرور ہے کہ اس فورم میں جس طرح آپ اور دیگر کچھ افراد امریکاکے جرائم کا اقرار کے باوجود ان کے خلاف زور قلم صرف کرنے سے کتراتے ہیں اور محض طالبان ہی آپ لوگوں کا ہدف تنقید بنے ہوئے ہیں یہ چیز میرے نزدیک قابل تحسین نہیں ہے ۔
آپ نے طالبان کے اوپر جو الزامات عائد کیے ہیں وہ یہ ہیں
1
۔ کیا طالبان نے کھیلوں کے دوران تالی بجانے پر پابندی نہیں لگا دی تھی ۔۔۔؟
2۔ کیا خواتین پر خونی رشتے کے بغیر ٹیکسی لینے پر پابندی نہیں تھی ۔۔۔۔؟
3۔ کیا خواتین پر کھلی جگہوں مثلا ندیوں اور جوہڑوں کے نزدیک کپڑے دھونے پر پابندی نہیں تھی ۔۔۔؟
4۔ کیا خواتین کے اسکولز کا کوئی وجود تھا ۔ اور جو اس سے پہلے جنگ کی وجہ سے تباہ و برباد ملک تھا اس میں پہلے تو شاید کوئی اسکول نہ بچا ہو مگر ان کے 5 سالہ دور حکومت میں کوئی ایک اسکول بھی بنا ہو تو براہ کرم ہماری معلومات میں اضافہ فرمائیے گا ۔ یاد رہے کہ فروری 1998 میں طالبان کی مذہبی پولیس جو کہ سعودیہ کی پولیس کی طرز پر کام کرتی تھی ۔ حکما خواتین کا بازاروں میں آنا بند کروا دیا تھا ۔۔۔؟
5۔ فروری 1998 میں ہی گھروں میں چلنے والے اسکولز اور ٹیوشن سنٹرز پر پابندی لگا دی گئی ۔۔۔۔؟
6۔ کیا طالبان کی پولیس ان خواتین کی محرم یا ولی الامر ہوتی تھی جو انہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا کرتی تھی ۔۔۔۔؟
7۔ کیا طالبان دور میں رات 9 بجے کے بعد عوام کو گھروں سے نکلنے کی اجازت ہوا کرتی تھی ۔۔؟
8۔مزار شریف کے کنٹرول کے دوران ہزارہ قبائل کو کس بات کی سزا دیکر ان کا قتل عام کیا گیا (یاد رہے کہ ہزارہ قبائل کی اکثریت شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے) حوالہ ملا نیازی کا 8 اگست 1998 کو جامع مسجد مزار شریف میں بیان ۔ جس مین انہیں کافر کہا گیا اور یہ کہا گیا کہ کہاں بھاگو گے ۔ پہاڑوں پر چڑہو گے تو پاؤں سے پکڑ کر کھینچیں گے اور زمیں میں چھپو گے تو بالوں سے پکڑ کر کھینچیں گے
آپ کے نمبر 1 تا 7 سوالات یکساں نوعیت کہ ہیں یعنی ان میں طالبان کی طرف سے بعض سخت اقدامات اور پابندیوں کا ذکر ہے ان میں سے بعض اقدامات میرے علم میں ہیں اور بعض احکامات نہیں ۔ تاہم اس نوعیت کے تمام احکامات جو طالبان نے جاری کیے ان کی کچھوجوہات تھیں
1۔ طالبان کا فہم دین
2۔افغان معاشرے کا قدیم کلچر
3۔طالبان سے پہلے افغان معاشرہ مختلف War Lordsکے مظالم کا شکار تھا اور اس وقت عورتوں پر چاہے ان کی تعلیم اور آمد ورفت کے حوالے سے پابندیاں نہ ہوں لیکن عورت کی عزت و آبرو اور جان انہائی غیر محفوظ تھی ان میں سے بعض اقدامات درحقیقت خود خواتین کی جان و عزت کی حفاظت کی غرض سے اٹھائے گئے۔
3۔طالبان اپنے آخری دنوں تک حالت جنگ میں رہے اور ان کو وہ سکون اور Supportحاصل نہ ہوسکی جو کہ ایک تباہ حال و جنگ زدہ معاشرے کی از سر نو تشکیل کے لیے ضروری ہوتی ہے۔
جہاں تک خواتین کی تعلیم کی بابت طالبان کی پالیسیز کا تعلق ہے تو انہوں نے خواتین کے اسکول اور کالجز پر پابندیاں عائد کیں تاہم اپنے دور حکومت میں کوئی اسکول یا کلجز محض اس لیے کہ وہ خواتین کا ہے ہر گز تباہ نہیں کیا گیا اس سلسلے میں خود طالبان کا موقف یہ تھا
We will be blamed by our people if we don't educate women and we will provide education for them eventually, but for now we have serious problems There are security problems. There are no provisions for separate transport, separate school buildings and facilities to educate women for the moment. Women must be completely segregated from men. And within us we have those men who cannot behave properly with women. We lost two million people in the war against the we had no Sharia law. We fought for Sharia and now this is the organization that will implement it. I will implement it come what may
An Interview with Maulvi Qalamuddin(head of the Taliban's religious police by Ahmed Rashid
اس پیراگراف کو غور سے پڑھیے اس میں دو چیزیں آپ کو نظر آئیں گی ایک تو طالبان کی مشکلات اور پھر ان کا فہم دین اس پیراگراف میںiہ جملہ بھی قابل غور ہے And within us we have those men who cannot behave properly with women اس پر ہم آگے بھی بات کریں گئے تاہم یہ حقیقت ہے کہ طالبان کے ان ہی اقدامات کی وجہ سے ایک جنگ زدہ افغان معاشرے میں جہان سب سے ارزاں چیز انسانی جان تھی اور عورت لطف اندوز ہونے کا سب سے ارزاں ذریعہ ان چیزوں کا تدارک ہوا اورساتھ ہی یہ بات بھی قابل غور ہے کہ طالبان کی حکومت دوران ان کے زیر قبضہ تمام علاقوں کی یہ صورت حال نہیں تھی بلکہ بعض علاقوں میں خواتین کی تعلیم جاری تھی
The rest of Afghanistan was not even remotely like the south. Afghan
Pashtuns in the east, heavily influenced by Pakistani Pashtuns, were proud
to send their girls to school and many continued to do so under the
Taliban, by running village schools or sending their families to Pakistan.
Here aid agencies such as the Swedish Committee supported some 600
primary schools with 150,000 students of whom 30,000 were girls.
Taliban
Militant Islam,
Oil and Fundamentalism
in Central Asia p 110
جہاں تک مزار شریف کے المیہ کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں اس پورے واقعے کو تناظر میں رکھنا ضروری ہے ۔ مزار شریف کا علاقہ مئی 97 سے پہلے پہلے دوستم کے قبضے میں تھا بعد ازاں دوستم اور اسکے نائب مالک کے درمیان بعض وجوہات کی بنا پر شدید اختلافات پیدا ہو گئے جس کے بعد مالک طالبان کے ساتھ مل گیا اور ان کو مزار شریف پر حملے کی دعوت دی طالبان اس وقت تک افغانستان کے بڑے حصے پر قابض تھے مالک کے ساتھ مل کر جب انہوں نے مزار شریف کی طرف پیش قدمی شروع کی تو بہت جلد ایک کہ بعد ایک عالقے فتح ہوتے چلے گئے اور دوستم شکست کھا کر ازبکستان کے راستے ترکی فرار ہو گیا اور طالبان مزار شریف میں داخل ہو گئے مالک اب اس آس میں تھا کہ یہ پورا علاقہ اس کے سپرد کر دیا جائے گا اس کے بجائے طالبان نے اس کو کابل میں نائب وزیر خارجہ مقرر کردیا یہ چیز مالک کے لیے قابل برداشت نہ تھی چنانچہ اس کی شہ پر اچانک ہزارہ اور ازبک دونوں نے طالبان پر حملہ کر دیا یہ 28 مئی 1997 کا واقعہ ہے اس غداری اور اچانک حملے کا نتیجہ یہ وا کہ طالبان بری طرح مارے گئے اور چند گھنٹوں میں600 طالبان مارے گئے اور 1000 سے زیادہ گرفتار ہوگئے اس کے بعد مالک نے طخار ،فاریاب ، جوزجان اور سری پل کے علاقے بھی طالبان سے بہت جلد چھین لیے یہ وہ صوبے تھے جو چند روز قبل طالبان مالک کی مدد سے فتح کرنے میں کامیاب ہوئے تھے ان لڑائیوںمیں 3600 طالبان قتل ہوئے اور 7000 سے زیادہ زخمی ان لڑائیوں کے حوالے سے بعد میں 2500 طالبان قیدیوں کی مشرکہ قبریں شبرغان کے قریب برآمد ہوئیں دوستم (جو بعد میں واپس آگیا تھا) اس کے مطابق یہ حرکت مالک کی تھی۔
اس سارے واقعے میں سب سے بدترین رول ہزارہ ار ازبک افراد کا تھا جنھوں نے قصائیوں کی طرح بے خبر طالبان کا قتل عام کیا چنانچہ اسی چیز کا انتقام لینے کے لیے ان ہی لڑائیوں کے دوران قاذل آباد نامی علاقے میں جو مزار شریف کے جنوب میں تھا طالبان نے بعض ذرائع کے مطابق 70 افراد اور اور بعض کے مطابق سینکڑوں ہزارہ افراد کو قتل کیا تو س معاملے میں تنہا قصور وار طالبان ہی نہیں بلکہ ہزارہ اور ازبک بھی تھے
http://www.rawa.org/s-photos.htm