امریکہ اور پاکستان

مغزل

محفلین
پیارے بھائی اگر دلچسپی ہے تو پھر میرے سوال کا جواب تو دیجئے نا۔ بات امریکہ سے نکل کر ظالمان سے ہوتی ہوئی کہاں کی کہاں پہنچ گئی لیکن ابھی تک 1948 سے 1950 تک کا سوال تشنہ ہے۔ باقی رہی آپکی بات کہ طیارے سے ایسا دھماکہ کیسے ہوا، کیا آپ کو پتہ ہے کہ طیارے کا ایندھن کس قدر خالص ہوتا ہے اور ایک مسافر بردار طیارہ میں کسقدر ایندھن ہوتا ہے، طیارہ کی رفتار کیا ہوتی ہے اور اس رفتار سے جب یہ کسی عمارت سے ٹکرائے تو اس کا اسراع اور اس کے ایندھن کا یکدم آگ پکڑنا کیا اثرات دکھاتا ہے؟
خیر یہ سب تو چھوڑئیے کیوں نہ ہم صرف پاکستان کی بات کریں کچھ عرصہ کے لئے۔ 1948 سے نکلتے ہیں 2001 تک آنے میں تو ابھی بہت عرصہ باقی ہے۔
باقی آپ کے اعتراض کا جواب تو یہ کہ جب پہلے بھی اسامہ ان ٹاورز کو گرانے کے منصوبہ میں ملوث تھاتو بعد میں بھی پہلا شک اسی پر جانا تھا۔ اس میں اچھنبا کیسا؟


قبلہ بجا فرمایا کہ جہاز میں ایندھن ہوتا ہے وہ پھٹ پڑا۔۔۔
لیکن یہ بتائیے کہ جہاز جس منزل سے ٹکرایا ۔۔۔وہاں سے 50منزلیں نیچے
دھماکے کیسے ہوگئے۔۔۔؟؟ اور عمارت کی بنیادوں میں دھماکے کیسے ہوئے۔
بلڈنگ بالکل اس طرح گری جیسے ۔۔ عمارات کو گرانے کا باقائدہ ایک عمل ہے۔
دنیا بھر بشمول امریکی تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ یہ معاملہ صرف جہاز کے
ٹکرانے سے نہیں ہوا۔۔۔ پسِ پردہ اور بہت کچھ ہے۔۔آپ نہ مانیں۔۔۔ آپ کی مرضی۔۔
میں ایوی ایشن سے متلعق علم نہں رکھتا ہوں۔مگر طبیعات کے مروجہ اصولوں کے
تحت یہ دیکھئے ۔۔ جہاز کی رفتار کیا تھی۔۔۔۔ عمارت کتنی مضبوط تھی۔۔
اور کیسے تنکے کا ڈھیر بنی۔۔۔۔؟ ۔۔۔ پھر یہ کہ امریکہ (مراد اس کی ایجنسیاں)
جو دنیا میں چلنے والی چیونٹی کو مصنوعی سیاروں سے دیکھ لیتا ہے۔۔۔
کیا اس وقت اندھا ہوگیا تھا۔جب 5 طیارے اغوا ہوئے۔۔۔ اور امریکی
فضاؤں میں مٹر گشت کرتے رہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
پینٹا گون حملے میں۔۔ عمارت میں جو خلا جہاز کے ٹکرانے سے دکھا یاگیا ۔۔
وہ کسی بلاسٹک میزائل کے قطر کا حامل تھا۔۔ جبکہ جہاز اتنا بڑا ٹکرایا تھا۔۔
مگر جہاز کا انجن جو وہاں سےاٹھا گیا۔۔۔ وہ ایک عام سے تربیتی طیارے کا تھا۔
اور وہ بھی ایک انجن۔۔۔ دوست کیا ہم گھاس کھاتے ہیں۔۔ ہمیں کچھ پتہ نہیں۔۔؟؟
عمارت میں سوراخ ۔۔۔ (خلا) منفی 10 ڈگری سے ٹکرائے جانے والے طیارے کا بتایا گیا۔۔
اس حساب سے جہاز کو کم از کم چالیس فیٹ کی بلندی سے زمین پر 2000 میٹر سفر کرنا تھا۔
مگر راستے میں کھڑے نہ تو کھمبے گرے ۔۔ اور نہ ہی درخت۔۔۔کیا جہاز نے 60 میٹر بسیط پر
سمیٹ لیئے تھے۔۔۔ِ؟؟؟ کیوں مذاق فرماتے ہیں۔۔ ہم ناخواندہ ضرور ہیں۔

مگر اس قدر بھی نہیں۔۔ کہ زمینی اور معروضی معاملات پر آنکھ بند کر کے یقین کرلیں۔۔۔
میرے پاس ایک نجی (جیو)tvکی ویڈیو موجود ہے جس میں خود امریکی اہلکار یہ باتیں کرتے
اور امریکی حکومت کے منھ پر طمانچے مارتے نظر آتے ہیں۔۔۔
کوشش کروں گا ،، کہ یہاں پیش کرسکوں۔۔
ویسے آپ اگر خود ملاحظہ کجئے۔۔ تو آپ بھی دیکھ سکتے ہیں۔

دیکھو جو مجھے دیدہ ِ عبرت نگاہ ہو
 

مغزل

محفلین
مغل بھیا بات کہاں پلٹانی ہے۔ صارف معاشرہ سے آپکی مثال Consumer Market ہے کیا؟
:)
میں نے Consumer Society کہا تھا Consumer Market نہیں۔۔ بہت شکریہ کہ آپ نے معاملہ اور سہل کردیا۔
اس بات کو سمجھنے کیلئے ایک لطیفہ پیشِ خدمت ہے۔۔۔:grin:
باکسنگ کے اکھاڑے (رنگ) میں دو باکسر ایک دوسرے کو مکے پہ مکے جڑ رہے تھے
تماشائیوں میں سے ایک صاحب اچھل اچھل کر ۔۔۔’’ اور مار ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔ ’’ ہاں شاباش‘
’’ بھئی پہلے لیفٹ پھر رائٹ مکا مار ‘‘۔۔۔۔۔۔۔ ’’ ہاں شاباش ۔۔بتیسی توڑ دے سالے کی ‘‘
کے نعرے لگا رہے تھے۔۔۔ اور خوب زور زور سے نعرے لگا رہے تھے۔۔۔ ساتھ بیٹھے ایک صاحب
نے سوال کیا ۔۔۔۔۔۔۔ جناب کیا آپ بھی باکسر ہو یا۔۔۔ اس باکسرکے رشتے دار ؟؟؟
موصوف نے جواب دیا ۔۔’’ جی نہیں میں ڈینٹیسٹ (دندان ساز) ہوں۔۔۔‘‘:grin:

یہ بالکل ایسا ہی عمل ہے ۔۔ کہ پہلے راستے میں کیلیں پھیلادیں اور پھر سامنے پنکچر کی دکان
کھول کر بیٹھ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:grin:
امریکہ اور دیگر(برطانیہ وغیرہ) ممالک ۔۔ دنیا بھر میں پہلےخوف ، دہشت اور سراسیمگی کی فضا پیدا کرتے ہیں
اور اپنے اسلحہ ساز اداروں کے دروازے ان ممالک پر کھول دیتے ہیں۔۔ یہ لیجئے ۔۔۔ اس سے حفاظت کیجئے۔۔
یہ فلاں گن ہے اور یہ فلاں بم ۔۔۔ یہ یوں کام آتا ہے۔۔۔۔۔ پھر اس کے بعد تربیت کے بہانے دوسرے ممالک میں
گھس بیٹھتے ہیں۔۔کبھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے بہانے ۔۔ کبھی فوجی مداخلت کا جواز بنا کر۔۔۔

امید ہے آپ سمجھ گئے ہونگے۔۔۔ نہ سمجھنا چاہیں تو کیا بعید ۔۔۔
کہ لوگ تو رسولوں کی بات نہیں سمجھنا چاہتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

والسلام
 

محمد سعد

محفلین
باقی رہی آپکی بات کہ طیارے سے ایسا دھماکہ کیسے ہوا، کیا آپ کو پتہ ہے کہ طیارے کا ایندھن کس قدر خالص ہوتا ہے اور ایک مسافر بردار طیارہ میں کسقدر ایندھن ہوتا ہے، طیارہ کی رفتار کیا ہوتی ہے اور اس رفتار سے جب یہ کسی عمارت سے ٹکرائے تو اس کا اسراع اور اس کے ایندھن کا یکدم آگ پکڑنا کیا اثرات دکھاتا ہے؟

میں تو سمجھتا تھا کہ آپ نے سکول اور کالج میں طبیعیات پڑھی ہوگی۔ لیکن آپ کے جواب سے تو کچھ اور ہی معلوم ہوتا ہے۔ :-P
کچھ تفصیلات پر تو م۔م۔مغل بھائی نے بات کر دی۔ اگر زیادہ تفصیلات درکار ہوں تو یہ صفحہ دیکھ لیں۔
 

مغزل

محفلین
سعد بھیا یہ ۔۔۔ میں نہ مانوں قبیل کے ہیں۔۔۔ :grin:
پھر بھی نہ مانیں گے////////
بقول قمر جلالوی۔

کسے سمجھا رہے ہیں آپ سمجھانے سےکیا ہوگا ؟
بجز صحرا نوردی اور دیوانے سے کیا ہوگا۔۔۔۔؟؟ :grin:
 

مغزل

محفلین
بی بی سی سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امریکن ائر لائن کی فلائیٹ 77 کا طیارہ امریکی فوجی صدر دفتر پینٹاگون سے ٹکرایا گیا تھا جس کے نتیجے میں 184 لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔ اس طیارے کو القاعدہ نے ہائی جیک کیا تھا۔

پینٹاگون کے سکیورٹی کیمرے کے ذریعے ریکارڈ کی گئی وڈیو ایک غیر سرکاری تنظیم جیوڈیشل واچ کی جانب سے ’فریڈم آف انفارمیشن‘ (یا معلومات حاصل کرنے کی آزادی) کی درخواست کے بعد جاری کی گئی ہے۔

اس سے پہلے جیوڈیشل واچ تنظیم کا کہنا ہے کہ محکمہ دفاع جتنی جلدی ممکن ہوسکے گا یہ وڈیو جاری کردے گا۔ تاہم اس وقت اسے یہ یقین نہیں تھا کہ ایسا کب ہوگا۔

2002 میں ایسی تصاویر جاری کی گئی تھیں جن میں ہائی جیک کیے گئے طیارے کے پینٹاگون سے ٹکرانے کا منظر دکھایا گیا تھا۔ اس واقعے میں طیارے پر موجود 59 افراد کے علاوہ پینٹاگون کے 125 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

جیوڈیشل واچ جو خود کو ایک تعلیمی تنظیم کہتی ہے، یہ معلومات حاصل کرنے کے لیئے کئی دفعہ امریکی حکومتی ایجنسیوں کے خلاف مقدمات دائر کرچکی ہے۔

پینٹاگون سے طیارہ ٹکرانے کا واقعہ نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جڑواں ٹاورز کے ساتھ دو طیارے ٹکرانے کےفوری بعد ہوا تھا۔

جیوڈیشل واچ نے ’فریڈم آف انفارمیشن‘ کی یہ درخواست 2004 میں داخل کی تھی تاہم پینٹاگون نے یہ کہہ کر وڈیو جاری کرنے سے انکار کردیا تھا کہ یہ القاعدہ کے خلاف تحقیقات کا ایک حصہ ہے۔

گزشتہ فروری میں اس تنظیم نے ایک مقدمہ دائر کیا جس میں کہا گیا تھا کہ پینٹاگون کے انکار کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔

جیوڈیشل واچ کا کہنا ہے کہ وڈیو حاصل کرنے سے ان کا مقصد یہ ہے کہ ان حملوں کے بارے میں ’پبلک ریکارڈ‘ کو مکمل کیا جاسکے۔

پینٹاگون پر حملے کے بعد کئی ایسے نظریات نے جنم لیا جن میں حملے کے بارے میں حکومتی موقف پر شک کا اظہار کیا گیا تھا۔

ایک فرانسیسی ادیب تھیری میسن نے الزام لگایا تھا کہ فلائیٹ 77 پینٹاگون سے نہیں ٹکرائی تھی بلکہ پینٹاگون میں دھماکہ ٹرک بم یا میزائیل کے باعث ہوا تھا۔
 

مغزل

محفلین
یہ بھی پڑھیئے۔۔
اس کا نام رابرٹ سن تھا، لیکن لوگ اے دیبی کہتے تھے، آسمان کو چھوتی ہوئی عمارتیں اس کا خواب تھیں، وہ بچپن میں بھی گہری نیند سے اٹھتا تو گلاس میں پانی انڈیلتے وقت سے لیکر ناشتے کی میز تک اس کی آنکھوں میں رات کے خواب کروٹیں بدلتے رہتے تھے، اس نے ایک روز کیتھی سے کہا، ''میں چاہتا ہوں ایک عظیم عمارت بنائوں، ایسی عظیم عمارت جس کے مینار بادلوں کا دامن چیر کر آسمان تک چلیں جائیں، ہوائیں بھی چلیں جیسے وہ فضا میں نہیں میری بنائی ہوئی عمارت کے قدموں میں رینگ رہی ہیں، بادل آئیں تو وہ بھی اس عمارت کی ہیبت سے پگھل کر پانی بن جائیں اور رہے ستارے اور چاند''

رابرٹ نے رک کر کیتھی کی نیلی آنکھوں میں جھانکا۔ '' ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رہے ستارے اور چاند تو وہ میری تعمیر کردہ عمارت کو یوں اپنے سینہ تانے دیکھ کر شرما جائیں۔ چاند نیچے زمین کی طرف جھکے اور جھک کر کہے۔ ''رابرٹ سن یو آر گریٹ!''

تعبیر نے 1970ء میں رابرٹ سن کے دروازے پر دستک دی، اس پر اسے کہا گیا کہ ''نیو یارک اور نیو جرسی کی پورٹ اتھارٹی میں ہلٹن میں دنیا کی بلند ترین عمارت تعمیر کرنا چاہتی ہے، ایک ایسی عمارت جو امریکہ کی طاقت کو نہیں چھو سکتی۔'' رابرٹ سن فوراََ تیار ہو گیا، اسکے پاس انکار کی گنجائش بھی نہیں تھی، وہ تو بچپن ہی سے یہی خواب دیکھ رہا تھا، بلندی، عظمت اور اونچائی کا خواب۔ رابرٹ نے سوچا عمارت کس چیز سے بنائی جائے کیونکہ ہزار فٹ کی اونچائی پر عام طور پر چار ساڑھے چار سو میٹر کی رفتار سے ہوائیں چلتی ہیں جن میں طوفان، آندھی اور بارش کے دنوں میں دوگنا اضافہ ہو جاتا ہے، اس رفتار اور نیو یارک کے درجہ حرارت میں اگر ماوئنٹ ایورسٹ بھی لا کر کھڑی کر دی جائے تو وہ تین سال میں ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جائے۔ ہم اگر اس کی بلندی پر پتھر لگاتے ہیں تو ہمیں اہرام مصر چننے پڑے اور بھاری پتھر لانے پڑیں گے، ان پتھروں کو اوپر تلے جوڑنا پڑے تو عمارت مکمل ہو جائے گی، مگر دس سال بعد اسکی طاقت میں کمی آنا شروع ہو جائیگی۔ رابرٹ نے سوچا ''ہمیں کوئی معجزہ دکھانا ہو گا، عظیم معجزہ'' اس نے ٹیوب بلڈنگ بنانے کا فیصلہ کیا، جس میں لوہے کے لمبے لمبے کالم لوہے ہی کے بیم اسطرح جڑے ہوں کہ دیکھنے والے ذرا فاصلے سے دیکھیں تو انہیں لوہے کی بڑی بڑی ٹیوبیں نظر آئیں۔ اس سے للّی پورٹ اتھارٹی کے نمائندے نے پوچھا، ''رابرٹ! تم ایسا کیوں کرنا چاہتے ہو؟'' تو اس نے جواب دیا للّی! اگر ایک ہزار فٹ کی بلندی پر دو ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے طوفان آجائے تو بھی وہ ان فرضی پائیوں کے آر پار ہو جائے گا، جبکہ عمارت کا ایک ڈالر کا نقصان بھی نہیں ہو گا۔''

رابرٹ سن اور اسکی ٹیم نے یہ کمال بھی کر دکھایا، انہوں نے مضبوط ترین لوہے کو تین ہزار ڈگری کی گرمائش سے گزارا، اسے ستونوں کی شکل دی، ستونوں کے کالم بنائے اور ان کالموں پر لوہے کے ہی بیم بنائے ان بیموں اور کالموں کو اندر سے خصوصی دھاتوں کے ساتھ باندھ کر سائنسی آلات کی مدد سے پڑتال کی گئی، پتا چلا اب دنیا کے تیز ترین ہوائی طوفان بھی اسکو نقصان نہیں پہنچا سکتے، اگر کبھی اتنا بڑا طوفان آگیا جتنا تاریخ میں اس سے قبل نہیں آیا تو بھی عمارت نہیں گرے گی، رابرٹ سن نے دعوے سے کہا۔

''اگر دریائے ہڈسن سے طوفان نوح اٹھ آیا تو بھی عمارت نہیں گرے گی کیونکہ ہم نے ایک ایسا انتظام کیا ہے جس سے عمارت چاروں طرف سے تین تین فٹ لچک کھا کر واپس اپنی اصل جگہ آجائے گی، بالکل ہوا میں کھڑے بانس کی طرح جسے ہوائیں جھکا تو سکتی ہیں لیکن توڑ نہیں سکتیں۔

اس عمارت کے کالموں کو کھڑا کرنے سے پہلے چھ ایکڑ کے رقبے کو 70فٹ تک کھودا گیا وہاں کنکریٹ کی چٹانیں بچھائی گئیں ، یوں رابرٹ کے مطابق یہ عمارت چار قسم کے خطرات سے محفوظ ہو گئی، تیسرا خطرہ ہوائی جہاز تھے، رابرٹ کا کہنا تھا، ''اگر کوئی جہاز سات سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اس عمارت سے ٹکرائے تو وہ فلور کی کھڑکیاں اور دروازے توڑ کر اس عمارت سے ٹکرائے گا، جبکہ عمارت اسی طرح کھڑی رہے گی اور رہا چوتھا خطرہ تو وہ آگ تھی، رابرٹ سن کا یہ بھی کہنا تھا اگر عمارت بھٹی بن جائے تو بھی اسے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا کیونکہ 200ڈگری گریڈ تک حرارت اسکا ایک پیچ، ایک قبضہ تک نہیں پگھلا سکتی، دو سال کی مسلسل محنت کے بعد 1972ء میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا پہلا ٹاور کھڑا ہو گیا، ایک ہزار تین سو اڑسٹھ فٹ اونچا اور دوسرا ٹاور 1973ء میں تیار ہوا، اسکی بلندی ایک ہزار تین سو چار فٹ تھی، ان ٹاورز کی ایک سو دس منزلیں تھیں، ہر ٹاور پر ایک سو چار لفٹیں تھیں، اسکی اکتیس ہزار آٹھ سو کھڑکیاں تھیں دونوں ٹاورز کے اوپر سیاحوں کے لئے کھلے برآمدے بنے تھے۔ جہاں سے وہ نیو یارک کو چاروں اطراف سے 45 میل تک دیکھ سکتے تھے، اسمیں اس قدر شیشہ استعمال ہوا تھا کہ اگراسے 129انچ چوڑے ربن کی شکل دی جاتی تو وہ 45 میل تک لمبا ہو جاتا اسکے ہر فلور کا قابل استعمال رقبہ ایک ایکڑ تھا اسمیں روزانہ ایک لاکھ چالیس ہزار سیاح آتے تھے، اس پر اتنا بڑا ٹریڈ ہال تھا جس میں فٹ بال کے پندرہ بڑے سٹیڈیم سما سکتے تھے۔ 1973ء میں جب دونوں ٹاورز مکمل ہوئے تو اس میں 27 ممالک کی چار سو تیس کمپنیوں نے اپنے دفاتر قائم کئے، یہ دنیا کی بلند ترین عمارت، دنیا کا سب سے بڑا سینٹر تھا، یہاں روزانہ پانچ سے ساڑھے آٹھ ارب ڈالر کا بزنس ہوتا تھا یہ وہ کاروباری مرکز تھا، جہاں سب سے زیادہ ملازمین تھے۔

گیارہ ستمبر جب امریکن ہینڈ لائن کی فلائیٹ AAL11 نے بوسٹن کے لوگن انٹرنیشنل ائیر پورٹ سے صبح آٹھ بجے پرواز کی، یہ لاس اینجلس جا رہا تھا، اس میں 81 مسافر عملے کے دو افراد اور دو پائلٹ تھے 8 بج کر 27 منٹ پر طیارے نے رخ بدل لیا بائیں طرف موڑ کاٹا اور 8 بج کر 48 منٹ پر ٹھیک 20 منٹ بعد یہ طیارہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جنوبی ٹاور سے ٹکرا گیا ایک خوفناک دھماکہ ہوا، مین ہٹن سے گرد، آگ اور غبار کا ایک طوفان اٹھا اور اس نے دور دور تک ہر چیز کو دھندلا دیا، 9بج کر 3منٹ پر ایک دوسرا طیارہ آیا اور سینٹر کے جنوبی ٹاور سے ٹکرا گیا، ایک اور دھماکہ ہوا اور رابرٹ سن کی کبریائی کے سارے دعوے دھواں بن کر اڑ گئے۔

9 بج کر 45 منٹ پر ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا جنوبی ٹاور گرا اور 10 بجکر 27 منٹ پر شمالی ٹاور بھی زمین بوس ہو گیا، زمین سے لے کر آسمان تک خاک ہی خاک، دھواں دھواں اور آگ ہی آگ تھی، آج چاند نیچے جھک کر دیکھتا ہے تو اسے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی جگہ ملبے کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا وہ حیرت سے ستاروں کی طرف دیکھتا ہے اور وہ سب مل کر رابرٹ سن کو یہ پیغام دیتے ہیں، ''عمارت ہو یا انسان ہر ایک کا کبر اپنے ہی قدموں میں گر کر فنا ہوتا ہے، ابھی وہ خدا موجود ہے جسکے کبر، جسکی طاقت کے سامنے ساری طاقتیں سارے متکبر ہیچ ہیں۔

''خدا اپنے بندوں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ اگر زمیں کے خدا اپنی تخلیق کو زلزلوں اور ہوائوں سے محفوظ کریں گے تو تمہارے رب اسے فضائوں سے تباہ کر کے تمہارا سارا غرور مٹی میں ملا دے گا'
 

مغزل

محفلین
یہ بتائیے ۔۔ رابٹ نے جو لوہا یا فولاد 3000 ڈگری پر گرم کر کے آزمایا تھا۔۔
وہ جیٹ فیول سے پیدا ہونے والی 1500 ڈگری سے کم گرمی میں کیسے پگھل گیا ؟؟؟
جب کہ آتش گیر مادے میں دھماکہ کرنے کی صلاحیت میں 5000 ڈگری سینٹی گریڈ کی حرارت پائی جاتی ہے۔۔
جواب ضرور دیجئے گا۔۔۔۔
 

مغزل

محفلین
پہلا جہاز ٹکراتے ہوئے دیکھیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کیمرہ میں کی پھرتی بھی۔۔
اور یہ بھی دیکھیئے کہ عمارت گری کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟
25 منٹ میں کیا پورے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہالی ووڈ کی کیمرہ ٹیم آگئی تھی تو تھری ڈی ڈائمنشن میں
کلوز اپ لینےکیلئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:grin:

[ame="http://www.youtube.com/watch?v=VtWz6ntjWx0"]ورلڈ ٹریڈ سینٹر ڈرامہ ۔۔۔۔ چشم کشا حقائق[/ame]
 

مغزل

محفلین
دیکھیئے جہاز کتنے دور سے آتے ہوئے دکھا یا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اماں یار کیا اس دن صرف کیمرہ مینوں کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہی مرکوز کردیا گیا تھا یا۔۔۔۔۔ فوٹو سیشن تھا۔۔؟؟

[ame="http://www.youtube.com/watch?v=vgRK2bvu--I"]ایک اور منظر[/ame]​
 

مغزل

محفلین
[FONT="Urdu_Umad_Nastaliq"]
لیجئے پینٹا گون پر طیارے کے حملے کا ڈرامہ
طیارہ غائب۔۔ درخت اپنی جگہ موجود ۔۔ شاید حملے کے وقت کہیں گھومنے پھرنےچلے گئے ہوں۔۔۔ ہہہہہ

[ame="http://www.youtube.com/watch?v=TsDEA77dgaU"]ارے جہاز کہاں ہے صاحب ؟؟[/ame]

[/FONT]
 

محمد سعد

محفلین
میرے خیال میں اگر کوئی غور کرے تو اس کو یہ سمجھنے کے لیے، کہ مسلمانوں پر امریکہ کی مسلط کی گئی جنگ ایک فراڈ کے سوا کچھ بھی نہیں، اتنے ثبوت ہی کافی ہیں۔ اور جو غور ہی نہ کرنا چاہے تو اس کے لیے ثبوتوں کا ورلڈ ٹریڈ سنٹر جتنا بلند ڈھیر ہی کیوں نہ لگا دیا جائے، وہ نہیں ماننے والا۔
 

مغزل

محفلین
امریکی بھاشا میں اسے کیا کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ :grin:
فواد اور خرم صاحبان خوب جانتے ہیں۔۔
میں فورم میں گندی زبان استعمال کرنا نہیں چاہتا :grin:
ہمارے ہاں کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔​

[ame="http://www.youtube.com/watch?v=t1wQ2BJsgx0&feature=related"]جس کی جوتی اس کے سر[/ame]
 

مغزل

محفلین
ملاحظہ کیجئے۔۔۔ لکڑی کا اسٹول اور کتاب نہیں جلی ۔۔۔۔۔ کیوں ؟؟
کمپیوٹر مانیٹر کا بال بھی بیکا نہیں ہوا ۔۔۔۔ کیا یہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر
سے بھی زیادہ حرارت برداشت کرنے کا حامل ہے۔۔۔ ؟؟؟؟؟؟

:grin: :grin: :grin: :grin:

جوابات کا انتظار رہے گا۔۔
ایک جاہل (پاکستانی) :grin:
م۔م۔مغل :rolleyes:
 

مغزل

محفلین
WTC اگر جہاز ٹکرانے سے تباہ ہوئے تھے ۔۔۔۔
تو یہ عمارت کی نچلی منزلوں میں ’’ پٹاخے‘‘ کون پھوڑ رہا تھا۔۔

:grin::grin::grin:

[ame="http://www.youtube.com/watch?v=2jevOj3Qh-w&feature=related"]دیکھیئے ذرا اور قریب سے[/ame]
 

مغزل

محفلین
میرے خیال میں اگر کوئی غور کرے تو اس کو یہ سمجھنے کے لیے، کہ مسلمانوں پر امریکہ کی مسلط کی گئی جنگ ایک فراڈ کے سوا کچھ بھی نہیں، اتنے ثبوت ہی کافی ہیں۔ اور جو غور ہی نہ کرنا چاہے تو اس کے لیے ثبوتوں کا ورلڈ ٹریڈ سنٹر جتنا بلند ڈھیر ہی کیوں نہ لگا دیا جائے، وہ نہیں ماننے والا۔


شکریہ دوست۔۔
مجھے لگتا ہے صاحبان ۔۔۔۔۔ اب الگ تھریڈ کھولنے کا عندیہ دیں گے۔۔ :grin:
یہ موضوع کہیں اور زیرِ بحث لائیں گے۔۔۔
 
Top