فاروق صاحب کیا امریکا کا بینکاری نظام اس طرح ہے۔ کیا انکا سارا سسٹم اسلامی طریقہ سے چلتا ہے۔ کیا قرض دار کے پاس پیسے نہ ہوں۔ تو وہ اُس وقت تک انتظار کرتا ہے۔ جب تک بندہ قرض دینے کے قابل نہیں ہوجاتا ہے۔
اسلام کا معاشی نظام!
اسلام کا معاشی نظام!
ایک خط کا جواب
س:… اگر اسلام رہتی دنیا تک کے لئے بہترین دین کے طور پر چُن لیا گیا ہے اور یہ تمام تر معاشرتی معاملات کی ترجمانی کرتا ہے تو اسلام اچھا معاشی نظام کیوں نہ وضع کرسکا؟
نوٹ: اسلامی دنیا کی ناقص معاشی کارکردگی کا حال، اس کی ماضی کی مثال تو نہیں؟ میں یہ سوال اس لئے پوچھ رہا ہوں کہ میرے دوست کو اسلامی بینک میں نوکری سے روکا گیا ہے۔
سیّد محمد علی عدنان
مکان:اے-۵۰۹، سیکٹر ۱۴-بی۔ شادمان ٹاؤن، کراچی
ج:… میرے مخدوم! اسلام ایک کامل، مکمل، آفاقی اور دائمی دین و مذہب ہے، جس کی واضح دلیل یہ ارشادات الٰہی ہیں:
الف:… ”الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا۔“ (مائدہ:۳)
ترجمہ:… ”آج میں پورا کرچکا تمہارے لئے دین تمہارا اور پورا کیا میں نے تم پر احسان اپنا اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے اسلام کو دین ۔“
ب:… ”ان الدین عنداللہ الاسلام۔“ (آلِ عمران:۱۹)
ترجمہ:… ”بے شک دین اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے۔“
ج:… ”ومن یبتغ غیرالاسلام دیناً فلن یقبل منہ وہو فی الآخرة من الخاسرین۔“ (آلِ عمران:۸۵)
ترجمہ:… ”اور جو شخص اسلام کے سوا کسی دوسرے دین کو طلب کرے گا، تو وہ اس سے مقبول نہ ہوگا اور وہ آخرت میں تباہ کاروں میں سے ہوگا۔“
ان ارشاداتِ الٰہیہ سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام قیامت تک رہنے والا دین ہے اور ظاہر ہے جس دین و مذہب کو قیامت تک رہنا ہو، یقینا اس میں قیامت تک کے انسانوں کے مسائل کا حل بھی ہوگا، لہٰذا آپ کا یہ فرمانا :” اسلام ایک اچھا معاشی نظام کیوں نہ وضع کرسکا“ درجہ ذیل وجوہ سے غلط ہے:
۱:… ہم اسلام کے معاشی اور اقتصادی نظام اور اس کے اصولوں سے ناآشنا ہیں، اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ چونکہ اسلام نے بینکنگ سسٹم نہیں دیا، تو وہ اچھے معاشی نظام سے بھی محروم ہے، دراصل ہمارے ذہنوں میں یہودی سودی نظام اور بینکاری سسٹم ہی اچھا معاشی نظام ہے، اور ہر صاحب فہم جانتا ہے کہ بینکاری نظام یہودی سودی نظام کا تسلسل ہے چونکہ اسلام یہودی نظام اور سودی سسٹم کا مخالف ہے اور اسلام اس سودی سسٹم کے خاتمہ کے لئے آیا ہے، اس لئے یہود و نصاریٰ اور ان کے ہمنوا اسلام اور اسلام کے معاشی نظام میں کیڑے نکالتے ہیں تو مسلمان بھی اس سے متاثر ہوگئے، ورنہ کیا کوئی باور کرسکتا ہے کہ کسی غلط کام سے روکنے کے ساتھ ساتھ اس کا متبادل حل پیش نہ کرنا ،قابل توجہ ہوسکتا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں! اگر ہم کسی غلط کاری کو محض زبانی کلامی،دعوؤں اور کاغذی گھوڑوں سے غلط باور نہیں کراسکتے تو اللہ تعالیٰ کسی غلط نظام کی جگہ متبادل صحیح نظام دیئے بغیر اس کی تغلیط کیونکر فرمادیں گے؟
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اگر سود اور سودی نظام سے انسانوں کو روکا ہے تو ضرور اس کا متبادل نظام بھی فراہم کیا ہوگا۔
اب سوال پیدا ہوگا کہ وہ کون سا نظام ہے؟ اور اس کے کیا اصول و فروع ہیں؟ یا اس کے کیا خدوخال ہیں؟ اس سلسلہ میں عرض ہے کہ جس طرح دنیا کا کوئی علم و فن اور نظام بغیر محنت اور جستجو کے حاصل نہیں ہوسکتا، ٹھیک اسی طرح اسلام کا معاشی نظام بھی خود بخود حاصل نہیں ہوگا، بلکہ ہماری محنت و جستجو کرنے پر ہی معلوم ہوگا، چونکہ ہم نے یہودی سودی نظام پڑھا ہے اور اس پر محنت کی ہے تو وہ ہمارے سامنے ہے، اگر ہم اسلام کے معاشی اور اقتصادی نظام پر محنت کرتے، اس کا مطالعہ کرتے اور اس کی جزئیات کی تلاش و جستجو میں صلاحیتیں صرف کرتے تو وہ بھی ہمیں معلوم ہوجاتا، لیکن افسوس! کہ ہم نے اس کی طرف توجہ ہی نہیں کی، بتلایا جائے کہ اس میں قصور ہمارا ہے یا اسلام کا؟ آپ خود ہی بتلائیں کہ ہم نے اس پر کتنا محنت و جستجو کی ہے؟ یا قرآن و سنت اور فقہائے امت کے مرتب کردہ ذخیرہ علم و فقہ کو کتنا پڑھا ہے؟ اگر نہیں پڑھا اور یقینا نہیں پڑھا تو اس میں قصور کس کا ہے؟
۲:… چلئے اس کو بھی چھوڑیئے صرف اس کو ہی پیش نظر رکھئے کہ اس یہودی بینکاری نظام سے قبل بھی اسلامی دنیا قائم تھی، اس کے امور مملکت بھی خیر و خوبی سے چلتے تھے، پوری دس، گیارہ صدیوں تک مسلمانوں نے آباد دنیا کے اکثر حصوں پر حکومت کی ہے تو کیسے اور کیونکر؟ آخر ان کے پاس کوئی تو نظام معیشت تھا، جس کی بدولت ان کا نظام حکومت کامیابی سے چلتا رہا؟ اب بڑی شدت سے آپ کے ذہن میں یہ سوال ابھررہا ہوگا کہ آخر وہ کون سا نظام ہے؟ اور اس کی کیا تفصیلات ہیں؟ میرے مخدوم! اللہ تعالیٰ نے جہاں سودی نظام کو ممنوع قرار دیا ہے، وہاں اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو اس کے متبادل جائز نظام کی طرف راہ نمائی بھی فرمائی ہے۔ ملاحظہ ہو:
”الذین یأکلون الربٰوا لایقومون الا کما یقوم الذی یتخبطہ الشیطٰن من المس، ذٰلک بانہم قالوا انما البیع مثل الربٰوا، واحل اللہ البیع و حرم الربٰوا فمن جاء ہ موعظة من ربہ فانتھٰی فلہ ماسلف․․․‘ ‘(البقرہ: ۲۷۵)
ترجمہ:… ”جو لوگ کھاتے ہیں سود نہیں اٹھیں گے قیامت کے دن مگر جس طرح اٹھتا ہے وہ شخص کہ جس کے حواس کھودیئے ہوں جن نے لپٹ کر، یہ حالت ان کی اس واسطے ہوگی کہ انہوں نے کہا کہ سود اگری بھی تو ایسے ہی ہے جیسا سود لینا، حالانکہ اللہ نے حلال کیا ہے سوداگری کو اور حرام کیا ہے سود کو، پھر جس کو پہنچی نصیحت اپنے رب کی طرف سے اور وہ باز آگیا تو اس کے واسطے ہے جو پہلے ہوچکا۔ “
دیکھئے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سود کے متبادل نظام کی بھی نشاندہی فرمادی ہے اور وہ ہے حلال طریقہ پر بیع و شرأ اور خرید و فروخت کا نظام۔
۳:… رہی یہ بات کہ سود کو کیوں حرام قرار دیا گیا؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں دولت چند افراد اور خاندانوں میں مرتکز ہوجاتی ہے، جس سے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا چلا جاتا ہے، اور یہ بات کسی دلیل و برہان کی محتاج نہیں بلکہ دو اور دو چار کی طرح نہایت آسان اور عام فہم ہے۔
مثلاً: اگر ایک غریب آدمی کسی مال دار کے پاس جاکر اپنی بے بسی اور بے کسی کا تذکرہ کرتے ہوئے اس سے قرض مانگے اور مال دار اس کی مدد کرنے یا قرض حسنہ دینے کے بجائے یہ کہے کہ میں تمہاری مدد کرنے کو تیار ہوں، مگر اس شرط پر کہ تمہیں قرض پر ماہانہ یا سالانہ اتنا، اتنا فیصد اضافی رقم دینا ہوگی، مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق، غریب نے قرض لے لیا، اب ایک طرف مال دار کا سرمایہ محفوظ ہوگیا اور دوسری طرف اس کو اس پر ماہانہ یا سالانہ اضافہ بشکل سود بھی ملنا شروع ہوگیا، یوں امیر، امیر تر ہونا شروع ہوگیا، دوسری طرف غریب مقروض زندگی بھر کما ، کما کر سود خور قرض خواہ کو دیتا رہے گا، یوں وہ غریب سے غریب تر ہوتا چلا جائے گا۔ کیا دنیا بھر میں جاری موجودہ بینکاری نظام اور مورگیج اسی طرح کا نہیں؟
اس کے مقابلہ میں اسلام نے مسلمانوں کو اس کی تلقین فرمائی ہے کہ :
”وان کان ذو عسرة فنظرة الی میسرة وان تصدقوا خیرلکم ان کنتم تعلمون۔‘ (البقرہ:۲۸۰)
ترجمہ:… ”اگر تمہارا ․․․)مقروض ․․․تنگدست ہے تو اس کو کشائش ہونے تک مہلت دینی چاہئے اور بخش دو ․․․قرضہ معاف کردو ․․․ تو بہت بہتر ہے، تمہارے لئے اگر تم کو سمجھ ہو۔‘ ‘
یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اس کی تعلیم دی ہے کہ اگر کسی مسلمان کو قرض کی ضرورت ہو اور اسے قرض دے دیا جائے تو اس قرض کا ثواب صدقہ سے بھی زیادہ ہے، دوسرے یہ کہ جتنا قرض دیا جائے اتنا ہی واپس لیا جائے، اگر اس پر اضافہ کا مطالبہ کیا گیا تو وہ سود ہوگا، بلکہ مقروض سے قرض کے عوض کسی بھی قسم کا نفع حاصل کرنا بھی سود اور ربا کے زمرہ میں آئے گا۔
۴:… اب آیئے! اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ ربا اور سود کی کون کون سی شکلیں ہیں؟ اس کی تمام تفصیلات قرآن، حدیث اور فقہ میں وضاحت کے ساتھ بیان کردی گئیں ہیں۔ مثلاً: جو چیزیں ناپ کر یا تول کر فروخت کی جاتی ہیں، جب ان کا تبادلہ ان کی جنس کے ساتھ کیا جائے تو ضروری ہے کہ دونوں چیزیں برابر، برابر ہوں اور یہ معاملہ دست بدست کیا جائے۔ اس میں ادھار بھی اور کمی بیشی بھی ناجائز ہے، چنانچہ اگر گیہوں کا تبادلہ گیہوں کے ساتھ کیا جائے تو دونوں باتیں ناجائز ہوں گی، یعنی کمی، بیشی بھی ناجائز اور ادھار بھی ناجائز اور اگر گیہوں کا تبادلہ مثلاً جو کے ساتھ کیا جائے تو کمی بیشی جائز ہے، مگر ادھار ناجائز ہے ،چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ارشاد میں بطور اصول ان چھ چیزوں کا ذکر فرمایا ہے جن کو برابر، برابر اور دست بدست فروخت کیا جائے، اگر ان کے آپس کے تبادلہ کے وقت کمی بیشی کی گئی یا ادھار کیا گیا تو ناجائز ہوگا، وہ حدیث شریف یہ ہے کہ :
”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب سونا، چاندی، گیہوں، جو، کھجور اور نمک۔ فرمایا کہ جب سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلہ، گیہوں گیہوں کے بدلے، جو جوکے بدلے ، کھجور کھجور کے بدلے اور نمک نمک کے بدلے فروخت کیا جائے تو برابر ہونا چاہئے اور ایک ہاتھ سے لے اور دوسرے ہاتھ سے دے، کمی بیشی سود ہے۔“ (مشکوٰة، ص:۲۴۴)
چونکہ بینکوں میں بھی نقد رقم یا چیک دے کر اس کے بدلے میں نقد رقم پر اضافہ وصول کیا جاتا ہے، اس لئے سود اور ناجائز ہے۔
۵:… دراصل اسلام میں غریبوں، کمزوروں اور پسے ہوئے افراد کے مفادات اور ان کی حیثیت و استعداد کو پیش نظر رکھ کر احکام مرتب کئے گئے ہیں، اس لئے بیع و شرأ اور خرید و فروخت کی ان تمام شکلوں کو ممنوع قرار دیا گیا ہے جس میں غریب کا استحصال ہوتا ہو۔ دیکھا جائے تو سودی نظام کی ممانعت میں بھی اسی استحصال کے خاتمہ کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ عجیب بات ہے کہ اسلام دشمن، یہود و نصاریٰ نے اللہ کے حرام کردہ سود اور ربا کے طریقہ کار کو اپنا کر اس پر اتنا محنت کی ہے کہ اس کو پرکشش اور جاذب نظر بنادیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سود خور سے اعلان جنگ فرمایاہے، جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے:
”یایہا الذین آمنوا اتقوا اللّٰہ وذروا مابقی من الربٰوا ان کنتم مومنین، فان لم تفعلوا فأذنوا بحرب من اللّٰہ ورسولہ، وان تبتم فلکم رؤس اموالکم لاتظلمون ولا تظلمون۔“ (البقرہ: ۲۷۹)
ترجمہ:… ” اے ایمان والو! ڈرو اللہ سے اور چھوڑ دو جو کچھ باقی رہ گیا ہے سود، اگر تم کو یقین ہے اللہ کے فرمانے کا ، پھر اگر نہیں چھوڑتے تو تیار ہو جاؤ اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کو اور اگر توبہ کرتے ہو، تو تمہارے واسطے ہے اصل مال تمہارا، نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ کوئی تم پر۔“
۶:… جس طرح ہوأ و ہوس پرستوں نے زنا، چوری، ڈکیتی، بدکاری، عیاشی، فحاشی، بدمعاشی میں اللہ تعالیٰ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے دین کو چھوڑ کر شیطان اور اس کی ذریت کا ساتھ دیا ہے، ٹھیک اسی طرح یہاں بھی اللہ تعالیٰ کے وضع کردہ نظام تجارت و معیشت کو چھوڑ کر ابنائے شیطان نے سود اور ربا کو اختیار کیا ہے، جس طرح ہوس پرستوں کو زناکاری، بدکاری، چوری ،ڈکیتی اور قتل و غارت گری اچھی لگتی ہے ، ٹھیک اسی طرح انہیں سود اور ربا بھی اچھا اور پرکشش معلوم ہوتا ہے، جس طرح وہاں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اسلام نے اس کا متبادل نہیں دیا؟ اسی طرح یہاں بھی نہیں کہا جاسکتا، جس طرح وہاں متبادل نظام کے ہوتے ہوئے ہوا پرست بدکاری و بدکرداری کی طرف راغب ہیں ٹھیک اسی طرح یہاں بھی متبادل نظام ہونے کے باوجود بیمار نفوس اسی شیطانی نظام کی طرف جاتے ہیں۔
صرف اسی پر بس نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو سود کی اخروی ہلاکت آفرینی کے علاوہ اس کے دنیاوی نقصانات سے بھی آگاہ فرمایا، جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے:
”یمحق اللّٰہ الربٰوا ویربی الصدقات۔“(البقرہ: ۲۷۵)․․․ مٹاتا ہے اللہ سود کو اور بڑھاتا ہے خیرات کو… اس قدر وضاحت سے سود کی قباحت و شناعت اور اس کے دنیاوی و اخروی نقصانات کو بیان کرنے کے باوجود بھی کوئی بدبخت سود کو اپناتا ہے تو بتلایا جائے کہ اس میں اسلام اور نظام اسلام کا قصور ہے؟ یا ان کا جو اس میں ملوث ہوتے ہیں؟
۷:… جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ اسلام نے سود کو حرام قرار دے کر اس کے متبادل کسی ایک آدھ صورت پر اکتفا نہیں، سینکڑوں جائز و حلال اور نفع بخش صورتیں عطا فرمائی ہیں۔
مثلاً ارشاد الٰہی ہے: ”احل اللّٰہ البیع و حرم الربٰوا“ (البقرہ:۲۲۵) یعنی اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال قرار دیا اور ربا اور سود کو حرام قرار دیا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے بیع، شرأ یعنی خرید و فروخت کے احکام، مسائل، اس کی جائز و ناجائز صورتیں، بیع کے اصول، بیع کے ارکان، بیع کی شرائط، اس کے منعقد ہونے کی شرائط، شرائط صحت، شرائط لزوم وغیرہ کے علاوہ باعتبار حکم کے بھی بیع کی تمام اقسام کو بیان کردیا۔
چنانچہ ذخیرئہ احادیث اور فقہ کی کتابوں میں مذکورہ بیع کی اقسام، مثلاً: بیع صحیح اور باطل و فاسد اور اس کی تمام جائز و ناجائز صورتیں اور ان کے احکام اور شرائط کو وضاحت سے بیان کیا گیا ہے، چنانچہ آپ نے اگر فقہ کا مطالعہ کیا ہوتا تو آپ کو اندازہ ہوتا کہ فقہاء نے قرآن و حدیث کی روشنی میں نہ صرف بیع کی جائز صورتیں لکھی ہیں، بلکہ اس کی ناجائز صورتوں میں سے بھی ایک ایک کی نشاندہی فرمائی ہے۔ مثلاً بیع باطل، فاسد، مکروہ، بیع غرر، بیع حبل الحبلہ، بیع ملامسہ، بیع منابذہ، بیع حصاة، بیع مزابنہ اور محاقلہ، بیع المضامین والملاقیح، بیع نجش، اسی طرح خرید و فروخت کی جو جائز صورتیں ہیں، ان کی بھی تفصیلات کی نشاندہی فرمائی گئی ہے، مثلاً بیع کے ارکان کیا ہیں؟ اس کی شرائط کیا ہیں؟ پھر ثمن اور ادائیگی کی مدت کے اعتبار سے بیع کی قسمیں وغیرہ۔ ان میں سے ہر ایک کی الگ الگ شرائط ۔ پھر ان میں سے ہر ایک کا جدا حکم بھی بیان کیا گیا ہے۔
اس ساری تفصیل عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اسلام نے مسلمانوں کی ہر ہر مرحلہ پر راہ نمائی فرمائی اور جائز و ناجائز کی نشاندہی فرمائی ہے، گویا اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ایک پورا معاشی نظام دیا ہے، جو لوگ ان خطوط پر کام کریں گے وہ حلال و پاک رزق کمائیں گے اور جو اس کے خلاف عمل کریں گے، ان کا عمل ناجائز و حرام ہوگا اور ان کی دنیا و آخرت خراب ہوگی۔
ابتدائے اسلام سے لے کر گیارہ سو سال تک مسلمان اس نظام پر چلتے رہے تو ان کو کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔
رہی یہ بات کہ اسلام نے مسلمانوں کو بینکاری کا متبادل کیا دیا ہے؟ اس سلسلہ میں عرض ہے کہ مضاربہ و مشارکہ دراصل اسلامی بینکاری ہی ہے، جس میں ایک ایسا مسلمان جو مال دار تو ہے مگر محنت و مشقت یا تجارتی کام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، یا اسے اس کا تجربہ نہیں، بلاشبہ وہ اپنا سرمایہ کسی ایسے مسلمان کو، جو محنت و مشقت یا تجارتی کام کرنے کی صلاحیت و تجربہ رکھتا ہو، لیکن اس کے پاس سرمایہ نہ ہو، مال دے کر سرمایہ کاری کرسکتا ہے، اور اس کو دین و شریعت کی اصطلاح میں مضاربت کہا جاتا ہے، چنانچہ یہ دونوں مل کر باہمی یہ تجارتی معاہدہ کرسکتے ہیں کہ ایک کی محنت ہوگی اور دوسرے کا سرمایہ۔ اس سے جو نفع حاصل ہوگا اسے مثلاً بیس فیصد، تیس فیصد یا پچاس فیصد کے تناسب سے تقسیم کیا جائے گا اور جو نقصان ہوگا اس کو نفع سے پورا کیا جائے گا اور اگر نقصان نفع سے زیادہ ہو تو اس کو رأس المال یعنی کیپیٹل سے پورا کیا جائے گا ، یوں محنت کرنے والے کی محنت کا اور سرمایہ دار کے سرمایہ کا نقصان ہوگا۔
اسی طرح اس کی دوسری صورت مشارکہ یعنی کاروبار میں شراکت داری کی بھی ہے، اس میں بھی نفع و نقصان کی شراکت کی بنیاد پر وہی کام جائز بنیادوں پر کیا جاسکتا ہے جو یہودی بینکار غیر اسلامی اور سودی انداز میں کرکے پورے معاشرے کا سرمایہ سمیٹ رہے ہیں، اس کے علاوہ اجارہ یعنی کرایہ داری کا نظام بھی اسلام نے دیا ہے۔ ۸:… الغرض اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ایک جائز، حلال اور نہایت کامیاب و بہترین معاشی نظام دیا ہے، مگر افسوس کہ مسلمانوں نے اس کو چھوڑ کر یہود و نصاریٰ کی تقلید میں سودی نظام کے پیچھے سرپٹ دوڑنا شروع کردیا ہے، اب آپ ہی بتلائیں اس میں اسلام کا قصور ہے یا مسلمان کا؟
اسی سے آپ کے اس اشکال کا بھی جواب ہوجاتا ہے کہ: ”اسلام کی ناقص معاشی کارکردگی کا حال، اس کی ماضی کی مثال تو نہیں؟“ کیونکہ اسلام اور مسلمانوں کا ماضی روشن اور تابناک تھا، اگر مسلمانوں نے اپنے حال کو بدل لیا ہے تو اس میں ان کے ماضی کا کیا قصور ہے؟ کیا کوئی عقل مند اولاد کی بدکرداری کو باکردار والدین کے کھاتے میں ڈال سکتا ہے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو حال کے مسلمانوں کی معاشی بدحالی کا بوجھ ماضی کے مسلمانوں کے کھاتے میں کیوں ڈالا جائے؟
۹:… رہی یہ بات کہ آپ کے دوست کو ایک اسلامی بینک میں ملازمت کرنے سے روکا گیا ہے، تو کیوں؟ بھلا اس میں اسلام کے معاشی نظام کا کیا قصور ہے؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ یا آپ کا دوست جس بینک کو اسلامی بینک کہہ رہا ہے، واقعتا وہ اسلامی بھی ہے یا نہیں؟ دوسری بات یہ ہے کہ یہ سوال روکنے والے سے کیجئے کہ اس نے کس بنیاد پر آپ کے دوست کو روکا ہے؟ عین ممکن ہے کہ اس نام نہاد اسلامی بینک میں غیر شرعی اور سودی نظام کو اسلامی بینک کا نام دیا گیا ہو، کیونکہ بہت سے بینکوں نے مسلمانوں کو دھوکا دینے کے لئے صرف نام کی حد تک اسلامی بینکاری کا بورڈ آویزاں کر رکھا ہے؟
ٹھیک اسی طرح وہ بینک جو اپنے تئیں اسلامی کہلاتے ہیں، ان کے نظام میں جھانک کر دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ حرام پر حلال کا بورڈ لگاکر مسلمانوں کو دھوکا دیا جارہا ہے۔
تاہم اگر کہیں کسی بینک میں واقعی اسلامی اور شرعی اصولوں پر مضاربہ و مشارکہ کا نظام نافذ ہے تو اس میں کام کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔ امید ہے میری یہ چند معروضات آپ کی تشفی کے لئے کافی ہوں گی۔