مولانامحمد انور محمد قاسم سلفی (کویت)
سود کی تعریف
سود کو عربی زبان میں ” ربا“کہتے ہیں ،جس کا لغوی معنی زیادہ ہونا ، پروان چڑھنا ، او ر بلندی کی طرف جانا ہے ۔ اور شرعی اصطلاح میں ربا (سود) کی تعریف یہ ہے کہ : ” کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا “۔ مثلاً کسی کو سال یا چھ ماہ کے لیے 100روپئے قرض دئے ، تو اس سے یہ شرط کرلی کہ وہ 100 روپے کے 120روپے لے گا ، مہلت کے عوض یہ جو 20روپے زیادہ لیے گئے ہیں ، یہ سود ہے “۔
سود کی حرمت
اللہ تعالی کا فرمان ہے :”اے ایمان والو ! اﷲ سے ڈرو اور جو سود لوگوں کے پاس باقی رہ گیا ہے اگر ایمان والے ہو تو اسے چھوڑ دو ، اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو اﷲ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کے لیے خبر دار ہوجاو …. “ ( البقرہ :275)
نیز فرمان باری ہے : ” اے ایمان والو ! کئی گنا بڑھا کر سود نہ کھاو ، اور اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاو ، اور اس آگ سے ڈرو جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے ، اور اﷲ اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے“۔ ( آل عمران
132-131)
حجة الوداع کے موقع پر، جس میں تقریباً سارے صحابہ کرام عرب کے چپے چپے سے امنڈ آئے تھے ، اس میں بھی خصوصیت کے ساتھ آپ انے تجارتی اور مہاجنی ہر طرح کے سود کی حرمت کا اعلان فرمایا :”سن لو ! جاہلیت کی ہر چیز میرے پاوں تلے روند دی گئی ، …. اور جاہلیت کا سود ختم کردیا گیا ، اور ہمارے سود میں سے پہلا سود جسے میں ختم کررہا ہوں وہ عباس بن عبد المطلب کا سود ہے ۔ اب یہ سارا سود ختم ہے “۔( بخاری )
حضرت عبد اﷲ بن حنظلہ رضى الله عنه کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : ”سود کا ایک ریال ، جسے انسان جانتے بوجھتے کھاتا ہے ، وہ 36 مرتبہ زنا کاری سے بھی بدتر ہے “۔ ( صحیح : مسنداحمد ، طبرانی )
سیدنا عبد اﷲ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:” سود کے 73 دروازے ہیں ، ان کا سب سے ہلکا گناہ یہ ہے کہ جیسے کوئی آدمی اپنی ماں کے ساتھ نکاح کرے ، سب سے بدترین سود کسی مسلمان کی عزت سے کھلواڑ کرنا ہے “۔ (صحیح :مستدرک حاکم ، بیہقی )
سیدنا جابر کہتے ہیں : رسول اﷲ صلى الله عليه وسلم نے سود کھانے والے ، اور اسے کھلانے والے ، اور اس (دستاویز)کے لکھنے والے ،اور اس کی گواہی دینے والوں پر لعنت بھیجی ہے اور پھر فرمایا کہ یہ تمام کے تمام گناہ میں برابر کے شریک ہیں ۔“( مسلم ۸۹۵۱)
سیدنا عبد اﷲ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:” جس گاوں میں زنا اور سود رواج پاگیا ، تو وہاں کے باشندوں نے اپنے اوپر اﷲ کے عذاب کو حلال کرلیا ۔“ ( صحیح ،المستدرک للحاکم)
سود بڑھتا نہیں گھٹتا ہے
سود کو بڑھتا اور پروان چڑھتا سمجھنا ، سود کھانے والوں کی خام خیالی ہے ، جب کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول محمد کریم انے اس کے کم ہونے اور تباہ وبرباد ہونے کی پیشین گوئی فرمائی ہے ۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :
ترجمہ :”اﷲ سود کو گھٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے ، اور اﷲ کسی ناشکرے (سود خور) اور گناہ گار کو دوست نہیں رکھتا بے شک جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کئے اور نماز قائم کی، اور زکاة ادا کی ،ان کا اجر ان کے رب کے پاس ثابت ہے ، اور ان پر نہ خوف طاری ہوگا ، اور نہ انہیں کوئی غم لاحق ہوگا “۔( البقرہ :277-276)
”یَمحَقُ اﷲُ الرِّبَا“کی تفسیر کرتے ہوئے سیدناعبد اﷲ بن عباس فرماتے ہیں : ”محق“ ( گھٹانا ) یہ ہے کہ اﷲ سود خور بندے کا نہ حج قبول کرتا ہے ، نہ صدقہ ، نہ جہاد ، اور نہ صلہ رحمی ۔( یعنی اس کی کوئی نیکی قبول نہیں ہوتی ) ۔ ( تقسیر قرطبی :۲/۴۳۲)
سیدنا ا بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : ”جس شخص نے سودکے ذریعہ زیادہ (مال ) حاصل کیا ، اس کا انجام کمی پر ہی ہوگا “۔(صحیح ، ابن ماجہ )
ایک اور روایت میں ہے : ”سود اگرچہ بظاہر زیادہ نظر آتا ہے لیکن اس کا انجام کمی اور قلت ہے “۔(مستدرک حاکم )
دنیا دار انسان سود کو نفع بخش اور زکاة کو مال میں کمی کرنے والا سمجھتا ہے، جبکہ حقیقت بالکل برعکس ہے، ایسے خام خیال افراد کی ہدایت کےلئے ،سود کے مقابلے میں اﷲ تعالیٰ نے زکاة کا نظام پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ مال کو بڑھانا ہو تو اسے رب کی بارگاہ میں زکاةاور صدقات کی شکل میں پیش کرو:
”اور تم لوگ جو سود دیتے ہو ، تاکہ لوگوں کے اموال میں اضافہ ہوجائے تو وہ اﷲ کے نزدیک نہیں بڑھتا ، اور تم لوگ جو زکاة دیتے ہو اﷲ کی رضا حاصل کرنے کےلئے،ایسے ہی لوگ اسے کئی گنا بڑھانے والے ہیں“۔ (الروم :39)
سود کھانے والوں کی حالت زار
قیامت کے دن سود خور ایک خاص کیفیت سے دوچار ہونگے ، جس سے لوگوں کو پتہ چل جائے گا کہ یہ دنیا میں سود کھاتے تھے ۔ ارشاد باری ہے :ترجمہ :”جو لوگ سود کھاتے ہیں ، وہ اپنی قبروں سے ایسے اٹھیں گے ، جس طرح وہ آدمی جسے شیطان اپنے اثر سے دیوانہ بنا دیتا ہے ، یہ ( سزا انہیں ) اس لیے ملی کہ وہ کہا کرتے تھے کہ خرید وفروخت بھی توسود ہی کی مانند ہے ، حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے خرید وفروخت کو حلال کیا ہے ، اور سود کو حرام قرار دیا ہے ، پس جس کے پاس اس کے رب کی نصیحت پہنچ گئی ، اور وہ (سود لینے سے ) باز آگیا ، تو ماضی میں جو لے چکا ہے وہ اس کا ہے ، اور اس کا معاملہ اﷲ کے حوالے ہے ، اور جو اس کے بعد لے گا ، تو وہی لوگ جہنمی ہوں گے ، اس میں ہمیشہ کے لیے رہیں گے “۔ ( البقرہ :275)
سیدنا عوف بن مالک ص سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : ”تم ان گناہوں سے بچو جو ( بغیر توبہ کے ) بخشے نہیں جاتے :۱) خیانت : جس نے کسی چیز میں خیانت کی، اس چیز کے ساتھ اسے قیامت کے دن حاضر کیا جائے گا ۔ ۲) سود خوری : اسلئے کہ جو شخص سود کھائے گا قیامت کے دن پاگل شخص کی طرح جھومتے ہوئے اٹھے گا پھر آپ انے یہ آیت تلاوت فرمائی :
ترجمہ : ”جو لوگ سود کھاتے ہیں ، وہ اپنی قبروں سے ایسے اٹھیں گے ، جس طرح وہ آدمی جسے شیطان اپنے اثر سے دیوانہ بنا دیتا ہے“۔ ( ترغیب وترہیب )
سود خوری ایک ایسا سنگین جرم ہے کہ عالم برزخ اور قبر میں بھی عذاب کا باعث ہوگا ، اور آخرت میں بھی موجب سزا ہوگا ۔سیدنا سمرہ بن جندب صکہتے ہیں کہ رسول اﷲ ا نے فرمایا:” رات میں میرے پاس دو فرشتے(حضرت جبریل ں اورحضرت میکائیل ں)آئے ، وہ مجھے اٹھا کر پاک سرزمین کی طرف لے گئے ،آپ نے کئی چیزیں ملاحظہ فرمائیں ،جن میں ایک چیز یہ بھی تھی کہ آپ ا نے ایک خون کا دریا دیکھا ، جس میں ایک آدمی (تیر رہا ) ہے ، اس نہر کے ایک کنارے ایک آدمی کھڑا ہے ، اس کے پاس پتھروں کا ایک ڈھیر ہے ، خون کے دریا میں جو آدمی ہے ، وہ کوشش کرتا ہے کہ اس دریا سے باہر نکل جائے ، جب وہ کنارے کے قریب آتا ہے، تو کنارے پر کھڑا شخص اس کے منہ میں زور سے پتھر دے مارتا ہے ، پھر وہ شخص خون کے دریا کے وسط میں چلا جاتا ہے ،پھر وہ کوشش کرتا ہے کہ باہر نکل جائے ، لیکن کنارے پر کھڑا شخص اس کے منہ پر پھر زور سے ایک پتھر مارتا ہے ۔ اس کے ساتھ مسلسل یہی سلوک ہورہا ہے ۔ رسول اﷲا فرماتے ہیں : میں نے ان دونوں سے پوچھا :”اس آدمی کو یہ سزا کیوں مل رہی ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا : یہ سود خور ہے ، سودی کاروبار کیا کرتا تھا، اس لیے اس کو یہ سزا مل رہی ہے ۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا :” جو سزا آپ نے اس کو ملتے دیکھی ، وہ اسے قیامت تک ملتی رہے گی“ ۔(بخاری)
سود کی بعض قسمیں
سود ایک چیز کو دوسرے کے مقابلے میں زیادہ دے کر فروخت کرناہے ۔ فقہاءنے اس کا قاعدہ کلیہ یہ بتایا ہے کہ وہ تمام اجناس، جن میں ” ناپ ، وزن اور خوراک “ تینوں صفات میں سے کوئی دو صفتیں پائی جائیں ، ان کا آپس میں لین دین یا خرید وفروخت کسی ایک کو زیادہ کرکے جائز نہیں۔ جن چیزوں میں یہ تینوں صفات معدوم ہوں ، یا ان کی جنس مختلف ہو ، تو پھر کسی کی زیادتی سود نہیں ہوگی ، جیسا کہ سیدنا عبادہ بن صامت صسے مروی ہے کہ رسول اکرم انے فرمایا :
” سونا سونے کے بدلے ،چاندی چاندی کے بدلے ، گیہوں گیہوں کے بدلے ، جو جو کے بدلے اور کھجور کھجور کے بدلے ، برابر بیچنا جائز ہے ، لیکن ان میں سے کسی ایک کو گھٹا بڑھا کر بیچنا یا دینا سود ہے “۔ ( مسلم ، احمد )
اس سے معلوم ہوا کہ جو چیز جتنی دی جائے اتنی ہی واپس لینی چاہئے ،جتنا سونا یا چاندی دی ہو ، یا جتنا روپیہ دیا ہو، اتنا ہی واپس لینا چاہئے ،اصل مال پر کچھ زائد رقم کا لینا ، چاہے وہ رقم کم ہو یا زیادہ ، سود ہے ۔
مہاجنی سود :وہ یہ کہ لوگ اپنی ذاتی ضرورت کےلئے سرمایہ دار افراد سے قرضے لیتے ، اور انہیںان کی دی ہوئی رقم پرماہانہ مشروط سود کے ساتھ واپس کرتے ہیں ۔
بینک کا سود : کچھ لوگ بینکوں سے تجارت یا زراعت کےلئے قرضے حاصل کرتے ہیں اور مقررہ میعاد پر متعین شرح سود کے ساتھ واپس کرتے ہیں۔
فکس ڈپازٹ :کچھ لوگ سودی بینکوں میں روپیہ کچھ مدت ( مثلاً پانچ یا دس سال ) کےليے جمع (Deposit ) کردیتے ہیں ، جو انہیں %12 یا %15 فیصد سود دیتے ہیں ، اس مخصوص مدت کے اختتام پر ان کی رقم دگنی یا تگنی ہو کر ملتی ہے ۔ یہ سب سود ہے۔لیکن اگر کوئی شخص اپنی رقم ایسی بینک میں جمع (Deposit ) کرتا ہے جو سودی نہیں ، یا اسلامی بینک ہیں ، اور وہ اسے متعین فیصد سود کے بجائے نفع اور نقصان کی شراکت پر فائدہ یا نقصان دیتا ہے تو اس طرح کی بینکوں سے ملنے والی زائد رقم سود متصور نہیں ہوگی ۔
لائف انشورنس :یہ ہے کہ کمپنی اپنے کسی معتمد ڈاکٹر سے کسی شخص کا طبّی معائنہ کراتی ہے ، اور وہ ڈاکٹر کمپنی کو اس شخص کی صحت کے متعلق رپورٹ پیش کرتا ہے کہ اس شخص کی صحت سے امید ہے کہ وہ بیس سال تک زندہ رہے ،اس پر کمپنی اس شخص سے دس یا پندرہ سال کے لیے معاہدہ کرتی ہے کہ مثلاً : وہ شخص دس سال تک ماہانہ قسطوں میں انشورنس کمپنی کودس لاکھ روپیہ ادا کرے گا ، دس سال پورے ہونے کے بعد کمپنی اسے پچیس لاکھ دے گی ۔ اگر وہ شخص دو سال میں ہی فو ت ہوجاتا ہے تو کمپنی کو لازمی طور پر اپنے اس گاہک(Client) کے ورثاءکو پچیس لاکھ روپیے ادا کرنے ہوں گے ۔ اگرگاہک (Client)نے کمپنی کو دو ڈھائی سال تک قسطوں میں رقم ادا کیا ، لیکن پھر کسی سبب سے اس نے قسطیں مکمل نہیں کیں ، تو کمپنی اسے ایک پیسہ بھی ادا نہیں کرتی ، بلکہ اسکی جمع کردہ ساری رقم بھی ڈوب جاتی ہے۔
لائف انشورنس میں بے شمار خامیاں اور خرابیاں ہیں ، مندرجہ ذیل چند اہم اسباب کی وجہ سے اکثر علماءنے اس کے ناجائز ہونے کا فتویٰ دیا ہے :
-1 یہ اﷲ پر بندے کے توکل کے خلاف ہے ۔
-2اس میں بسا اوقات یا تو کمپنی کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے یا کلینٹ کو ، اور اسلام میں خود نقصان اٹھانا یا دوسروں کو نقصان پہنچاناجائز نہیں۔
-3بسا اوقات ورثاءکے دل میں مال کی حرص پیدا ہوجاتی ہے ، کئی واقعات میں ورثاءنے ہی کلینٹ کا قتل کردیا اور کمپنی سے انشورنس کی رقم ہتھیالی ۔
غیر منقولہ مرہون چیز سے استفادہ : عام لوگوں میں سود کی جو قسمیں پائی جاتی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کوئی آدمی کسی غریب کو کچھ رقم بطور قرض دیتا ہے ، اور رہن میں اس کا گھر رکھ لیتا ہے ، پھر اس میں یا تو خود رہتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھاتا ہے یا کسی کو کرایہ پر دے کر اس کا کرایہ خود کھاتا ہے ، اس طرح کے کاروبار میں صرف عام لوگ ہی نہیں بلکہ پڑھے لکھے اور دینی مزاج رکھنے والے لوگ تک بھی ملوث پائے جاتے ہیں۔
کمیٹی وغیرہ کا سود:عام لوگوں میں رائج سود کی قسموں میں سے یہ بھی ایک قسم ہے کہ دس آدمی مل کر ہر ماہ دس دس ہزار جمع کرتے ہیں ، اور پھر اس ایک لاکھ روپئے کی بولی لگتی ہے ، کوئی کہتا ہے : میں اسے نو ّے ہزار میں لوں گا ۔ دوسرا کہتا ہے ، میں اسے اسّی ہزار میں لوں گا ، تیسرا کہتا ہے کہ میں اسے ستّر ہزار میں لوں گا ۔ غرضیکہ جو سب سے زیادہ کم بولی لگاتا ہے ، اسے اتنی رقم دے دی جاتی ہے ، باقی ماندہ تیس یا چالیس ہزار روپئے تمام لوگ آپس میں بانٹ لیتے ہیں ، اور جس نے بولی کی رقم لی ہے اسے پورے ایک لاکھ روپئے ہی بھرنے پڑتے ہیں ۔ یہ بھی سود کی ایک اہم قسم ہے ، اسے کہیں” کمیٹی” اور کہیں” چیٹی” وغیرہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔
ان کے علاوہ کئی ایسے راستے اور طریقے ہیں جو کہ سود تک لے جاتے ہیں
جاری ہے۔