مشترکہ کاروبار پر زکوٰۃ
اگر چند افراد کا مشترکہ کاروبار ہوتو ہرشخص کو اپنے نفع سے زکوٰۃ نکالنی ہوگی بشرطیکہ کے وہ نصاب کو پہنچ جائیں۔
رہائشی یا کرایہ کہ مکان پر زکوٰۃ
رہائشی مکان : ذاتی رہائشی مکان (جس میں خود وہ رہتا ہو) پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہے۔ (٢١)
کرایہ کا مکان : کرایہ والے مکان کی آمدنی پر زکوٰۃہے۔ نہ کہ اس مکان کی لاگت پر یعنی اگر مکان کا ماہانہ کرایہ 2 ہزار روپے آتا ہے تو یہ سالانہ 24 ہزار روپے ہوا تو اس 24
ہزار روپے سے ڈھائی فیصد کے حساب سے 6 سو روپے زکوٰۃ نکالی جائے گی۔
گھریلو استعمال میں آنے والی گاڑی پر زکوٰۃ
جس طرح رہائشی مکان پر کوئی زکوٰۃ نہیں اسی طرح گھریلو استعمال میں آنے والی گاڑی اور دیگر ذاتی استعمال کی چیزوں مثلاًکار،فرنےچر، فرےج، حفاظتی ہتھیار وغیرہ خواہ کتنی ہی قیمت کے ہو ں ان پر پر بھی کوئی زکوٰۃ نہیں ہے۔(٢٢)
فیکٹری پر زکوٰۃ
فیکٹری ، کارخانہ کے آلات مشینری اور بلڈنگ پر کوئی زکوٰ ۃ نہیں ہے اس لئے کہ یہ مال تجارت نہیں بلکہ آلہ تجارت ہیں ۔جبکہ زکوٰۃ مال تجارت پر فرض ہوتی ہے۔ البتہ فیکٹری یا کارخانہ سے جو مال تیار ہوتا ہے۔ خواہ وہ خام مال ہو یا تیار مال ہو اس کی قیمت پر ڈھائی فیصد (2.5 %) کے حساب سے زکوٰۃ ہوگی۔(٢٣)
زرعی پیداوار پر زکوٰۃ
فرمان الہٰی ہے :۔ (ترجمہ)''اے ایمان والو، اپنی پاکیزہ (حلال)کمائی میں سے خرچ کرو اور اُن چیزوں سے بھی خرچ کرو جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالیہیں۔''(٢٤)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ''اِس پیداوار میں جسے آسمان (یعنی بارش) یا (قدرتی) چشمے سیراب کریں یا وہ زمین نمی والی ہو (یعنی نہر اور دریا کے ساتھ ہونے کی و جہ سے اِس میں اتنی نمی رہتی ہو کہ اُسے پانی دینے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے) تو اس میں زکوٰۃ عشر ( پیداروار کا دسواں حصہ ) ہے اور جسے ٹیوب ویل وغیرہ سے سیراب کیا جائے تو اس میں زکوٰۃ نصف عشر (پیداوار کا بیسواں حصہ) ہے۔''(٢٥)
نوٹ: زمین کی پیداوار کی زکوٰۃ (یعنی عشر یا نصف عشر ) کی ادائیگی فصل کاٹنے کے موقع پر ضروری ہے۔
فرمان ا لہٰی ہے :۔ (ترجمہ) ''اور فصل کاٹنے کے موقع پر اس کا حق (زکوٰۃ) ادا کردو'' (٢٦) اگر سال میں 2 فصلیں ہوں گی تو زکوٰۃ بھی 2 مرتبہ ادا کرنا ضروری ہے کیونکہ اس میں سال گزرنے کی شرط سے نہیں ہے بلکہ فصل کا ہونا شرط ہے جب بھی فصل ہو۔ زمینی پیداوار کی زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کا انجام جاننے کے لئے پڑھئے ے القلم68:آیت17-33)
زمینی پیداوار پر زکوٰۃ اس وقت فرض ہوتی جب غلہ یا کھجور کی مقدار20من ہوجائے اس سے کم پر زکوٰۃ نہیں ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے۔۔''جب تک غلہ یا کھجور کی مقدار پانچ وسق (20 من)تک نہ ہوجائے تو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں ۔(٢٧)
زمینی پیداوار سے عشر یا نصف عشر ادا کرنے کے بعد اگر پیداوار کو فروخت کیا جائے اور بقیہ آمدنی زکوٰۃ کے نصاب ساڑھے 52تولہ چاندی کے برابر ہو اور اس پر سال بھی
گزرچکاہوتو اس پر زکوٰۃ فرض ہے وگرنہ فرض نہیں ۔
شہد پر زکوٰۃ
شہد کی پیداوار پر عشر (دسواں حصہ) زکوٰۃ فرض ہے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے شہد (کے تاجر) سے عشر(دسواں حصہ) بطور زکوٰۃ وصول فرمایا تھا۔(٢٨)
رکاز (دفن شدہ خزانہ ) دریافت ہونے پر زکوٰۃ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کافرمان ہے :۔''رکاز(دفن شدہ خزانہ) ملنے پر بیس فیصد زکوٰۃ فرض ہے۔(٢٩)
(خان صاحب آپ والا 20 فیصد دفن شدہ خزانے پر ہے۔ نہ کہ ہر چیز پر ہے)
مصارفِ زکوٰۃ کا بیان
زکوٰۃ کے مستحق کون کون لوگ ہیں ؟
قرآن مجید (التوبہ9 :آیت 60) میں زکوٰۃ کے مصارف 8 ہیں
١۔ فقرا ء ٢۔ مساکین ٣۔ عاملین زکوٰۃ
٤۔ تالیف قلب (دل جوئی) کے لئے کسی کو کچھ دینا۔ جیسے کوئی نہایت بااثر غیر مسلم شخص ہے، اگر اس کی دل جوئی کا اہتمام کردیا جائے اور یہ امید ہو کہ یہ شخص وہاں پر آباد مسلمانوں کی حفاظت کے لئے مؤثر کردار ادا کرسکتا ہے، اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کے لئے ایسے شخص کو زکٰوۃ کی رقم دی جاسکتی ہے، چاہے وہ مال دار ہی ہو۔ اسی طرح وہ نو مسلم اور ضعیف الایمان افراد بھی اسی حکم میں آتے ہیں (جن کی اگر دلجوئی اور مالی مدد نہ کی جائے، تو ان کے اسلام سے منحرف ہوجانے کا خطرہ ہوگا)۔
٥۔ گردن چھڑانا : گردن چھڑانے سے مراد غلاموں کو آزاد کرنا ہے، غلامی کا رواج تو اب ختم ہوگیا ہے تاہم بعض حالات میں اس سے ملتی جلتی صورت یہ پیدا ہوسکتی ہے کہ کوئی مسلمان اگر دشمن کے ہاں گرفتار ہوجائے تو زکوٰۃ کی مد سے اس کا فدیہ ادا کرکے اس کو چھڑایا جاسکتا ہے، اسی نوعیت کی کوئی اور صورت پیدا ہوجائے تو وہاں زکوٰۃ سے مدد کی جاسکتی ہے۔
٦۔ غارمین : (جو غریب کم آمدنی کی و جہ سے مقروض ہو)
٧۔ فی سبیل اللہ : (''اللہ کی راہ میں '' یہ لفظ عام ہے۔ تمام وہ نیکی کے کام جن میں اللہ کی رضا ہو)۔
٨۔ ابن السبیل (مسافر) : (مسافر کے لئے بعض دفعہ دیارِ غیر میں اس کے پاس کچھ نہیں رہتا (گو اپنے وطن اوراپنے گھر میں اس کے پاس سب کچھ ہو)۔
خاوند اور زیر پرورش بچوں پر زکوٰۃ خرچ کرنا
چونکہ بیوی اور بچوں کی کفالت مرد کی ذمہ داری ہے۔اگر مرد غریب اور عورت مالدار ہو تو وہ عورت اپنی زکوٰۃ اپنے غریب شوہر اور زیر کفالت بچوں پر خرچ کرسکتی ہے۔جیسا کہ عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا میرا شوہر غریب ہے کیا میں اپنی زکوٰۃ اپنے شوہر اور زیر کفالت بچوں پر خرچ کرسکتی ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:۔''ان پر خرچ کرنے سے تجھے دہرا اجر ملے گا۔(١)قرابت (صلہ رحمی) کا (٢) زکوٰۃ کی ادائیگی کا۔(٣٠)
زکوٰۃ کا خود تشخیصی طریقہ کار کی ایک مثال (Proforma)
(A) قابل زکوٰۃ اثاثوں کی مالیت
سونا موجود مع زیورات (نگینہ اور کھوٹ نکال کر) ........... 24,210
زمین (جو فروخت کرنے کی نیت سے خریدی ہو) ........... 110,000
مکان (زمین اور مکان کی قیمت علاوہ رہائش) ................. 200,000
نقد رقم ...................................................... 30,000
بینک میں جمع ................................................ 120,000
ادھار یا قرض دیئے ........................................... 40,000
غیر ملکی کرنسی (آج کے ریٹ سے) ............................. 600
متفرق انوسمنٹ ................................................ 9000
امانت رکھوائی ................................................... 3,000B.C
(کمیٹی) میں جمع شدہ رقم (اقساط) …............................... 125,000
فلیٹ بک کرایا (جو اقساط اب تک ادا کر دی ہیں) ................ 20,000
کاروبار میں شراکت .............................................. 300,000
خام مال کی مالیت ................................................. 40,000
تیار مال کا اسٹاک ................................................. 75,000
پارٹیوں کا بقایا ................................................... 130,000
کُل اثاثے ..................................................... 1,226,810
( B ) رقومات جو قابل زکوٰۃ اثاثوں میں سے کم کرنی ہیں
کاروباری قرضہ جو ادا کرنا ہے ................................... 420,000
دوسرے قرضہ جو دینے ہیں (ذاتی) ............................. 110,000
بیوی کا مہر جو بھی دینا ہے ......................................... 5,100B.C
(کمیٹی) کے بقایا (اگر کمیٹی مل چکی ہو تو) .......................... 70,000
ملازمین کی تنخواہیں جو دینی ہیں .................................... 10,000
ٹیکس جو دینا ہے ................................................. 7,100
بل ادا کرنے ہیں مع گزشتہ سالوں کی وہ رقوم جو ادا نہیں کی گئی….3,000
کُل قرضہ جات ................................................ 625,200
کُل اثاثے (A).......................................... 12,26,810
منہا قرضہ جات (Liabilities) ( B )........................ 625,200
قابل زکوٰۃ رقم (A-B)................................... 601,610
601,610 کا ڈھائی فیصد زکوٰۃ جو دینی ہے .... 15,040 روپے
حوالہ جات
(١) بقرہ 2 : آیت 261
(٢) بخاری ۔عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث نمبر1320
(٣) حدیث قدسی بخاری ۔عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث نمبر2342
(٤) بخاری۔عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث نمبر 1351
(٥) بخاری۔عن اسماء بنت ابی بکررضی اللہ عنہا حدیث نمبر2408
(٦) بخاری ۔عن عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہماحدیث نمبر1315
(٧) اٰل عمران 3 : آیت 80
(٨) بخاری۔عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث نمبر1314
(٩) البقرہ 2 : آیت 3
(١٠) بخاری۔عن انس رضی اللہ عنہ حدیث نمبر1369
(١١) مفہوم حدیث بخاری ۔ عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث نمبر1376
(١٢) التوبہ 9 : آیات 34-35
(١٣) ابو داؤد۔عن علی رضی اللہ عنہ حدیث نمبر1558
(١٤) ابوداؤد۔عن علی رضی اللہ عنہ حدیث نمبر1558
(١٥) ترمذی۔عن ابی موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ حدیث نمبر1568
(١٦) فتاویٰ ہندیہ جلد 1صفحہ 179
(١٧) فتاویٰ ہندیہ جلد 1صفحہ نمبر 179
(١٨) فتاویٰ شامی جلد 2صفحہ 273
(١٩) بخاری ۔عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث نمبر1320
(٢٠) ابوداؤد سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ حدیث نمبر1548
(٢١) مفہوم حدیث بخاری ۔ عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث نمبر1371
(٢٢) مفہوم حدیث بخاری ۔ عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث نمبر1371
(٢٣) الفقہ لاسلامی وادلتہ۔جلد دوئم صفحہ 864
(٢٤) البقرہ 2 : آیت 267
(٢٥) بخاری۔عن عبداﷲ بن عمررضی اللہ عنہما حدیث نمبر1389
(٢٦) الانعام 6 : آیت 141
(٢٧) نسائی۔عن ابی سعید خدری رضی اللہ عنہ حدیث نمبر2487
(٢٨) ابن ما جہ عن عبداﷲ بن عمرورضی اللہ عنہ حدیث نمبر1824
(٢٩) بخاری ۔عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث نمبر1404
(٣٠) بخاری ۔عن زینب رضی اللہ عنہا حدیث نمبر1374