انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

458

نالہ تا آسمان جاتا ہے
شور سے جیسے بان جاتا ہے

دل عجب جائے ہے ولیکن مفت
ہاتھ سے یہ مکان جاتا ہے

کیا خرابی ہے مے کدے کی سہل
محتسب اِک جہان جاتا ہے

اُس سخن ناشنو سے کیاکہیے
غیر کی بات مان جاتا ہے

گو وہ ہر جائی آئے اپنی اور
سو طرف ہی گمان جاتا ہے

میر گو عمرِ طبعی کو پہنچا
عشق میں جوں جوان جاتا ہے
 
459

مر ہی جاویں گے بہت ہجر میں ناشاد رہے
بھول تو ہم کو گئے ہو یہ تمہیں یاد رہے

ہم سے دیوانے رہیں شہر میں سبحان اللہ
دشت میں قیس رہے، کوہ میں فرہاد رہے​
 
460

جب رونے بیٹھتا ہوں تب کیا کسر رہے ہے
رومال دو دو دن تک جوں ابر تر رہے ہے

آگہ تو رہیے اُس کی طرزِ رہ و روش سے
آنے میں اُس کے لیکن کس کو خبر رہے ہے

ان روزں اتنی غفلت اچھی نہیں ادھر سے
اب اضطراب ہم کو دو دو پہر رہے ہے

در سے کبھو جو آتے دیکھا ہے میں نے اُس کو
تب سے اُدھر ہی اکثر میری نظر رہے ہے

میر اب بہار آئی، صحرا میں چل جنوں کی
کوئی بھی فصلِ گُل میں نادان گھر رہے ہے!​
 
461

اے حبِ جاہ والو! جو آج تاجور ہے
کل اس کو دیکھیو تم، نَے تاج ہے نہ سر ہے

اب کے ہوائے گُل میں سیرابی ہے نہایت
جوئے چمن پہ سبزہ ، مثرگانِ چشمِ تر ہے

اے ہم صفیر! بےگُل کس کو دماغِ نالہ
مدت ہوئی ہماری منقار زیرِ پر ہے

شمعِ اخیرِ شب ہوں، سن سرگزشت میری
پھر صبح ہوتے تک تو قصہ ہی مختصر ہے

اب رحم پر اُسی کے موقوف ہے کہ یاں تو
نَے اشک میں سرایت، نَے آہ میں اثر ہے

اب پھر ہمارا اُس کا محشر میں ماجرا ہے
آنکھیں تو اُس جگہ کیا انصاف داد گر ہے

آفت رسیدہ ہم کیا سر کھینچیں اس چمن میں
جوں نخلِ خشک ہم کو نَے سایہ، نَے ثمر ہے

کر میر اِ س زمیں میں اور اک غزل تُو موزوں
ہے حرف زن قلم بھی، اب طبع بھی اِدھر ہے​
 
462

ڈھونڈھا نہ پائیے جو اس وقت میں سو زر ہے
پھر چاہ جس کی مطلق ہے ہی نہیں، ہنر ہے

ہر دم قدم کو اپنے رکھ احتیاط سے یاں
یہ کارگاہ ساری دکانِ شیشہ گر ہے

صید افگنو! ہمارے دل کو، جگر کو دیکھو
اک تیر کا ہدف ہے، اک تیغ کا سپر ہے

اہلِ زمانہ رہتے اک طور پر نہیں ہیں
ہر آن مرتبے سے اپنے انھیں سفر ہے

وے دن گئے کہ آنسو روتے تھے میر، اب تو
آنکھوں میں لختِ دل ہے یا پارہء جگر ہے
 
463

شب شمع پر پتنگ کے آنے کو عشق ہے
اس دل جلے کی تاب کے لانے کو عشق ہے

اُٹھیو سمجھ کے جا سے کہ مانندِ گرد باد
آوارگی سے تیری زمانے کو عشق ہے

اک دم میں تُو نے پھونک دیا دو جہاں کے تئیں
اے عشق تیرے آگ لگانے کو عشق ہے

سودا ہو، تپ ہو میر کو تو کریے کچھ علاج
اس تیرے دیکھنے کے دوانے کو عشق ہے
 
465

رخسار اس کے ہائے رے جب دیکھتے ہیں ہم
آتا ہے جی میں، آنکھوں کو اُن میں گڑوئیے

اخلاصِ دل سے چاہیے سجدہ نماز میں
بے فائدہ ہے ورنہ جو یوں وقت کھوئیے

اب جان جسمِ خاک سے تنگ آگئی بہت
کب تک اِس ایک ٹوکری مٹی کو ڈھوئیے

آلودہ اُس گلی کے جو ہوں خاک سے تو میر
آبِ حیات سے بھی نہ وے پاؤں دھوئیے
 
466

شب گئے تھے باغ میں ہم ظلم کے مارے ہوئے
جان کو اپنی گُلِ مہتاب انگارے ہوئے

گور پر میری پس از مدت قدم رنجہ کیا
خاک میں مجھ کو ملا کر مہرباں بارے ہوئے

آستیں رکھتے رکھتے دیدہء خوں بار پر
حلقِ بسمل کی طرح لوہو کے فوارے ہوئے

پھرتے پھرتے عاقبت آنکھیں ہماری مُند گئیں
سو گئے، بے ہوش تھے ہم راہ کے بارے ہوئے

پیار کرنے کو جو خوباں ہم پ رکھتے ہیں گناہ
اُن سے بھی تو پوچھیے تم اتنے کیوں پیارے ہوئے

آج میرے خون پر اصرار ہر دم ہے تمہیں
آئے ہو، کیا جانیے تم کس کے سنکارے ہوئے

لیتے کروٹ مل گئے جو کان کے موتی ترے
شرم سے سرور گریباں صبح کے تارے ہوئے​
 
467

کرے کیا کہ دل بھی تو مجبور ہے
زمیں سخت ہے، آسماں دُور ہے

جرس راہ میں جملہ تن شور ہے
مگر قافلے سے کوئی دُور ہے

تمنائے دل کے لیے جان دی
سلیقہ ہمارا تو مشہور ہے

نہ ہو کس طرح فکرِ انجام کار
بھروسا ہے جس پہ سو مغرور ہے

پلک کی سیاہی میں ہے وہ نگاہ
کس کا مگر خون منظور ہے

دل اپنا نہایت ہے نازک مزاج
گِرا گر یہ شیشہ تو پھر چُور ہے

کہیں جو تسلی ہوا ہو یہ دل
وہ بے قراری بدستور ہے

بہت سعی کریے تو مر رہیے میر
بس اپنا تو اتنا ہی مقدور ہے​
 
468

اب میر جی تو اچھے زندیق ہی بن بیٹھے
پیشانی پہ دے قشقہ زنار پہن بیٹھے

پیکانِ خدنگ اس کایوں سینے کے اُودھر ہے
جو مار سیہ کوئی کاڑھے ہوئے پھن بیٹھے

بس ہو تو اِدھر اُودھر یوں پھرنے نہ دیں تجھ کو
ناچار ترے ہم یہ دیکھیں ہیں چلن بیٹھیں​
 
469

یہ تنہا داغ تو سینے پہ میرے اک چمن نکلے
ہر اک لختِ جگر کے ساتھ سو زخمِ کُہن نکلے

گماں کب تھا یہ پروانے پر اتنا شمع روئے گی
کہ مجلس میں سے جس کے اشک کے بھر بھر لگن نکلے

کہاں تک ناز برداری کروں شامِ غریباں کی
کہیں گردِ سفر سے جلد بھی صبحِ وطن نکلے

جنوں ان شورشوں پر ہاتھ کی چالاکیاں ایسی
میں ضامن ہوں اگر ثابت بدن سے پیرہن نکلے

حرم میں میر جنتا بُت پرستی پر ہے تو مائل
خداہی ہو تو اتنا بت کدے میں برہمن نکلے​
 
قصد گر امتحان ہے پیارے
اب تلک نیم جان ہے پیارے

سجدہ کرنے میں سر کٹے ہیں جہاں
سو ترا آستاں ہے پیارے

گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر
یہ ہماری زبان ہے پیارے

کام میں قتل کے مرے تن دے
اب تلک مجھ میں جان ہے پیارے

شکلیں کیا کیا کیاں ہیں جن نے خاک
یہ وہی آسمان ہے پیارے

پر تبسم کے کرنے سے تیرے
کنجِ لب پر گمان ہے پیارے

میر عمداَ َ بھی کوئی مرتا ہے
جان ہے تو جہان ہے پیارے​
 
471

زخموں پہ زخم جھیلے، داغوں پہ داغ کھائے
یک قطرہ خونِ دل نے کیا کیا ستم اُٹھائے

اُس کی طرف کو ہم نے جب نامہ بر چلا ئے
اُن کا نشاں نہ پایا، خط راہ میں سے پائے

خوں بستہ جب تلک تھیں دریا رُکے کھڑے تھے
آنسو گرے کروڑوں، پلکوں کے ٹک ہلائے

بڑھتیں نہیں پلک سے تا ہم تلک بھی پہنچیں
پھرتی ہیں وے نگاہیں پلکوں کے سائے سائے

پر کی بہار میں جو محبوب جلوہ گر تھے
سوں گردشِ فلک نے سب خاک میں ملائے

ہر قطعہء چمن پر ٹک گاڑ کر نظر کر
بگڑیں ہزار شکلیں، تب پھول یہ بنائے

یک حرف کی بھی مہلت ہم کو نہ دی اجل نے
تھا جی میں آہ کیا کیا پر کچھ نہ کہنے پائے

آگے بھی تجھ سے تھا یاں تصویر کا سا عالم
بے دردیِ فلک نے وے نقش سب مٹائے

مدت ہوئی تھی بیٹھے جوش و خروشِ دل کو
ٹھوکر نے اُس نگہ کی آشوب پھر اُٹھائے

اعجازِ عشق ہی سے جیتے رہے وگرنہ
کیا حوصلہ کہ جس میں آزار یہ سمائے

دل گرمیاں انھی کی غیروں سے جب نہ تب تھیں
مجلس میں جب گئے ہم ، غیرت نے جی جلائے

جیتے تو میر ہر شب اس طرز عمر گزری
پھر گور پر ہماری بے شمع گو کہ آئے
 
472

قبرِ عاشق پر مقرر روز آنا کیجیے
جوگیا ہو جان سے اُس کو بھی جانا کیجیے

رات دارو پیجیے غیروں میں بے لیت و لعل
یاں سحر سر دُکھنے کا ہم سے بہانا کیجیے

ٹک تمہارے ہونٹ کے ہلنے سے یاں ہوتا ہے کام
اتنی اُتنی بات جو ہووے تو مانا کیجیے

سیکھیے غیروں کے ہاں چھپ چھپ کے علم تِیر پھر
سارے عالم میں ہمارے تئیں نشانا کیجیے

نکلے ہے آنکھوں سے تو گردِ کدورت جائے اشک
تا کجا تیری گلی میں خاک چھانا کیجیے

آبشار آنے لگی آنسو کی پلکوں سے تو میر
کب تلک یہ آب چارد منھ پہ تانا کیجیے​
 
473

مہ وشاں پوچھیں نہ ٹک ہجراں میں گر مر جائیے
اب کہو! اس شہرِ ناپرساں سے کیدھر جائیے

شوق تھا جو یار کے کُوچے ہمیں لایا تھا میر
پاؤں میں طاقت کہاں اتنی کہ اب گھر جائیے
 
474

غالب کہ یہ دل خستہ شبِ ہجر میں مرجائے
یہ رات نہیں وہ جو کہانی میں گزر جائے

یہ بُت کدہ ہے منزلِ مقصود ، نہ کعبہ
جو کوئی تلاشی ہو ترا آہ کدھر جائے

یاقوت کوئی ان کو کہے ہے، کوئی گُل برگ
ٹک ہونٹ ہلا تُو بھی کہ اب بات ٹھہر جائے

مت بیٹھ بہت عشق کے آزردہ دلوں میں
نالہ کسو مظلوم کا تاثیر نہ کر جائے

اس ورطے سے تختہ جو کوئی پہنچے کنارے
تو میر وطن میرے بھی شاید یہ خبر جائے​
 
475

ہم نے جانا تھا سخن ہوں گے زباں پر کتنے
پرقلم ہاتھ جو آئی ، لکھے دفتر کتنے

میں نے اُس قطعہء صناع سے سر کھینچا
کہ ہر اک کوچے میں جس کے تھے ہنرور کتنے

آہ نکلی ہے یہ کس کی ہوسِ سیرِ بہار
آتے ہیں باغ میں آوارہ ہوئے پر کتنے

تُو ہے بے چارہ گدا میر، ترا کیا مذکور
مل گئے خاک میں یاں صاحبِ افسر کتنے​
 
476

آہ جس وقت سر اُٹھاتی ہے
عرش پر برچھیاں چلاتی ہیں

ناز بردارِ لب ہے جاں جب سے
تیرے خط کی خبر کو پاتی ہے

اے شبِ ہجر راست کہہ تجھ کو
بات کچھ صبح کی بھی آتی ہے

چشمِ بد دُور چشمِ تر اے میر
آنکھیں طوفان کو دکھاتی ہیں​
 
Top