اس طرح شاید وہ عکسِ تہ نشیں کو چوم لے شاخِ سجدہ ریز کو جوئے رواں ہے سامنے
فلک شیر محفلین جنوری 11، 2014 #21 اس طرح شاید وہ عکسِ تہ نشیں کو چوم لے شاخِ سجدہ ریز کو جوئے رواں ہے سامنے
فلک شیر محفلین جنوری 11، 2014 #22 یوں تو سبھی کو عشق نے سونپی ہیں شہرتیں لیکن کبھی کبھی کوئی گمنام ہی سہی
فلک شیر محفلین جنوری 11، 2014 #24 جب چاہیں ہم کو آ لیں نقشِ قدم ہمارے ہم رخشِ عمر تیری رفتار تو نہیں
فلک شیر محفلین جنوری 11، 2014 #25 مری خندق میں اس کے قرب کی قندیل روشن ہے مرے دشمن سے کہہ دینا میں اس سے پیار کرتا ہوں اٹھائے پھر رہا ہوں حسرتِ تعمیر کی اینٹیں جہاں سایہ نہیں ہوتا وہیں دیوار کرتا ہوں
مری خندق میں اس کے قرب کی قندیل روشن ہے مرے دشمن سے کہہ دینا میں اس سے پیار کرتا ہوں اٹھائے پھر رہا ہوں حسرتِ تعمیر کی اینٹیں جہاں سایہ نہیں ہوتا وہیں دیوار کرتا ہوں
فلک شیر محفلین جنوری 11، 2014 #26 تو ہے کہ ابھی گھر سے بھی باہر نہیں نکلا ہم ہیں کہ شجر بن کے تری رہ میں کھڑے ہیں
فلک شیر محفلین جنوری 11، 2014 #27 گاہے گاہے سانسوں کی آواز سنائی دیتی ہے گاہے گاہے بج اٹھتی ہے دل کے شکستہ ساز میں چپ
فلک شیر محفلین جنوری 11، 2014 #28 کہاں گئے جنہیں بارش کی آرزو تھی بہت کہ اب کی بار تو ساون چھتیں بھی چھید گیا
فلک شیر محفلین جنوری 11، 2014 #29 پیش آتے ہیں کچھ ایسے اپنی حیرانی سے ہم آئینے کو دیکھتے ہیں خندہ پیشانی سے ہم دل میں اک گوشہ ہمارے واسطے رکھ چھوڑنا کیا خبر کب تنگ آ جائیں جہانبانی سے ہم رات کو جب یاد آئے تیری خوشبوئے قبا تیرے قصے چھیڑتے ہیں رات کی رانی سے ہم
پیش آتے ہیں کچھ ایسے اپنی حیرانی سے ہم آئینے کو دیکھتے ہیں خندہ پیشانی سے ہم دل میں اک گوشہ ہمارے واسطے رکھ چھوڑنا کیا خبر کب تنگ آ جائیں جہانبانی سے ہم رات کو جب یاد آئے تیری خوشبوئے قبا تیرے قصے چھیڑتے ہیں رات کی رانی سے ہم
فلک شیر محفلین جنوری 11، 2014 #30 تجھے قریب سمجھتے تھے گھر میں بیٹھے ہوئے تری تلاش میں نکلے تو شہر پھیل گیا مکان سے مکان نکلا کہ جیسے بات سے بات مثالِ قصہ ہجراں یہ شہر پھیل گیا
تجھے قریب سمجھتے تھے گھر میں بیٹھے ہوئے تری تلاش میں نکلے تو شہر پھیل گیا مکان سے مکان نکلا کہ جیسے بات سے بات مثالِ قصہ ہجراں یہ شہر پھیل گیا
فلک شیر محفلین جنوری 11، 2014 #31 یہ دکانیں تو انہیں روکتی رہ جاتی ہیں جانے کیوں لوگ گزر جاتے ہیں بازاروں سے
فلک شیر محفلین جنوری 11، 2014 #32 بیٹھے رہنے سے تو لو دیتے نہیں یہ جسم و جاں جگنوؤں کی چال چلیے روشنی بن جائیے
فلک شیر محفلین جنوری 11، 2014 #33 آنکھ سے اشک نکلنے پہ پشیمان نہ ہو یہ تو پانی کا پرندہ تھا جو تھل سے نکلا
فلک شیر محفلین جنوری 11، 2014 #34 یہ کیا کہ ڈھونڈتے پھریے دیاروار تجھے اور اس زمین پہ اپنا کوئی مکان ہی نہ ہو
فلک شیر محفلین جنوری 11، 2014 #35 ایک ہتھیلی پر اس نے مہکائے حنا کے سندر پھول ایک ہتھیلی کی قسمت میں لکھا دشت لکیروں کا
فلک شیر محفلین جنوری 11، 2014 #36 تیرے لیے چراغ دھرے ہیں منڈیر پر تو بھی اگر ہوا کی مثال آ گیا تو بس
فلک شیر محفلین جنوری 11، 2014 #37 ہر ایک سمت سے اس کو صدائیں آتی ہیں مجھے پکار کے خود بھی پکار میں گم ہے نئے چراغ جلا مجھ کو ڈھونڈنے والے تری نظر تو نظر کے غبار میں گم ہے
ہر ایک سمت سے اس کو صدائیں آتی ہیں مجھے پکار کے خود بھی پکار میں گم ہے نئے چراغ جلا مجھ کو ڈھونڈنے والے تری نظر تو نظر کے غبار میں گم ہے
فلک شیر محفلین جنوری 11، 2014 #38 چار سمتیں تو ہیں دیکھی بھالی ہوئی اب کسی اور جانب سفر چاہیے حسن کی تازگی تک ہی قصہ نہیں بات بھی اب کوئی تازہ تر چاہیے
چار سمتیں تو ہیں دیکھی بھالی ہوئی اب کسی اور جانب سفر چاہیے حسن کی تازگی تک ہی قصہ نہیں بات بھی اب کوئی تازہ تر چاہیے
فلک شیر محفلین جنوری 11، 2014 #39 ایک دھن ہے جو شب و روز رواں رکھتی ہے ورنہ اپنا تو ہر اک کام کیا رکھاہے
فلک شیر محفلین جنوری 11، 2014 #40 ٹوٹے گا نہیں دشت نوردی کا تسلسل رک جائیں گے ہم لوگ تو اشجار چلیں گے