فلک شیر

محفلین
مری خندق میں اس کے قرب کی قندیل روشن ہے
مرے دشمن سے کہہ دینا میں اس سے پیار کرتا ہوں

اٹھائے پھر رہا ہوں حسرتِ تعمیر کی اینٹیں
جہاں سایہ نہیں ہوتا وہیں دیوار کرتا ہوں​
 

فلک شیر

محفلین
پیش آتے ہیں کچھ ایسے اپنی حیرانی سے ہم
آئینے کو دیکھتے ہیں خندہ پیشانی سے ہم

دل میں اک گوشہ ہمارے واسطے رکھ چھوڑنا
کیا خبر کب تنگ آ جائیں جہانبانی سے ہم

رات کو جب یاد آئے تیری خوشبوئے قبا
تیرے قصے چھیڑتے ہیں رات کی رانی سے ہم​
 

فلک شیر

محفلین
تجھے قریب سمجھتے تھے گھر میں بیٹھے ہوئے
تری تلاش میں نکلے تو شہر پھیل گیا

مکان سے مکان نکلا کہ جیسے بات سے بات
مثالِ قصہ ہجراں یہ شہر پھیل گیا​
 

فلک شیر

محفلین
ہر ایک سمت سے اس کو صدائیں آتی ہیں
مجھے پکار کے خود بھی پکار میں گم ہے

نئے چراغ جلا مجھ کو ڈھونڈنے والے
تری نظر تو نظر کے غبار میں گم ہے​
 

فلک شیر

محفلین
چار سمتیں تو ہیں دیکھی بھالی ہوئی
اب کسی اور جانب سفر چاہیے

حسن کی تازگی تک ہی قصہ نہیں
بات بھی اب کوئی تازہ تر چاہیے​
 
Top