محب علوی نے کہا:
بچپن میں کونسی کہانیاں اچھی لگتی تھیں؟
ساری
کہانی ہو اور اچھی نہ لگے یہ ہوہی نہیں سکتا تھا۔ مجھے یہ لت تب سے ہی پڑ گئی تھی جب امی بہن بھائیوں کو اسکول روانہ کر کے مجھے سُلا کر اپنے تمام ضروری کام نبٹانا چاہتیں تو مجھے لوری سناتی اور کہانیاں سناتی تھیں۔ یہ کہانیاں سُننے کا دور تھا اور مجھے جتنی سنائیں کم ہیں۔ امی کا خیال ہوتا تھا کہ میں سو جاؤں گی اور میرا یہ حال کہ میری تحقیق شروع ہو جاتی تھی ایسے کیوں تو ویسے کیوں نہیں؟ ابھی جب اسکول جانا نہیں شروع ہوا تھا کڑھائی ، سلائی ، بُنائی یہ سب امی کے پسندیدہ مشاغل تھے اور امی کچھ وقت ان کے لئے بھی نکالا کرتی تھیں اور مجھے یہ بے چینی رہتی کہ دیکھوں کہ کیسے ہوتا ہے یہ سب۔ تو میں امی کے ساتھ جُڑ کے بیٹھ جاتی اور دیکھتی رہتی ایسے ہی دیکھتے دیکھتے سیکھ لیا۔ پھر ہوتا یوں تھا کہ امی اگر کسی کام سے ذرا کی ذرا اُٹھیں تو مجھے خاص تاکید ہوتی کہ کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگانا ہے اور میں ازلی فرمانبردار، ادھر امی اوجھل ہوئیں اور میرے دماغ میں کیڑا اٹھنا کہ امی کے واپس آنے سے پہلے ہی میں پورا لباس سی کے رکھ دوں، اگر اون سلائیاں ہوتیں تو پورا سوئیٹر بُن جائے، اگر کڑھائی ہے تو فوراً مکمل ہوجائے۔ میں پُوری دیانتداری سے کام کرتی لیکن امی ہمیشہ دومنٹ میں ہی واپس آجاتیں اور پھر اگلا ایک گھنٹہ ان ساری خرابیوں کو دور کرنے میں نکل جاتا جو میرے خلوص اور نیک نیتی کے سبب وجود عدم سے وجود میں آ جاتی تھیں۔
اس مسئلے کا حل امی نے یہی نکالا کہ مجھے کہانیاں سنائیں۔ اب جیسے ہی میں جُڑ کے امی کے ساتھ بیٹھتی تو امی مجھے حد ادب میں رکھنے کی خاطر انبیاء کے قصے سنایا کرتیں اور یوں امی اپنے کام میں مشغول اور میں اپنی تحقیق میں مگن۔۔۔حضرت آدم علیہ السلام، حضرت یونس علیہ السلام ، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسمٰعیل علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت موسٰی علیہ السلام سب انبیاء کے بارے میں۔ سب مجھے بہت پسند میں بار بار سنا کرتی، پھر حضرت آسیہ ، حضرت ہاجرہ
حجرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا، حضرت بلال، مرحب کی شکست، جنگِ خیبر۔ حضرت لقمان
امی کوئی ایک قصہ سنا کر مطمئن ہوتیں تو میں فوراً دوبارہ سنانے کی فرمائش کر دیتی۔ امی کہتیں کہ کتنی بار سننا ہے۔ پھر میرے سوال کہ حضرت ابراہیم نے کیسے آگ میں چھلانگ لگا دی؟ حضرت موسٰی کیسے بند صندوق میں بہتے رہے؟ کیا پانی صندوق کے اندر نہیں گیا تھا؟ نمرود کو مچھر نے کیسے تنگ کیا؟ ہابیل اور قابیل بھائی تھے تو لڑائی کیوں ہوئی؟ اللہ نے حضرت آدم کو جنت میں کیوں نہ رہنے دیا؟ حضرت موسٰی کا عصا اژدھا کیسے بن گیا؟
امی مجھے حضرت موسٰی کا معجزہ سنا رہی ہوتیں اور میں اس الجھن میں حساب کتاب لگا رہی ہوتی کہ فرعون کا دربار کتنا بڑا ہوگا جس میں فرعون اور اس کے سارے درباری بھی آ جاتے ہوں گے اور باقی سب لوگ بھی سب جادوگر ، اور جادوگروں کے لئے کتنی جگہ ہوتی تھی جہاں وہ اپنا جادو دکھاتے تھے؟ کیا سارے درباری اور جادوگر کھڑے رہتے تھے یا بیٹھتے بھی تھے؟ اگر کھڑے رہتے تھے تو کیا لائن بنا کر کھڑے ہوتے تھے یا دائرہ بناتے تھے؟ جادوگروں کے سانپ کتنے بڑے بنے ہوں گے؟ کیا سب جادو گروں کے سانپ ایک ہی جیسے ہوتے تھے یا الگ؟ ایک جتنے بڑے ہوتے تھے یا کوئی چھوٹا ہوتا تھا اور کوئی بڑا؟ ان سب سانپوں کا رنگ کیسا ہوتا ہوگا؟
سارے سانپ کتنی جگہ میں چلتے (رینگتے) ہوں گے؟
اچھا جو بات مجھے کسی طرح بھی سمجھ نہیں آتی تھی وہ یہ کہ جادوگروں کے وہ سب سانپ جب رینگ رہے ہوتے ہوں گے تو باقی سب درباریوں کو کچھ نہیں کہتے ہوں گے اور صرف حضرت موسٰی ہی کو ڈراتے؟ میری تحقیق جاری رہتی کتنا بڑا دائرہ ہو کہ سانپوں کو آسانی سے رینگنے کی جگہ ملے؟ حضرت موسٰی کا عصا کیسا تھا؟ کس رنگ کا تھا؟ کتنا بڑا تھا؟ اور وہ اژدھا کیسے بن جاتا تھا؟ اور اژدھا کے لئے کتنی جگہ چاہئے(سب کے لئے جگہ کی بڑی فکریں مجھے
) ، اور کیا وہ جادوگروں کے سانپوں کو خود کھا جاتا تھا یا جادوگروں کے سانپ خود اس کے قریب آتے تھے تو تب کھاتا تھا؟ حضرت موسٰی اُسے کیسے پکڑتے ہوں گے؟
دوپہر کو جب سب بڑے بھیا بہن لوگ اسکول سے واپس آجاتے تو سب سوتے بھی تھے تو امی کو مجھ سے بھی توقع ہوتی کہ میں سو جاؤں پر مجھے نیند کہاں۔۔۔ ابھی تو اسکول جانا شروع نہیں ہوا تھا کہ تھکاوٹ سے ہی نیند آجاتی۔ اب امی مجھے سُلانے کے ہزار جتن کریں اور مجھے نیند ہی نہ آئے۔ گرمیوں میں زیادہ مصیبت پڑتی، پھر امی نے مجھے ڈرانا کہ جلدی سے آنکھیں بند کر لو باہر بہت تیز دھوپ ہے سورج نیچے آیا ہوا ہے زمین پر کوے کی آنکھیں اُبل کر باہر نکل آئی ہیں۔ مجھے ڈرا ڈرو کے امی نے پھر لوری سنانا شروع کر دینی اور انتظار کہ میں سو جاؤں تو کچھ دیر کے لئے امی خود بھی سو جائیں۔ امی کا کہا مان کر ادھر میں اپنی آنکھیں بند کرتی تو کوا میرے سامنے آجاتا، سورج بلاتاخیر نیچے زمین پر چھلانگ لگا دیتا اور بچارے کوے کی آنکھیں ابل کر باہر نکل پڑتیں۔ میں اپنی آنکھیں کھولتی تو سورج اور کوا فوراً غائب اور کمرے کی چھت نظر آنے لگتی۔ پھر آنکھیں بند کرتی تو پھر کوا نظر آنے لگتا سورج بھی دوبارہ نیچے چھلانگ لگا دیتا اور کوے کی آنکھیں نکل رہی ہوتیں۔ پھر آنکھیں کھولوں تو پھر سب کچھ غائب۔ میں انتظار کرتی کہ امی جلدی سے سو جائیں تو میں باہر جا کر سورج دیکھوں اور کوے کی آنکھیں باہر نکلتی دیکھوں۔ امی مجھے لوری سناتے سناتے لوری کے زیرِ اثر بالآخر سو جاتیں اور میں دروازہ کھول کمرے سے باہر۔ لیکن باہر سورج کہیں نظر نہ آتا زمین پر، اور نہ ہی کوا جس کی آنکھیں باہر نکل رہی ہوں۔ میں درختوں میں ، کیاریوں میں، پودوں میں پھولوں میں ہر جگہ ڈھونڈتی رہتی لیکن کہیں بھی کچھ نظر نہ آتا۔ نہ سورج نہ کوا اور نہ ہی اس کی ابلتی آنکھیں۔ ابھی میں تلاش کر ہی رہی ہوتی کہ نجانے کیسے امی کو معلوم ہوجاتا اور امی کے باہر آتے ہی مجھے اپنی تلاش ختم کرنا پڑتی اور مجبوراً واپس کمرے میں جانا پڑتا اور ظلم یہ کہ آنکھیں بھی بند کر کے سونا پڑتا، اب یہ کیا بات کہ نیند آ نہیں رہی اور پڑے رہو زبردستی آنکھیں مِیچ کر۔۔۔۔ اِدھر میں آنکھ بند کرتی اُدھر وہ ناہنجار کوا کھٹ سے نظر کے سامنے کود پڑتا اور فٹ اس کی آنکھیں ابلنا شروع۔۔۔امی پھر کوئی کہانی سناتیں، پھر نہیں معلوم کب نیند آجاتی۔۔۔ کیا کسی نے کبھی کسی کوے کی آنکھیں ابلتی دیکھی ہیں کڑی دوپہر میں۔۔۔؟
بعد میں جب ہجے کرنے آ گئے تو پھر تو مزے ہی مزے، کسی کی منت ہی نہ کرنا پڑتی کہ کوئی کہانی سنائے خود ہی الٹے سیدھے ہجے کر کر پڑھ لیتی جو کچھ بھی ہاتھ لگتا۔ ہر سال اردو کی پہلی کتاب، اردو کی دوسری کتاب، اردو کی تیسری کتاب ، اردو کی پانچویں کتاب، پھر چھٹی، ساتویں ، آٹھویں یہ سب کتابیں اور ان میں سب کہانیاں اور نظمیں۔ ادھر نیا سال شروع ہوتا نئی کتابیں ملتیں اور میں پہلے دوسرے تیسرے دن ہی پوری کتاب پڑھ ڈالتی، بار بار بھی پڑھتی جتنی دفعہ دل چاہتا۔ یہاں سے دل بھر جاتا تو پھر بہن بھیا لوگوں کی کتابوں میں گُھستی۔ ان کی کتابیں تو میری سمجھ میں ہی نہ آتیں کہ کیا لکھا ہے پھر بھی پڑھتی رہتی۔ سمجھ ککھ نہ آتا لیکن ہجے کرنے تو آتے تھے نا۔ عمران سیریز، جاسوسی ڈائجسٹ، سسپنس ڈائجسٹ، اخبارِ جہاں، سب رس، نصابی کتب ، سب میرے سر پر سے گذر جاتا۔ ایک دن پطرس بخاری کا مضمون
میبل اور میں جب میں نے پڑھا تو اتنا عجیب لگا بالکل نہیں پسند آیا۔ ایک تو نام پڑھنے میں ہی کتنی دیر لگ گئی۔ اور یہ کہانی (میں ہر تحریر کو کہانی ہی سمجھتی تھی) مجھے اعتراض تھا کہ یہ کیسی کہانی ہے اتنی بےکار کچھ سمجھ میں ہی نہیں آتا کتنی بار پڑھا ذرا جو سمجھ میں آیا ہو، تنگ آ کے چھوڑ دیا۔
نونہال رسالہ میرا پسندیدہ ترین رسالہ تھا۔ ترتیب مجھے یاد نہیں کون سی کہانی کب پڑھی لیکن کچھ کہانیاں:
ننھا سیاح
ٹام سائر کے کارنامے
ابو علی کا جوتا
چالاک خرگوش کے کارنامے
یہ کس کی کارستانی ہے
توبتہ النصوح
نونہال
بے وقوف بادشاہ
تعلیم و تربیت
عقلمند وزیر
طلسماتی محل
The Lion, The Witch and The Wardrobe
ٹارزن کے قصے
Jack and the Bean Stalk
مینڈک شہزادہ
سینڈریلا
سوتیلی ماں
بچوں کی کہانیاں
الہ دین کا چراغ
پناکو کے کارنامے
باغ و بہار
سندباد
Good Bye Mr. Chips
بم بم دیو
سات بونے
عقلمند شہزادی
انسپکٹر جمشید کے کارنامے
چالاک بھیڑیا
Beauty and the Beast
جادوئی شیشہ
تھمبلینا
Tomb Thumb
ایماندار لکڑہارا
سویا ہوا محل
شیر اور چوہا
اتفاق میں برکت ہے
سات شہزادیاں
بارش کا پہلا قطرہ
Silver Box
شیر آیا
حاتم طائی
قصہ چہار درویش
سنہری پری
رحمدل پری
Boris in the snow
لالچ بری بلا ہے
شُو ہاؤس
کھوٹا سکہ
ژالہ باری
How Derry the Dormouse Lost His Secret
The Surprising Blackberry
Cookiland
The Magic Snow-Bird
The Lucky Green Pea
The Silly Little Duckling
Jasper's Gold Pot
خزانے کی تلاش
The Tale of Scissors the Gnome
Help for the Hen
Bones. Bones, Bones
Puff
Sea Frog, City Frog
A New House
The Surprise
Who Is Beatrix Potter
The Blue Forest
How Little Lamb Fooled Senor Coyote
The Bear's Bicycle
A Pair of Blue Trousers
The Girl who Bit her nails
۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
نجانے کتنی اور بے شمار کہانیاں پورا دن اور رات گذر جائے اس طرح تو