انٹرویو انٹرویو وِد فرحت کیانی

قیصرانی

لائبریرین
جہلم کی تاریخ ویسے تو کافی دلچسپ ہے ۔ میں مختصر سا ذکر کروں گی۔ جہلم کے نام کے بارے میں مختلف آراء ہیں جن میں زیادہ مستند اس رائے کو مانا جاتا ہے کہ دارا اعظم ثالث اپنی فتوحات کا سفر طے کرتے موجودہ دریائے جہلم کے مقام پر پہنچا تو اس نے اپنا جھنڈا یہاں گاڑ کر اسے 'جائے عَلم' کا نام دیا جو بگڑتے بگڑتے جہلم بن گیا۔ ایک اور کہانی دریائے جہلم سے جڑتی ہے کہ اس دریا کے پانی کی وجہ سے اسے جل ہم کہا گیا جو سنسکرت کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ٹھنڈا میٹھا پانی ہے۔ بعد میں یہ جہلم بن گیا۔ کچھ لوگ اس نام کو سکندر اور پورس کے مابین لڑی جنگ سے جوڑتے ہیں۔ کہ یہ لڑائی بنیادی طور پر نیزوں سے لڑی گئی تھی اور یونانی میں نیزے کو 'جہلم' کہتے ہیں۔ ایک اور خیال صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ، حضرت سعد بن ابی وقاص (رضی اللہ عنہہ) کے بھائی حضرت سعید بن ابی وقاص (رضی اللہ عنہہ) کی چین کے سفرِ تبلیغ کے راستے میں اس مقام پر قیام اور ان کے اس دریا کے پانی کی جھلماہٹ پر ھذاجھیلم کہہ اٹھنے سے جوڑتا ہے۔ بہرحال یہ تو نام کی کہانی ہوئی۔ شہر کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم نے دریا کے کنارے ایک مقام پر اپنے ایک پسندیدہ گھوڑے کو جسے لڑائی کے دوران پورس کے بیٹے نے زخمی کیا تھا اور وہ گھوڑا بعد میں دم توڑ گیا تھا، کو دفن کیا تھا اور وہاں ایک شہر آباد کیا تھا۔ موجودہ شہر اسی جگہ پر آباد ہے۔ کٹاس کا علاقہ جیسے ہندو دیو مالا میں کافی اہمیت حاصل ہے ، بھی جہلم ڈسٹرکٹ میں آتا ہے شاید۔
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ علاقہ بہت سے بیرونی مہم جوؤں کی توجہ کا مرکز رہا ہے جن میں سائرس اعظم، دارا اعظم اور سکندرِ اعظم کے نام بھی شامل ہیں۔ شہاب الدین غوری کا مقبرہ بھی اسی علاقے میں موجود ہے۔ شیرشاہ سوری نے یہیں مشہور قلعہ روہتاس تعمیر کروایا تھا اور مشہور جرنیلی سڑک بھی اس شہر سے گرزتی ہے۔
جہلم کا نام 'مارشل ایریاز' میں آتا ہے۔ یہاں کی آبادی کی اکثریت فوج کا حصہ ہوتی تھی اور اسی وجہ سے اگر یہ کہا جائے کہ ہر خاندان میں شہید اور غازی موجود ہیں تو مبالغہ نہیں ہو گا۔ البتہ موجودہ نسل کی ترجیحات اب کچھ تبدیل ہو رہی ہیں۔ میجر محمد اکرم شہید نشانِ حیدر بھی یہیں کے باسی تھے اور 1965ء اور بعد میں 1972ء میں کشمیر میں لیپا ویلی کے ہیرو کرنل کیانی بھی یہاں سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ اور اگر شہیدوں اور غازیوں کے ناموں کی فہرست بنائی جائے تو بہت طویل ہو جائے گی۔ دیگر نمایاں فوجیوں میں سابقہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل آصف نواز جنجوعہ مرحوم ، میجر جنرل محمد جمشید ، میجر جنرل نوید زمان کیانی اور راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے سربراہ میجر جنرل اظہر محمود کیانی کا تعلق بھی جہلم سے ہے۔
موجودہ چیف جنرل پرویز اشفاق کیانی کا تعلق جہلم سے اس طرح بنتا ہے کہ انہوں نے ملٹری کالج جہلم سے تعلیم حاصل کی جو پاکستان ملٹری اکیڈمی کا فیڈر انسٹیٹیوٹ کہلاتا ہے۔ اس لحاظ سے اور بہت سے جرنیل اور نمایاں فوجی ہمارے یہاں سے ہی پڑھے ہوئے ہیں :openmouthed:۔
اس کے علاوہ نمایاں شخصیات میں صوبہ پنجاب کے سابقہ گورنر چوہدری الطاف حسین بھی جہلم کے باسی تھے۔
علمی اور ادبی شخصیات میں تاریخ نویس اور لکھاری پروفیسر سعید راشد جو علی گڑھ سے تحصیل یافتہ تھے کا نام کافی نمایاں ہے جنہیں تعلیم میں ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا، مشہور مزدور شاعر تنویر سپرا اور جوگی جہلمی کے نام شامل ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا زبان زد خاص و عام نعرہ 'تم کتنے بھٹو مارو گے، ہر گھر سے بھٹو نکلے گا' تنویر سپرا کے قلم سے ہی نکلا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ میاں محمد بخش اپنے نام کے ساتھ جہلم کی مناسبت سے جہلمی لکھا کرتے تھے۔ مولانا ظفر علی خان کے اجداد کا تعلق بھی جہلم سے تھا۔
اس چھوٹے سے شہر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں قائدِ اعظم ، فاطمہ جناح، سید عطا اللہ شاہ بخاری جیسی عظیم شخصیات عوام سے ملنے آئیں۔ اور تحریکِ پاکستان کے ایک مشہور کارکن راجا غضنفر علی جو پاکستان بننے کے بعد بھی کلیدی عہدوں پر فائز رہے خصوصاً ایران میں پاکستان کے سفیر، اسی شہر سے تعلق رکھتے تھے۔
تعلیمی لحاظ سے جہلم کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ یہاں شرحِ خواندگی 80 فیصد سے زیادہ ہے اور ماشاءاللہ بہترین سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے یہاں موجود ہیں۔ بلکہ کچھ عرصہ پہلے یہاں پنجاب یونیورسٹی کا علاقائی کیمپس بھی بن چکا ہے۔ ملٹری کالج جہلم کا ذکر میں پہلے ہی کر چکی ہوں۔
ترقیاتی لحاظ میں بھی ماشاءاللہ یہ شہر کسی طرح محروم نہیں۔ تمام بنیادی سہولیات اپنی بہترین شکل میں موجود ہیں۔ اور اگر کوئی کمی ہو بھی تو اب الیکشن آنے والے ہیں ناں تو یقیناً دھڑادھڑ کئی نئے ترقیاتی کام شروع ہو چکے ہوں گے۔ :eyerolling:

میں نے ایک نہیں بلکہ کئی مثالیں لکھ ڈالی ہیں۔ :whew::whew:
اصل وجہ شہرت کہ آپ کا تعلق یہاں سے ہے، لکھنا بھول گئیں شاید؟
 

فرحت کیانی

لائبریرین
جہلم کے ساتھ ہی تو کھاریاں ہے اور کھاریاں چھاؤنی خاصی مشہور ہے۔
جی بالکل۔ کھاریاں کا شمار ملک کی بڑی اور خوبصورت چھاؤنیوں میں ہوتا ہے۔ جہلم چھاؤنی قیامِ پاکستان سے پہلے اور کھاریاں پاکستان بننے کے بعد بنی تھی۔

اصل وجہ شہرت کہ آپ کا تعلق یہاں سے ہے، لکھنا بھول گئیں شاید؟
تو اور کیا۔ 8)
میں نے پہلے اس سوال کے جواب میں یہ ذکر کیا تھا ناں۔ اس لئے ابھی دوبارہ نہیں لکھا۔ بس کل کہیں عجز کی تعریف پڑھ لی تھی :openmouthed:۔
 
جہلم کی تاریخ ویسے تو کافی دلچسپ ہے ۔ میں مختصر سا ذکر کروں گی۔ جہلم کے نام کے بارے میں مختلف آراء ہیں جن میں زیادہ مستند اس رائے کو مانا جاتا ہے کہ دارا اعظم ثالث اپنی فتوحات کا سفر طے کرتے موجودہ دریائے جہلم کے مقام پر پہنچا تو اس نے اپنا جھنڈا یہاں گاڑ کر اسے 'جائے عَلم' کا نام دیا جو بگڑتے بگڑتے جہلم بن گیا۔ ایک اور کہانی دریائے جہلم سے جڑتی ہے کہ اس دریا کے پانی کی وجہ سے اسے جل ہم کہا گیا جو سنسکرت کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ٹھنڈا میٹھا پانی ہے۔ بعد میں یہ جہلم بن گیا۔ کچھ لوگ اس نام کو سکندر اور پورس کے مابین لڑی جنگ سے جوڑتے ہیں۔ کہ یہ لڑائی بنیادی طور پر نیزوں سے لڑی گئی تھی اور یونانی میں نیزے کو 'جہلم' کہتے ہیں۔ ایک اور خیال صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ، حضرت سعد بن ابی وقاص (رضی اللہ عنہہ) کے بھائی حضرت سعید بن ابی وقاص (رضی اللہ عنہہ) کی چین کے سفرِ تبلیغ کے راستے میں اس مقام پر قیام اور ان کے اس دریا کے پانی کی جھلماہٹ پر ھذاجھیلم کہہ اٹھنے سے جوڑتا ہے۔ بہرحال یہ تو نام کی کہانی ہوئی۔ شہر کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم نے دریا کے کنارے ایک مقام پر اپنے ایک پسندیدہ گھوڑے کو جسے لڑائی کے دوران پورس کے بیٹے نے زخمی کیا تھا اور وہ گھوڑا بعد میں دم توڑ گیا تھا، کو دفن کیا تھا اور وہاں ایک شہر آباد کیا تھا۔ موجودہ شہر اسی جگہ پر آباد ہے۔ کٹاس کا علاقہ جیسے ہندو دیو مالا میں کافی اہمیت حاصل ہے ، بھی جہلم ڈسٹرکٹ میں آتا ہے شاید۔
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ علاقہ بہت سے بیرونی مہم جوؤں کی توجہ کا مرکز رہا ہے جن میں سائرس اعظم، دارا اعظم اور سکندرِ اعظم کے نام بھی شامل ہیں۔ شہاب الدین غوری کا مقبرہ بھی اسی علاقے میں موجود ہے۔ شیرشاہ سوری نے یہیں مشہور قلعہ روہتاس تعمیر کروایا تھا اور مشہور جرنیلی سڑک بھی اس شہر سے گرزتی ہے۔
جہلم کا نام 'مارشل ایریاز' میں آتا ہے۔ یہاں کی آبادی کی اکثریت فوج کا حصہ ہوتی تھی اور اسی وجہ سے اگر یہ کہا جائے کہ ہر خاندان میں شہید اور غازی موجود ہیں تو مبالغہ نہیں ہو گا۔ البتہ موجودہ نسل کی ترجیحات اب کچھ تبدیل ہو رہی ہیں۔ میجر محمد اکرم شہید نشانِ حیدر بھی یہیں کے باسی تھے اور 1965ء اور بعد میں 1972ء میں کشمیر میں لیپا ویلی کے ہیرو کرنل کیانی بھی یہاں سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ اور اگر شہیدوں اور غازیوں کے ناموں کی فہرست بنائی جائے تو بہت طویل ہو جائے گی۔ دیگر نمایاں فوجیوں میں سابقہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل آصف نواز جنجوعہ مرحوم ، میجر جنرل محمد جمشید ، میجر جنرل نوید زمان کیانی اور راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے سربراہ میجر جنرل اظہر محمود کیانی کا تعلق بھی جہلم سے ہے۔
موجودہ چیف جنرل پرویز اشفاق کیانی کا تعلق جہلم سے اس طرح بنتا ہے کہ انہوں نے ملٹری کالج جہلم سے تعلیم حاصل کی جو پاکستان ملٹری اکیڈمی کا فیڈر انسٹیٹیوٹ کہلاتا ہے۔ اس لحاظ سے اور بہت سے جرنیل اور نمایاں فوجی ہمارے یہاں سے ہی پڑھے ہوئے ہیں :openmouthed:۔
اس کے علاوہ نمایاں شخصیات میں صوبہ پنجاب کے سابقہ گورنر چوہدری الطاف حسین بھی جہلم کے باسی تھے۔
علمی اور ادبی شخصیات میں تاریخ نویس اور لکھاری پروفیسر سعید راشد جو علی گڑھ سے تحصیل یافتہ تھے کا نام کافی نمایاں ہے جنہیں تعلیم میں ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا، مشہور مزدور شاعر تنویر سپرا اور جوگی جہلمی کے نام شامل ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا زبان زد خاص و عام نعرہ 'تم کتنے بھٹو مارو گے، ہر گھر سے بھٹو نکلے گا' تنویر سپرا کے قلم سے ہی نکلا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ میاں محمد بخش اپنے نام کے ساتھ جہلم کی مناسبت سے جہلمی لکھا کرتے تھے۔ مولانا ظفر علی خان کے اجداد کا تعلق بھی جہلم سے تھا۔
اس چھوٹے سے شہر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں قائدِ اعظم ، فاطمہ جناح، سید عطا اللہ شاہ بخاری جیسی عظیم شخصیات عوام سے ملنے آئیں۔ اور تحریکِ پاکستان کے ایک مشہور کارکن راجا غضنفر علی جو پاکستان بننے کے بعد بھی کلیدی عہدوں پر فائز رہے خصوصاً ایران میں پاکستان کے سفیر، اسی شہر سے تعلق رکھتے تھے۔
تعلیمی لحاظ سے جہلم کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ یہاں شرحِ خواندگی 80 فیصد سے زیادہ ہے اور ماشاءاللہ بہترین سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے یہاں موجود ہیں۔ بلکہ کچھ عرصہ پہلے یہاں پنجاب یونیورسٹی کا علاقائی کیمپس بھی بن چکا ہے۔ ملٹری کالج جہلم کا ذکر میں پہلے ہی کر چکی ہوں۔
ترقیاتی لحاظ میں بھی ماشاءاللہ یہ شہر کسی طرح محروم نہیں۔ تمام بنیادی سہولیات اپنی بہترین شکل میں موجود ہیں۔ اور اگر کوئی کمی ہو بھی تو اب الیکشن آنے والے ہیں ناں تو یقیناً دھڑادھڑ کئی نئے ترقیاتی کام شروع ہو چکے ہوں گے۔ :eyerolling:

میں نے ایک نہیں بلکہ کئی مثالیں لکھ ڈالی ہیں۔ :whew::whew:

زبردست ، یقین کریں میں جہلم کی ایک ہی سوغات جانتا تھا جو ایسی نہیں کہ قابل افتخار سمجھی جائے۔ :)

اس پوسٹ سے جہلم کے متعلق کافی مثبت خیالات ذہن پر راسخ ہوئے ہیں۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
یعنی اس پاکستانی ڈاکٹر حسنات احمد نے شہزادی کے دل کو چیر کر اس میں ایمان بھر دیا ہو؟ (ڈاکٹر حسنات احمد دل کی سرجری کے ماہر ہیں)
اس سے یاد آیا۔ ڈاکٹر حسنات احمد بھی ہمارے ہم شہر ہوا کرتے ہیں۔ اور آجکل راولپنڈی انسٹیوٹ آف کارڑیالوجی میں اپنی ٹیم کے ساتھ یہاں ڈاکٹرز کو سرجری کی ٹریننگ دینے کے لئے آنے والے ہیں۔ ڈاکٹر حسنات خان ، اشفاق احمد مرحوم کے بھانجے ہیں۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
زبردست ، یقین کریں میں جہلم کی ایک ہی سوغات جانتا تھا جو ایسی نہیں کہ قابل افتخار سمجھی جائے۔ :)

اس پوسٹ سے جہلم کے متعلق کافی مثبت خیالات ذہن پر راسخ ہوئے ہیں۔
واقعی؟ اور وہ سوغات کون سی ہے؟
خیالات میں تبدیلی کے لئے شکریہ :) ۔
 
@فرحت ، میں سمجھوں کہ ایک "سافٹ بال" کے بعد ایک مشکل گیند کھیلنے کے لیے چوکنی ہو گئی ہیں یا ابھی پچھلی شاٹ کا سرور باقی ہے۔ :cool:
 

فرحت کیانی

لائبریرین
لشکر جھنگوی کا جہلم سے کیا تعلق؟ شاید میں کافی بے خبر ہوں اس معاملے میں۔
ان دنوں تو خیر میں ٹی وی خبروں اور حالاتِ حاضرہ کے پروگرامز سے بالکل کٹی ہوئی ہوں۔ ہاں لیکن اخبار میں بھی اس سے متعلق کچھ میری نظر سے نہیں گزرا۔
کچھ تفصیل بتا سکیں گے پلیز؟
 
لشکر جھنگوی کا جہلم سے کیا تعلق؟ شاید میں کافی بے خبر ہوں اس معاملے میں۔
ان دنوں تو خیر میں ٹی وی خبروں اور حالاتِ حاضرہ کے پروگرامز سے بالکل کٹی ہوئی ہوں۔ ہاں لیکن اخبار میں بھی اس سے متعلق کچھ میری نظر سے نہیں گزرا۔
کچھ تفصیل بتا سکیں گے پلیز؟
رہنے دیں ، پھر کبھی بات کریں گے اس پر۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
شمشاد بھائی آپ کے سوالات کے جوابات کل لکھوں گی ان شاءاللہ۔


شکریہ بلال۔ میری معلوماتِ عامہ خاصی کمزرو واقع ہوئی ہیں۔ اس لئے اگر آپ کے 'کُچھ :shock:' سوالات میں سے چند میں نے 'پاس' کر دیئے تو امید ہے زیادہ نمبر نہیں کاٹیں گے۔

جلدی میں ہوں اس لئے بطور رسید چند سوالوں کے جواب لکھوں گی ابھی۔


اضافی کیلوریز کے ذریعے۔ چکنائی سے بھرپور ہیفٹی کھانا یا فوڈ سپلیمنٹ کھلا پلا کر۔


کالی چُورن کھاتے ہوں گے۔


جب ان کے اوپر سے تکیہ اُٹھا لیا جاتا ہے۔




ڈانٹ اور صلواتوں کے Vim یا Fairy کے استعمال سے۔


کچھ پھیکا اور کچھ پُھولا ہوا۔ سٹارچ ( نشاستہ؟) سے بھرپور۔

:confused3:
واہ
ویسے ان جوابات سے اس بات کی تو نفی ہو گئی ہے کہ آپ کی معلوماتِ عامہ کافی کمزور واقعی ہوئی ہے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
فرحت موجودہ دور میں سیل فون کی آپ کی نظر میں کیا اہمیت ہے؟ خاص کر نوجوان نسل کے لیے۔
فوری رابطے کے لئے سیل فون کی اہمیت سے تو کوئی انکار نہیں۔ لیکن ہم نے اس کو سہولت اور ضرورت سے زیادہ وقت اور پیسے کے ضیاع کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ نوجوان نسل میں ان دونوں نقصانات کے ساتھ ساتھ ایک اضافی نقصان کا شکار ہو رہی ہے وہ ہے اخلاقی اقدار میں تنزل۔


مزید یہ کہ سروس مہیا کرنے والوں میں جو سستے سے سستا پیکیج دینے کی دوڑ لگی ہوئی ہوتی ہے، آپ کی نظر میں یہ فائدہ مند ہے یا نقصان دہ؟
کسی بھی سروس پروائڈر کے سستے ریٹس دینا تو اچھی بات ہوتی ہے لیکن ہمارے یہاں سروس دینے والوں کے لئے شاید کوئی اخلاقی فریم ورک نہیں بنایا گیا جس کی پابندی کرنا ان پر لازم ہو یا اگر ایسی کوئی چیز ہے تو ان کی پابندی کروائی نہیں جاتی۔ اور صرف بزنس بڑھانے کے لئے یہ کمپنیاں ایسے ایسے پیکجز دیتی ہیں جو بامقصد رابطے کو آسان بنانے کے بجائے بے مقصد روابطے کو فروغ دیتے ہیں۔
سستے گھنٹے ان اوقات میں دیے جاتے ہیں جو عمومی بات چیت کے لئے مخصوص نہیں ہوتی۔ پھر اس سے بڑھ کر جو آفرز دی جاتی ہیں کہ افسوس ہوتا ہے کس طرح لوگوں خصوصاً بچوں اور نوجوانوں کو برائی کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اب ایک انسان جو رات کے پچھلے پہر چار مفت گھنٹے کا پیکج ، فون سروس کے ذریعے ان دیکھے ان جانے لوگوں سے اور جانے پہچانوں سے بھی گپ شپ میں لگائے گا وہ اگلے دن کام یا پڑھائی کے کتنا قابل رہ جائے گا، یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ڈمب کالز کی تو بات ہی نہ کریں۔ مجھے اپنی رابطے کی فہرست سے جب کسی نمبر سے زیادہ ٹیکسٹ میسج ملنا شروع ہو جائیں تو میں سمجھ جاتی ہوں کہ کوئی فری میسج کا پیکج مل گیا ہو گا۔ ایک منٹ میں دس دس فارورڈڈ میسجز ، انسان تنگ آ جاتا ہے۔۔ سو یہ پیکجز عموماً وقت کے ضیاع اور غیر مفید سرگرمیوں میں مصروفیت کی ٹریننگ دے رہے ہوتے ہیں ناں کہ سیل فون کو ایک سہولت کے طور پر استعمال کرنے پر۔
نوجوان اس وقت اپنی عمر کے اس دور سے گزر رہے ہوتے ہیں جب انہیں ان کاموں کے نتائج اور قباحتوں کا اندازہ نہیں ہوتا لیکن یہ چیز اخلاق اور زندگیوں پر بہت منفی طریقے سے اثر انداز ہو رہی ہے۔

 

فرحت کیانی

لائبریرین
؟
اس وقت سمارٹ فون تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ پاکستان تو کیا غیر ممالک میں بھی جسے دیکھو وہ ہر وقت فون پر نظریں جمائے ہے۔ آپ اس کے بارے میں کیا کہیں گی؟
شمشاد بھائی سچ کہوں تو میں بھی ایسے متاثرین کی قطار میں کھڑی ہوں۔

ویسے سمارٹ فون نہ بھی ہو تو بھی یہاں لوگ ہر وقت سیل فون پر نظریں جمائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ آپ سڑک سے گزر رہے ہیں تو ٹریفک پولیس والے انکل کے ہاتھ میں فون ہو گا اور وہ سر جھکائے فون دیکھنے میں مصروف ہوں گے، گاڑی میں بیٹھے حضرت یا محترمہ ایک ہاتھ سے سٹیئرنگ پکڑے دوسرے ہاتھ میں فون پر ٹیکسٹنگ میں مشغول ہوتے ہیں، گھروں میں ایک بندہ بات کر رہا ہوتا ہے اور دوسرے اس کو سننے کی بجائے ہاتھ میں پکڑے فون پر ٹیکسٹ کرنے یا سمارٹ فون ہونے کی صورت میں کسی نئی اپلیکیشن کو دیکھنے میں مصروف ہوتے ہیں۔
آپ کی اس بات پر کہ 'جسے دیکھو وہ ہر وقت فون پر نظریں جمائے ہے۔' مجھے ایک خیال آتا ہے کہ جس طرح سب کی گردن ایک خاص زاویے پر جُھکی اور فون پر نظریں جمی ہوئی ہوتی ہیں اگر ان کو پشت کی طرف سے دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کندھوں پر سر موجود ہی نہیں ہے :shocked:۔
سر کٹے انسان :openmouthed:۔
 
Top