فرحت کیانی
لائبریرین
ایسا ویسا ۔ مجھے لگ رہا ہے کہ 'گرینڈ وائیوا' ہو رہا ہے جو جواب دینے والے کو 'گرائنڈ' کر دے گا ۔فرحت آپی مزا آیا کیا
ایسا ویسا ۔ مجھے لگ رہا ہے کہ 'گرینڈ وائیوا' ہو رہا ہے جو جواب دینے والے کو 'گرائنڈ' کر دے گا ۔فرحت آپی مزا آیا کیا
ابھی تو آگے دیکھیں کیا ہوتا ہےایسا ویسا ۔ مجھے لگ رہا ہے کہ 'گرینڈ وائیوا' ہو رہا ہے جو جواب دینے والے کو 'گرائنڈ' کر دے گا ۔
اصل وجہ شہرت کہ آپ کا تعلق یہاں سے ہے، لکھنا بھول گئیں شاید؟جہلم کی تاریخ ویسے تو کافی دلچسپ ہے ۔ میں مختصر سا ذکر کروں گی۔ جہلم کے نام کے بارے میں مختلف آراء ہیں جن میں زیادہ مستند اس رائے کو مانا جاتا ہے کہ دارا اعظم ثالث اپنی فتوحات کا سفر طے کرتے موجودہ دریائے جہلم کے مقام پر پہنچا تو اس نے اپنا جھنڈا یہاں گاڑ کر اسے 'جائے عَلم' کا نام دیا جو بگڑتے بگڑتے جہلم بن گیا۔ ایک اور کہانی دریائے جہلم سے جڑتی ہے کہ اس دریا کے پانی کی وجہ سے اسے جل ہم کہا گیا جو سنسکرت کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ٹھنڈا میٹھا پانی ہے۔ بعد میں یہ جہلم بن گیا۔ کچھ لوگ اس نام کو سکندر اور پورس کے مابین لڑی جنگ سے جوڑتے ہیں۔ کہ یہ لڑائی بنیادی طور پر نیزوں سے لڑی گئی تھی اور یونانی میں نیزے کو 'جہلم' کہتے ہیں۔ ایک اور خیال صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ، حضرت سعد بن ابی وقاص (رضی اللہ عنہہ) کے بھائی حضرت سعید بن ابی وقاص (رضی اللہ عنہہ) کی چین کے سفرِ تبلیغ کے راستے میں اس مقام پر قیام اور ان کے اس دریا کے پانی کی جھلماہٹ پر ھذاجھیلم کہہ اٹھنے سے جوڑتا ہے۔ بہرحال یہ تو نام کی کہانی ہوئی۔ شہر کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم نے دریا کے کنارے ایک مقام پر اپنے ایک پسندیدہ گھوڑے کو جسے لڑائی کے دوران پورس کے بیٹے نے زخمی کیا تھا اور وہ گھوڑا بعد میں دم توڑ گیا تھا، کو دفن کیا تھا اور وہاں ایک شہر آباد کیا تھا۔ موجودہ شہر اسی جگہ پر آباد ہے۔ کٹاس کا علاقہ جیسے ہندو دیو مالا میں کافی اہمیت حاصل ہے ، بھی جہلم ڈسٹرکٹ میں آتا ہے شاید۔
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ علاقہ بہت سے بیرونی مہم جوؤں کی توجہ کا مرکز رہا ہے جن میں سائرس اعظم، دارا اعظم اور سکندرِ اعظم کے نام بھی شامل ہیں۔ شہاب الدین غوری کا مقبرہ بھی اسی علاقے میں موجود ہے۔ شیرشاہ سوری نے یہیں مشہور قلعہ روہتاس تعمیر کروایا تھا اور مشہور جرنیلی سڑک بھی اس شہر سے گرزتی ہے۔
جہلم کا نام 'مارشل ایریاز' میں آتا ہے۔ یہاں کی آبادی کی اکثریت فوج کا حصہ ہوتی تھی اور اسی وجہ سے اگر یہ کہا جائے کہ ہر خاندان میں شہید اور غازی موجود ہیں تو مبالغہ نہیں ہو گا۔ البتہ موجودہ نسل کی ترجیحات اب کچھ تبدیل ہو رہی ہیں۔ میجر محمد اکرم شہید نشانِ حیدر بھی یہیں کے باسی تھے اور 1965ء اور بعد میں 1972ء میں کشمیر میں لیپا ویلی کے ہیرو کرنل کیانی بھی یہاں سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ اور اگر شہیدوں اور غازیوں کے ناموں کی فہرست بنائی جائے تو بہت طویل ہو جائے گی۔ دیگر نمایاں فوجیوں میں سابقہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل آصف نواز جنجوعہ مرحوم ، میجر جنرل محمد جمشید ، میجر جنرل نوید زمان کیانی اور راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے سربراہ میجر جنرل اظہر محمود کیانی کا تعلق بھی جہلم سے ہے۔
موجودہ چیف جنرل پرویز اشفاق کیانی کا تعلق جہلم سے اس طرح بنتا ہے کہ انہوں نے ملٹری کالج جہلم سے تعلیم حاصل کی جو پاکستان ملٹری اکیڈمی کا فیڈر انسٹیٹیوٹ کہلاتا ہے۔ اس لحاظ سے اور بہت سے جرنیل اور نمایاں فوجی ہمارے یہاں سے ہی پڑھے ہوئے ہیں ۔
اس کے علاوہ نمایاں شخصیات میں صوبہ پنجاب کے سابقہ گورنر چوہدری الطاف حسین بھی جہلم کے باسی تھے۔
علمی اور ادبی شخصیات میں تاریخ نویس اور لکھاری پروفیسر سعید راشد جو علی گڑھ سے تحصیل یافتہ تھے کا نام کافی نمایاں ہے جنہیں تعلیم میں ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا، مشہور مزدور شاعر تنویر سپرا اور جوگی جہلمی کے نام شامل ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا زبان زد خاص و عام نعرہ 'تم کتنے بھٹو مارو گے، ہر گھر سے بھٹو نکلے گا' تنویر سپرا کے قلم سے ہی نکلا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ میاں محمد بخش اپنے نام کے ساتھ جہلم کی مناسبت سے جہلمی لکھا کرتے تھے۔ مولانا ظفر علی خان کے اجداد کا تعلق بھی جہلم سے تھا۔
اس چھوٹے سے شہر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں قائدِ اعظم ، فاطمہ جناح، سید عطا اللہ شاہ بخاری جیسی عظیم شخصیات عوام سے ملنے آئیں۔ اور تحریکِ پاکستان کے ایک مشہور کارکن راجا غضنفر علی جو پاکستان بننے کے بعد بھی کلیدی عہدوں پر فائز رہے خصوصاً ایران میں پاکستان کے سفیر، اسی شہر سے تعلق رکھتے تھے۔
تعلیمی لحاظ سے جہلم کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ یہاں شرحِ خواندگی 80 فیصد سے زیادہ ہے اور ماشاءاللہ بہترین سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے یہاں موجود ہیں۔ بلکہ کچھ عرصہ پہلے یہاں پنجاب یونیورسٹی کا علاقائی کیمپس بھی بن چکا ہے۔ ملٹری کالج جہلم کا ذکر میں پہلے ہی کر چکی ہوں۔
ترقیاتی لحاظ میں بھی ماشاءاللہ یہ شہر کسی طرح محروم نہیں۔ تمام بنیادی سہولیات اپنی بہترین شکل میں موجود ہیں۔ اور اگر کوئی کمی ہو بھی تو اب الیکشن آنے والے ہیں ناں تو یقیناً دھڑادھڑ کئی نئے ترقیاتی کام شروع ہو چکے ہوں گے۔
میں نے ایک نہیں بلکہ کئی مثالیں لکھ ڈالی ہیں۔
جی بالکل۔ کھاریاں کا شمار ملک کی بڑی اور خوبصورت چھاؤنیوں میں ہوتا ہے۔ جہلم چھاؤنی قیامِ پاکستان سے پہلے اور کھاریاں پاکستان بننے کے بعد بنی تھی۔جہلم کے ساتھ ہی تو کھاریاں ہے اور کھاریاں چھاؤنی خاصی مشہور ہے۔
تو اور کیا۔اصل وجہ شہرت کہ آپ کا تعلق یہاں سے ہے، لکھنا بھول گئیں شاید؟
جہلم کی تاریخ ویسے تو کافی دلچسپ ہے ۔ میں مختصر سا ذکر کروں گی۔ جہلم کے نام کے بارے میں مختلف آراء ہیں جن میں زیادہ مستند اس رائے کو مانا جاتا ہے کہ دارا اعظم ثالث اپنی فتوحات کا سفر طے کرتے موجودہ دریائے جہلم کے مقام پر پہنچا تو اس نے اپنا جھنڈا یہاں گاڑ کر اسے 'جائے عَلم' کا نام دیا جو بگڑتے بگڑتے جہلم بن گیا۔ ایک اور کہانی دریائے جہلم سے جڑتی ہے کہ اس دریا کے پانی کی وجہ سے اسے جل ہم کہا گیا جو سنسکرت کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ٹھنڈا میٹھا پانی ہے۔ بعد میں یہ جہلم بن گیا۔ کچھ لوگ اس نام کو سکندر اور پورس کے مابین لڑی جنگ سے جوڑتے ہیں۔ کہ یہ لڑائی بنیادی طور پر نیزوں سے لڑی گئی تھی اور یونانی میں نیزے کو 'جہلم' کہتے ہیں۔ ایک اور خیال صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ، حضرت سعد بن ابی وقاص (رضی اللہ عنہہ) کے بھائی حضرت سعید بن ابی وقاص (رضی اللہ عنہہ) کی چین کے سفرِ تبلیغ کے راستے میں اس مقام پر قیام اور ان کے اس دریا کے پانی کی جھلماہٹ پر ھذاجھیلم کہہ اٹھنے سے جوڑتا ہے۔ بہرحال یہ تو نام کی کہانی ہوئی۔ شہر کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم نے دریا کے کنارے ایک مقام پر اپنے ایک پسندیدہ گھوڑے کو جسے لڑائی کے دوران پورس کے بیٹے نے زخمی کیا تھا اور وہ گھوڑا بعد میں دم توڑ گیا تھا، کو دفن کیا تھا اور وہاں ایک شہر آباد کیا تھا۔ موجودہ شہر اسی جگہ پر آباد ہے۔ کٹاس کا علاقہ جیسے ہندو دیو مالا میں کافی اہمیت حاصل ہے ، بھی جہلم ڈسٹرکٹ میں آتا ہے شاید۔
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ علاقہ بہت سے بیرونی مہم جوؤں کی توجہ کا مرکز رہا ہے جن میں سائرس اعظم، دارا اعظم اور سکندرِ اعظم کے نام بھی شامل ہیں۔ شہاب الدین غوری کا مقبرہ بھی اسی علاقے میں موجود ہے۔ شیرشاہ سوری نے یہیں مشہور قلعہ روہتاس تعمیر کروایا تھا اور مشہور جرنیلی سڑک بھی اس شہر سے گرزتی ہے۔
جہلم کا نام 'مارشل ایریاز' میں آتا ہے۔ یہاں کی آبادی کی اکثریت فوج کا حصہ ہوتی تھی اور اسی وجہ سے اگر یہ کہا جائے کہ ہر خاندان میں شہید اور غازی موجود ہیں تو مبالغہ نہیں ہو گا۔ البتہ موجودہ نسل کی ترجیحات اب کچھ تبدیل ہو رہی ہیں۔ میجر محمد اکرم شہید نشانِ حیدر بھی یہیں کے باسی تھے اور 1965ء اور بعد میں 1972ء میں کشمیر میں لیپا ویلی کے ہیرو کرنل کیانی بھی یہاں سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ اور اگر شہیدوں اور غازیوں کے ناموں کی فہرست بنائی جائے تو بہت طویل ہو جائے گی۔ دیگر نمایاں فوجیوں میں سابقہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل آصف نواز جنجوعہ مرحوم ، میجر جنرل محمد جمشید ، میجر جنرل نوید زمان کیانی اور راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے سربراہ میجر جنرل اظہر محمود کیانی کا تعلق بھی جہلم سے ہے۔
موجودہ چیف جنرل پرویز اشفاق کیانی کا تعلق جہلم سے اس طرح بنتا ہے کہ انہوں نے ملٹری کالج جہلم سے تعلیم حاصل کی جو پاکستان ملٹری اکیڈمی کا فیڈر انسٹیٹیوٹ کہلاتا ہے۔ اس لحاظ سے اور بہت سے جرنیل اور نمایاں فوجی ہمارے یہاں سے ہی پڑھے ہوئے ہیں ۔
اس کے علاوہ نمایاں شخصیات میں صوبہ پنجاب کے سابقہ گورنر چوہدری الطاف حسین بھی جہلم کے باسی تھے۔
علمی اور ادبی شخصیات میں تاریخ نویس اور لکھاری پروفیسر سعید راشد جو علی گڑھ سے تحصیل یافتہ تھے کا نام کافی نمایاں ہے جنہیں تعلیم میں ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا، مشہور مزدور شاعر تنویر سپرا اور جوگی جہلمی کے نام شامل ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا زبان زد خاص و عام نعرہ 'تم کتنے بھٹو مارو گے، ہر گھر سے بھٹو نکلے گا' تنویر سپرا کے قلم سے ہی نکلا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ میاں محمد بخش اپنے نام کے ساتھ جہلم کی مناسبت سے جہلمی لکھا کرتے تھے۔ مولانا ظفر علی خان کے اجداد کا تعلق بھی جہلم سے تھا۔
اس چھوٹے سے شہر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں قائدِ اعظم ، فاطمہ جناح، سید عطا اللہ شاہ بخاری جیسی عظیم شخصیات عوام سے ملنے آئیں۔ اور تحریکِ پاکستان کے ایک مشہور کارکن راجا غضنفر علی جو پاکستان بننے کے بعد بھی کلیدی عہدوں پر فائز رہے خصوصاً ایران میں پاکستان کے سفیر، اسی شہر سے تعلق رکھتے تھے۔
تعلیمی لحاظ سے جہلم کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ یہاں شرحِ خواندگی 80 فیصد سے زیادہ ہے اور ماشاءاللہ بہترین سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے یہاں موجود ہیں۔ بلکہ کچھ عرصہ پہلے یہاں پنجاب یونیورسٹی کا علاقائی کیمپس بھی بن چکا ہے۔ ملٹری کالج جہلم کا ذکر میں پہلے ہی کر چکی ہوں۔
ترقیاتی لحاظ میں بھی ماشاءاللہ یہ شہر کسی طرح محروم نہیں۔ تمام بنیادی سہولیات اپنی بہترین شکل میں موجود ہیں۔ اور اگر کوئی کمی ہو بھی تو اب الیکشن آنے والے ہیں ناں تو یقیناً دھڑادھڑ کئی نئے ترقیاتی کام شروع ہو چکے ہوں گے۔
میں نے ایک نہیں بلکہ کئی مثالیں لکھ ڈالی ہیں۔
اس سے یاد آیا۔ ڈاکٹر حسنات احمد بھی ہمارے ہم شہر ہوا کرتے ہیں۔ اور آجکل راولپنڈی انسٹیوٹ آف کارڑیالوجی میں اپنی ٹیم کے ساتھ یہاں ڈاکٹرز کو سرجری کی ٹریننگ دینے کے لئے آنے والے ہیں۔ ڈاکٹر حسنات خان ، اشفاق احمد مرحوم کے بھانجے ہیں۔یعنی اس پاکستانی ڈاکٹر حسنات احمد نے شہزادی کے دل کو چیر کر اس میں ایمان بھر دیا ہو؟ (ڈاکٹر حسنات احمد دل کی سرجری کے ماہر ہیں)
واقعی؟ اور وہ سوغات کون سی ہے؟زبردست ، یقین کریں میں جہلم کی ایک ہی سوغات جانتا تھا جو ایسی نہیں کہ قابل افتخار سمجھی جائے۔
اس پوسٹ سے جہلم کے متعلق کافی مثبت خیالات ذہن پر راسخ ہوئے ہیں۔
ہاہاہا نہ ہی پوچھیں ، منفی ہے وہ جن کا آجکل سیاست میں بھی کافی ذکر آتا رہتا ہے۔واقعی؟ اور وہ سوغات کون سی ہے؟
خیالات میں تبدیلی کے لئے شکریہ ۔
کوئی بات نہیں۔ بتا دیں۔ کس کا ذکر بھلا؟ہاہاہا نہ ہی پوچھیں ، منفی ہے وہ جن کا آجکل سیاست میں بھی کافی ذکر آتا رہتا ہے۔
لشکر جھنگویکوئی بات نہیں۔ بتا دیں۔ کس کا ذکر بھلا؟
لشکر جھنگوی کا جہلم سے کیا تعلق؟ شاید میں کافی بے خبر ہوں اس معاملے میں۔لشکر جھنگوی
رہنے دیں ، پھر کبھی بات کریں گے اس پر۔لشکر جھنگوی کا جہلم سے کیا تعلق؟ شاید میں کافی بے خبر ہوں اس معاملے میں۔
ان دنوں تو خیر میں ٹی وی خبروں اور حالاتِ حاضرہ کے پروگرامز سے بالکل کٹی ہوئی ہوں۔ ہاں لیکن اخبار میں بھی اس سے متعلق کچھ میری نظر سے نہیں گزرا۔
کچھ تفصیل بتا سکیں گے پلیز؟
ٹھیک ہے۔ بہرحال یہ بات میرے لئے کچھ نئی ہے تو کوشش کروں گی کہ مزید معلومات حاصل کر سکوں۔رہنے دیں ، پھر کبھی بات کریں گے اس پر۔
واہشمشاد بھائی آپ کے سوالات کے جوابات کل لکھوں گی ان شاءاللہ۔
شکریہ بلال۔ میری معلوماتِ عامہ خاصی کمزرو واقع ہوئی ہیں۔ اس لئے اگر آپ کے 'کُچھ ' سوالات میں سے چند میں نے 'پاس' کر دیئے تو امید ہے زیادہ نمبر نہیں کاٹیں گے۔
جلدی میں ہوں اس لئے بطور رسید چند سوالوں کے جواب لکھوں گی ابھی۔
اضافی کیلوریز کے ذریعے۔ چکنائی سے بھرپور ہیفٹی کھانا یا فوڈ سپلیمنٹ کھلا پلا کر۔
کالی چُورن کھاتے ہوں گے۔
جب ان کے اوپر سے تکیہ اُٹھا لیا جاتا ہے۔
ڈانٹ اور صلواتوں کے Vim یا Fairy کے استعمال سے۔
کچھ پھیکا اور کچھ پُھولا ہوا۔ سٹارچ ( نشاستہ؟) سے بھرپور۔
فوری رابطے کے لئے سیل فون کی اہمیت سے تو کوئی انکار نہیں۔ لیکن ہم نے اس کو سہولت اور ضرورت سے زیادہ وقت اور پیسے کے ضیاع کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ نوجوان نسل میں ان دونوں نقصانات کے ساتھ ساتھ ایک اضافی نقصان کا شکار ہو رہی ہے وہ ہے اخلاقی اقدار میں تنزل۔فرحت موجودہ دور میں سیل فون کی آپ کی نظر میں کیا اہمیت ہے؟ خاص کر نوجوان نسل کے لیے۔
کسی بھی سروس پروائڈر کے سستے ریٹس دینا تو اچھی بات ہوتی ہے لیکن ہمارے یہاں سروس دینے والوں کے لئے شاید کوئی اخلاقی فریم ورک نہیں بنایا گیا جس کی پابندی کرنا ان پر لازم ہو یا اگر ایسی کوئی چیز ہے تو ان کی پابندی کروائی نہیں جاتی۔ اور صرف بزنس بڑھانے کے لئے یہ کمپنیاں ایسے ایسے پیکجز دیتی ہیں جو بامقصد رابطے کو آسان بنانے کے بجائے بے مقصد روابطے کو فروغ دیتے ہیں۔مزید یہ کہ سروس مہیا کرنے والوں میں جو سستے سے سستا پیکیج دینے کی دوڑ لگی ہوئی ہوتی ہے، آپ کی نظر میں یہ فائدہ مند ہے یا نقصان دہ؟
شمشاد بھائی سچ کہوں تو میں بھی ایسے متاثرین کی قطار میں کھڑی ہوں۔؟
اس وقت سمارٹ فون تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ پاکستان تو کیا غیر ممالک میں بھی جسے دیکھو وہ ہر وقت فون پر نظریں جمائے ہے۔ آپ اس کے بارے میں کیا کہیں گی؟