محترم بہنا سدا ہنستی مسکراتی رہیں آمین
سب سے پہلے تو بہت معذرت نایاب بھائی۔ اس بار تو میں نے واقعی بہت دیر کر دی۔ لیکن میری سُستی ہر گز اس تاخیر کی وجہ نہیں تھی۔ بس کچھ مصروفیات ایسی آن پڑی ہیں کہ اپنے لئے کم وقت مل رہا ہے ان دنوں۔
کافی کا کپ سنبھالیں اور " ڈوب کر اپنے من میں پا جا سراغ زندگی " کے بارے اپنی سوچ کا اظہار کریں ۔
کہ " ڈوب " کر تو زندگی ختم ہوجاتی ہے ۔ تو پھر کیسے کوئی پائے سراغ زندگی ۔۔۔ ۔؟
نایاب بھائی اتنا مشکل سوال کہ ابھی تک مجھے اس کا جواب سجھائی نہیں دیا۔ " ڈوب کر اپنے من میں پا جا سراغ زندگی " تو اصل فلسفہ زندگی ہے اور اسے سمجھنا ہر کسی خصوصاً میرے جیسے کند ذہنوں کے لئے کہاں ممکن ہے۔ ڈوبنا ہی تو بنیادی شرط ہے۔۔جب تک مجھے یہ ہی معلوم نہیں ہو گا کہ زندگی کا مطلب کیا ہے تو میری زندگی صرف سانسوں کے آنے جانے کا ہی نام ہو گا اور بس۔ ااور میرا ماننا ہے کہ جس دن میں اپنے آپ کو جان گئی اور یہ سمجھ گئی کہ میں کیا چاہتی ہوں اور میری حقیقت کیا ہے تو شاید مجھ پر 'سراغِ زندگی' عیاں ہو ہی جائے گا۔ میرا محدود علم ، مشاہدہ اور تجربہ مجھے یہی بتاتا ہے کہ 'میں' کو جاننا اس سفر کی پہلی کڑی اور پھر اپنی زندگی میں سے اس 'میں' کو نکال باہر کرنا ایک اہم سنگِ میل ہے۔ دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کریں تو زندگی کے کانٹے خودبخود راستے سے ہٹتے چلے جاتے ہیں۔ باقی مجھے زندگی کا لغوی معنی بھی ابھی تک سمجھ نہیں آ سکا تو اتنی گہرائی میں کہاں جا سکوں گی۔
آپ نے زندگی بارے کیا جانا کیا سمجھا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟
- میں نے زندگی کے بارے میں یہ جانا کہ یہ خوشی ، غم ، گزرتے وقت ، امید، خواہشات ، کنفیوژن ، ہچکچاہٹ ، غلطیوں ، پچھتاوؤں ، توقعات ، شکوؤں ، کامیابیوں، مصائب اور جدوجہد کا مجموعہ ہے۔ جب آپ مثبت اندازِ فکر رکھتے ہیں تو آپ زندگی کو گزارتے ہیں اور جس وقت آپ پانی سے آدھے بھرے گلاس کو'آدھا خالی' دیکھنے اور سمجھنے کا رویہ اپنا لیتے ہیں تو زندگی آپ کو گزارنا شروع کر دیتی ہے۔ جو کہ ناشُکری ہے۔
- دوسری بات میں نے یہ جانی کہ جو ہے وہ آج ہے۔ جو گزر گیا وہ ختم ہو گیا۔ اچھا تھا تو اس کی یاد زندگی کو خوشگوار بنا دیتی ہے۔ کچھ بُرا ہوا یا بُرا کیا تو اس سے سبق سیکھ کر حال اور مستقبل کو خوشگوار بنایا جا سکتا ہے۔ شاید اشفاق احمد صاحب نے کہیں یہ لکھا تھا کہ جب حال ماضی میں بدل جائے جس دروازے سے حال میں داخل ہوئے ہوں ، اسے بند کر دینا چاہئیے۔ اور مستقبل کی کھڑکی کو دیکھو ضرور لیکن اس کی فکر نہ کرو۔مستقبل ہمیشہ حال کی صورت میں ملے گا تو ہر حال میں 'حال' کو اچھا بناؤ۔
- تیسری بات یہ سیکھی کہ زندگی کی تلخیوں کو جاننا اور ان کے بارے میں سوچنا اچھا ہے لیکن صرف سوچنے یا شکوہ کرنے سے کچھ حاصل نہیں۔ چاہے ایک معمولی سی کوشش ہی سہی ، لیکن اس تلخی کو مٹھاس میں بدلنے کے لئے اپنے تئیں کچھ کرنا ضرور چاہئیے۔
- چوتھی بات یہ کہ توقعات کا گراف جتنا کم ہو گا، زندگی میں مایوسی اور پریشانی اتنی کم ہو گی۔ حقیقت پسندی اکثر اوقات بہت تکلیف دہ بھی ثابت ہوتی ہے لیکن اس تکلیف کی شدت اس کرب سے بہت کم ہوتی ہے جو آپ کو اپنی توقعات کے پورا نہ ہونے سے محسوس ہوتا ہے۔
- پانچویں بات یہ جانی کہ خلوصِ نیت اور محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ اگر آپ کو دو لوگ زندگی میں مشکلات کھڑی کرنے والے ملتے ہیں تو اسی جگہ پر چار حوصلہ دینے اور مدد کرنے والے بھی مل جاتے ہیں۔
- اور آخری بات یہ کہ 'صبر و شُکر اور دعا' زندگی کو اس قدر سہل بنا دیتے ہیں کہ انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔ کم از کم میرا تجربہ تو یہی کہتا ہے۔
کب یہ آگہی ملی کہ زندگی واقعی امتحان لیتی ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ؟
یہ آگہی تو شاید شعور کا لازمی حصہ ہے اور جب بھی ملے ، بہت تکلیف دیتی ہے۔ لیکن میں اس کے ساتھ یہ بھی جانا کہ اس امتحان میں فیل ہونے میں بھی ہمارا اپنا ہاتھ ہوتا ہے اور اگر ہم ایک بار فیل ہونے کے بعد کچھ سیکھ لیں تو اگلی بار زندگی کا امتحان ایسا کڑا نہیں ہوتا۔ لیکن اگر غلطیوں سے سیکھا نہ جائے تو بار بار امتحان اور بار بار فیل ہونے کے بعد آخر میں آپ کا نام امتحانی فہرست سے نکال دیا جاتا ہے 'مستقل ناکام' کا سرٹیفیکیٹ ہاتھ میں پکڑا کر۔
ان سوالات میں تو میں رعایتی نمبروں سے بھی پاس ہوتی نظر نہیں آتی
۔
نایاب بھائی جلدی سے دو تین کافی کی پیالیاں اور ایک بڑا تھیلا باداموں کا بھیجیں تا کہ اگلے کے لئے تھوڑا دماغ تیز کر لوں۔