تاخیر کے لئے بہت معذرت شوبی۔ کچھ مصروف رہی پچھلے دنوں۔
زمانہ طالبعلمی میں میرا ایک ہی طریقہ تھا کہ روز کا روز پڑھ لوں۔ یعنی جو پڑھایا گیا اور اسی دن گھر آ کر ایک بار ضرور دیکھ لوں۔ لیکن میں کتابی کیڑا یا بالکل پڑھائی میں گم قسم کا بچہ نہیں تھی۔ ہم لوگوں کا ایک قسم کا ٹائم ٹیبل بنایا ہوا تھا گھر والوں نے۔ اسکول ، کالج سے واپسی کے بعد شام تک کا وقت ہمارا ہوتا تھا۔ اس میں ٹیلی ویژن اور کھیل سب شامل تھا۔ پھر کھانے سے ایک گھنٹہ پہلے ہوم ورک مکمل کرنا۔ اور رات نو سے دس بجے اپنی اضافی پڑھائی۔ اس میں عموماً میرے ابو ہماری انگریزی ، حساب اور اردو چیک کیا کرتے تھے۔ اور کچھ نیا بھی سکھاتے تھے۔ یہ معمول سارا سال رہتا تھا۔ اور امتحان کی تیاری میں ہمیشہ پندرہ دن یا زیادہ سے زیادہ ایک مہینہ پہلے شروع کرتی تھی اور چونکہ ساتھ ساتھ پڑھا ہوتا تھا تو یہ صرف دہرائی ہی کا وقت ہوتا تھا۔
پڑھائی کے دوران میرا خیال ہے کہ رُول آف تھمب یہ ہوتا ہے کہ بے شک بہت زیادہ نہ پڑھا جائے لیکن روزانہ کی بنیاد پر باقاعدگی سے پڑھائی کو ٹائم دیا جائے۔ اور اس میں کم از کم ایک گھنٹہ دہرائی یا کچھ نیا پڑھنے کے لئے رکھا جائے چاہے روزانہ کی بنیاد پر نہیں تو ہفتہ کی بنیاد پر۔
دوسرا یہ کہ سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کرنی چاہئیے اور نصابی کتاب تک خود کو محدود نہیں رکھنا چاہئیے۔ اس کے لئے بھی بہت زیادہ کوشش کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے لئے ایک اہم بات یہ ہے کہ جب آپ کو کلاس میں پڑھایا جا رہا ہو تو اس کو غور سے سُنا جائے اور جہاں کوئی چیز واضح نہ ہو وہیں سوال پوچھ لیا جائے اور اگر استاد اتنے خوف ناک ہوں کہ ان کا تعلق کوہِ قاف سے محسوس ہوتا ہو تو اس صورت میں ساتھی طلبہ ، لائبریری اور ان دنوں تو انٹرنیٹ بھی ایک اہم ذیعہ ہے اپنی معلومات کو بہتر بنانے کے لئے۔ اسی طرح اپنے نوٹس لینا بہت اہم ہے۔ استاد کو کوئی جملہ یا نکتہ آپ کو اہم لگے اس کو فوراً نوٹ کر لینا چاہئیے۔ اور بعد میں انہیں نوٹس کو سامنے رکھتے ہوئے اگر کتاب یا ٹیکسٹ کو پڑھا جائے تو چیزوں کا لنک بنانا آسان ہو جاتا ہے۔ کیونکہ رٹا آپ کو چار سطریں تو یاد کروا دیتا ہے لیکن وہ جتنی آسانی اور تیزی سے یاد ہوتی ہیں اسی رفتار سے بھول بھی جاتی ہیں۔ پھر یہ کہ ہر موضوع کا تعلق عملی زندگی سے ہوتا ہے۔ اگر سمجھ کر پڑھا جائے تو نہ صرف امتحان کارکردگی اچھی ہو گی، عملی زندگی اور خصوصاً اپنے پروفیشن میں یہ چیز بہت مدد دیتی ہے۔
تیسرا : جب آپ کوئی کتاب پڑھ رہے ہوں ، چاہے وہ نصابی کتاب ہے یا اضافی مطالعے کے لئے پڑھی جا رہی ہے، کو تھوڑا تھوڑا کر کے پڑھیں۔ اور اپنی آسانی کے لئے نوٹس لے لیں۔ مطلب ایک پیراگراف پڑھنے کے بعد اس کے مرکزی خیال کو 'ون لائنر' یا ایک 'سرخی' کی شکل میں سائیڈ پر لکھ لیں۔ پیرا کی سرخی عموماً آپ کو پہلی یا دوسری سطر میں مل جاتی ہے اور اس کا نچوڑ (jist) آخری ایک دو جملوں میں ملتا ہے۔ جب ہر حصے کی تلخیص اور مرکزی نکات آپ کے پاس موجود ہیں تو ان کو مزید بیان کرنا یا لکھنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔
چوتھا: جو بھی پڑھیں، اپنی سمجھ اور سکھائی کی جانچ کے لئے اپنے لئے کوئی طریقہ وضع کر لیں۔ جیسے سب سے بہترین طریقہ لکھ کر یاد کرنے کا ہوتا ہے۔ مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ ہم لوگ اردو اور انگریزی کے ہجے لکھ کر یاد کرتے تھے۔ اسی لئے ابھی بھی جب مجھے کسی چیز کے ہجوں میں کوئی شک ہوتا ہے تو میں اس کو لکھتی ہوں اور جو میرا ہاتھ لکھتا ہے مجھے یقین ہوتا ہے کہ وہ درست ہیں اور وہ واقعی کبھی غلط نہیں ہوتے کیونکہ میں نے لکھ لکھ کر یاد کئے تھے۔ اسی طرح اپنے پوائنٹس کو پہلے لکھنا اور پھر اپنی جانچ کے لئے خود سے لکھ کر مرکزی خیال کے لئے ریفرینس بُک (نصابی کتاب یا اضافی مواد) سے ٹیلی کریں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کہاں تک سمجھ پائے ہیں۔ میرے اس چوتھے پوائنٹ کا تعلق امتحان کی تیاری سے ہے۔ دوسرا لکھنا آپ کی رائٹنگ سپیڈ بھی بڑھاتا ہے اور ٹائم مینیجمنٹ بہتر ہوتی ہے۔
اور فائنلی یہ کہ جس بھی لیول پر پڑھائی کر رہے ہوں چاہے وہ اسکول ہے یا کالج ، یونیورسٹی ، اپنے آپ کو محدود نہیں کرنا چاہئیے۔ جو بھی پڑھ رہے ہیں اس سے متعلقہ مواد کو ضرور پڑھیں۔ جب ہمارے کونسپٹس واضح ہوں تو پڑھائی بہت آسان ہو جاتی ہے۔
اب کچھ ٹپس:
1۔ ٹائم ٹیبل: اپنی آسانی اور اپنا معمول مدِ نظر رکھ کر پہلے پورے سال کا ٹائم ٹیبل بنائیں، پھر اس کو مزید بریک ڈاؤن کریں۔ چھ ماہ ، تین ماہ، ہفتہ وار اور روزانہ کی بنیاد پر۔ اس طرح جب ایک ٹارگٹ سامنے ہوتا ہے تو اس کو حاصل کرنے کے لئے کوشش بھی کر لی جاتی ہے اور ہم اپنے آپ کو بالکل آن ٹریک رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ اور اگر خدانخواستہ آخر میں کسی مسئلے کی وجہ سے تیاری نہ ہو سکے تو پورا سال باقاعدگی سے پڑھنے کی وجہ سے زیادہ نقصان نہیں ہوتا۔
2۔ پڑھائی ۔ کھیل اور ذاتی تفریح کا توازن: خود کو یہ سب کرنے کا موقع دیں۔ کسی ایک چیز کو اپنا لینا اور خود کو دوسرے معمولات سے بالکل الگ کر لینا کبھی بھی اچھا نتیجہ نہیں دیتا۔
3۔ دوسروں سے سیکھنا: ساتھ طلبہ سے ڈسکشن اور مل کر پڑھنا بھی بہت سے کونسپٹس کو کلیئر کر دیتا ہے۔ اگر چار لوگ مل کر پڑھ رہے ہیں تو ایک ایک ٹاپک لے لیں۔ ہر ایک اپنا اپنا ٹاپک تیار کرے اور باقیوں کو پڑھائے۔ اسے ہم 'جِگسا ریڈنگ' کہتے ہیں۔ یوں کم وقت میں زیادہ چیز کوَر ہو جاتی ہے۔
4۔ امتحان ، پریذنٹیشن یا اسائمنٹ کو سر پر سوار نہ کریں۔ تیاری پوری لگن سے کریں اور اس خوف کو پاس بھی نہ پھٹکنے دیں کہ کیا ہو گا ، کیسے ہو گا وغیرہ
5۔ جب کسی امتحان میں شامل ہو رہے ہوں تو آخری وقت تک نہ پڑھیں۔ مثلاً اگر صبح آٹھ بجے امتحان ہے تو آپ کو بہت حد ہوئی تو رات ایک بجے کے بعد پڑھنا بند کر دینا چاہیئے۔ آرام بہت ضروری ہے ورنہ انسان اس قدر تھک جاتا ہے کہ ٹھیک طرح پرفارم نہیں کر پاتا۔ اور صبح اٹھ کر بھی پڑھیں تو امتحانی سنٹر پہنچ کر بھی وقت سے کم از کم آدھا گھنٹہ پہلے آنکھیں اور کان بند کر لیں۔ نہ کسی سے ڈسکشن اور نہ ہی کتاب یا کچھ اور۔ اس وقت کو ریلیکس کرنے اور دعا کرنے میں گزاریں۔
اور اب آخر میں سب سے اہم۔ اوپر تو ہم نے دوا کی ، لیکن ساتھ دعا کرنا نہیں بھولنا چاہئیے۔ 'حسبنا للہ و نعم الوکیل' بار بار پڑھیں۔ پھر پریذینٹیشن سے پہلے، اسائمنٹ جمع کرانے سے پہلے اور پیپر ممتحن کو دینے سے پہلے لوحِ قرآنی کے پانچ حروف 'ک ، حا ، یا، عین ، ص ' ایک ایک انگلی پر پڑھتے ہوئے مٹھی بند کریں اور پھر دوبارہ پڑھتے ہوئے مٹھی کو بالترتیب 'حاضرین ، استاد اور ممتحن کی طرف مٹھی کھول دیں۔ زبردست اثر ہو گا
۔
یہ اثر کسی پر بھی ہو سکتا ہے۔ مثلاً اماں ابا حتیٰ کہ بیگم سے بھی ڈانٹ کا خدشہ ہو تو اس کو ان پر پھونک دیں۔ اور phew...سب ٹھیک
۔ آزمودہ نسخہ۔
میں شاید کوئی ایک بات بھول رہی ہوں جو یہاں لکھنی تھی۔ یاد آئی تو شامل کر دوں گی۔