انٹرویو انٹرویو وِد محب علوی

شمشاد

لائبریرین
وہ تو ہو گیا اور یہ بھی اچھا ہوا کہ آپ کی غلط فہمی جلد ہی دور ہو گئی۔ چلیں اب ذرا امن کے لولی پپ سوالوں کے بھی جواب دے دیں، مجھے آپ کے جواب کا انتظار ہے۔
 
امن ایمان نے کہا:
محب اب ذرا آجائیں میدان میں۔۔۔میری طرف سے جنگ کا طبل بج چکا ہے۔۔۔میرے سوال لالی پاپ جیسے ہوتے ہیں نا۔؟؟امید ہے اب بھی آپ کو ویسے ہی اچھے لگے گیں۔ :)

ہ اردومحفل پر آپ کن اراکین کو اپنے بہت قریب سمجھتے ہیں؟

ہ اردو محفل کی وہ خاص بات جس نے آپ کو اسیر بنا رکھا ہے؟

ہ اردو محفل کو ایک نقاد کو نظر سے دیکھتے ہوئے ایک مختصر نوٹ لکھیں؟

ہ آپ نے اپنا اردو بلاگ کیوں اور کیا سوچ کربنایا؟

ہ محب کوئی نیکی جو گلے پڑ گئی ہو؟

ہ جلدی بے تکلف ہونے والی عادت کے باعث کبھی نقصان اٹھایا؟

ہ محب کیا لوگ آپ کو سمجھنے میں غلطی کرجاتے ہیں یا ایسا آپ کے ساتھ نہیں ہوتا؟

امن میں تو پہلے ہی میدان میں ہوں اور کئی محاذوں پر ہوں اب اور کہاں جاؤں۔ اچھا جنگ کے میدان میں آنا ہے ، کیا طبل بھی بجا دیا ہے تم نے اللہ خیر کرے۔ تمہارے سوال لالی پاپ جیسے ہوتے تھے مگر جب سے میں نے یہ کہا ہے تب سے جلیبی کی طرح گھیرے دار ہو گئے ہیں ویسے اچھے تو لگیں گے۔

ہ اردومحفل پر آپ کن اراکین کو اپنے بہت قریب سمجھتے ہیں؟

اردو محفل پر میں کافی اراکین کو اپنے قریب سمجھتا ہوں مثلا
کس کس کا نام لوں کون نہیں ہے اپنا ( ویسے ہو سکتا ہے میں کسی کو اپنے قریب سمجھتا ہوں اور وہ نہ تو مسئلہ ہی نہ ہو جائے )


ہ اردو محفل کی وہ خاص بات جس نے آپ کو اسیر بنا رکھا ہے؟
اردو محفل کی خاص بات اردو کی ہمہ جہت ترویج و ترقی ، اردو کے لیے مختلف سطح پر سافٹ وئیر بنانا اور بہت سے سافٹ وئیر کو مقامیانا، لائبریری ، لغت اور فانٹس پر کام۔ بہت عمدہ ماحول جہاں سب ایک دوسرے کی پرواہ کرتے ہیں اور خبر گیری کرتے ہیں۔ اگر کوئی کچھ دن نہ آئے تو باقاعدہ اس کے بارے میں متوحش ہو جاتے ہیں یہ چیز مجھے کہیں اور نظر نہیں آئی۔
 

امن ایمان

محفلین
امن میں تو پہلے ہی میدان میں ہوں اور کئی محاذوں پر ہوں اب اور کہاں جاؤں۔ اچھا جنگ کے میدان میں آنا ہے ، کیا طبل بھی بجا دیا ہے تم نے اللہ خیر کرے۔ تمہارے سوال لالی پاپ جیسے ہوتے تھے مگر جب سے میں نے یہ کہا ہے تب سے جلیبی کی طرح گھیرے دار ہو گئے ہیں ویسے اچھے تو لگیں گے۔

محب یہ میں نے T کا اور سوالوں کو لالی پاپ جیسے سمجھنے کا بدلہ لیا ہے۔:) ۔۔میرے سوال تو خیر اتنے جلیبی سے نہیں ہیں۔۔ہاں آپ جوابات جلیبی کی ٹیوب میں بھرتے دیکھائی دے رہے ہیں۔
آپ ذرا سارے جواب مکمل کرلیں۔۔پھر میں ایک ساتھ نبٹتی ہوں۔ :)
 

ظفری

لائبریرین
محب تم کیا سمجھتے ہو کہ ۔۔۔ زندگی اور موت کا درمیانی عرصہ کیا پروگرام شدہ ہے ۔ اگر ہے تو اس میں کیا اور کیسے تبدیلی لائی جاسکتی ہے اگر نہیں تو پھر ہم اپنی مرضی سے زندگی کو پروگرامڈ کیوں نہیں کر سکتے ۔ ؟
 
ہ اردو محفل کو ایک نقاد کو نظر سے دیکھتے ہوئے ایک مختصر نوٹ لکھیں؟

یہ ذرا تفصیل طلب جواب ہے اس لیے اس کا جواب بھی تفصیل سے دوں گا باقی سوالوں کے جواب کے بعد۔ یہ سوال مجھے ذاتی طور پر بہت پسند آیا ہے اور اس پر ایک نقاد کی ہی حیثیت سے جواب دینے کی کوشش کروں گا (گو کہ یہ کافی مشکل امر ہے مگر ضرور کروں گا) اس پر میں یہ سوال ضرور پوچھنا چاہوں گا کہ یہ سوال مجھ سے پوچھنے کا خیال کیسے آیا۔

ہ آپ نے اپنا اردو بلاگ کیوں اور کیا سوچ کربنایا؟

کچھ دوستوں کی طرف سے اصرار تھا کہ میں بھی بلاگنگ شروع کردوں گو کہ میں جانتا تھا کہ ایسا کرنا مشکل ہے اور پھر لکھنے کے لیے وقت نکالنا اور بھی مشکل مگر پھر پردیسی بھیا نے ایک پوسٹ کی اور بتایا کہ اردو بلاگ بنانا بہت آسان ہوگیا ہے تو پھر سوچا کہ کوشش کیوں نہ کر لی جائے اور اپنی ہی ایک پرانی پوسٹ سے بلاگنگ شروع کردی۔ اب بھی میرا بلاگ کچھوے کی رفتار سے جاری ہے مگر آہستہ آہستہ چل رہا ہے جس میں وقتا فوقتا کچھ خیالات پیش کرتا رہوں گا۔ ابھی تک میں نے اپنے دستخط میں بھی بلاگ کا ایڈریس نہیں دیا۔

ہ محب کوئی نیکی جو گلے پڑ گئی ہو؟

کچھ نیکیوں نے مشکل میں ضرور ڈالا مگر ایسی کوئی نیکی یاد نہیں پڑتی جو گلے پڑ گئی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک منٹ ہاں چند روز قبل ایک ایسی نیکی گلے پڑی تھی جس میں کچھ لوگوں سے میں نے اردو کمپیوٹر پر تنصیب کرنے کا وعدہ کیا تھا اور پھر جب کرنی پڑی تو سمجھ آگئی، دس پندرہ منٹ کا کام چار پانچ گھنٹوں میں ہوا اور ایک دن کی بجائے کئی دن پر محیط رہا۔ ایسی ایسی مزیدار غلطیاں ہوئیں کہ ان پر علیحدہ سے ایک پوسٹ کی ضرورت ہے۔

ہ جلدی بے تکلف ہونے والی عادت کے باعث کبھی نقصان اٹھایا؟

ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جلدی بے تکلف میں صرف محفل پر ہوتا ہوں ورنہ میں خاصہ لیے دیے رہتا ہوں اور اس عادت کی وجہ سے بہت سے لوگ مجھے مغرور اور آدم بیزار بھی سمجھتے ہیں۔ البتہ جس جگہ میرے جاننے والے لوگ زیادہ ہوں اور میں ان میں گھل مل چکا ہوں وہاں میں نئے آنے والے کے ساتھ جلد گھلنے ملنے کی کوشش کرتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ انہیں اجنبیت محسوس نہ ہونے دوں اور اب تک کا تجربہ خوشگوار ہی رہا ہے کبھی مسئلہ نہیں ہوا اور ہوا تو اس کی روداد بھی ضرور سناؤں گا۔

ہ محب کیا لوگ آپ کو سمجھنے میں غلطی کرجاتے ہیں یا ایسا آپ کے ساتھ نہیں ہوتا؟

امن لوگوں کو سمجھنے میں غلطی نہ کرنے کا دعوی کم از کم کوئی انسان تو نہیں کر سکتا اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ نرم سے نرم الفاظ میں خوش فہمی کا شکار ہے۔ لوگ سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں کیونکہ ایسا لوگ ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں اور کرتے رہے ہیں بعض اوقات میں انہیں سمجھانے میں کامیاب ہو جاتا ہوں اور بعض اوقات وہ کچھ واقعات اور لوگوں سے سمجھ لیتے ہیں ۔
 
ظفری نے کہا:
محب تم کیا سمجھتے ہو کہ ۔۔۔ زندگی اور موت کا درمیانی عرصہ کیا پروگرام شدہ ہے ۔ اگر ہے تو اس میں کیا اور کیسے تبدیلی لائی جاسکتی ہے اگر نہیں تو پھر ہم اپنی مرضی سے زندگی کو پروگرامڈ کیوں نہیں کر سکتے ۔ ؟

ظفری تمہارا سوال بہت مشکل اور پیچیدہ ہے اور صدیوں سے اس سوال نے انسانوں کو الجھائے رکھا ہے اور میرا نہیں خیال کہ اس کا کوئی ایسا جواب ہے جس نے مکمل طور پر انسانی اذہان کی تشفی کر دی ہو۔ اسلامی تاریخ اور فلسفہ میں ‘قضا و قدر‘ اور کچھ جگہ جبر و قدر کے عنوان کے تحت اسے زیر بحث لایا گیا ہے اور طویل مضامین اور آرائیں پائی جاتی ہیں۔ اسی بنا پر ہمیں دو فرقوں کا بھی پتہ ملتا ہے جو دو انتہائی نظریات پر مبنی ہیں۔
ایک قدریہ فرقہ جس نے تدبیر کو ہی سب کچھ مان لیا اور یہ کہا کہ انسان ہر فعل میں آزاد ہے اور جو چاہے وہ کر سکتا ہے اور خدا کی مشیت انسان کے ارادے اور فعل میں کہیں بھی آڑے نہیں آتی۔ اس بنا پر انہوں نے ہر فعل اور ہر واقع کو انسانی ارادے کے تابع کہا اور یوں ایک گمراہ فرقہ کہلایا۔
دوسرا فرقہ جبریہ تھا جو ہر شے کو جبر کا نتیجہ قرار دیتا ہے اور انسان کے ہر عمل کی ذمہ داری قدرت یا خدا پر ڈالتا ہے یوں وہ کسی بھی معاملے اور کسی بھی مرحلے پر انسانی ارادے کی آزادی کے قائل نہ تھے اور پیدائش سے موت تک تمام واقعات اور معاملات کو طے شدہ یا جبر کے تحت عمل گردانتے تھے اور یہ بھی گمراہ کہلائے ، اسلامی تاریخ میں۔

یہ دو انتہائیں ہیں اور ان کے بیچ ہی صحیح موقف ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ انسان پیدائش ، سفر ، موت جیسے کئی امور ہیں جن میں آزاد نہیں ہے اور مشیت کے تحت ہی چلنا پڑتا ہے اسے۔ مجموعی طور پر انسان اپنے افعال میں آزاد ہے اور اپنی آزادی رائے سے فیصلے کرتا ہے اور انہی پر سزا اور جزا بھی ہے۔

تقدیر کے بارے میں لوگ غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ جب خدا سے سب کچھ لوح محفوظ پر لکھ دیا ہے تو پھر ہمارے اعمال آزاد کیسے ہیں۔ اس بارے میں یاد رکھنا چاہیے کہ تقدیر ایک راز ہے انسانوں کے لیے مگر خالق کو اس کا علم ہے اور اس کا علم ہونے سے وہ انسانوں پر جبر نہیں بنتا۔ ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ ایک استاد شاگردوں کے بارے میں بہتر طور پر جانتا ہوتا ہے کہ کون سا طالب علم پاس ہوگا کونسا فیل اور اس کے اس علم کے مطابق اگر کوئی طالب علم فیل یا پاس ہوتا ہے تو استاد کے علم کو طالب علم کے فیل یا پاس ہونے کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جائے گا نہ ہی اسے طالب علم پر کسی قسم کا جبر قرار دیا جاسکتا ہے۔ اپنے علم کی وجہ سے استاد کو نتائج کا علم تھا مگر طالب علم آخر تک اپنے فعل میں آزاد تھا اور نتیجہ طالب علم کے اعمال کے مطابق ہی نکلا گو استاد کو بطور علم اس کا پہلے سے پتہ تھا۔
 

qaral

محفلین
کمال کیا ھے محب آپ نے اتنا خوبصورت اور مدلل جواب آفرین ھے میاں آفرین
 
والدین اور اساتذہ نے بچپن سے ہی مجھے لڑنے سے منع کر رکھا ہے اس لیے میں‌اس سے پرہیز کرتا ہوں اچھے بچوں کی طرح :)
اور لڑانے کی بی جمالو جیسی عادت تو ہرگز نہیں ہے مجھ میں ، توبہ لوگ بھی کتنے فتنہ گر ہوتے ہیں اجنبی ہو کر بھی مانوس سوال کرتے ہیں۔ :wink:
 
شکر ہے تمہارا دماغ کام نہیں کر رہا ویسے کر بھی رہا ہوتا تو کوئی تعمیری کام تو کرنے سے رہے تم :p

اور میاں تم تو صرف دھجیاں اڑاتے ہو میں تمہارے باقاعدہ پرزے اڑانے کا سوچ رہا ہوں۔ :lol:

شادی خاندان میں ہی ہوئی اور چونکہ خاندان میں ہی ہوئی اس لیے آرام سے ہی ہو گئی۔
 

ظفری

لائبریرین
ظفری تمہارا سوال بہت مشکل اور پیچیدہ ہے اور صدیوں سے اس سوال نے انسانوں کو الجھائے رکھا ہے اور میرا نہیں خیال کہ اس کا کوئی ایسا جواب ہے جس نے مکمل طور پر انسانی اذہان کی تشفی کر دی ہو۔میں سمجھتا ہوں کہ انسان پیدائش ، سفر ، موت جیسے کئی امور ہیں جن میں آزاد نہیں ہے اور مشیت کے تحت ہی چلنا پڑتا ہے اسے۔ مجموعی طور پر انسان اپنے افعال میں آزاد ہے اور اپنی آزادی رائے سے فیصلے کرتا ہے اور انہی پر سزا اور جزا بھی ہے۔

تم نے مثیًت کی بات کی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ مذہب ہی واحد راستہ ہے جہاں سے ہمیں اس سوال کا جواب مل سکتا ہے ۔۔۔ چلو مان لیتے ہیں کہ مذہب اس بارے میں کچھ رہنمائی کرتا ہے ۔ انہی خطوط پر سوچتے ہوئے تمہارے جواب کے اگلے حصے کی طرف بڑھتے ہیں ۔

میں سمجھتا ہوں کہ انسان پیدائش ، سفر ، موت جیسے کئی امور ہیں جن میں آزاد نہیں ہے اور مشیت کے تحت ہی چلنا پڑتا ہے اسے۔ مجموعی طور پر انسان اپنے افعال میں آزاد ہے اور اپنی آزادی رائے سے فیصلے کرتا ہے اور انہی پر سزا اور جزا بھی ہے۔

جب انسان اپنی مرضی سے خود پیدا نہیں ہوا تو اس پر سزا اور جزا کا قانون کیوں لاگو کیا گیا ہے ۔ اگر وہ پیدا کیا ہی گیا ہے تو کیا اس کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی سے زندگی بسر کرے۔ زندگی کی تمام ضروریات کیا اس کو میسر نہیں آسکتیں ۔ اگر زندگی کی اساسی قدروں پر اس کا اختیار نہیں ہے ( بمعہ ان تمام چیزوں کے جن کا تم نے اوپر ذکر کیا ہے) تو اس کو باقی ایسی چیزوں پر اختیار کیوں دیا گیا ہے ۔ جس کے ساتھ وہ ہمیشہ انصاف نہیں کرسکتا ۔ ؟ ۔۔۔۔

تقدیر کے بارے میں لوگ غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ جب خدا سے سب کچھ لوح محفوظ پر لکھ دیا ہے تو پھر ہمارے اعمال آزاد کیسے ہیں۔ اس بارے میں یاد رکھنا چاہیے کہ تقدیر ایک راز ہے انسانوں کے لیے مگر خالق کو اس کا علم ہے اور اس کا علم ہونے سے وہ انسانوں پر جبر نہیں بنتا۔ ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ ایک استاد شاگردوں کے بارے میں بہتر طور پر جانتا ہوتا ہے کہ کون سا طالب علم پاس ہوگا کونسا فیل اور اس کے اس علم کے مطابق اگر کوئی طالب علم فیل یا پاس ہوتا ہے تو استاد کے علم کو طالب علم کے فیل یا پاس ہونے کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جائے گا نہ ہی اسے طالب علم پر کسی قسم کا جبر قرار دیا جاسکتا ہے۔ اپنے علم کی وجہ سے استاد کو نتائج کا علم تھا مگر طالب علم آخر تک اپنے فعل میں آزاد تھا اور نتیجہ طالب علم کے اعمال کے مطابق ہی نکلا گو استاد کو بطور علم اس کا پہلے سے پتہ تھا۔

تمہاری اس مثال سے میں ‌متفق نہیں ہوں ۔ کیونکہ تم نے کہا ہےکہ ایک استاد کو علم ہوتا ہے کہ کونسا طالبعلم پاس ہوگا اور کونسا نہیں ۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ استاد کو طالبعلموں کی صلاحیتوں کا علم ہوتا ہے کہ کون امتحان پاس کرسکے گا اور کون نہیں ۔۔۔ کہ کسی نے ابھی امتحان بھی نہیں دیا ہے مگر استاد کو ہر طالب علم کی ذہنی صلاحیتوں کا بخوبی علم ہے کہ امتحان دینے کے بعد نیتجہ کیا رہے گا ۔
مگر اس سے تو کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ امتحان میں فیل ہو جانے ‌میں طالبعلم کا قصور تھا کیونکہ اس کو تو ذہنی صلاحیت ہی کچھ ایسی ملی تھی کہ وہ پرچہ حل نہیں کرسکا، اگر اس کو بھی دیگر لوگوں کی طرح برابری کی بنیاد پرصلاحیتیں ملی ہوتیں تو وہ ہرگز فیل نہیں ہوتا ۔ اور استاد نے بھی اسی بنیاد پر سب کے نتیجوں کو جانچ لیا تھا ۔ تو پھر وہ قصوروار کیوں ہوا ۔؟
اور اگر پھر تمہاری اسی مثال کو قدرت کے نظام پر لاگو کردیا جائے تو پھر یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ خالق نے ہر کسی کو مختلف صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے اور جس کی صلاحیت کسی بھی لحاظ سے کم ہے تو پھر وہ پرچہ حل کرنے میں پیچھے رہ گیا ۔ اور خصوصاً ایسا پرچہ جو پہلے ہی لوحِ محفوظ پر لکھا کا چکا ہے ۔
 

امن ایمان

محفلین
محب اہلاً و سہلاً مرحبا :)

حسب روایت۔۔آپ کے گول مول جوابات پر اک نظر۔۔۔

اردو محفل پر میں کافی اراکین کو اپنے قریب سمجھتا ہوں مثلا
کس کس کا نام لوں کون نہیں ہے اپنا ( ویسے ہو سکتا ہے میں کسی کو اپنے قریب سمجھتا ہوں اور وہ نہ تو مسئلہ ہی نہ ہو جائے )


محب اسی لیے تو میں نے یہ سوال پوچھا تھا کہ آپ ڈائریکٹ کنفرم کرلیں۔۔۔۔لیکن آپ کی مرضی، آپ ایسا نہیں چاہ رہے ہیں۔۔کوئی بات نہیں۔ :)


اردو محفل کی خاص بات اردو کی ہمہ جہت ترویج و ترقی ، اردو کے لیے مختلف سطح پر سافٹ وئیر بنانا اور بہت سے سافٹ وئیر کو مقامیانا، لائبریری ، لغت اور فانٹس پر کام۔ بہت عمدہ ماحول جہاں سب ایک دوسرے کی پرواہ کرتے ہیں اور خبر گیری کرتے ہیں۔ اگر کوئی کچھ دن نہ آئے تو باقاعدہ اس کے بارے میں متوحش ہو جاتے ہیں یہ چیز مجھے کہیں اور نظر نہیں آئی۔ :)

بالکل محب آپ نے ٹھیک کہا۔۔۔باقی سب تو اپنی جگہ لیکن جس طرح اس محفل کے رکن ایک دوسرے سے باخبر رہتے ہیں ایسا بہت کم کسی فورم پر دیکھنے کو ملا ہے۔

ہ محب اکثر کبھی اپنی غلطی کی وجہ سے یا کبھی دوسروں کی غلطیوں کی وجہ سے ہم وقتی طور پر ڈس ہارٹ ہوجاتے ہیں اور کچھ وقت کے لیے اس جگہ کو چھوڑ جاتے ہیں۔۔اردو محفل پر آپ کے ساتھ کبھی ایسا حادثہ رونما ہوا۔۔؟

یہ ذرا تفصیل طلب جواب ہے اس لیے اس کا جواب بھی تفصیل سے دوں گا باقی سوالوں کے جواب کے بعد۔ یہ سوال مجھے ذاتی طور پر بہت پسند آیا ہے اور اس پر ایک نقاد کی ہی حیثیت سے جواب دینے کی کوشش کروں گا (گو کہ یہ کافی مشکل امر ہے مگر ضرور کروں گا) اس پر میں یہ سوال ضرور پوچھنا چاہوں گا کہ یہ سوال مجھ سے پوچھنے کا خیال کیسے آیا۔

محب آپ دراصل اردو محفل کی تاریخ لکھ رہے ہیں اور ویسے بھی یہاں میں نے اکثر جگہ سب کو آپ کی رائے کا احترام کرتے دیکھا ہے۔ منصور بھائی کے بعد شاید آپ ہیں جو ہر دھاگے پر پائے جاتے ہیں ( شمشاد چاء بھی ہوتے ہیں لیکن تیکنیکی ذمروں پر کم کم) اس لیے میرے ذہن میں یہ سوال آیا کہ آپ اردو محفل کو ایک نقاد کی نظر سے جانچیں۔۔۔۔۔مجھے آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔


اب بھی میرا بلاگ کچھوے کی رفتار سے جاری ہے مگر آہستہ آہستہ چل رہا ہے جس میں وقتا فوقتا کچھ خیالات پیش کرتا رہوں گا۔ ابھی تک میں نے اپنے دستخط میں بھی بلاگ کا ایڈریس نہیں دیا۔

محب کچھوا تو پھر بھی رینگتا ہوا چلتا ہی رہتا ہے۔۔۔لیکن آپ کا بلاگ تو ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح سے ہے۔۔کبھی اس میں کوئی کنکر، پتھر مارنے کا سوچ لیا کریں ۔

کچھ نیکیوں نے مشکل میں ضرور ڈالا مگر ایسی کوئی نیکی یاد نہیں پڑتی جو گلے پڑ گئی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک منٹ ہاں چند روز قبل ایک ایسی نیکی گلے پڑی تھی جس میں کچھ لوگوں سے میں نے اردو کمپیوٹر پر تنصیب کرنے کا وعدہ کیا تھا اور پھر جب کرنی پڑی تو سمجھ آگئی، دس پندرہ منٹ کا کام چار پانچ گھنٹوں میں ہوا اور ایک دن کی بجائے کئی دن پر محیط رہا۔ ایسی ایسی مزیدار غلطیاں ہوئیں کہ ان پر علیحدہ سے ایک پوسٹ کی ضرورت ہے۔

محب اس نیکی کے گلے پڑنے میں کس کا قصور زیادہ تھا۔۔استاد محترم کا یا نکمے اسٹوڈنٹس کا۔۔؟ :) منصور بھائی نے تو صرف پانچ منٹ میں مجھے سب سیکھا دیا تھا۔۔:)


امن لوگوں کو سمجھنے میں غلطی نہ کرنے کا دعوی کم از کم کوئی انسان تو نہیں کر سکتا اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ نرم سے نرم الفاظ میں خوش فہمی کا شکار ہے۔ لوگ سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں کیونکہ ایسا لوگ ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں اور کرتے رہے ہیں بعض اوقات میں انہیں سمجھانے میں کامیاب ہو جاتا ہوں اور بعض اوقات وہ کچھ واقعات اور لوگوں سے سمجھ لیتے ہیں ۔


جی محب۔۔۔۔لوگوں کو سمجھنے میں غلطی ضرور ہوجاتی ہے۔۔۔یہاں میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ آپ کو سمجھنے میں لوگ کس حد تک غلطی کرتے ہیں۔۔۔؟؟جیسا کہ آپ نے کہا کہ لوگ آپ کو مغرور اور آدم بیزار بھی سمجھ لیتے ہیں۔۔۔اچھا اس بارے میں ایک سوال۔۔۔۔

ہ محب آپ اپنے بارے میں لوگوں کی رائے جاننے کا تجسس رکھتے ہیں؟

ہ کیا آپ اپنی reputation کے بارے میں بہت محتاط رہتے ہیں یا آئی ڈونٹ کئیر والا معاملہ ہے؟
 

امن ایمان

محفلین
محب علوی نے کہا:
تقدیر کے بارے میں لوگ غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ جب خدا سے سب کچھ لوح محفوظ پر لکھ دیا ہے تو پھر ہمارے اعمال آزاد کیسے ہیں۔ ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ ایک استاد شاگردوں کے بارے میں بہتر طور پر جانتا ہوتا ہے کہ کون سا طالب علم پاس ہوگا کونسا فیل اور اس کے اس علم کے مطابق اگر کوئی طالب علم فیل یا پاس ہوتا ہے تو استاد کے علم کو طالب علم کے فیل یا پاس ہونے کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جائے گا نہ ہی اسے طالب علم پر کسی قسم کا جبر قرار دیا جاسکتا ہے۔ اپنے علم کی وجہ سے استاد کو نتائج کا علم تھا مگر طالب علم آخر تک اپنے فعل میں آزاد تھا اور نتیجہ طالب علم کے اعمال کے مطابق ہی نکلا گو استاد کو بطور علم اس کا پہلے سے پتہ تھا۔

زبردست۔۔۔محب یقین کریں میرے پاس تعریف کے لیے لفظ نہیں ہیں۔۔۔۔بے شک تقدیر اور تدبیر کی اس سے بہتر طریقے سے بیان نہیں کیا جاسکتا۔

ظفری۔۔>>> آپ ہر بار مجھے اپنی باتوں سے حیران کردیتے ہیں۔۔۔آپ پلیززز اسی طرح سوالات پوچھتے رہیں نا۔۔۔ابھی آپ نے محب کے جواب پر جو کمنٹس دیے۔۔ان کا ٹھیک جواب تو محب دیں گے لیکن آپ کی اس بات کا جواب۔۔۔۔۔

تمہاری اس مثال سے میں ‌متفق نہیں ہوں ۔ کیونکہ تم نے کہا ہےکہ ایک استاد کو علم ہوتا ہے کہ کونسا طالبعلم پاس ہوگا اور کونسا نہیں ۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ استاد کو طالبعلموں کی صلاحیتوں کا علم ہوتا ہے کہ کون امتحان پاس کرسکے گا اور کون نہیں ۔۔۔ کہ کسی نے ابھی امتحان بھی نہیں دیا ہے مگر استاد کو ہر طالب علم کی ذہنی صلاحیتوں کا بخوبی علم ہے کہ امتحان دینے کے بعد نیتجہ کیا رہے گا ۔
مگر اس سے تو کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ امتحان میں فیل ہو جانے ‌میں طالبعلم کا قصور تھا کیونکہ اس کو تو ذہنی صلاحیت ہی کچھ ایسی ملی تھی کہ وہ پرچہ حل نہیں کرسکا، اگر اس کو بھی دیگر لوگوں کی طرح برابری کی بنیاد پرصلاحیتیں ملی ہوتیں تو وہ ہرگز فیل نہیں ہوتا ۔



ظفری آپ دیکھیں کہ ذہن تو سب کو دیا گیا۔۔ایک سا ( صرف پاگل اس سے مستثنیٰ ہیں) جب سب کے پاس ذہن ہے،سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہے، لیکن اس کے باوجود اگر وہ بھٹک رہا ہے۔۔امتحان میں فیل ہوجاتا ہے تو اس کا مطلب تو یہی ہوا نا کہ وہ اپنے مقصد کے حصول میں سنجیدہ نہیں تھا۔۔۔اس نے کوشش ہی نہیں کی۔۔یہی اصول ہماری زندگی کے ہر پہلو پر لاگو ہوتا ہے۔۔ ہمارا قسمت پر اتنا ہی اختیار ہے کہ ہم اپنا ایک پاؤں اٹھا کر کھڑے رہنے پر تو قادر ہیں لیکن دونوں پاؤں ایک ساتھ اونچے کرکے کھڑے نہیں رہ سکتے۔

باقی محب جلدی سے یہاں آئیں۔۔۔اور ظفری کی بات کا جواب دیں۔۔۔: )
 

ظفری

لائبریرین
ظفری آپ دیکھیں کہ ذہن تو سب کو دیا گیا۔۔ایک سا ( صرف پاگل اس سے مستثنیٰ ہیں) جب سب کے پاس ذہن ہے،سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہے، لیکن اس کے باوجود اگر وہ بھٹک رہا ہے۔۔امتحان میں فیل ہوجاتا ہے تو اس کا مطلب تو یہی ہوا نا کہ وہ اپنے مقصد کے حصول میں سنجیدہ نہیں تھا۔۔۔اس نے کوشش ہی نہیں کی۔۔یہی اصول ہماری زندگی کے ہر پہلو پر لاگو ہوتا ہے۔۔ ہمارا قسمت پر اتنا ہی اختیار ہے کہ ہم اپنا ایک پاؤں اٹھا کر کھڑے رہنے پر تو قادر ہیں لیکن دونوں پاؤں ایک ساتھ اونچے کرکے کھڑے نہیں رہ سکتے۔

نہیں امن ۔۔۔ آپ ایک دوسری بات کر رہیں ہیں ( خیر اس پر بھی بحث کی جاسکتی ہے ۔ :wink: ) ۔۔۔۔۔ مگر میں نے محب کے جس بات کو کوٹ کیا تھا ۔ اس سے یہ تاثر ملتا تھا کہ طالبعلم مخلوق ہیں ۔ دنیا کمرہِ امتحاں ہے اور استاد خالق ہے ۔ اب جو بھی طالبعلم امتحاں دے گا یا دے رہا ہے اس کے بارے میں استاد کو پہلے ہی سے علم ہے کہ کون پاس ہوگا اور کون نہیں ۔ اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ استاد کو معلوم تھا کہ کون سے طالبعلم کی ذہنی استعداد زیادہ ہے اور کس کی نہیں اور اسی بنیاد پر اس نے کسی کے پاس ہونے اور فیل ہوجانے کے بارے میں نتیجہ اخذ کر لیا ۔ اور یہ حقیقت بھی ہے کہ اسکول کی کسی بھی کلاس میں سب بچوں کے ذہن یکساں نہیں ہوتے ۔ سب اپنی ذہنی صلاحیت کے مطابق کوشش کرتے ہیں ۔ کوئی بہت ذہین ہوتا ہے تو کوئی بہت کُند ذہن ۔ اب اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر یہی کلیہ محب کے لکھی ہوئی مثال پر لاگو کر دیا جائے تو اس میں انصاف نظر نہیں آتا کہ ایک کُند ذہن کو بھی وہی پرچہ حل کرنے کیوں ملا جو ایک ذہین طالبعلم کو دیا گیا ۔ تو میرا اختلاف بھی یہیں تھا کہ ایسا کیوں کیا گیا ۔ ہر کسی کو ایک جیسی صلاحیت یا تقدیر کیوں نہیں ملی ۔ اگر نہیں ملی تو ان سب کو ایک جیسے کمرہِ امتحاں میں کیوں بٹھایا گیا ۔ میرا خیال ہے کہ میرا پوائنٹ اب واضع ہوگیا ہوگا ۔ :wink:
 
ظفری نے کہا:
ظفری آپ دیکھیں کہ ذہن تو سب کو دیا گیا۔۔ایک سا ( صرف پاگل اس سے مستثنیٰ ہیں) جب سب کے پاس ذہن ہے،سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہے، لیکن اس کے باوجود اگر وہ بھٹک رہا ہے۔۔امتحان میں فیل ہوجاتا ہے تو اس کا مطلب تو یہی ہوا نا کہ وہ اپنے مقصد کے حصول میں سنجیدہ نہیں تھا۔۔۔اس نے کوشش ہی نہیں کی۔۔یہی اصول ہماری زندگی کے ہر پہلو پر لاگو ہوتا ہے۔۔ ہمارا قسمت پر اتنا ہی اختیار ہے کہ ہم اپنا ایک پاؤں اٹھا کر کھڑے رہنے پر تو قادر ہیں لیکن دونوں پاؤں ایک ساتھ اونچے کرکے کھڑے نہیں رہ سکتے۔

نہیں امن ۔۔۔ آپ ایک دوسری بات کر رہیں ہیں ( خیر اس پر بھی بحث کی جاسکتی ہے ۔ :wink: ) ۔۔۔۔۔ مگر میں نے محب کے جس بات کو کوٹ کیا تھا ۔ اس سے یہ تاثر ملتا تھا کہ طالبعلم مخلوق ہیں ۔ دنیا کمرہِ امتحاں ہے اور استاد خالق ہے ۔ اب جو بھی طالبعلم امتحاں دے گا یا دے رہا ہے اس کے بارے میں استاد کو پہلے ہی سے علم ہے کہ کون پاس ہوگا اور کون نہیں ۔ اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ استاد کو معلوم تھا کہ کون سے طالبعلم کی ذہنی استعداد زیادہ ہے اور کس کی نہیں اور اسی بنیاد پر اس نے کسی کے پاس ہونے اور فیل ہوجانے کے بارے میں نتیجہ اخذ کر لیا ۔ اور یہ حقیقت بھی ہے کہ اسکول کی کسی بھی کلاس میں سب بچوں کے ذہن یکساں نہیں ہوتے ۔ سب اپنی ذہنی صلاحیت کے مطابق کوشش کرتے ہیں ۔ کوئی بہت ذہین ہوتا ہے تو کوئی بہت کُند ذہن ۔ اب اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر یہی کلیہ محب کے لکھی ہوئی مثال پر لاگو کر دیا جائے تو اس میں انصاف نظر نہیں آتا کہ ایک کُند ذہن کو بھی وہی پرچہ حل کرنے کیوں ملا جو ایک ذہین طالبعلم کو دیا گیا ۔ تو میرا اختلاف بھی یہیں تھا کہ ایسا کیوں کیا گیا ۔ ہر کسی کو ایک جیسی صلاحیت یا تقدیر کیوں نہیں ملی ۔ اگر نہیں ملی تو ان سب کو ایک جیسے کمرہِ امتحاں میں کیوں بٹھایا گیا ۔ میرا خیال ہے کہ میرا پوائنٹ اب واضع ہوگیا ہوگا ۔ :wink:

ظفری بات کچھ لمبی ہوتی جارہی ہے اور ہے بھی ایسی کہ اس پر طویل گفتگو ہو سکتی ہے۔ ذہنی استعداد کیا ہے اس کی حقیقی اور جامع تعریف کیا پہلے تو یہ طے کرنا مشکل ہے۔ کند ذہن اور ذہین کون ہے یہ طے کرنا بہت کٹھن ہے۔ فرض کرو دو طالب علم ہیں عمر اور بکر اور وہ پانچ مضمون پڑھتے ہیں ، حساب ، انگریزی ، اردو ، فلسفہ ، تاریخ۔

عمر حساب ، انگریزی اور فلسفہ میں بہت اچھا ہے اور اردو میں کمزور اور تاریخ میں بالکل نکما
بکر علم حساب ، اردو اور تاریخ میں بہت عمدہ ہے ، انگریزی میں کمزور اور فلسفہ میں بالکل نکما

عمر اردو میں محنت کرتا ہے اور پاس ہو جاتا ہے جبکہ تاریخ میں سخت محنت کی بدولت اچھے نمبر بھی حاصل کر لیتا ہے۔ اس کے برعکس فلسفہ میں محنت نہ کرنے کے باعث فیل ہو جاتاہے۔
بکر انگریزی میں محنت کرکے پاس ہوجاتا ہے اور فلسفہ میں انتہائی محنت کرکے بہت اچھے نمبر لے جاتا ہے جبکہ اردو جو اس کی اچھی تھی اس میں وہ فیل ہو جاتا ہے۔

اب کسے ذہین اور کسے کند ذہن کہو گے ، دونوں ذہین بھی ہیں اور محنتی بھی مگر ہر شعبہ میں نہیں۔ استاد نے ان کی محنت کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ کر لیا کہ کون پاس ہوگا اور کس مضمون میں اور استاد نے یہ حق بھی اپنے پاس رکھا کہ جس مضمون میں عمر اور بکر اچھے ہیں مگر محنت نہ کرنے سے فیل ہو گئے ان میں اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے انہیں رعایتی نمبر دے کر پاس کردے۔
ہر کسی کو ایک جیسی صلاحیت نہیں ملی اس لیے ہی ہر کسی کو ایک جیسی تقدیر بھی نہیں ملی۔ کمرہ امتحان میں اگر پرچے ایک جیسے ملے بھی تو استاد نےاپنے پاس اختیارات رکھے کہ اگر کسی کو مشکل ہوئی تو اسے آسانی فراہم کردے اور انصاف ہو جائے۔
سب سے اہم بات سب طالب علم ایک جیسی کوشش نہیں کرتے اور نتائج مختلف ہونے کی یہ ایک بڑی وجہ ہوتی ہے۔ دوسرا اگر کسی کے پاس ایک صلاحیت کم ہے تو سخت محنت سے وہ بہت حد تک اس کمی کو پورا کر سکتا ہے مگر اگر کسی کے پاس بے پناہ صلاحیت ہے اور وہ محنت نہیں کرتا تو وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گا۔

جزا اور سزا آپ کو ودعیت کردہ صلاحیت پر نہیں بلکہ اس کے استعمال پر ملتی ہے اگر آپ نے اس کا بہترین استعمال کیا تو جزا ملے گی اور اگر ضائع کیا تو سزا۔ اس کے علاوہ جو شے آپ کے اختیار اور دائرہ کار سے باہر ہوگی اس پر تو سوال ہی نہیں سزا اور جزا کا۔ سب سے اہم بات اگر کسی کو کوئی مجبوری یا عارضہ لاحق ہو تو اسے خصوصی رعایت بھی مل جاتی ہے ۔ :lol:
 

امن ایمان

محفلین
ظفری اور محب معافی چاہتی ہوں۔۔بات اب میری سمجھ سے کافی اوپر چلی گئی ہے اس لیے مجھے سمجھ نہیں آرہی شاید۔۔خیر محب کے جواب میں ہوسکتا ہے کہ ظفری مزید کچھ کہیں اور مجھے بات سمجھنا کچھ آسان ہوجائے۔ :oops:
 

ظفری

لائبریرین
جزا اور سزا آپ کو ودعیت کردہ صلاحیت پر نہیں بلکہ اس کے استعمال پر ملتی ہے اگر آپ نے اس کا بہترین استعمال کیا تو جزا ملے گی اور اگر ضائع کیا تو سزا۔ اس کے علاوہ جو شے آپ کے اختیار اور دائرہ کار سے باہر ہوگی اس پر تو سوال ہی نہیں سزا اور جزا کا۔ سب سے اہم بات اگر کسی کو کوئی مجبوری یا عارضہ لاحق ہو تو اسے خصوصی رعایت بھی مل جاتی ہے ۔

محب تم سزا اور جزا پر کہاں چلے گئے ۔( ابھی ہم دنیا میں ہیں اور دنیا کی ہی بات کریں گے۔ :wink: ) میری بحث تو یہ ہے کہ ایک انسان کے پاس وہ سب کچھ کیوں نہیں ہے جو کسی اور دوسرے کے پاس ہے ۔ تم نے دیکھا ہوگا کہ کوئی شخص بلکل بھی محنت نہیں کرتا مگر وہ سب کچھ پالیتا ہے جو کوئی اور ساری عمر محنت کرکے بھی نہیں پاتا ۔ ایک شخص ساری عمر محنت کرکے بھی ایک لاکھ روپے کا مالک نہیں بن سکتا ۔ مگر کوئی اور منہ میں سونے کا چمچ لیکر پیدا ہو جاتا ہے ۔ یہاں ودیعت کردہ صلاحیت کا کیا تعلق بنتا ہے ۔؟ یہ تو نصیب ہے جو ہر کسی کو پہلے ہی سے بانٹ دیا گیا ہے ( جو کہ میں نے پوائنٹ اٹھایا ہے ) کہ اس سے قبل کہ وہ دنیا کے عملی میدان میں اترے ۔

استاد ، شاگرد اور پھر شاگردوں کی ذہانت کے رویوں کی مثال جو تم دے رہے ہو ۔ وہ ایک ذہین اور کم ذہین کے مابین ہے ۔ مگر بات ان شاگردوں کی ہورہی ہے جو بلکل ہی ڈل ہیں ۔ یعنی ان کے سامنے کوئی بھی مضمون رکھ دو وہ اس سے بلکل استفادہ نہیں کرسکتے ۔ ( یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے ) ۔ مجھے ان پر ترس آتا ہے کہ یہ کلاس کے دوسرے طالبعلم جیسے کیوں نہیں ہیں ۔ جب کہ وہ اپنی “ عقل “ کا بھرپور استعمال بھی کر رہے ہیں ۔ میں نے دیکھا کہ ان کی ودیعت کردہ عقل بھی اس معیار پر پوری نہیں اُتر رہی جو ان کے نصاب کے لیئے ضروری ہے ۔

اب اسی بات کو ذرا پھیلا کر دیکھو تو یہ معلوم ہوگا کہ دنیا میں کوئی سائنٹیس ہے تو کوئی انجینئر اور ڈاکٹر ، کوئی بڑھئی ہے تو کوئی کسان تو کوئی لوہار ۔ صلاحیتیں اگر سب کی ایک جیسی ہیں تو ان کا معیارِ زندگی کیوں ایک جیسا نہیں ہے ۔ کیا اس لیئے کہ انہوں نے کوئی ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کی کوشش نہیں یا ان کی “ ذہنی استعداد “ اس قابل نہیں تھی کہ وہ کوشش کرتے یا بکر اور عمر کی طرح ان کے درمیان بھی اپنی اپنی ذہنی صلاحتیں استعمال کرنے کا کوئی فقدان تھا ۔۔۔۔ یا پھر وہ دوسروں کی طرح منہ میں سونے کا چمچ لیکر نہیں پیدا ہوئے ۔ :?:
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم

دلچسپ۔۔۔ لیکن پروفیسر ظفری آغاز میں جس طرح آپ کی گرفت ہے اپنے نکتے پر آخر میں اس طرح نہیں رہی آپ نے جو مثال دی ہے یہاں تو کچھ اور امور بھی شامل ہوجاتے ہیں ۔
 

ظفری

لائبریرین
وعلیکم السلام

آپ کا کہنا بجا ہے شگفتہ صاحبہ ۔۔۔۔ کیونکہ میں یہاں اس وقت اپنے پہلے والے نقطہِ نظر کا بھرپور دفاع نہیں کر رہا ۔۔ بلکہ محب کے اس جملے کو کوٹ کر کے ودیعت کردہ صلاحیت پر بحث کر رہا ہوں اور ظاہر ہے موضوع کی اس کروٹ کے ساتھ کچھ اور امور کا شامل ہونا بھی اب لازمی ہے ۔ :)
 

ظفری

لائبریرین
محب ۔۔۔ بھئی تم بڑے ہوشیار نکلے ۔۔۔ :D ۔۔۔ میں نے ابھی اپنے انٹرویو والا دھاگہ دیکھا ہے ۔۔۔ وہاں پر تم نے گھما پھرا کر وہی سوال کر ڈالے جو میں یہاں تم سے کر رہا ہوں ۔ :twisted:
 
Top