امن ایمان نے کہا:محب اب ذرا آجائیں میدان میں۔۔۔میری طرف سے جنگ کا طبل بج چکا ہے۔۔۔میرے سوال لالی پاپ جیسے ہوتے ہیں نا۔؟؟امید ہے اب بھی آپ کو ویسے ہی اچھے لگے گیں۔
ہ اردومحفل پر آپ کن اراکین کو اپنے بہت قریب سمجھتے ہیں؟
ہ اردو محفل کی وہ خاص بات جس نے آپ کو اسیر بنا رکھا ہے؟
ہ اردو محفل کو ایک نقاد کو نظر سے دیکھتے ہوئے ایک مختصر نوٹ لکھیں؟
ہ آپ نے اپنا اردو بلاگ کیوں اور کیا سوچ کربنایا؟
ہ محب کوئی نیکی جو گلے پڑ گئی ہو؟
ہ جلدی بے تکلف ہونے والی عادت کے باعث کبھی نقصان اٹھایا؟
ہ محب کیا لوگ آپ کو سمجھنے میں غلطی کرجاتے ہیں یا ایسا آپ کے ساتھ نہیں ہوتا؟
امن میں تو پہلے ہی میدان میں ہوں اور کئی محاذوں پر ہوں اب اور کہاں جاؤں۔ اچھا جنگ کے میدان میں آنا ہے ، کیا طبل بھی بجا دیا ہے تم نے اللہ خیر کرے۔ تمہارے سوال لالی پاپ جیسے ہوتے تھے مگر جب سے میں نے یہ کہا ہے تب سے جلیبی کی طرح گھیرے دار ہو گئے ہیں ویسے اچھے تو لگیں گے۔
ظفری نے کہا:محب تم کیا سمجھتے ہو کہ ۔۔۔ زندگی اور موت کا درمیانی عرصہ کیا پروگرام شدہ ہے ۔ اگر ہے تو اس میں کیا اور کیسے تبدیلی لائی جاسکتی ہے اگر نہیں تو پھر ہم اپنی مرضی سے زندگی کو پروگرامڈ کیوں نہیں کر سکتے ۔ ؟
محب علوی نے کہا:تقدیر کے بارے میں لوگ غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ جب خدا سے سب کچھ لوح محفوظ پر لکھ دیا ہے تو پھر ہمارے اعمال آزاد کیسے ہیں۔ ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ ایک استاد شاگردوں کے بارے میں بہتر طور پر جانتا ہوتا ہے کہ کون سا طالب علم پاس ہوگا کونسا فیل اور اس کے اس علم کے مطابق اگر کوئی طالب علم فیل یا پاس ہوتا ہے تو استاد کے علم کو طالب علم کے فیل یا پاس ہونے کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جائے گا نہ ہی اسے طالب علم پر کسی قسم کا جبر قرار دیا جاسکتا ہے۔ اپنے علم کی وجہ سے استاد کو نتائج کا علم تھا مگر طالب علم آخر تک اپنے فعل میں آزاد تھا اور نتیجہ طالب علم کے اعمال کے مطابق ہی نکلا گو استاد کو بطور علم اس کا پہلے سے پتہ تھا۔
ظفری نے کہا:ظفری آپ دیکھیں کہ ذہن تو سب کو دیا گیا۔۔ایک سا ( صرف پاگل اس سے مستثنیٰ ہیں) جب سب کے پاس ذہن ہے،سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہے، لیکن اس کے باوجود اگر وہ بھٹک رہا ہے۔۔امتحان میں فیل ہوجاتا ہے تو اس کا مطلب تو یہی ہوا نا کہ وہ اپنے مقصد کے حصول میں سنجیدہ نہیں تھا۔۔۔اس نے کوشش ہی نہیں کی۔۔یہی اصول ہماری زندگی کے ہر پہلو پر لاگو ہوتا ہے۔۔ ہمارا قسمت پر اتنا ہی اختیار ہے کہ ہم اپنا ایک پاؤں اٹھا کر کھڑے رہنے پر تو قادر ہیں لیکن دونوں پاؤں ایک ساتھ اونچے کرکے کھڑے نہیں رہ سکتے۔
نہیں امن ۔۔۔ آپ ایک دوسری بات کر رہیں ہیں ( خیر اس پر بھی بحث کی جاسکتی ہے ۔ ) ۔۔۔۔۔ مگر میں نے محب کے جس بات کو کوٹ کیا تھا ۔ اس سے یہ تاثر ملتا تھا کہ طالبعلم مخلوق ہیں ۔ دنیا کمرہِ امتحاں ہے اور استاد خالق ہے ۔ اب جو بھی طالبعلم امتحاں دے گا یا دے رہا ہے اس کے بارے میں استاد کو پہلے ہی سے علم ہے کہ کون پاس ہوگا اور کون نہیں ۔ اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ استاد کو معلوم تھا کہ کون سے طالبعلم کی ذہنی استعداد زیادہ ہے اور کس کی نہیں اور اسی بنیاد پر اس نے کسی کے پاس ہونے اور فیل ہوجانے کے بارے میں نتیجہ اخذ کر لیا ۔ اور یہ حقیقت بھی ہے کہ اسکول کی کسی بھی کلاس میں سب بچوں کے ذہن یکساں نہیں ہوتے ۔ سب اپنی ذہنی صلاحیت کے مطابق کوشش کرتے ہیں ۔ کوئی بہت ذہین ہوتا ہے تو کوئی بہت کُند ذہن ۔ اب اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر یہی کلیہ محب کے لکھی ہوئی مثال پر لاگو کر دیا جائے تو اس میں انصاف نظر نہیں آتا کہ ایک کُند ذہن کو بھی وہی پرچہ حل کرنے کیوں ملا جو ایک ذہین طالبعلم کو دیا گیا ۔ تو میرا اختلاف بھی یہیں تھا کہ ایسا کیوں کیا گیا ۔ ہر کسی کو ایک جیسی صلاحیت یا تقدیر کیوں نہیں ملی ۔ اگر نہیں ملی تو ان سب کو ایک جیسے کمرہِ امتحاں میں کیوں بٹھایا گیا ۔ میرا خیال ہے کہ میرا پوائنٹ اب واضع ہوگیا ہوگا ۔