ظفری نے کہا:
اچھا میری طرف سے بھی ایک سوال محب ۔
تم ایک بحری سفر میں ہو اور تمہارے ساتھ تمہارا بہترین دوست بھی ہمسفر ہے اور وہ تم کو بہت عزیز ہے اور تم اُس کی دل سے عزت بھی کرتے ہو ۔ اچانک طوفان آجاتا ہے اور بحری جہاز غرق ہو جاتا ہے مگر تم اور تمہارا دوست کسی نہ کسی طرح کسی جزیرے تک پہنچے میں کامیاب ہوجاتے ہیں پھر اچانک ہی تم دونوں کو وہاں کے وحشی گھیر لیتے ہیں اور باندھ کر تم کو اپنے دیوتا کی بھینٹ چڑھاتے ہیں ۔ سب سے پہلے تم کو پکڑتے ہیں مگر تم منت سماجت کرتے ہو کہ مجھے چھوڑ دو ۔ سردا کہتا ہے کہ “ چلو ! ایک شرط پر تم کو چھوڑ دیتے ہیں اگر تم اپنے دوست کو خود اپنے ہاتھوں سے ہمارے دیوتا کی بھینٹ چڑھاؤ ۔۔۔ اگر نہیں تو یہ کام تمہارے دوست سے کروا کر اُس کی جان بخش دی جائے گی ۔
ایسی صورت میں تم کیا کروگے ۔۔۔ اپنی جان بچانے کے لیئے اپنے دوست کی بھنیٹ چڑھا دو گے یا پھر اپنے دوست کو بچانے کے لیئے خود کو قربان کردو گے ۔؟
ظفری تم بھی باز نہیں آؤگے مجھے پتہ تھا کوئی ایسا ہی دو دھاری سوال لے کر آوگے جس میں جائے رفتن نہ پائے ماندن ( پتہ نہیں فارسی کا کیا بنا دیا ہے میں نے )
سوال ٹھہرا ہے اب زندگی لینے اور دینے پر تو ذرا سنجیدہ جواب ہو جائے۔ زندگی اگر کسی عزیز کی زندگی لے کے ملے تو ایسی زندگی سے موت اچھی ، دوسری طرف یہ بھی نہیں چاہوں گا کہ میرا بہترین دوست ہی میرا قاتل بھی ٹھہرے اور وہ تمام زندگی اس خلش کے ساتھ جیے کہ اسے زندگی ملی میری زندگی لے کر ۔ اپنے دوست سے اس وقت میں یہی کہوں گا کہ زندگی بچانا تو شاید ہمارے ہاتھ میں نہیں اب مگر زندگی نہ لینے کا اختیار اب بھی ہمارے پاس ہے اور اگر مرنا لکھا ہے تو موت ہی سہی مگر زندگی کی بھیک زندگی کی بھینٹ چڑھا کر نہیں لیں گے ہم ، اور ایسے شخص کے وعدے کا کیا اعتبار جو کسی کی زندگی لے کر زندگی دینے کی نوید دے۔ زندگی باقی ہے تو رہے گی کوئی کم نہیں کرسکتا اور اگر موت لکھی ہے تو کسی کی زندگی لینے سے ٹل نہیں جائے گی ۔ اگر مرنا ہی ہے تو یہ اطمینان تو رہے کہ موت حق پر ناحق نہیں ۔ زندگی بے کار سہی مگر کسی کی زندگی کی قیمت پر نہیں۔
جیو تو اس طرح کہ زندگی کو رشک آئے
مر تو موت بھی کہے کہ کون مر گیا ہے یارو!
(ماورا کی تصحیح کے بعد )
ویسے تمہاری دفعہ ساری کسر نکالوں گا میں