جاسم بھائی آپ نے اپنی پوسٹ میں لکھا ہے کہ کسی بھی چیز کے غلط یا صحیح ہونے کا کوئی پیمانہ ہوتا ہے لیکن یہ پیمانے تو ہم مذہبی لوگوں کے لیے ہیں کسی لادین کو آپ ان پیمانوں کا کیسے پابند کریں گے۔ ایک ملحد جب کسی قسم کی اخلاقیات کو مانتا ہی نہیں ہے اور وہ اس کا فخریہ اظہار بھی کرتا ہے تو آپ اس سے کیسے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ یوسف ثانی صاحب کے اٹھائے گئے سوالات کے جوابات دے۔ مجھے یوسف ثانی صاحب کے اٹھائے گئے سوالات پر اعتراض نہیں انہوں نے بہت زبردست علمی اور قائل کرنے والے سوالات کئے ہیں لیکن اعتراض اس پر ہے کہ غلط شخص سے یہ سوالات کئے جارہے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمارے لئے قرآن کی یہ دو آیتیں کافی ہیں:
اذا خاطبھم الجاھلون قالوا سلامًا
لکم دینکم ولی دین
جہاں تک دین اسلام کا مذاق اڑانے سے دین کی افادیت واہمیت کم نہ ہونے کا تعلق ہے تو میرے علم کے مطابق اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اسے ایسے لادین کے سامنے پیش کیا جائے جسے اخلاقیات کے مفہوم کا بھی علم نہیں اور جو اخلاقی اقدار اپنی ٹھوکر پر رکھتا ہے۔ ایسے شخص سے گفتگو کرنا اور جواب میں خدا تعالی کی ذات اور دین اسلام کے خلاف مغلظات سننا کہاں کی عقل مندی ہے۔ بخاری شریف کی حدیث ہے کمی بیشی اللہ معاف فرمائے:
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ سب سے بڑا کبیرہ گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ کو گالی دے۔” لوگوں نے عرض کی کہ بھلا اپنے ماں باپ کو گالی کون دے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس طرح کہ کوئی شخص کسی کے باپ کو گالی دے اور وہ شخص (جس کو گالی دی گئی ہو جواب میں) اس (گالی دینے والے) کے باپ کو گالی دے .... اور یہ کسی کی ماں کو گالی دے اور وہ اس کے بدلے میں اس کی ماں کو گالی دے۔‘‘
مجھے اقرار ہے کہ یہاں یوسف ثانی صاحب نے ایسی کوئی بات نہیں کی جس کے جواب میں یہ خدشہ ہو کہ کچھ غلط سننے کو ملے گا۔ لیکن یہ وضاحت کئی بار کی جاچکی ہے کہ اصل مسئلہ مخاطب کا ہے کہ وہ کس مزاج کا حامل ہے۔ جہاں تک صحت مندانہ بحث کی بات ہے تو اس کے لئے یہ لڑی ملاحظہ کریں اور دیکھیں کہ اس میں ایک دوسرے کی بات کو کیسے برداشت کیا گیا ہے۔ میں ذاتی طور پر قادیانیت کے خلاف ہوں لیکن اس بحث میں رانا کو داد دوں گی کہ انہوں نے غلط ہوتے ہوئے بھی کس طرح برداشت کا مظاہرہ کیا گو آخر میں کچھ ذاتیات پر اتر آئے مگر بحیثیت مجموعی ان کا رویہ درست رہا۔
جاسم بھائی اس پوسٹ سے آپ کی بات رد کرنا مقصود نہیں بس تصویر کے دوسرے رخ کا رائے کے درجے میں اظہار کرنا تھا پھر بھی اگر میری کسی بات سے آپ کی دل آزاری ہوئی ہو تو معافی کی خواستگار ہوں۔
یعنی میرےکہنے کا مطلب تھا کہ ان شاءاللہ کوئی بھی ملحد تا قیامت اپنے خیالات اور نظریات کو لوجیکلی اور عقلی دلائل کے ساتھ صحیح ثابت نہیں کر سکتا، نہ کر سکا ہے۔۔۔تاکہ پھر کبھی کوئی شخص جو کہ Atheism سے متاثر ہونے جا رہا ہو، تو اسے بھی پتہ ہو کہ یہ Free Thinking والا کانسپٹ کہاں جا کر رک جاتا ہے
میرے خیال سے یوسف ثانی بھائی نے جو سوالات اٹھائے ہیں، ان کا جواب ملنا چاہئیے۔۔۔ کیونکہ کسی بھی چیز کے غلط یا صحیح ہونے کا کوئی پیمانہ ہوتا ہے۔ Atheist نے اگر نہیں ماننا تو نہ مانیں، پر انہیں چاہیے کہ ان سوالات کے جواب دیں جو یوسف ثانی بھائی نے اٹھائے ہیں، تاکہ پھر کبھی کوئی شخص جو کہ Atheism سے متاثر ہونے جا رہا ہو، تو اسے بھی پتہ ہو کہ یہ Free Thinking والا کانسپٹ کہاں جا کر رک جاتا ہے۔۔۔۔۔
دین اسلام کا مذاق اڑانے سے نہ تو اس کی افادیت کم ہو گی، نہ ہی اس کی اہمیت کم ہو گی۔ کیونکہ Atheist کے جو اعتراض میں نے پڑھے ہیں، وہ شخصی زیادہ ہیں۔۔۔۔ جنہیں وہ دین اسلام سے جوڑ رہے ہیں، اور یہ ٹھیک بات نہیں۔ کسی شخص کی غلط چیزوں کو دیکھ کر دین اسلام کو قصور وار ٹھہرانہ اچھی بات نہیں۔
گویا ان سوالات کے تا حال جواب نہیں ملے ۔ اصل میں بوجوہ دو ہفتہ بعد لاگ ان ہوا ہوں۔ آپ کا جواب دیکھ کر بقیہ صفحات دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔
میری ذاتی رائے میں جب بھی کوئی مسلمان، مرتد ہوتا ہے، ایتھیسٹ یا کوئی اور دین اختیار کرتا ہے تو اس کی وجوہات ذیل میں سے کوئی ایک یا اکثر ہوتی ہیں۔ ایسا کبھی بھی نہیں ہوتا کہ کسی بھی عقلی، منطقی، یا واقعاتی بنیادوں پر اسلام اور اسلام کی تعلیمات ایسے شخص کو "غلط" نظر آنے لگے۔
1) مرتد ہونے والے فرد کا نفس غیر اخلاقی حرکات کی طرف مائل ہو، لیکن اس کی "عقل" اسے یہ باور کرائے کہ اگر تم نے ایسا کیا تو سب لوگ تمہاری مذمت کریں گے۔ لہٰذا ایسا فرد اسلام ہی کو "غلط" کہ کر کوئی اور نظریہ اختیار کرلیتا ہے تاکہ اسے اس کی غلط حرکات پر کوئی روک ٹوک نہ سکے۔ جیسے شراب نوشی، حرام و حلال کا فرق، آزاد جنسی زندگی، ذاتی و مالی مفادات کے لئے ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کرنا وغیرہ وغیرہ
2) کسی غیر مسلم کے عشق میں مبتلا ہو نا۔ اور معشوق یا معشوقہ کی خاطر اپنے "دین کی قربانی" دینا
3) غیر مسلم سماج میں ترقی کی راہ مسدود پا کر ، اسلام ہی کو ترک کردینا ۔۔۔ تاکہ جملہ دنیوی سہولیات بلا تفریق مل سکے
4) بے دین لوگوں میں گھر جانا جو انہیں مختلف طریقوں سے دین سے دور لے جاتے ہیں
لہٰذامرتد ہونے والا فرد اپنی ان "اخلاقی کمزوریوں" پر پردہ ڈالنے کے لئے اسلام کے "مقابلہ" میں کسی اور نظریہ یا دین کو "اختیار" کرنے کا اعلان کردیتا ہے۔ وہ کبھی بھی عقلی یا منطقی بنیادوں پریہ نہیں ثابت کرسکتا کہ اس کا سابقہ دین (اسلام) غلط تھا اور موجودہ دہن یا نظریہ درست۔ ابھی تو میں نے صرف چند ہی سوالات اٹھائے تھے کہ ایتھیسٹ بھائی ہتھے سے اکھڑ گئے اور جواب کسی کا بھی نہیں دیا۔ ایسے بہت سے سوالات ھہیں جن کا کوئی بھی ملحد کبھی بھی جواب نہیں دے سکتا۔
ہمیشہ کی طرح مصروفیات کی وجہ سے یہ دھاگہ بھی نظروں سے اوجھل رہا ۔ مگر ابھی موقع ملا تو اس کے کچھ صفحات پڑھے ۔ ہمیشہ کی طرح یہاں پھر وہی روایتی رویہ کارفرما رہا جو عموماً مذہب کے معاملے میں کچھ ایسے اہلِ فکر کی طرف سے سامنے آتا ہے ۔ جہاں ہدایت و تلقین کیساتھ صبر وتحمل کا دامن چھوڑ کر اپنی مذہبی حمیت کو اہمیت دی جاتی ہے ۔ جیسا کہ عثمان نے کہا کہ ایسے معاملات میں اتنہائی باریک بینی ، نفسیاتی مطالعہ اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مگر جب ہم اپنی دلیل کو ضائع ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں تو پھر معاملات کو ایسے قوانین میں گھیسٹ لیتے ہیں ۔ جہاں مخالف کے لیئے حتمی حجت صرف آخرت کی سزا بن جاتی ہے ۔ اور اگر اس مقام پر کسی کے لیئے واپسی کا کوئی راستہ باقی بھی ہوتا ہے تو وہ بھی ناپید ہوجاتا ہے ۔ اور مخالف اپنے موقف پرمزید ڈٹ جاتا ہے ۔
عبداللہ کو میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں ۔ بہت ہی خوبصورت دل کا انسان ہے ۔ اور بہت کم عمر ہے ۔
زندگی مسلسل نشیب وفراز کا نام ہے۔ جس میں ایسے معاملات بھی آتے ہیں ۔ جن سے انسانی شخصیت اپنے مرکز سے ہٹ جاتی ہے ۔ انسان طرح طرح کے وہم و گمان کا شکار ہوجاتا ہے ۔ اگر انسانی رحجان مذہب کی جانب ہو تو اس میں شدت اور انتہا پسندی اس درجے گماں میں آجاتی ہے کہ اس کو جنت کے حصول کے لیئے کسی کی جان لیتے ہوئے بھی کوئی تردد محسوس نہیں ہوتا ۔ اور اگر مذہب سے دوری ہو تو ایسے حالات میں ٹارگٹ کلرز بن جاتا ہے ۔ اس میں درمیان کے لوگ دہریئے اور مختلف نظریات کے حامی بن جاتے ہیں ۔ جب ہم ہدایت و تلقین کا بیڑا اٹھاتے ہیں تو ہمیں چاہیئے کہ پہلے اچھی طرح مخالف کے حالات اور اس کی نفسیات سے آگاہ ہوجائیں ۔
میں نہیں سمجھتا کہ عبداللہ کوئی دہریہ یا کسی منفی نظریات و خیالات کا حامی ہے ۔
اس میں درمیان کے لوگ دہریئے اور مختلف نظریات کے حامی بن جاتے ہیں ۔ جب ہم ہدایت و تلقین کا بیڑا اٹھاتے ہیں تو ہمیں چاہیئے کہ پہلے اچھی طرح مخالف کے حالات اور اس کی نفسیات سے آگاہ ہوجائیں ۔
جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ وہ بھی اسی ذہنی ارتقاء کے عمل سے گذر رہا ہے جیسا کہ سب گذرتے ہیں ۔ ہاں ۔۔۔ حالات اور دیگر معاملات جن سے انسانی نفسیات متاثر ہوتی ہے ۔ اس کی نوعیت شاید عبداللہ کے ساتھ قدرے مختلف ہو ۔ میں یہاں کسی کے خلوص کو بھی موضوعِ تنقید نہیں بنا رہا ہوں ۔ مگر ہمارا خلوص اس وقت بے معنی اور بے وقعت ہوجاتا ہے ۔ جب ہم پس منظر کو نظر انداز کرکے اپنی ذہن میں تخلیق کی ہوئی تصویر سے مخالف کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس موضوع پر بہت بات ہوچکی میں مذید کیا لکھوں ۔
ایک تحریر بہت پہلے یہیں کہیں میں نے اردو محفل پر پوسٹ کی تھی ۔ میں یہاں دوبارہ پوسٹ کررہا ہوں ۔ شاید اس سے میری بات سمجھنے میں نہ صرف آسانی پیدا ہوسکے ، بلکہ عبداللہ کے پس منظر کو صحیح طور پر سمجھ کر ہم اللہ کی ذات کے بارے میں کوئی ایسی حجت پیش کرسکیں ۔ جس سے یہ پیچیدگی دور ہوجائے ۔ پیغمبروں نے عشروں پہ عشرے ہدایت و تلقین میں لگا دیئے اور ہم چند روز میں اس غریب کے پیچھے ڈنڈے لیکر پڑ گئے ۔
پوسٹ ملاحظہ ہو ۔
پہلے سمجھیئے پھر سمجھایئے
اختلافات اور ہمارے رویئے ۔ پہلے دوسروں کو سمجھیئے پھر سمجھایئے ۔
ٹرین کے اُس ڈبے میں ہر کوئی خاموشی سے سفر کر رہا تھا۔ اسی اثنا میں ٹرین ایک اسٹیشن پر رکی تو ایک صاحب اپنے چار بچوں کے ساتھ داخل ہوئے۔ بچوں نے آتے ہی اودھم مچانا شروع کر دیا جبکہ ان کا باپ آنکھیں بند کر کے اپنی سیٹ پر نیم دراز ہوگیا۔ بچوں کے شوروغل سے مسافر بہت پریشان ہوئے ہر کوئی یہ توقع کر رہا تھا کہ ان کا باپ مداخلت کر کے ان بچوں کو باز کرے گا مگر وہ بدستور اپنی دنیا میں مگن تھا۔ اس صورت حال میں ایک مسافر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اس نے کہا، جناب، توجہ فرمائیے، براہ کرم اپنے بچوں کو اپنے پاس بٹھائیے اور انہیں چیخ و پکار سے منع کیجیے۔ اسکی آواز سے بچوں کا باپ چونکا اور کہنے لگا، ہاں، ہاں شاید آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ مجھے ان کو واقعی منع کرنا چاہیے۔ اصل میں ہم سب ہسپتال سے آرہے ہیں۔ جہاں ابھی دو گھنٹے قبل ان کی ماں کا انتقال ہوگیا ہے۔ اور اصل میں ان بچوں کو بھی یہ سمجھ نہیں آرہا کہ انہیں کیا کرنا چاہیے ۔ مسافر کی اس بات کے ساتھ ہی اُس ڈبے کا ماحول یکسر بدل گیا۔ وہ لوگ جو پہلے اسے بیزاری سے دیکھ رہے تھے، اب اسے ہمدردی سے دیکھنے لگے اور کئی ایک نے تو یہ پیشکش بھی کی کہ وہ اس موقع پر اس کی کیا مدد کرسکتے ہیں۔ یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے اس بات کی کہ دوسرے کے حالات، واقعات اور خیالات نہ جاننے اور سمجھنے کی وجہ سے کس قدر غلط فہمی اور بدگمانی جنم لے سکتی ہے اور اگر یہ سب سمجھ لیا جائے تو پیش منظر اور ماحول کس طرح بدل جایا کرتا ہے۔
یہی وہ بات ہے جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت خوبصورت جملے میں بیان کر دیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ "جو تم اپنے لیے پسند نہیں کرتے وہ دوسرے کے لیے کیوں پسند کرتے ہو؟ "
۔۔شائستگی۔۔انہیں دوبارہ دین اسلام اختیار کی دعوت ضرور دی ہے لیکن اس میں بھی انہوں نے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ ان کے ہاتھ سے ناشائستگی کا دامن نہ چھوٹنے پائے۔
۔۔شائستگی۔۔
میرے خیال سے جتنے صبروتحمل سے جناب یوسف ثانی صاحب نے سوالات کئے ہیں اس کی مثال کم دیکھنے میں آتی ہے برخلاف atheist صاحب کے جنہوں نے اکثر سوالات کے جوابات (میری سمجھ کے مطابق) کافی سخت لہجے میں دیئے ہیں۔ دوسرے یہ کہ یوسف ثانی صاحب کے دلائل ایسے بھی نہیں تھے کہ کہیں ایسا محسوس ہوکہ ان کے دلائل ضائع ہورہے ہیں اور نہ انہوں نے حتمی حجت کے طور پر atheist صاحب پر آخرت کی سزا کا فتوی صادر کیا ہے۔یہ البتہ ضرور ہے کہ انہوں نے اپنی سمجھ کے مطابق atheist صاحب سے اپنے تئیں بھلائی کی نیت سے انہیں دوبارہ دین اسلام اختیار کی دعوت ضرور دی ہے لیکن اس میں بھی انہوں نے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ ان کے ہاتھ سے شائستگی کا دامن نہ چھوٹنے پائے۔
یہ بھی ہماری ہی سوچ کا شاخسانہ ہے کہ عمران نے براہِ راست اسلام کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔ اس نے صرف مذہب کی بات کی ہے ۔ چونکہ فورمز پر سب مسلم ہیں ۔ اسی وجہ سے سب نے اس کو اسلام کے تناظر میں دیکھا ۔ لہذا پھرسوالات بھی اس پس منظر میں ہوئے اور جوابات کو بھی اس زوایئے سے دیکھا گیا ۔ رہی دستخط والی بات تو وہ مذہب کے حوالے سے ہے ہی نہیں ۔ بلکہ وہ تو ایک ایسے ادارے کے خلاف ہے ۔ جس کو حرفِ عام میں ملائیت کہتے ہیں ۔ جیسے پاپائیت ہے ۔ جو لوگ اس ادارے سے وابستہ ہیں ۔ وہ سب ہماری طرح انسان ہیں ۔ ان سے بھی غلطیاں ہوتیں ہیں ۔ ان کے اپنے مفادات بھی ہوتے ہیں ۔ جہاں سے پھر اس ادارے کا اعتماد مجروع ہوتا ہے ۔ ہمارے ملک میں مولویوں کی سیاست اور اقتدار کے حوالے سے جو عزت ہے ۔ اس سے سب واقف ہیں ۔ اگر کوئی ان کے اس فعل ، منافقت اور طرزِ عمل کو برا کہتا ہے تو یہاں لاکھوں مسلمانوں کی دل آزاری کا سبب کہاں سے پیدا ہوگیا ۔ ؟کیا خوب صورت دل کے انسان ہونے کا پیمانہ دین اسلام اور خالق کائنات کا (نعوذ باللہ) مذاق اڑانا اور فساد والے دستخط لگاکر لاکھوں مسلمانوں کی دل آزاری کرنا ہے؟؟؟ اور جو ایسا نہیں کرتا اس کی شخصیت گویا اس کے برخلاف ہے؟؟
کیا کوئی دین اسلام چھوڑ کر مرتد ہوجائے تو اسے اس کے حال پر محض اس لئے چھوڑ دیا جائے کہ وہ بہت کم عمر ہے؟؟ کیا ہم پر اس ملحد کی اصلاح محض اس لئے فرض نہیں ہے کہ وہ بہت کم عمر ہے؟؟ میری ناقص عقل کے مطابق تو کم عمر اگر تباہی کے گڑھے میں گر رہا ہو تو ایسی صورت میں تو بزرگوں کا زیادہ فرض بنتا ہے کہ اسے اس سے پیار ومحبت اور دلائل سے سمجھا بجھا کر روکیں جیسے والدین بچوں کی غلطی پر انہیں روک ٹوک کرتے ہیں کبھی پیار محبت سے، کبھی سمجھا مناکر اور کبھی ناگزیر حالات میں اگر سختی بھی کرنا پڑے تو اس سے بھی دریغ نہیں کرتے کیوں کہ وہ اپنا برا بھلا اس طرح نہیں سمجھ سکتے جس طرح ان کے والدین سمجھتے ہیں۔
یہاں بھی آپ کو میری بات سمجھنے میں زبردست مغالطہ ہوا ہے ۔ میں نے عام زندگی کے نشیب و فراز کے حوالے سے بات کہی ہے کہ انسان پر ایسا بھی دور آتا ہے کہ انسانی نفسیات جس نکتہِ نظر سے متاثر ہوتی ہے ۔ وہاں شدت پسندی اس درجے غالب آجاتی ہے ( عوامل مختلف ہوسکتے ہیں ) کہ اگر وہ نکتہِ نظر مذہب یا مذہب سے دوری پر ختم ہو رہا ہے تو وہ اپنی نفسیاتی بگاڑ کی وجہ سے اپنی رائے کے سامنے ہر دلیل کو رد کردے گا ۔ اور یہی غلط فہمی اسے کسی بھی ایسے کام کے لیئے اکسا سکتی کہ جہاں وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہاں اس کی مذہبی جذبے یا ذاتی مفادات کی تسکین اور حصول کا سامان موجود ہے تو ایسے جذبے کا اطلاق مذہبی منافرت ، لوٹ کھسوٹ یا قتل و غارت کے لیئے استعمال ہوسکتاہے جہاں وہ ( اپنے نظریئے کے مطابق ) سمجھتا ہے کسی ایسےکو جینے کا بلکل حق نہیں ہے جس کا عقیدہ اور نظریات اس کے عقیدے اور نظریات سے متصادم ہو ۔ لہذا ایسے صورت جنت کا حصول ، لوٹ مار اور عام لوگوں کو بلاوجہ قتل کرنا ان کے نزدیک معمول کا کام بن جاتا ہے ۔اکثر لوگ بشمول فورم کے کئی ممبران کے مذہبی رجحان رکھتے ہیں تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ یہ سب لوگ جنت کے حصول کے لئے کسی کی بھی جان بھی لے سکتے ہیں؟؟ایسا ہی اس کے برعکس کہ تمام مذہب سے دور لوگ ٹارگٹ کلرز ہیں؟؟
ممکن ہے ۔۔۔۔ جب آپ ( اپنے ) ایک خاص مذہب کی اساسی بنیادوں کے بارے میں شک و شہبات کا شکار ہیں تو ظاہر ہے آپ کا رحجان کسی اور نظریات کی طرف ہوجائیگا ۔ اور جب وہ نظریہ اپنے دلائل اور استدلال کی بنیاد پر آپ کو متاثر کرے گا ۔ تو آپ اس کو تسلیم کریں گے ۔ جب آپ تسلیم کریں گے تو آپ اسے درمیانی کیفیت سے نکل کر ایک نئے نظریئے کا حامی بن جائینگے ۔ اب وہ نظریہ کوئی بھی ہوسکتا ہے ۔کیا مذہبی رجحان اور مذہب سے دوری کے درمیان کی کیفیت اپنے دین کو چھوڑ کر دہریہ ہونا اور دوسرے نظریات کا حامل ہونا ہے؟؟
کیا انٹرویو کسی شخص (مخالف) کے مکمل یا اکثر حالات جاننے کا نام نہیں ہے؟؟ اور کیا اس انٹرویو میں مختلف لوگوں کی طرف سےمختلف سوالات کی صورت میں مخالف کے حالات جاننے کی سعی نہیں کی گئی؟؟
اس سلسلے میں یوسف صاحب کی سب سے پہلی تحریر یہ تھی ۔کیا یوسف ثانی صاحب نے ہدایت وتلقین کا بیڑا اٹھانے سے پہلے شروع میں بالکل دوستانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے مخالف کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی تھی؟؟ اور اس سلسلے میں انہوں نے ہی پہل کرتے ہوئے کیا یہ تحریر نہیں کیا کہ فی الحال مذہب کو ایک طرف رکھ کر بات کریں گے؟؟
اس ٹاپک پر کچھ دوستوں نے جمیل فخری کے لیئے ایصالِ ثواب کی دعا پر مخالف کو متوجہ کیا ہے ۔ آپ بھی وہ تبصرہ پڑھیئے ۔قبل ازیں یہ بات کہی گئی کہ:
اپنے دہریہ ہونے کے دلائل دینا اور بحث کرنا اسی نفسیات کا حصہ ہے جس کے پس منظر کے بارے میں آپ نہیں جانتیں ( جیسا کہ آپ نے کہا ) ۔ اس بات کو جاننے کے لیئے آپ طالوت کی پوسٹ نمبر 192 پڑھیئے ۔ طالوت کی عمران سے ملاقات ہوچکی ہے ۔ ان کا وہ جملہ آپ پر کئی حقیقتیں آشکار کردیگا ۔اب ان دونوں میں سے کس بات کو درست مانا جائے؟
دوسرے یہ کہ ایک شخص کھلم کھلا اپنے دہریہ ہونے کا فخریہ اظہار کرتا ہے اور اپنے دہریہ ہونے کےحق میں دلائل بھی دیتا ہے اور بحث بھی کرتا ہے، حتی کہ اپنی آئی ڈی بھی atheist رکھتا ہے پھر اس کے دہریہ ہونے میں کسی کو کیا شک ہوسکتا ہے؟؟
کم از کم میرے علم میں atheist صاحب کا ایسا کوئی پس منظر نہیں ہے جس کے تحت ان کے خیالات ونظریات اور نفسیات متاثر ہوئی اور مجھے یقین ہے کہ یوسف ثانی صاحب کے علم میں بھی ایسا کوئی پس منظر نہیں ہوگا۔ اس لئے کم از کم میرے نزدیک یوسف ثانی صاحب کا خلوص بے وقعت اور بے معنی ہرگز نہیں ہے۔
جہاں تک پس منظر نظر انداز کرنے کی بات ہے تو اس انٹرویو میں یوسف ثانی صاحب اور ایک دو اور ساتھیوں نے بھی ابتداء میں پس منظر جاننے کی کوششیں کیں اور اس غرض سے مختلف الجہت سوالات کرکے انہیں بار بار کریدنے کی سعی کی گئی مگر ایسا کوئی پس منظر سامنے نہ آنے کے بعد اصلاح کی کوششیں کی گئیں۔
یہاں بھی آپ کو میری مثال کو سمجھنے میں زبردست غلطی لگی ہے ۔ میں نے وہاں ایک اجتماعی اخلاقی غلطی کی طرف نشان دہی کی ہے ۔ جبکہ آپ نے اسے فسادِ الرضایسی ہی مثالیں 90 کی دہائی کی پنچابی فلموں میں بھی بہت تھیں کہ ایک غنڈہ کشتوں کے پشتے لگاتا جاتا ہے بات بات پر قتل کردیتا ہے، اخلاقیات چھوکر بھی اسے نہیں گزری ہوتیں اور پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس غنڈے کے سامنے بے بس ہوتے ہیں۔ لیکن فلم کی دلچسپ بات یہ ہوتی تھی کہ وہی غنڈہ فلم کا مرکزی کردار ہوتا ہے اور فلم کے درمیان میں جب اس کا پس منظر معلوم ہوتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ غنڈہ تو پہلے انتہائی شریف انسان تھا بعد میں حالات نے اسے ایسا بنادیا۔
یہ تو خیر فلم کی مثال تھی لیکن اگر کہیں حقیقت میں بھی حالات کا مارا کوئی شخص ہتھیار اٹھاکر کسی کی ہتھیا کرلے تو کیا دنیا کا کوئی بھی قانون اسے محض اس بناء پر معاف کردے گا کہ اسے اس پر حالات نے مجبور کیا؟؟
ظفری بھائی میری اس پوسٹ کا مطلب آپ پر تنقید کرنا ہرگز ہرگز نہیں ہے بس اس ضمن میں کچھ سوالات ذہن میں آئے تو اسے حوالہ فورم کردیا۔ میری کوئی بات بری لگی ہو تو دست بستہ معافی کی خواست گار ہوں۔ امید واثق ہے اسے کہ ایک ناسمجھ وناتجربہ کار مبتدی کی بچگانہ حرکت پر محمول کرتے ہوئے صرف نظر فرماکر اعلی ظرفی کا ثبوت دیں گے۔
چونکہ محفل میں ہر ایک کو اپنی رائے کی آزادی کا حق ہے لہذا میں بھی اپنی ناقص سمجھ کے مطابق اپنی رائے کے اظہار کی جسارت کر رہی ہوں۔ امید ہے کہ منتظمین اور اہل محفل اسے کھلے دل سے تسلیم کریں گے۔ میں اپنی رائے کسی پر مسلط کرنا نہیں چاہتی اور یہ بھی ضروری نہیں کہ میری رائے سو فیصد درست ہو بلکہ عین ممکن ہے کہ میں غلطی پر ہوں لیکن زیک بھائی کی پوسٹ ’’ اگر ظفری کی تحریر پڑھنے سے کام نہ بنے تو کئ بار لکھنے کی مشق کریں۔‘‘ کی ہدایت کی روشنی میں میں نے دوبارہ ظفری بھائی کی پوسٹ کو غور سے پڑھا اس کی روشی میں کچھ سوالات ذہن میں ابھرے جنہیں لکھنے کی جسارت کرہی ہوں امید ہے کہ ہمیشہ کی طرح وسعت قلبی وشفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے میری اس جسارت کا برا نہیں منایا جائے گا۔ میری اس پوسٹ سے (خاکم بدہن) کسی کی دل آزاری مقصود نہیں نہ ہی کسی کو تنقید کا نشانہ بنانا مقصود ہے پھر بھی اگر کہیں نادانستگی میں کوئی گستاخی سرزد ہوجائے تو اس کے لئے پیشگی معذرت کی خواست گار ہوں۔ امید ہے کہ میری اس جسارت کو میری بچپنے کی نادانی پر محمول کرکے اس سے صرف نظر کیا جائے گا۔
میرے خیال سے جتنے صبروتحمل سے جناب یوسف ثانی صاحب نے سوالات کئے ہیں اس کی مثال کم دیکھنے میں آتی ہے برخلاف Atheist صاحب کے جنہوں نے اکثر سوالات کے جوابات (میری سمجھ کے مطابق) کافی سخت لہجے میں دیئے ہیں۔ دوسرے یہ کہ یوسف ثانی صاحب کے دلائل ایسے بھی نہیں تھے کہ کہیں ایسا محسوس ہوکہ ان کے دلائل ضائع ہورہے ہیں اور نہ انہوں نے حتمی حجت کے طور پر Atheist صاحب پر آخرت کی سزا کا فتوی صادر کیا ہے۔یہ البتہ ضرور ہے کہ انہوں نے اپنی سمجھ کے مطابق Atheist صاحب سے اپنے تئیں بھلائی کی نیت سے انہیں دوبارہ دین اسلام اختیار کی دعوت ضرور دی ہے لیکن اس میں بھی انہوں نے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ ان کے ہاتھ سے شائستگی کا دامن نہ چھوٹنے پائے۔
کیا خوب صورت دل کے انسان ہونے کا پیمانہ دین اسلام اور خالق کائنات کا (نعوذ باللہ) مذاق اڑانا اور فساد والے دستخط لگاکر لاکھوں مسلمانوں کی دل آزاری کرنا ہے؟؟؟ اور جو ایسا نہیں کرتا اس کی شخصیت گویا اس کے برخلاف ہے؟؟
کیا کوئی دین اسلام چھوڑ کر مرتد ہوجائے تو اسے اس کے حال پر محض اس لئے چھوڑ دیا جائے کہ وہ بہت کم عمر ہے؟؟ کیا ہم پر اس ملحد کی اصلاح محض اس لئے فرض نہیں ہے کہ وہ بہت کم عمر ہے؟؟ میری ناقص عقل کے مطابق تو کم عمر اگر تباہی کے گڑھے میں گر رہا ہو تو ایسی صورت میں تو بزرگوں کا زیادہ فرض بنتا ہے کہ اسے اس سے پیار ومحبت اور دلائل سے سمجھا بجھا کر روکیں جیسے والدین بچوں کی غلطی پر انہیں روک ٹوک کرتے ہیں کبھی پیار محبت سے، کبھی سمجھا مناکر اور کبھی ناگزیر حالات میں اگر سختی بھی کرنا پڑے تو اس سے بھی دریغ نہیں کرتے کیوں کہ وہ اپنا برا بھلا اس طرح نہیں سمجھ سکتے جس طرح ان کے والدین سمجھتے ہیں۔
اکثر لوگ بشمول فورم کے کئی ممبران کے مذہبی رجحان رکھتے ہیں تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ یہ سب لوگ جنت کے حصول کے لئے کسی کی بھی جان بھی لے سکتے ہیں؟؟ایسا ہی اس کے برعکس کہ تمام مذہب سے دور لوگ ٹارگٹ کلرز ہیں؟؟
کیا مذہبی رجحان اور مذہب سے دوری کے درمیان کی کیفیت اپنے دین کو چھوڑ کر دہریہ ہونا اور دوسرے نظریات کا حامل ہونا ہے؟؟
کیا انٹرویو کسی شخص (مخالف) کے مکمل یا اکثر حالات جاننے کا نام نہیں ہے؟؟ اور کیا اس انٹرویو میں مختلف لوگوں کی طرف سےمختلف سوالات کی صورت میں مخالف کے حالات جاننے کی سعی نہیں کی گئی؟؟
کیا یوسف ثانی صاحب نے ہدایت وتلقین کا بیڑا اٹھانے سے پہلے شروع میں بالکل دوستانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے مخالف کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی تھی؟؟ اور اس سلسلے میں انہوں نے ہی پہل کرتے ہوئے کیا یہ تحریر نہیں کیا کہ فی الحال مذہب کو ایک طرف رکھ کر بات کریں گے؟؟
[
قبل ازیں یہ بات کہی گئی کہ:
اب ان دونوں میں سے کس بات کو درست مانا جائے؟
دوسرے یہ کہ ایک شخص کھلم کھلا اپنے دہریہ ہونے کا فخریہ اظہار کرتا ہے اور اپنے دہریہ ہونے کےحق میں دلائل بھی دیتا ہے اور بحث بھی کرتا ہے، حتی کہ اپنی آئی ڈی بھی Atheist رکھتا ہے پھر اس کے دہریہ ہونے میں کسی کو کیا شک ہوسکتا ہے؟؟
کم از کم میرے علم میں Atheist صاحب کا ایسا کوئی پس منظر نہیں ہے جس کے تحت ان کے خیالات ونظریات اور نفسیات متاثر ہوئی اور مجھے یقین ہے کہ یوسف ثانی صاحب کے علم میں بھی ایسا کوئی پس منظر نہیں ہوگا۔ اس لئے کم از کم میرے نزدیک یوسف ثانی صاحب کا خلوص بے وقعت اور بے معنی ہرگز نہیں ہے۔
جہاں تک پس منظر نظر انداز کرنے کی بات ہے تو اس انٹرویو میں یوسف ثانی صاحب اور ایک دو اور ساتھیوں نے بھی ابتداء میں پس منظر جاننے کی کوششیں کیں اور اس غرض سے مختلف الجہت سوالات کرکے انہیں بار بار کریدنے کی سعی کی گئی مگر ایسا کوئی پس منظر سامنے نہ آنے کے بعد اصلاح کی کوششیں کی گئیں۔
ہدایت وتلقین صرف یوسف ثانی صاحب کررہے تھے اور دیگر تقریبا تمام ساتھی خاموشی سے یہ مکالمہ پڑھ رہے تھے لیکن بعد میں چند باتیں ایسی ہوگئیں جس سے مجھ سمیت کچھ ساتھیوں کے مذہبی جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی اور انہوں نے محض اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا اور میرے خیال میں یہ ان کا حق تھا۔ اس سلسلہ میں ہوسکتا ہے کہ ذاتی طور پر میں کچھ زیادہ جذباتی ہوگئی ہوں اور کچھ سخت الفاظ تحریر ہوگئے ہوں لیکن اس میں بھی میں نے گلہ یوسف ثانی صاحب سے ہی کیا ہے لیکن پھر بھی اپنی حد تک میں اپنی ان سخت باتوں کی معافی چاہتی ہوں۔
ایسی ہی مثالیں 90 کی دہائی کی پنچابی فلموں میں بھی بہت تھیں کہ ایک غنڈہ کشتوں کے پشتے لگاتا جاتا ہے بات بات پر قتل کردیتا ہے، اخلاقیات چھوکر بھی اسے نہیں گزری ہوتیں اور پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس غنڈے کے سامنے بے بس ہوتے ہیں۔ لیکن فلم کی دلچسپ بات یہ ہوتی تھی کہ وہی غنڈہ فلم کا مرکزی کردار ہوتا ہے اور فلم کے درمیان میں جب اس کا پس منظر معلوم ہوتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ غنڈہ تو پہلے انتہائی شریف انسان تھا بعد میں حالات نے اسے ایسا بنادیا۔
یہ تو خیر فلم کی مثال تھی لیکن اگر کہیں حقیقت میں بھی حالات کا مارا کوئی شخص ہتھیار اٹھاکر کسی کی ہتھیا کرلے تو کیا دنیا کا کوئی بھی قانون اسے محض اس بناء پر معاف کردے گا کہ اسے اس پر حالات نے مجبور کیا؟؟
میری ناقص عقل کے مطابق مجھے یقین ہے کہ یہی حدیث یوسف ثانی صاحب کے بھی پیش نظر ہوگی اور چونکہ وہ اپنے لئے الحاد پسند نہیں کرتے لہذا ان کی ایمانی غیرت یہ گورا نہیں کرسکی کہ وہ اس کو ایک (سابقہ) مسلمان بھائی کے لئے پسند کریں۔
ظفری بھائی میری اس پوسٹ کا مطلب آپ پر تنقید کرنا ہرگز ہرگز نہیں ہے بس اس ضمن میں کچھ سوالات ذہن میں آئے تو اسے حوالہ فورم کردیا۔ میری کوئی بات بری لگی ہو تو دست بستہ معافی کی خواست گار ہوں۔ امید واثق ہے اسے کہ ایک ناسمجھ وناتجربہ کار مبتدی کی بچگانہ حرکت پر محمول کرتے ہوئے صرف نظر فرماکر اعلی ظرفی کا ثبوت دیں گے۔
میں اس بحث کے حوالے سے اپنا بھی نکتہِ نظر وضع کردوں ۔
یہ بہت واضع بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وجود سے انکار عقلی دلائل کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا۔ جو لوگ ایسی کوششیں کرتے ہیں یا تو وہ خدا کے وجود پر پیش کئے گئے دلائل کو اپنی کمزور دلیلوں سے رد کرنے کوشش میں مصروف نظر آئیں گے یا پھر ڈارون کے نظریے جیسے بودے دلائل پیش کرتے نظر آئیں گے۔
دراصل جب کوئی خدا کو تسلیم کر تا ہے تو اس کے نتیجے میں انسان پر کچھ اخلاقی ذمہ داریاں لاگو ہوجاتیں ہیں۔ صرف خدا کو مان لینا محض ایک فلسفیانہ اور مذہبی اقرار نہیں ہے ۔ بلکہ اس کے نتیجے میں ایک معقول شخص کو اللہ اور اس کی جزا و سزا کو ماننا پڑتا ہے۔ اور اس قانون کے سامنے انسان اپنا سرِ خم تسلیم کرلے تو پھر زندگی کو خدا کے بنائے ہوئے اصولوں اور قوانین کے تحت گذارنا پڑتا ہے لہذا جو بے لگام آزادی کے علمبردار ہوتے ہیں۔ وہ ان پابندیوں کے لئے تیار نہیں ہوتے ۔ چنانچہ پھر ایسے نظریات اور عقائد پروان چڑھنے لگتے ہیں ۔ جن کی کوئی عقلی دلیل نہیں ہوتی ۔ مگر جو لوگ کسی حادثے یا کسی تلخ تجربے کی وجہ سے دین سے متنفر ہوجاتے ہیں ۔ ان کی دل جوئی سے دوبارہ ان کو دین کی طرف راغب کیا جاسکتا ہے ۔ مگر عموماً ہم ان دو قسم کے رحجانات میں فرق کر نہیں پاتے ۔ اور پہلی قسم کے لوگوں سے بحث کے اصولوں کو دوسری قسم کے لوگوں پر لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جس سے پیچیدگیاں پیدا ہوتیں ہیں ۔ اور معاملات خراب ہوجاتے ہیں ۔ یہی رویہ ہم نے قادیانیوں کے ساتھ بھی روا رکھا ۔ جب ہم نے دیکھا کہ انہوں نے ایک جھوٹی نبوت کا اقرار کرلیا ہے تو بجائے اس کے کہ ہم ان کی توجہ ان کی غلطی کی جانب صبر و تحمل سے دلاتے ہم نے تشدد کا راستہ اختیار کرلیا ۔ جس کے نتیجے میں وہ اپنے موقف پر اور بھی ڈٹ گئے ۔ اور ان کی آئندہ نسلیں بھی دین سے دور ہوگئیں ۔ ہم نے انہیں اپنے مرکز سے نکال کر دین میں ان کی واپسی کی تمام راہیں تقریباً معدوم کردیں ۔ اور انہوں نے دیارِ غیر میں جاکر نہ صرف اپنے مذہب کو اور بھی منظم کیا بلکہ اپنے مذہب کے پرچار کے لیئے ضرورتِ زمانہ کی ہر آسائش سے لیس بھی ہوگئے ۔