انٹرویو انٹرویو وِد Atheist

شمشاد

لائبریرین
عثمان بھائی اتنا مجھے معلوم ہے کہ ان کا اصلی نام عمران ہی ہے۔ پہلے اردو محفل پر ان کی پہچان عبد اللہ 007 تھی۔
 

عثمان

محفلین
اردو بلاگستان میں بھی یہ عبداللہ کے نام سے پائے جاتے ہیں۔ اور راسخ العقیدہ مسلمان معلوم ہوتے ہیں۔
شائد اہل محفل سے چھیڑ خانی کے واسطے انھوں نے نیا روپ دھارا ہے۔ غالبا مجھے تو یہی معلوم ہوتا ہے۔
 
گفتگو یہ رخ اختیار کرے گی، اس کا میں نے سوچا بھی نہ تھا، میرا مقصد کسی کی دل آزاری نہ تھا بس اپنے جذبات منتظمین وجملہ اراکین تک پہنچانا مقصود تھا۔ یہ بھی غالبا اس لیے کہ نشانہ میری ذات نہیں بلکہ میرے دین اور خالق کائنات کے بارے میں تضحیک آمیز انداز میری ایمانی غیرت برداشت نہیں کرسکی۔
اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو اور ہمیں ایک اور نیک بنائے آمین
 

جاسم

محفلین
جاسم بھائی آپ نے اپنی پوسٹ میں لکھا ہے کہ کسی بھی چیز کے غلط یا صحیح ہونے کا کوئی پیمانہ ہوتا ہے لیکن یہ پیمانے تو ہم مذہبی لوگوں کے لیے ہیں کسی لادین کو آپ ان پیمانوں کا کیسے پابند کریں گے۔ ایک ملحد جب کسی قسم کی اخلاقیات کو مانتا ہی نہیں ہے اور وہ اس کا فخریہ اظہار بھی کرتا ہے تو آپ اس سے کیسے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ یوسف ثانی صاحب کے اٹھائے گئے سوالات کے جوابات دے۔ مجھے یوسف ثانی صاحب کے اٹھائے گئے سوالات پر اعتراض نہیں انہوں نے بہت زبردست علمی اور قائل کرنے والے سوالات کئے ہیں لیکن اعتراض اس پر ہے کہ غلط شخص سے یہ سوالات کئے جارہے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمارے لئے قرآن کی یہ دو آیتیں کافی ہیں:
اذا خاطبھم الجاھلون قالوا سلامًا
لکم دینکم ولی دین
جہاں تک دین اسلام کا مذاق اڑانے سے دین کی افادیت واہمیت کم نہ ہونے کا تعلق ہے تو میرے علم کے مطابق اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اسے ایسے لادین کے سامنے پیش کیا جائے جسے اخلاقیات کے مفہوم کا بھی علم نہیں اور جو اخلاقی اقدار اپنی ٹھوکر پر رکھتا ہے۔ ایسے شخص سے گفتگو کرنا اور جواب میں خدا تعالی کی ذات اور دین اسلام کے خلاف مغلظات سننا کہاں کی عقل مندی ہے۔ بخاری شریف کی حدیث ہے کمی بیشی اللہ معاف فرمائے:
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ سب سے بڑا کبیرہ گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ کو گالی دے۔” لوگوں نے عرض کی کہ بھلا اپنے ماں باپ کو گالی کون دے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس طرح کہ کوئی شخص کسی کے باپ کو گالی دے اور وہ شخص (جس کو گالی دی گئی ہو جواب میں) اس (گالی دینے والے) کے باپ کو گالی دے .... اور یہ کسی کی ماں کو گالی دے اور وہ اس کے بدلے میں اس کی ماں کو گالی دے۔‘‘
مجھے اقرار ہے کہ یہاں یوسف ثانی صاحب نے ایسی کوئی بات نہیں کی جس کے جواب میں یہ خدشہ ہو کہ کچھ غلط سننے کو ملے گا۔ لیکن یہ وضاحت کئی بار کی جاچکی ہے کہ اصل مسئلہ مخاطب کا ہے کہ وہ کس مزاج کا حامل ہے۔ جہاں تک صحت مندانہ بحث کی بات ہے تو اس کے لئے یہ لڑی ملاحظہ کریں اور دیکھیں کہ اس میں ایک دوسرے کی بات کو کیسے برداشت کیا گیا ہے۔ میں ذاتی طور پر قادیانیت کے خلاف ہوں لیکن اس بحث میں رانا کو داد دوں گی کہ انہوں نے غلط ہوتے ہوئے بھی کس طرح برداشت کا مظاہرہ کیا گو آخر میں کچھ ذاتیات پر اتر آئے مگر بحیثیت مجموعی ان کا رویہ درست رہا۔
جاسم بھائی اس پوسٹ سے آپ کی بات رد کرنا مقصود نہیں بس تصویر کے دوسرے رخ کا رائے کے درجے میں اظہار کرنا تھا پھر بھی اگر میری کسی بات سے آپ کی دل آزاری ہوئی ہو تو معافی کی خواستگار ہوں۔

نہیں نہیں سسٹر، آپ نے بالکل صحیح نشاندہی کی۔ اصل میں شاید میں جلدی میں اپنی پوری بات نہیں کر سکا۔ تھوڑی سی وضاحت میں نے کی تھی کہ
تاکہ پھر کبھی کوئی شخص جو کہ Atheism سے متاثر ہونے جا رہا ہو، تو اسے بھی پتہ ہو کہ یہ Free Thinking والا کانسپٹ کہاں جا کر رک جاتا ہے
یعنی میرےکہنے کا مطلب تھا کہ ان شاءاللہ کوئی بھی ملحد تا قیامت اپنے خیالات اور نظریات کو لوجیکلی اور عقلی دلائل کے ساتھ صحیح ثابت نہیں کر سکتا، نہ کر سکا ہے۔۔۔
باقی میں آپ کی باتوں سے متفق ہوں۔۔۔۔ :)
 

عثمان

محفلین
ملحدین و متشککین کو کچھ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ، ثابت کرنے کا بار مذہب کے پیروکاروں کے سر ہے۔ اور عقائد بھی کیا کبھی سو فیصد عقلی و منطقی طور پر ثابت ہوسکتے ہیں؟
 

ظفری

لائبریرین
ہمیشہ کی طرح مصروفیات کی وجہ سے یہ دھاگہ بھی نظروں سے اوجھل رہا ۔ مگر ابھی موقع ملا تو اس کے کچھ صفحات پڑھے ۔ ہمیشہ کی طرح یہاں پھر وہی روایتی رویہ کارفرما رہا جو عموماً مذہب کے معاملے میں کچھ ایسے اہلِ فکر کی طرف سے سامنے آتا ہے ۔ جہاں ہدایت و تلقین کیساتھ صبر وتحمل کا دامن چھوڑ کر اپنی مذہبی حمیت کو اہمیت دی جاتی ہے ۔ جیسا کہ عثمان نے کہا کہ ایسے معاملات میں اتنہائی باریک بینی ، نفسیاتی مطالعہ اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مگر جب ہم اپنی دلیل کو ضائع ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں تو پھر معاملات کو ایسے قوانین میں گھیسٹ لیتے ہیں ۔ جہاں مخالف کے لیئے حتمی حجت صرف آخرت کی سزا بن جاتی ہے ۔ اور اگر اس مقام پر کسی کے لیئے واپسی کا کوئی راستہ باقی بھی ہوتا ہے تو وہ بھی ناپید ہوجاتا ہے ۔ اور مخالف اپنے موقف پرمزید ڈٹ جاتا ہے ۔ عبداللہ کو میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں ۔ بہت ہی خوبصورت دل کا انسان ہے ۔ اور بہت کم عمر ہے ۔ زندگی مسلسل نشیب و فراز کا نام ہے ۔ جس میں ایسے معاملات بھی آتے ہیں ۔ جن سے انسانی شخصیت اپنے مرکز سے ہٹ جاتی ہے ۔ انسانی نفسیات متاثر ہوکر طرح طرح کے وہم و گمان کا شکار ہوجاتی ہے ۔ اگر ایسی حالت میں انسانی رحجان مذہب کی جانب ہو تو اس میں شدت اور انتہا پسندی اس درجے گمان میں آجاتی ہے کہ اس کو جنت کے حصول کے لیئے کسی کی جان لیتے ہوئے ذرا سا بھی تردد محسوس نہیں ہوتا ۔ اور اگر مذہب سے دوری حائل ہو تو ایسے حالات میں ٹارگٹ کلرز بن جاتا ہے ۔ درمیان کے لوگ دہریئے اور مختلف نظریات کے حامی بن جاتے ہیں ۔ جب ہم ہدایت و تلقین کا بیڑا اٹھاتے ہیں تو ہمیں چاہیئے کہ پہلے ہم اچھی طرح مخالف کے حالات اور اس کی نفسیات سے آگاہ ہوجائیں ۔ میں نہیں سمجھتا کہ عبداللہ کوئی دہریہ یا کسی منفی نظریات و خیالات کا حامی ہے ۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ وہ بھی اسی ذہنی ارتقاء کے عمل سے گذر رہا ہے جیسا کہ سب گذرتے ہیں ۔ ہاں ۔۔۔ حالات اور دیگر معاملات جن سے انسانی نفسیات متاثر ہوتی ہے ۔ اس کی نوعیت شاید عبداللہ کے ساتھ قدرے مختلف ہو ۔ میں یہاں کسی کے خلوص کو بھی موضوعِ تنقید نہیں بنا رہا ۔ مگر ہمارا خلوص اس وقت بے معنی اور بے وقعت ہوجاتا ہے ۔ جب ہم پس منظر کو نظر انداز کرکے اپنی ذہن میں تخلیق کی ہوئی تصویر سے مخالف کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس موضوع پر بہت بات ہوچکی میں مذید کیا لکھوں ۔
ایک تحریر بہت پہلے یہیں کہیں میں نے اردو محفل پر پوسٹ کی تھی ۔ میں یہاں دوبارہ پوسٹ کررہا ہوں ۔ شاید اس سے میری بات سمجھنے میں نہ صرف آسانی پیدا ہوسکے ، بلکہ عبداللہ کے پس منظر کو صحیح طور پر سمجھ کر ہم اللہ کی ذات کے بارے میں کوئی ایسی حجت پیش کرسکیں ۔ جس سے یہ پیچیدگی دور ہوجائے ۔ پیغمبروں نے عشروں پہ عشرے ہدایت و تلقین میں لگا دیئے اور ہم چند روز میں اس غریب کے پیچھے لٹھ لیکر پڑ گئے ۔ پوسٹ ملاحظہ ہو ۔

پہلے سمجھیئے پھر سمجھایئے
اختلافات اور ہمارے رویئے ۔ پہلے دوسروں کو سمجھیئے پھر سمجھایئے ۔

ٹرین کے اُس ڈبے میں ہر کوئی خاموشی سے سفر کر رہا تھا۔ اسی اثنا میں ٹرین ایک اسٹیشن پر رکی تو ایک صاحب اپنے چار بچوں کے ساتھ داخل ہوئے۔ بچوں نے آتے ہی اودھم مچانا شروع کر دیا جبکہ ان کا باپ آنکھیں بند کر کے اپنی سیٹ پر نیم دراز ہوگیا۔ بچوں کے شوروغل سے مسافر بہت پریشان ہوئے ہر کوئی یہ توقع کر رہا تھا کہ ان کا باپ مداخلت کر کے ان بچوں کو باز کرے گا مگر وہ بدستور اپنی دنیا میں مگن تھا۔ اس صورت حال میں ایک مسافر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اس نے کہا، جناب، توجہ فرمائیے، براہ کرم اپنے بچوں کو اپنے پاس بٹھائیے اور انہیں چیخ و پکار سے منع کیجیے۔ اسکی آواز سے بچوں کا باپ چونکا اور کہنے لگا، ہاں، ہاں شاید آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ مجھے ان کو واقعی منع کرنا چاہیے۔ اصل میں ہم سب ہسپتال سے آرہے ہیں۔ جہاں ابھی دو گھنٹے قبل ان کی ماں کا انتقال ہوگیا ہے۔ اور اصل میں ان بچوں کو بھی یہ سمجھ نہیں آرہا کہ انہیں کیا کرنا چاہیے ۔ مسافر کی اس بات کے ساتھ ہی اُس ڈبے کا ماحول یکسر بدل گیا۔ وہ لوگ جو پہلے اسے بیزاری سے دیکھ رہے تھے، اب اسے ہمدردی سے دیکھنے لگے اور کئی ایک نے تو یہ پیشکش بھی کی کہ وہ اس موقع پر اس کی کیا مدد کرسکتے ہیں۔ یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے اس بات کی کہ دوسرے کے حالات، واقعات اور خیالات نہ جاننے اور سمجھنے کی وجہ سے کس قدر غلط فہمی اور بدگمانی جنم لے سکتی ہے اور اگر یہ سب سمجھ لیا جائے تو پیش منظر اور ماحول کس طرح بدل جایا کرتا ہے۔

ہمارے گھروں، اداروں اور معاشرے میں بہت سی غلط فہمیاں، جھگڑے، مسائل محض اس بات کا شاخسانہ ہوتے ہیں کہ ہم نے اپنے مدمقابل یا مخاطب کو سمجھانے سے قبل کما حقہ سمجھا نہیں ہوتا۔ اس لیے معاشرتی امن اور محبت کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ ہم دوسروں کو سمجھانے سے قبل خود ان کو سمجھیں۔ ورنہ سمجھانا مسائل کو حل کرنے کے بجائے بڑھانے کا باعث بن جائے گا۔ جب تک ہم اس بات سے آگاہ نہ ہوں کہ ہمارا مخاطب ذہنی طور پر کس مقام پر کھڑا ہے اور وہ کن مسائل میں گھرا ہوا ہے، ہمارا سمجھانا نہ صرف ایک کارِ عبث ہوتا ہے بلکہ بعض حالات میں صورت حال کو بگاڑنے کا باعث بھی بنتا ہے۔ جب آپ خود یہ چاہتے ہیں کہ دوسرے آپ کو اور آپ کے نقطہ نظر کو سمجھیں تو بعینہ یہی توقع دوسرے بھی آپ سے کرتے ہیں اور یہی وہ بات ہے جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت خوبصورت جملے میں بیان کر دیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ "جو تم اپنے لیے پسند نہیں کرتے وہ دوسرے کے لیے کیوں پسند کرتے ہو؟ "
 

یوسف-2

محفلین
میرے خیال سے یوسف ثانی بھائی نے جو سوالات اٹھائے ہیں، ان کا جواب ملنا چاہئیے۔۔۔ کیونکہ کسی بھی چیز کے غلط یا صحیح ہونے کا کوئی پیمانہ ہوتا ہے۔ Atheist نے اگر نہیں ماننا تو نہ مانیں، پر انہیں چاہیے کہ ان سوالات کے جواب دیں جو یوسف ثانی بھائی نے اٹھائے ہیں، تاکہ پھر کبھی کوئی شخص جو کہ Atheism سے متاثر ہونے جا رہا ہو، تو اسے بھی پتہ ہو کہ یہ Free Thinking والا کانسپٹ کہاں جا کر رک جاتا ہے۔۔۔۔۔
دین اسلام کا مذاق اڑانے سے نہ تو اس کی افادیت کم ہو گی، نہ ہی اس کی اہمیت کم ہو گی۔ کیونکہ Atheist کے جو اعتراض میں نے پڑھے ہیں، وہ شخصی زیادہ ہیں۔۔۔۔ جنہیں وہ دین اسلام سے جوڑ رہے ہیں، اور یہ ٹھیک بات نہیں۔ کسی شخص کی غلط چیزوں کو دیکھ کر دین اسلام کو قصور وار ٹھہرانہ اچھی بات نہیں۔

گویا ان سوالات کے تا حال جواب نہیں ملے ۔ اصل میں بوجوہ دو ہفتہ بعد لاگ ان ہوا ہوں۔ آپ کا جواب دیکھ کر بقیہ صفحات دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔
میری ذاتی رائے میں جب بھی کوئی مسلمان، مرتد ہوتا ہے، ایتھیسٹ یا کوئی اور دین اختیار کرتا ہے تو اس کی وجوہات ذیل میں سے کوئی ایک یا اکثر ہوتی ہیں۔ ایسا کبھی بھی نہیں ہوتا کہ کسی بھی عقلی، منطقی، یا واقعاتی بنیادوں پر اسلام اور اسلام کی تعلیمات ایسے شخص کو "غلط" نظر آنے لگے۔
1) مرتد ہونے والے فرد کا نفس غیر اخلاقی حرکات کی طرف مائل ہو، لیکن اس کی "عقل" اسے یہ باور کرائے کہ اگر تم نے ایسا کیا تو سب لوگ تمہاری مذمت کریں گے۔ لہٰذا ایسا فرد اسلام ہی کو "غلط" کہ کر کوئی اور نظریہ اختیار کرلیتا ہے تاکہ اسے اس کی غلط حرکات پر کوئی روک ٹوک نہ سکے۔ جیسے شراب نوشی، حرام و حلال کا فرق، آزاد جنسی زندگی، ذاتی و مالی مفادات کے لئے ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کرنا وغیرہ وغیرہ
2) کسی غیر مسلم کے عشق میں مبتلا ہو نا۔ اور معشوق یا معشوقہ کی خاطر اپنے "دین کی قربانی" دینا
3) غیر مسلم سماج میں ترقی کی راہ مسدود پا کر ، اسلام ہی کو ترک کردینا ۔۔۔ تاکہ جملہ دنیوی سہولیات بلا تفریق مل سکے
4) بے دین لوگوں میں گھر جانا جو انہیں مختلف طریقوں سے دین سے دور لے جاتے ہیں

لہٰذامرتد ہونے والا فرد اپنی ان "اخلاقی کمزوریوں" پر پردہ ڈالنے کے لئے اسلام کے "مقابلہ" میں کسی اور نظریہ یا دین کو "اختیار" کرنے کا اعلان کردیتا ہے۔ وہ کبھی بھی عقلی یا منطقی بنیادوں پریہ نہیں ثابت کرسکتا کہ اس کا سابقہ دین (اسلام) غلط تھا اور موجودہ دہن یا نظریہ درست۔ ابھی تو میں نے صرف چند ہی سوالات اٹھائے تھے کہ ایتھیسٹ بھائی ہتھے سے اکھڑ گئے اور جواب کسی کا بھی نہیں دیا۔ ایسے بہت سے سوالات ھہیں جن کا کوئی بھی ملحد کبھی بھی جواب نہیں دے سکتا۔
 

زیک

مسافر
گویا ان سوالات کے تا حال جواب نہیں ملے ۔ اصل میں بوجوہ دو ہفتہ بعد لاگ ان ہوا ہوں۔ آپ کا جواب دیکھ کر بقیہ صفحات دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔
میری ذاتی رائے میں جب بھی کوئی مسلمان، مرتد ہوتا ہے، ایتھیسٹ یا کوئی اور دین اختیار کرتا ہے تو اس کی وجوہات ذیل میں سے کوئی ایک یا اکثر ہوتی ہیں۔ ایسا کبھی بھی نہیں ہوتا کہ کسی بھی عقلی، منطقی، یا واقعاتی بنیادوں پر اسلام اور اسلام کی تعلیمات ایسے شخص کو "غلط" نظر آنے لگے۔
1) مرتد ہونے والے فرد کا نفس غیر اخلاقی حرکات کی طرف مائل ہو، لیکن اس کی "عقل" اسے یہ باور کرائے کہ اگر تم نے ایسا کیا تو سب لوگ تمہاری مذمت کریں گے۔ لہٰذا ایسا فرد اسلام ہی کو "غلط" کہ کر کوئی اور نظریہ اختیار کرلیتا ہے تاکہ اسے اس کی غلط حرکات پر کوئی روک ٹوک نہ سکے۔ جیسے شراب نوشی، حرام و حلال کا فرق، آزاد جنسی زندگی، ذاتی و مالی مفادات کے لئے ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کرنا وغیرہ وغیرہ
2) کسی غیر مسلم کے عشق میں مبتلا ہو نا۔ اور معشوق یا معشوقہ کی خاطر اپنے "دین کی قربانی" دینا
3) غیر مسلم سماج میں ترقی کی راہ مسدود پا کر ، اسلام ہی کو ترک کردینا ۔۔۔ تاکہ جملہ دنیوی سہولیات بلا تفریق مل سکے
4) بے دین لوگوں میں گھر جانا جو انہیں مختلف طریقوں سے دین سے دور لے جاتے ہیں

لہٰذامرتد ہونے والا فرد اپنی ان "اخلاقی کمزوریوں" پر پردہ ڈالنے کے لئے اسلام کے "مقابلہ" میں کسی اور نظریہ یا دین کو "اختیار" کرنے کا اعلان کردیتا ہے۔ وہ کبھی بھی عقلی یا منطقی بنیادوں پریہ نہیں ثابت کرسکتا کہ اس کا سابقہ دین (اسلام) غلط تھا اور موجودہ دہن یا نظریہ درست۔ ابھی تو میں نے صرف چند ہی سوالات اٹھائے تھے کہ ایتھیسٹ بھائی ہتھے سے اکھڑ گئے اور جواب کسی کا بھی نہیں دیا۔ ایسے بہت سے سوالات ھہیں جن کا کوئی بھی ملحد کبھی بھی جواب نہیں دے سکتا۔

اگر ظفری کی تحریر پڑھنے سے کام نہ بنے تو کئ بار لکھنے کی مشق کریں۔
 

طالوت

محفلین
شکریہ ظفری ، کسی نے تو سمجھا اصل معاملہ ہے کیا ۔
ورنہ احباب محفل نے تو عبداللہ کے دستخط کو اس پر پوری طرح ثابت کرنے میں کچھ کسر نہیں چھوڑی ۔
 

نازنین ناز

محفلین
چونکہ محفل میں ہر ایک کو اپنی رائے کی آزادی کا حق ہے لہذا میں بھی اپنی ناقص سمجھ کے مطابق اپنی رائے کے اظہار کی جسارت کر رہی ہوں۔ امید ہے کہ منتظمین اور اہل محفل اسے کھلے دل سے تسلیم کریں گے۔ میں اپنی رائے کسی پر مسلط کرنا نہیں چاہتی اور یہ بھی ضروری نہیں کہ میری رائے سو فیصد درست ہو بلکہ عین ممکن ہے کہ میں غلطی پر ہوں لیکن زیک بھائی کی پوسٹ ’’ اگر ظفری کی تحریر پڑھنے سے کام نہ بنے تو کئ بار لکھنے کی مشق کریں۔‘‘ کی ہدایت کی روشنی میں میں نے دوبارہ ظفری بھائی کی پوسٹ کو غور سے پڑھا اس کی روشی میں کچھ سوالات ذہن میں ابھرے جنہیں لکھنے کی جسارت کرہی ہوں امید ہے کہ ہمیشہ کی طرح وسعت قلبی وشفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے میری اس جسارت کا برا نہیں منایا جائے گا۔ میری اس پوسٹ سے (خاکم بدہن) کسی کی دل آزاری مقصود نہیں نہ ہی کسی کو تنقید کا نشانہ بنانا مقصود ہے پھر بھی اگر کہیں نادانستگی میں کوئی گستاخی سرزد ہوجائے تو اس کے لئے پیشگی معذرت کی خواست گار ہوں۔ امید ہے کہ میری اس جسارت کو میری بچپنے کی نادانی پر محمول کرکے اس سے صرف نظر کیا جائے گا۔

ہمیشہ کی طرح مصروفیات کی وجہ سے یہ دھاگہ بھی نظروں سے اوجھل رہا ۔ مگر ابھی موقع ملا تو اس کے کچھ صفحات پڑھے ۔ ہمیشہ کی طرح یہاں پھر وہی روایتی رویہ کارفرما رہا جو عموماً مذہب کے معاملے میں کچھ ایسے اہلِ فکر کی طرف سے سامنے آتا ہے ۔ جہاں ہدایت و تلقین کیساتھ صبر وتحمل کا دامن چھوڑ کر اپنی مذہبی حمیت کو اہمیت دی جاتی ہے ۔ جیسا کہ عثمان نے کہا کہ ایسے معاملات میں اتنہائی باریک بینی ، نفسیاتی مطالعہ اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مگر جب ہم اپنی دلیل کو ضائع ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں تو پھر معاملات کو ایسے قوانین میں گھیسٹ لیتے ہیں ۔ جہاں مخالف کے لیئے حتمی حجت صرف آخرت کی سزا بن جاتی ہے ۔ اور اگر اس مقام پر کسی کے لیئے واپسی کا کوئی راستہ باقی بھی ہوتا ہے تو وہ بھی ناپید ہوجاتا ہے ۔ اور مخالف اپنے موقف پرمزید ڈٹ جاتا ہے ۔

میرے خیال سے جتنے صبروتحمل سے جناب یوسف ثانی صاحب نے سوالات کئے ہیں اس کی مثال کم دیکھنے میں آتی ہے برخلاف Atheist صاحب کے جنہوں نے اکثر سوالات کے جوابات (میری سمجھ کے مطابق) کافی سخت لہجے میں دیئے ہیں۔ دوسرے یہ کہ یوسف ثانی صاحب کے دلائل ایسے بھی نہیں تھے کہ کہیں ایسا محسوس ہوکہ ان کے دلائل ضائع ہورہے ہیں اور نہ انہوں نے حتمی حجت کے طور پر Atheist صاحب پر آخرت کی سزا کا فتوی صادر کیا ہے۔یہ البتہ ضرور ہے کہ انہوں نے اپنی سمجھ کے مطابق Atheist صاحب سے اپنے تئیں بھلائی کی نیت سے انہیں دوبارہ دین اسلام اختیار کی دعوت ضرور دی ہے لیکن اس میں بھی انہوں نے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ ان کے ہاتھ سے شائستگی کا دامن نہ چھوٹنے پائے۔

عبداللہ کو میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں ۔ بہت ہی خوبصورت دل کا انسان ہے ۔ اور بہت کم عمر ہے ۔

کیا خوب صورت دل کے انسان ہونے کا پیمانہ دین اسلام اور خالق کائنات کا (نعوذ باللہ) مذاق اڑانا اور فساد والے دستخط لگاکر لاکھوں مسلمانوں کی دل آزاری کرنا ہے؟؟؟ اور جو ایسا نہیں کرتا اس کی شخصیت گویا اس کے برخلاف ہے؟؟
کیا کوئی دین اسلام چھوڑ کر مرتد ہوجائے تو اسے اس کے حال پر محض اس لئے چھوڑ دیا جائے کہ وہ بہت کم عمر ہے؟؟ کیا ہم پر اس ملحد کی اصلاح محض اس لئے فرض نہیں ہے کہ وہ بہت کم عمر ہے؟؟ میری ناقص عقل کے مطابق تو کم عمر اگر تباہی کے گڑھے میں گر رہا ہو تو ایسی صورت میں تو بزرگوں کا زیادہ فرض بنتا ہے کہ اسے اس سے پیار ومحبت اور دلائل سے سمجھا بجھا کر روکیں جیسے والدین بچوں کی غلطی پر انہیں روک ٹوک کرتے ہیں کبھی پیار محبت سے، کبھی سمجھا مناکر اور کبھی ناگزیر حالات میں اگر سختی بھی کرنا پڑے تو اس سے بھی دریغ نہیں کرتے کیوں کہ وہ اپنا برا بھلا اس طرح نہیں سمجھ سکتے جس طرح ان کے والدین سمجھتے ہیں۔

زندگی مسلسل نشیب وفراز کا نام ہے۔ جس میں ایسے معاملات بھی آتے ہیں ۔ جن سے انسانی شخصیت اپنے مرکز سے ہٹ جاتی ہے ۔ انسان طرح طرح کے وہم و گمان کا شکار ہوجاتا ہے ۔ اگر انسانی رحجان مذہب کی جانب ہو تو اس میں شدت اور انتہا پسندی اس درجے گماں میں آجاتی ہے کہ اس کو جنت کے حصول کے لیئے کسی کی جان لیتے ہوئے بھی کوئی تردد محسوس نہیں ہوتا ۔ اور اگر مذہب سے دوری ہو تو ایسے حالات میں ٹارگٹ کلرز بن جاتا ہے ۔ اس میں درمیان کے لوگ دہریئے اور مختلف نظریات کے حامی بن جاتے ہیں ۔ جب ہم ہدایت و تلقین کا بیڑا اٹھاتے ہیں تو ہمیں چاہیئے کہ پہلے اچھی طرح مخالف کے حالات اور اس کی نفسیات سے آگاہ ہوجائیں ۔

اکثر لوگ بشمول فورم کے کئی ممبران کے مذہبی رجحان رکھتے ہیں تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ یہ سب لوگ جنت کے حصول کے لئے کسی کی بھی جان بھی لے سکتے ہیں؟؟ایسا ہی اس کے برعکس کہ تمام مذہب سے دور لوگ ٹارگٹ کلرز ہیں؟؟
کیا مذہبی رجحان اور مذہب سے دوری کے درمیان کی کیفیت اپنے دین کو چھوڑ کر دہریہ ہونا اور دوسرے نظریات کا حامل ہونا ہے؟؟
کیا انٹرویو کسی شخص (مخالف) کے مکمل یا اکثر حالات جاننے کا نام نہیں ہے؟؟ اور کیا اس انٹرویو میں مختلف لوگوں کی طرف سےمختلف سوالات کی صورت میں مخالف کے حالات جاننے کی سعی نہیں کی گئی؟؟
کیا یوسف ثانی صاحب نے ہدایت وتلقین کا بیڑا اٹھانے سے پہلے شروع میں بالکل دوستانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے مخالف کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی تھی؟؟ اور اس سلسلے میں انہوں نے ہی پہل کرتے ہوئے کیا یہ تحریر نہیں کیا کہ فی الحال مذہب کو ایک طرف رکھ کر بات کریں گے؟؟

[
میں نہیں سمجھتا کہ عبداللہ کوئی دہریہ یا کسی منفی نظریات و خیالات کا حامی ہے ۔

قبل ازیں یہ بات کہی گئی کہ:

اس میں درمیان کے لوگ دہریئے اور مختلف نظریات کے حامی بن جاتے ہیں ۔ جب ہم ہدایت و تلقین کا بیڑا اٹھاتے ہیں تو ہمیں چاہیئے کہ پہلے اچھی طرح مخالف کے حالات اور اس کی نفسیات سے آگاہ ہوجائیں ۔

اب ان دونوں میں سے کس بات کو درست مانا جائے؟
دوسرے یہ کہ ایک شخص کھلم کھلا اپنے دہریہ ہونے کا فخریہ اظہار کرتا ہے اور اپنے دہریہ ہونے کےحق میں دلائل بھی دیتا ہے اور بحث بھی کرتا ہے، حتی کہ اپنی آئی ڈی بھی Atheist رکھتا ہے پھر اس کے دہریہ ہونے میں کسی کو کیا شک ہوسکتا ہے؟؟

جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ وہ بھی اسی ذہنی ارتقاء کے عمل سے گذر رہا ہے جیسا کہ سب گذرتے ہیں ۔ ہاں ۔۔۔ حالات اور دیگر معاملات جن سے انسانی نفسیات متاثر ہوتی ہے ۔ اس کی نوعیت شاید عبداللہ کے ساتھ قدرے مختلف ہو ۔ میں یہاں کسی کے خلوص کو بھی موضوعِ تنقید نہیں بنا رہا ہوں ۔ مگر ہمارا خلوص اس وقت بے معنی اور بے وقعت ہوجاتا ہے ۔ جب ہم پس منظر کو نظر انداز کرکے اپنی ذہن میں تخلیق کی ہوئی تصویر سے مخالف کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس موضوع پر بہت بات ہوچکی میں مذید کیا لکھوں ۔

کم از کم میرے علم میں Atheist صاحب کا ایسا کوئی پس منظر نہیں ہے جس کے تحت ان کے خیالات ونظریات اور نفسیات متاثر ہوئی اور مجھے یقین ہے کہ یوسف ثانی صاحب کے علم میں بھی ایسا کوئی پس منظر نہیں ہوگا۔ اس لئے کم از کم میرے نزدیک یوسف ثانی صاحب کا خلوص بے وقعت اور بے معنی ہرگز نہیں ہے۔
جہاں تک پس منظر نظر انداز کرنے کی بات ہے تو اس انٹرویو میں یوسف ثانی صاحب اور ایک دو اور ساتھیوں نے بھی ابتداء میں پس منظر جاننے کی کوششیں کیں اور اس غرض سے مختلف الجہت سوالات کرکے انہیں بار بار کریدنے کی سعی کی گئی مگر ایسا کوئی پس منظر سامنے نہ آنے کے بعد اصلاح کی کوششیں کی گئیں۔

ایک تحریر بہت پہلے یہیں کہیں میں نے اردو محفل پر پوسٹ کی تھی ۔ میں یہاں دوبارہ پوسٹ کررہا ہوں ۔ شاید اس سے میری بات سمجھنے میں نہ صرف آسانی پیدا ہوسکے ، بلکہ عبداللہ کے پس منظر کو صحیح طور پر سمجھ کر ہم اللہ کی ذات کے بارے میں کوئی ایسی حجت پیش کرسکیں ۔ جس سے یہ پیچیدگی دور ہوجائے ۔ پیغمبروں نے عشروں پہ عشرے ہدایت و تلقین میں لگا دیئے اور ہم چند روز میں اس غریب کے پیچھے ڈنڈے لیکر پڑ گئے ۔

ہدایت وتلقین صرف یوسف ثانی صاحب کررہے تھے اور دیگر تقریبا تمام ساتھی خاموشی سے یہ مکالمہ پڑھ رہے تھے لیکن بعد میں چند باتیں ایسی ہوگئیں جس سے مجھ سمیت کچھ ساتھیوں کے مذہبی جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی اور انہوں نے محض اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا اور میرے خیال میں یہ ان کا حق تھا۔ اس سلسلہ میں ہوسکتا ہے کہ ذاتی طور پر میں کچھ زیادہ جذباتی ہوگئی ہوں اور کچھ سخت الفاظ تحریر ہوگئے ہوں لیکن اس میں بھی میں نے گلہ یوسف ثانی صاحب سے ہی کیا ہے لیکن پھر بھی اپنی حد تک میں اپنی ان سخت باتوں کی معافی چاہتی ہوں۔

پوسٹ ملاحظہ ہو ۔
پہلے سمجھیئے پھر سمجھایئے
اختلافات اور ہمارے رویئے ۔ پہلے دوسروں کو سمجھیئے پھر سمجھایئے ۔

ٹرین کے اُس ڈبے میں ہر کوئی خاموشی سے سفر کر رہا تھا۔ اسی اثنا میں ٹرین ایک اسٹیشن پر رکی تو ایک صاحب اپنے چار بچوں کے ساتھ داخل ہوئے۔ بچوں نے آتے ہی اودھم مچانا شروع کر دیا جبکہ ان کا باپ آنکھیں بند کر کے اپنی سیٹ پر نیم دراز ہوگیا۔ بچوں کے شوروغل سے مسافر بہت پریشان ہوئے ہر کوئی یہ توقع کر رہا تھا کہ ان کا باپ مداخلت کر کے ان بچوں کو باز کرے گا مگر وہ بدستور اپنی دنیا میں مگن تھا۔ اس صورت حال میں ایک مسافر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اس نے کہا، جناب، توجہ فرمائیے، براہ کرم اپنے بچوں کو اپنے پاس بٹھائیے اور انہیں چیخ و پکار سے منع کیجیے۔ اسکی آواز سے بچوں کا باپ چونکا اور کہنے لگا، ہاں، ہاں شاید آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ مجھے ان کو واقعی منع کرنا چاہیے۔ اصل میں ہم سب ہسپتال سے آرہے ہیں۔ جہاں ابھی دو گھنٹے قبل ان کی ماں کا انتقال ہوگیا ہے۔ اور اصل میں ان بچوں کو بھی یہ سمجھ نہیں آرہا کہ انہیں کیا کرنا چاہیے ۔ مسافر کی اس بات کے ساتھ ہی اُس ڈبے کا ماحول یکسر بدل گیا۔ وہ لوگ جو پہلے اسے بیزاری سے دیکھ رہے تھے، اب اسے ہمدردی سے دیکھنے لگے اور کئی ایک نے تو یہ پیشکش بھی کی کہ وہ اس موقع پر اس کی کیا مدد کرسکتے ہیں۔ یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے اس بات کی کہ دوسرے کے حالات، واقعات اور خیالات نہ جاننے اور سمجھنے کی وجہ سے کس قدر غلط فہمی اور بدگمانی جنم لے سکتی ہے اور اگر یہ سب سمجھ لیا جائے تو پیش منظر اور ماحول کس طرح بدل جایا کرتا ہے۔

ایسی ہی مثالیں 90 کی دہائی کی پنچابی فلموں میں بھی بہت تھیں کہ ایک غنڈہ کشتوں کے پشتے لگاتا جاتا ہے بات بات پر قتل کردیتا ہے، اخلاقیات چھوکر بھی اسے نہیں گزری ہوتیں اور پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس غنڈے کے سامنے بے بس ہوتے ہیں۔ لیکن فلم کی دلچسپ بات یہ ہوتی تھی کہ وہی غنڈہ فلم کا مرکزی کردار ہوتا ہے اور فلم کے درمیان میں جب اس کا پس منظر معلوم ہوتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ غنڈہ تو پہلے انتہائی شریف انسان تھا بعد میں حالات نے اسے ایسا بنادیا۔
یہ تو خیر فلم کی مثال تھی لیکن اگر کہیں حقیقت میں بھی حالات کا مارا کوئی شخص ہتھیار اٹھاکر کسی کی ہتھیا کرلے تو کیا دنیا کا کوئی بھی قانون اسے محض اس بناء پر معاف کردے گا کہ اسے اس پر حالات نے مجبور کیا؟؟

یہی وہ بات ہے جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت خوبصورت جملے میں بیان کر دیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ "جو تم اپنے لیے پسند نہیں کرتے وہ دوسرے کے لیے کیوں پسند کرتے ہو؟ "

میری ناقص عقل کے مطابق مجھے یقین ہے کہ یہی حدیث یوسف ثانی صاحب کے بھی پیش نظر ہوگی اور چونکہ وہ اپنے لئے الحاد پسند نہیں کرتے لہذا ان کی ایمانی غیرت یہ گورا نہیں کرسکی کہ وہ اس کو ایک (سابقہ) مسلمان بھائی کے لئے پسند کریں۔

ظفری بھائی میری اس پوسٹ کا مطلب آپ پر تنقید کرنا ہرگز ہرگز نہیں ہے بس اس ضمن میں کچھ سوالات ذہن میں آئے تو اسے حوالہ فورم کردیا۔ میری کوئی بات بری لگی ہو تو دست بستہ معافی کی خواست گار ہوں۔ امید واثق ہے اسے کہ ایک ناسمجھ وناتجربہ کار مبتدی کی بچگانہ حرکت پر محمول کرتے ہوئے صرف نظر فرماکر اعلی ظرفی کا ثبوت دیں گے۔
 

ظفری

لائبریرین
میرے خیال سے جتنے صبروتحمل سے جناب یوسف ثانی صاحب نے سوالات کئے ہیں اس کی مثال کم دیکھنے میں آتی ہے برخلاف atheist صاحب کے جنہوں نے اکثر سوالات کے جوابات (میری سمجھ کے مطابق) کافی سخت لہجے میں دیئے ہیں۔ دوسرے یہ کہ یوسف ثانی صاحب کے دلائل ایسے بھی نہیں تھے کہ کہیں ایسا محسوس ہوکہ ان کے دلائل ضائع ہورہے ہیں اور نہ انہوں نے حتمی حجت کے طور پر atheist صاحب پر آخرت کی سزا کا فتوی صادر کیا ہے۔یہ البتہ ضرور ہے کہ انہوں نے اپنی سمجھ کے مطابق atheist صاحب سے اپنے تئیں بھلائی کی نیت سے انہیں دوبارہ دین اسلام اختیار کی دعوت ضرور دی ہے لیکن اس میں بھی انہوں نے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ ان کے ہاتھ سے شائستگی کا دامن نہ چھوٹنے پائے۔

آپ کے اس تبصرے سے پہلا تاثر جو میرے ذہن میں ابھرا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ آپ کا یہ تبصرہ میری تحریر کے اقتباس کے جس پس منظر میں ہے ۔ اُسے آپ نے محترم یوسف ثانی صاحب کے نکتہِ نظر اور سوچ سے براہِ راست پیوست کردیا ہے ۔ جبکہ میرا کہیں بھی یہ ارادہ نہیں تھا کہ میں خاص کر یوسف ثانی صاحب کی کسی بات کو مدِنظر رکھ کر یہ تبصرہ کررہا ہوں ۔ میں نے وہ تبصرہ تمام دوست و احباب کی تحریریں اور استدلال پڑھ کر دیا تھا ۔ جہاں ہمارا سارا اصرار صرف ا س بات پر تھا کہ جناب ۔۔۔ آپ ملحد ہیں ، منکرِ خدا ہیں ، مذہب سے دور ہیں ، اپنی عاقبت خراب کررہے ہیں ۔ آپ راہِ راست پر آجائیں ورنہ دنیا اور آخرت میں ذلیل و خوار ہونے کے لیئے تیار ہوجائیں گے ۔ “ ہر دوست نے اس کارِ خیر میں حصہ لیتے ہوئے عمران کو اس مقام پر کھڑا دیکھ کر اپنی سوچ ، عقیدے اور نظریات کے مطابق سوال داغنے شروع کردیئے ۔ لہذا جیسے سوالات ہوئے ، جوابات بھی اسی طرح صادر ہوئے ۔ میں ثابت کرسکتا ہوں کہ کسی بھی دوست نے عمران سے یہ سوال نہیں کیا کہ “ جناب ! ایسی کون سی افتاد آپڑی ہے کہ تم مذہب سے اس قدر بیزار ہوگئے ہو ۔ کون سے ایسے عوامل ہیں جن کی بنیاد پر تم یہ سمجھتے ہو کہ مذہب اور خالق سب تخیل کی پیداوار ہیں ۔ ؟ “ پھر عمران یہ بتاتا کہ میرے اندر تبدیلی کے یہ داعیات ہیں ۔ پھر احباب اس روشنی میں سوالات اٹھاتے تو گفتگو منطقی انجام کو پہنچتی ۔ مگر جیسا کہ میں نے کہا کہ ہم پہلے ہی سے تصور میں ایک تصویر بناکر مخالف کو اس حد تک دیوار تک لے جاتے ہیں ۔ جہاں مخالف بلی کی طرح پلٹ کر مقابلے پر آجاتا ہے ۔ ایسی صورت میں کوئی استدلال ، کوئی دلیل کارگر نہیں ہوتی ۔ میرا اشارہ بس اسی طرف تھا ۔ چنانچہ میں نے اس طرزِ عمل کی مخالف کی ہے ۔ نہ کہ کسی کی نیک نیتی اور خلوص کو نشانہ بنایا ہے ۔
دوسری بات یہ کہ صبرو تحمل کی ضرورت سوالات کرنے میں نہیں ، بلکہ جوابات دینے میں پڑتی ہے ۔

کیا خوب صورت دل کے انسان ہونے کا پیمانہ دین اسلام اور خالق کائنات کا (نعوذ باللہ) مذاق اڑانا اور فساد والے دستخط لگاکر لاکھوں مسلمانوں کی دل آزاری کرنا ہے؟؟؟ اور جو ایسا نہیں کرتا اس کی شخصیت گویا اس کے برخلاف ہے؟؟
یہ بھی ہماری ہی سوچ کا شاخسانہ ہے کہ عمران نے براہِ راست اسلام کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔ اس نے صرف مذہب کی بات کی ہے ۔ چونکہ فورمز پر سب مسلم ہیں ۔ اسی وجہ سے سب نے اس کو اسلام کے تناظر میں دیکھا ۔ لہذا پھرسوالات بھی اس پس منظر میں ہوئے اور جوابات کو بھی اس زوایئے سے دیکھا گیا ۔ رہی دستخط والی بات تو وہ مذہب کے حوالے سے ہے ہی نہیں ۔ بلکہ وہ تو ایک ایسے ادارے کے خلاف ہے ۔ جس کو حرفِ عام میں ملائیت کہتے ہیں ۔ جیسے پاپائیت ہے ۔ جو لوگ اس ادارے سے وابستہ ہیں ۔ وہ سب ہماری طرح انسان ہیں ۔ ان سے بھی غلطیاں ہوتیں ہیں ۔ ان کے اپنے مفادات بھی ہوتے ہیں ۔ جہاں سے پھر اس ادارے کا اعتماد مجروع ہوتا ہے ۔ ہمارے ملک میں مولویوں کی سیاست اور اقتدار کے حوالے سے جو عزت ہے ۔ اس سے سب واقف ہیں ۔ اگر کوئی ان کے اس فعل ، منافقت اور طرزِ عمل کو برا کہتا ہے تو یہاں لاکھوں مسلمانوں کی دل آزاری کا سبب کہاں سے پیدا ہوگیا ۔ ؟

کیا کوئی دین اسلام چھوڑ کر مرتد ہوجائے تو اسے اس کے حال پر محض اس لئے چھوڑ دیا جائے کہ وہ بہت کم عمر ہے؟؟ کیا ہم پر اس ملحد کی اصلاح محض اس لئے فرض نہیں ہے کہ وہ بہت کم عمر ہے؟؟ میری ناقص عقل کے مطابق تو کم عمر اگر تباہی کے گڑھے میں گر رہا ہو تو ایسی صورت میں تو بزرگوں کا زیادہ فرض بنتا ہے کہ اسے اس سے پیار ومحبت اور دلائل سے سمجھا بجھا کر روکیں جیسے والدین بچوں کی غلطی پر انہیں روک ٹوک کرتے ہیں کبھی پیار محبت سے، کبھی سمجھا مناکر اور کبھی ناگزیر حالات میں اگر سختی بھی کرنا پڑے تو اس سے بھی دریغ نہیں کرتے کیوں کہ وہ اپنا برا بھلا اس طرح نہیں سمجھ سکتے جس طرح ان کے والدین سمجھتے ہیں۔

میں نے یہ بھی ہر گز نہیں کہا کہ اسےکم عمری کی بناء پر ایسے خیالات اور نظریات کی وجہ سے چھوڑ دیں ۔ یہاں کم عمری کا حوالہ اس لیئے دیا تھا کہ شعوری پختگی نہ ہونے کی وجہ سے وہ صحیح فیصلہ کرنے سے قاصر ہے کہ وہ کہاں غلط ہے اور کہاں صحیح ہے ۔ ( اس کے پیچھے کیا عوامل ہیں ۔ وہ بہت توجہ طلب ہیں ۔ مگر ابھی زیرِ بحث نہیں ) ۔ اسی پیراگراف میں آپ نے وہی بات کردی ہے جس میری پچھلی پوسٹ کا لبِ لباب تھا ۔ کہ اسے ڈرانا دھمکانا ہمارا مقصد نہیں بلکہ پیارو محبت سے اس کا مسئلہ سمجھ کر پھر اس کی روشنی میں دلائل اور استدلال سے سمجھانا مقصود ہے ۔ مگر ہم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ اب ایسے ناگزیر حالات پیدا ہوچکے ہیں کہ اس کے ساتھ سختی اور درشت رویہ رکھنا لازم ہوگیا ہے ۔

اکثر لوگ بشمول فورم کے کئی ممبران کے مذہبی رجحان رکھتے ہیں تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ یہ سب لوگ جنت کے حصول کے لئے کسی کی بھی جان بھی لے سکتے ہیں؟؟ایسا ہی اس کے برعکس کہ تمام مذہب سے دور لوگ ٹارگٹ کلرز ہیں؟؟
یہاں بھی آپ کو میری بات سمجھنے میں زبردست مغالطہ ہوا ہے ۔ میں نے عام زندگی کے نشیب و فراز کے حوالے سے بات کہی ہے کہ انسان پر ایسا بھی دور آتا ہے کہ انسانی نفسیات جس نکتہِ نظر سے متاثر ہوتی ہے ۔ وہاں شدت پسندی اس درجے غالب آجاتی ہے ( عوامل مختلف ہوسکتے ہیں ) کہ اگر وہ نکتہِ نظر مذہب یا مذہب سے دوری پر ختم ہو رہا ہے تو وہ اپنی نفسیاتی بگاڑ کی وجہ سے اپنی رائے کے سامنے ہر دلیل کو رد کردے گا ۔ اور یہی غلط فہمی اسے کسی بھی ایسے کام کے لیئے اکسا سکتی کہ جہاں وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہاں اس کی مذہبی جذبے یا ذاتی مفادات کی تسکین اور حصول کا سامان موجود ہے تو ایسے جذبے کا اطلاق مذہبی منافرت ، لوٹ کھسوٹ یا قتل و غارت کے لیئے استعمال ہوسکتاہے جہاں وہ ( اپنے نظریئے کے مطابق ) سمجھتا ہے کسی ایسےکو جینے کا بلکل حق نہیں ہے جس کا عقیدہ اور نظریات اس کے عقیدے اور نظریات سے متصادم ہو ۔ لہذا ایسے صورت جنت کا حصول ، لوٹ مار اور عام لوگوں کو بلاوجہ قتل کرنا ان کے نزدیک معمول کا کام بن جاتا ہے ۔
۔

کیا مذہبی رجحان اور مذہب سے دوری کے درمیان کی کیفیت اپنے دین کو چھوڑ کر دہریہ ہونا اور دوسرے نظریات کا حامل ہونا ہے؟؟
ممکن ہے ۔۔۔۔ جب آپ ( اپنے ) ایک خاص مذہب کی اساسی بنیادوں کے بارے میں شک و شہبات کا شکار ہیں تو ظاہر ہے آپ کا رحجان کسی اور نظریات کی طرف ہوجائیگا ۔ اور جب وہ نظریہ اپنے دلائل اور استدلال کی بنیاد پر آپ کو متاثر کرے گا ۔ تو آپ اس کو تسلیم کریں گے ۔ جب آپ تسلیم کریں گے تو آپ اسے درمیانی کیفیت سے نکل کر ایک نئے نظریئے کا حامی بن جائینگے ۔ اب وہ نظریہ کوئی بھی ہوسکتا ہے ۔

کیا انٹرویو کسی شخص (مخالف) کے مکمل یا اکثر حالات جاننے کا نام نہیں ہے؟؟ اور کیا اس انٹرویو میں مختلف لوگوں کی طرف سےمختلف سوالات کی صورت میں مخالف کے حالات جاننے کی سعی نہیں کی گئی؟؟

میرا خیال ہے کہ نہیں کی گئی ۔ اگر ایسی بات ہوتی تو پہلے صفحے پر ہی موضوعِ بحث شخص کے کئی جوابات میں ایسے اشارے موجود ہیں کہ وہ ایک زبردست ارتقائی عمل سے گذر رہا ہے ۔ جس کی وجہ سے وہ ذہنی انتشار اور خلفشار کا شکار ہے ۔ اگر کوئی اس کو صحیح طور پر پڑھ لیتا تو بحث یہاں تک نہیں پہنچتی اور شاید یہی وجہ تھی کہ میں وہ تبصرہ یہاں محفل پر چسپاں کیا ۔
کیا یوسف ثانی صاحب نے ہدایت وتلقین کا بیڑا اٹھانے سے پہلے شروع میں بالکل دوستانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے مخالف کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی تھی؟؟ اور اس سلسلے میں انہوں نے ہی پہل کرتے ہوئے کیا یہ تحریر نہیں کیا کہ فی الحال مذہب کو ایک طرف رکھ کر بات کریں گے؟؟
اس سلسلے میں یوسف صاحب کی سب سے پہلی تحریر یہ تھی ۔

میں سوال کرنے سے پہلے سارے سوالات اور انک جوابات پڑھ لینا چاہتا تھا، سو میں نے پڑھ لیا ھے۔ مجھے یہ انٹرویو پڑھ کر بہت لطف آیا۔ نیٹ فورم کی تاریخ میں ایسے انٹرویو کم کم ہی ہوئے ہاں گے۔ اور اس کا بیشتر کریڈٹ شمشاد بھائی اور ایتھییسٹ بھائی کو جاتا ہے۔ اگر اجازت ہو تو چند سوالات میں بھی کر لوں؟
1۔ ایتھیسٹ بھائی! کیا آپ خیر و شر کو مانتے ہیں؟ یا دنیا میں سب کچھ ٹھیک ہے؟ اگر مانتے ہیں تو کیسے ؟ میرا مطلب ہے کہ سچ خیر کیسے ہے اور جھوٹ شر کیسے؟ اور اگر خیر و شر کے فلسفہ کو نہیں مانتے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ آپ اور ہم اپنی اپنی جگہ کچھ بھی کرسکتے ہیں؟


اس کے بعد ۔

2۔ کیا تقدیر بھی کوئی شئے ہے یا سب کچھ تدبیر ہی ہے؟ یعنی انسان، انفرادی حیثیت میں بھی اور اجتماعی حیثیت میں بھی جو چاہے وہ کر سکتا ہے؟ اگر انسان سب کچھ کر سکتا ہے تو دنیا میں اتنے سارے ٹیلنٹڈ لوگ ناکام کیوں ہوتے ہیں؟ اور اگر انسان سب کچھ نہیں کرسکتا تو کیوں نہیں کرسکتا ؟؟؟
تیسری یہ تھی ۔
3۔ کیا دنیا میں کوئی تہذیب یافتہ انسان کسی دوسرے انسان کے (مختلف اقسام کے) "تعاون" کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے؟ اگر رہ سکتا ہے تو آپ نے کبھی ایسا سوچا کہ ۔۔۔ چلو کہیں دور یہ سماج چھوڑ دیں، دنیا کے رسم و رواج چھوڑ دیں ؟؟؟

میں نہیں سمجھتا کہ ان تمام تحریروں میں یوسف صاحب نے مخالف کی نفسیات سمجھنے کی کوشش کی ہے ۔ یہاں وہ ایتھیسٹ بھائی کے بارے میں ایک تصور قائم کرچکے تھے ۔ اور پھرتنیوں سوالات اس پس منظر میں کیئے گئے ہیں ۔

اصل پیغام ارسال کردہ از: ظفری
میں نہیں سمجھتا کہ عبداللہ کوئی دہریہ یا کسی منفی نظریات و خیالات کا حامی ہے ۔

قبل ازیں یہ بات کہی گئی کہ:
اس ٹاپک پر کچھ دوستوں نے جمیل فخری کے لیئے ایصالِ ثواب کی دعا پر مخالف کو متوجہ کیا ہے ۔ آپ بھی وہ تبصرہ پڑھیئے ۔

اصل پیغام ارسال کردہ از: ظفری
اس میں درمیان کے لوگ دہریئے اور مختلف نظریات کے حامی بن جاتے ہیں ۔ جب ہم ہدایت و تلقین کا بیڑا اٹھاتے ہیں تو ہمیں چاہیئے کہ پہلے اچھی طرح مخالف کے حالات اور اس کی نفسیات سے آگاہ ہوجائیں ۔

اب ان دونوں میں سے کس بات کو درست مانا جائے؟
دوسرے یہ کہ ایک شخص کھلم کھلا اپنے دہریہ ہونے کا فخریہ اظہار کرتا ہے اور اپنے دہریہ ہونے کےحق میں دلائل بھی دیتا ہے اور بحث بھی کرتا ہے، حتی کہ اپنی آئی ڈی بھی atheist رکھتا ہے پھر اس کے دہریہ ہونے میں کسی کو کیا شک ہوسکتا ہے؟؟
کم از کم میرے علم میں atheist صاحب کا ایسا کوئی پس منظر نہیں ہے جس کے تحت ان کے خیالات ونظریات اور نفسیات متاثر ہوئی اور مجھے یقین ہے کہ یوسف ثانی صاحب کے علم میں بھی ایسا کوئی پس منظر نہیں ہوگا۔ اس لئے کم از کم میرے نزدیک یوسف ثانی صاحب کا خلوص بے وقعت اور بے معنی ہرگز نہیں ہے۔
جہاں تک پس منظر نظر انداز کرنے کی بات ہے تو اس انٹرویو میں یوسف ثانی صاحب اور ایک دو اور ساتھیوں نے بھی ابتداء میں پس منظر جاننے کی کوششیں کیں اور اس غرض سے مختلف الجہت سوالات کرکے انہیں بار بار کریدنے کی سعی کی گئی مگر ایسا کوئی پس منظر سامنے نہ آنے کے بعد اصلاح کی کوششیں کی گئیں۔
اپنے دہریہ ہونے کے دلائل دینا اور بحث کرنا اسی نفسیات کا حصہ ہے جس کے پس منظر کے بارے میں آپ نہیں جانتیں ( جیسا کہ آپ نے کہا ) ۔ اس بات کو جاننے کے لیئے آپ طالوت کی پوسٹ نمبر 192 پڑھیئے ۔ طالوت کی عمران سے ملاقات ہوچکی ہے ۔ ان کا وہ جملہ آپ پر کئی حقیقتیں آشکار کردیگا ۔
جہاں تک یوسف صاحب کی بات ہے تو اب تک میرے سامنے ان کا کوئی تبصرہ میری پوسٹ کے حوالے سے نہیں آیا ہے تو میں یہ کہہ نہیں سکتا کہ انہوں نے اس کی نفسیات کو کہاں تک سمجھا ۔ دوسرے یہ کہ میں نے ان کے خلوص کو بے وقعت اور بے معنی ہرگز نہیں سمجھا ۔ بلکہ یہ بات میں نے جرنیلائز پیرائےمیں کہی ہے ۔ میں یوسف صاحب کی قابلیت اور علم کی قدر کرتا ہوں ۔ مجھے بس تھوڑا سا طریقہِ کار پر اعتراض ہے ۔ اس پر اگر وہ کبھی گفتگو کرنا چاہیں تو میں اپنے لیئے سعادت سمجھوں گا ۔

ایسی ہی مثالیں 90 کی دہائی کی پنچابی فلموں میں بھی بہت تھیں کہ ایک غنڈہ کشتوں کے پشتے لگاتا جاتا ہے بات بات پر قتل کردیتا ہے، اخلاقیات چھوکر بھی اسے نہیں گزری ہوتیں اور پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس غنڈے کے سامنے بے بس ہوتے ہیں۔ لیکن فلم کی دلچسپ بات یہ ہوتی تھی کہ وہی غنڈہ فلم کا مرکزی کردار ہوتا ہے اور فلم کے درمیان میں جب اس کا پس منظر معلوم ہوتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ غنڈہ تو پہلے انتہائی شریف انسان تھا بعد میں حالات نے اسے ایسا بنادیا۔
یہ تو خیر فلم کی مثال تھی لیکن اگر کہیں حقیقت میں بھی حالات کا مارا کوئی شخص ہتھیار اٹھاکر کسی کی ہتھیا کرلے تو کیا دنیا کا کوئی بھی قانون اسے محض اس بناء پر معاف کردے گا کہ اسے اس پر حالات نے مجبور کیا؟؟
یہاں بھی آپ کو میری مثال کو سمجھنے میں زبردست غلطی لگی ہے ۔ میں نے وہاں ایک اجتماعی اخلاقی غلطی کی طرف نشان دہی کی ہے ۔ جبکہ آپ نے اسے فسادِ الرض
کے مقابلے میں کھڑا دیا ۔


ظفری بھائی میری اس پوسٹ کا مطلب آپ پر تنقید کرنا ہرگز ہرگز نہیں ہے بس اس ضمن میں کچھ سوالات ذہن میں آئے تو اسے حوالہ فورم کردیا۔ میری کوئی بات بری لگی ہو تو دست بستہ معافی کی خواست گار ہوں۔ امید واثق ہے اسے کہ ایک ناسمجھ وناتجربہ کار مبتدی کی بچگانہ حرکت پر محمول کرتے ہوئے صرف نظر فرماکر اعلی ظرفی کا ثبوت دیں گے۔

آپ کی تنقید میں کوئی ایسی بات نہیں جو ناگوار گذرے ۔ میں بھی اپنے تئیں کوشش کی ہے کہ آپ کے سوالات کے جوابات دے سکوں ۔ اگر کوئی کوتاہی رہ گئی ہے تو اس کے لیئے معافی کا خواستگار رہوں گا ۔

‌‌‌‌‌‌
 

ظفری

لائبریرین
میں اس بحث کے حوالے سے اپنا بھی نکتہِ نظر وضع کردوں ۔
یہ بہت واضع بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وجود سے انکار عقلی دلائل کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا۔ جو لوگ ایسی کوششیں کرتے ہیں یا تو وہ خدا کے وجود پر پیش کئے گئے دلائل کو اپنی کمزور دلیلوں سے رد کرنے کوشش میں مصروف نظر آئیں گے یا پھر ڈارون کے نظریے جیسے بودے دلائل پیش کرتے نظر آئیں گے۔
دراصل جب کوئی خدا کو تسلیم کر تا ہے تو اس کے نتیجے میں انسان پر کچھ اخلاقی ذمہ داریاں لاگو ہوجاتیں ہیں۔ صرف خدا کو مان لینا محض ایک فلسفیانہ اور مذہبی اقرار نہیں ہے ۔ بلکہ اس کے نتیجے میں ایک معقول شخص کو اللہ اور اس کی جزا و سزا کو ماننا پڑتا ہے۔ اور اس قانون کے سامنے انسان اپنا سرِ خم تسلیم کرلے تو پھر زندگی کو خدا کے بنائے ہوئے اصولوں اور قوانین کے تحت گذارنا پڑتا ہے لہذا جو بے لگام آزادی کے علمبردار ہوتے ہیں۔ وہ ان پابندیوں کے لئے تیار نہیں ہوتے ۔ چنانچہ پھر ایسے نظریات اور عقائد پروان چڑھنے لگتے ہیں ۔ جن کی کوئی عقلی دلیل نہیں ہوتی ۔ مگر جو لوگ کسی حادثے یا کسی تلخ تجربے کی وجہ سے دین سے متنفر ہوجاتے ہیں ۔ ان کی دل جوئی سے دوبارہ ان کو دین کی طرف راغب کیا جاسکتا ہے ۔ مگر عموماً ہم ان دو قسم کے رحجانات میں فرق کر نہیں پاتے ۔ اور پہلی قسم کے لوگوں سے بحث کے اصولوں کو دوسری قسم کے لوگوں پر لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جس سے پیچیدگیاں پیدا ہوتیں ہیں ۔ اور معاملات خراب ہوجاتے ہیں ۔ یہی رویہ ہم نے قادیانیوں کے ساتھ بھی روا رکھا ۔ جب ہم نے دیکھا کہ انہوں نے ایک جھوٹی نبوت کا اقرار کرلیا ہے تو بجائے اس کے کہ ہم ان کی توجہ ان کی غلطی کی جانب صبر و تحمل سے دلاتے ہم نے تشدد کا راستہ اختیار کرلیا ۔ جس کے نتیجے میں وہ اپنے موقف پر اور بھی ڈٹ گئے ۔ اور ان کی آئندہ نسلیں بھی دین سے دور ہوگئیں ۔ ہم نے انہیں اپنے مرکز سے نکال کر دین میں ان کی واپسی کی تمام راہیں تقریباً معدوم کردیں ۔ اور انہوں نے دیارِ غیر میں جاکر نہ صرف اپنے مذہب کو اور بھی منظم کیا بلکہ اپنے مذہب کے پرچار کے لیئے ضرورتِ زمانہ کی ہر آسائش سے لیس بھی ہوگئے ۔
 

نازنین ناز

محفلین
جزاک اللہ ظفری بھائی
آپ نے جس تحمل، برداشت اور اعلی ظرفی کا مظاہرہ کیا ہے اور جس تحمل سے میری پوسٹ کے جوابات دیئے ہیں یہ کچھ آپ ہی کا ظرف ہے۔ بلاشبہ آپ نے موڈیٹر ہونے کا حق ادا کردیا۔
آپ کے اس مثبت رویے نے میری دل میں آپ کی قدرومنزلت اور بھی بڑھادی ہے اور ساتھ میں مجھے یہ حوصلہ بھی بخشا ہے کہ اردو محفل پر میری رائے چاہے موڈیٹرز سے متصادم ہی کیوں نہ ہو، اس کا احترام کیا جائے گا۔
میری پوسٹ کا تحمل سے تفصیلی جواب دینے کا بہت بہت شکریہ
اللہ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلائے۔ آمین
 

یوسف-2

محفلین
چونکہ محفل میں ہر ایک کو اپنی رائے کی آزادی کا حق ہے لہذا میں بھی اپنی ناقص سمجھ کے مطابق اپنی رائے کے اظہار کی جسارت کر رہی ہوں۔ امید ہے کہ منتظمین اور اہل محفل اسے کھلے دل سے تسلیم کریں گے۔ میں اپنی رائے کسی پر مسلط کرنا نہیں چاہتی اور یہ بھی ضروری نہیں کہ میری رائے سو فیصد درست ہو بلکہ عین ممکن ہے کہ میں غلطی پر ہوں لیکن زیک بھائی کی پوسٹ ’’ اگر ظفری کی تحریر پڑھنے سے کام نہ بنے تو کئ بار لکھنے کی مشق کریں۔‘‘ کی ہدایت کی روشنی میں میں نے دوبارہ ظفری بھائی کی پوسٹ کو غور سے پڑھا اس کی روشی میں کچھ سوالات ذہن میں ابھرے جنہیں لکھنے کی جسارت کرہی ہوں امید ہے کہ ہمیشہ کی طرح وسعت قلبی وشفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے میری اس جسارت کا برا نہیں منایا جائے گا۔ میری اس پوسٹ سے (خاکم بدہن) کسی کی دل آزاری مقصود نہیں نہ ہی کسی کو تنقید کا نشانہ بنانا مقصود ہے پھر بھی اگر کہیں نادانستگی میں کوئی گستاخی سرزد ہوجائے تو اس کے لئے پیشگی معذرت کی خواست گار ہوں۔ امید ہے کہ میری اس جسارت کو میری بچپنے کی نادانی پر محمول کرکے اس سے صرف نظر کیا جائے گا۔



میرے خیال سے جتنے صبروتحمل سے جناب یوسف ثانی صاحب نے سوالات کئے ہیں اس کی مثال کم دیکھنے میں آتی ہے برخلاف Atheist صاحب کے جنہوں نے اکثر سوالات کے جوابات (میری سمجھ کے مطابق) کافی سخت لہجے میں دیئے ہیں۔ دوسرے یہ کہ یوسف ثانی صاحب کے دلائل ایسے بھی نہیں تھے کہ کہیں ایسا محسوس ہوکہ ان کے دلائل ضائع ہورہے ہیں اور نہ انہوں نے حتمی حجت کے طور پر Atheist صاحب پر آخرت کی سزا کا فتوی صادر کیا ہے۔یہ البتہ ضرور ہے کہ انہوں نے اپنی سمجھ کے مطابق Atheist صاحب سے اپنے تئیں بھلائی کی نیت سے انہیں دوبارہ دین اسلام اختیار کی دعوت ضرور دی ہے لیکن اس میں بھی انہوں نے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ ان کے ہاتھ سے شائستگی کا دامن نہ چھوٹنے پائے۔



کیا خوب صورت دل کے انسان ہونے کا پیمانہ دین اسلام اور خالق کائنات کا (نعوذ باللہ) مذاق اڑانا اور فساد والے دستخط لگاکر لاکھوں مسلمانوں کی دل آزاری کرنا ہے؟؟؟ اور جو ایسا نہیں کرتا اس کی شخصیت گویا اس کے برخلاف ہے؟؟
کیا کوئی دین اسلام چھوڑ کر مرتد ہوجائے تو اسے اس کے حال پر محض اس لئے چھوڑ دیا جائے کہ وہ بہت کم عمر ہے؟؟ کیا ہم پر اس ملحد کی اصلاح محض اس لئے فرض نہیں ہے کہ وہ بہت کم عمر ہے؟؟ میری ناقص عقل کے مطابق تو کم عمر اگر تباہی کے گڑھے میں گر رہا ہو تو ایسی صورت میں تو بزرگوں کا زیادہ فرض بنتا ہے کہ اسے اس سے پیار ومحبت اور دلائل سے سمجھا بجھا کر روکیں جیسے والدین بچوں کی غلطی پر انہیں روک ٹوک کرتے ہیں کبھی پیار محبت سے، کبھی سمجھا مناکر اور کبھی ناگزیر حالات میں اگر سختی بھی کرنا پڑے تو اس سے بھی دریغ نہیں کرتے کیوں کہ وہ اپنا برا بھلا اس طرح نہیں سمجھ سکتے جس طرح ان کے والدین سمجھتے ہیں۔



اکثر لوگ بشمول فورم کے کئی ممبران کے مذہبی رجحان رکھتے ہیں تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ یہ سب لوگ جنت کے حصول کے لئے کسی کی بھی جان بھی لے سکتے ہیں؟؟ایسا ہی اس کے برعکس کہ تمام مذہب سے دور لوگ ٹارگٹ کلرز ہیں؟؟
کیا مذہبی رجحان اور مذہب سے دوری کے درمیان کی کیفیت اپنے دین کو چھوڑ کر دہریہ ہونا اور دوسرے نظریات کا حامل ہونا ہے؟؟
کیا انٹرویو کسی شخص (مخالف) کے مکمل یا اکثر حالات جاننے کا نام نہیں ہے؟؟ اور کیا اس انٹرویو میں مختلف لوگوں کی طرف سےمختلف سوالات کی صورت میں مخالف کے حالات جاننے کی سعی نہیں کی گئی؟؟
کیا یوسف ثانی صاحب نے ہدایت وتلقین کا بیڑا اٹھانے سے پہلے شروع میں بالکل دوستانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے مخالف کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی تھی؟؟ اور اس سلسلے میں انہوں نے ہی پہل کرتے ہوئے کیا یہ تحریر نہیں کیا کہ فی الحال مذہب کو ایک طرف رکھ کر بات کریں گے؟؟

[

قبل ازیں یہ بات کہی گئی کہ:



اب ان دونوں میں سے کس بات کو درست مانا جائے؟
دوسرے یہ کہ ایک شخص کھلم کھلا اپنے دہریہ ہونے کا فخریہ اظہار کرتا ہے اور اپنے دہریہ ہونے کےحق میں دلائل بھی دیتا ہے اور بحث بھی کرتا ہے، حتی کہ اپنی آئی ڈی بھی Atheist رکھتا ہے پھر اس کے دہریہ ہونے میں کسی کو کیا شک ہوسکتا ہے؟؟



کم از کم میرے علم میں Atheist صاحب کا ایسا کوئی پس منظر نہیں ہے جس کے تحت ان کے خیالات ونظریات اور نفسیات متاثر ہوئی اور مجھے یقین ہے کہ یوسف ثانی صاحب کے علم میں بھی ایسا کوئی پس منظر نہیں ہوگا۔ اس لئے کم از کم میرے نزدیک یوسف ثانی صاحب کا خلوص بے وقعت اور بے معنی ہرگز نہیں ہے۔
جہاں تک پس منظر نظر انداز کرنے کی بات ہے تو اس انٹرویو میں یوسف ثانی صاحب اور ایک دو اور ساتھیوں نے بھی ابتداء میں پس منظر جاننے کی کوششیں کیں اور اس غرض سے مختلف الجہت سوالات کرکے انہیں بار بار کریدنے کی سعی کی گئی مگر ایسا کوئی پس منظر سامنے نہ آنے کے بعد اصلاح کی کوششیں کی گئیں۔



ہدایت وتلقین صرف یوسف ثانی صاحب کررہے تھے اور دیگر تقریبا تمام ساتھی خاموشی سے یہ مکالمہ پڑھ رہے تھے لیکن بعد میں چند باتیں ایسی ہوگئیں جس سے مجھ سمیت کچھ ساتھیوں کے مذہبی جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی اور انہوں نے محض اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا اور میرے خیال میں یہ ان کا حق تھا۔ اس سلسلہ میں ہوسکتا ہے کہ ذاتی طور پر میں کچھ زیادہ جذباتی ہوگئی ہوں اور کچھ سخت الفاظ تحریر ہوگئے ہوں لیکن اس میں بھی میں نے گلہ یوسف ثانی صاحب سے ہی کیا ہے لیکن پھر بھی اپنی حد تک میں اپنی ان سخت باتوں کی معافی چاہتی ہوں۔



ایسی ہی مثالیں 90 کی دہائی کی پنچابی فلموں میں بھی بہت تھیں کہ ایک غنڈہ کشتوں کے پشتے لگاتا جاتا ہے بات بات پر قتل کردیتا ہے، اخلاقیات چھوکر بھی اسے نہیں گزری ہوتیں اور پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس غنڈے کے سامنے بے بس ہوتے ہیں۔ لیکن فلم کی دلچسپ بات یہ ہوتی تھی کہ وہی غنڈہ فلم کا مرکزی کردار ہوتا ہے اور فلم کے درمیان میں جب اس کا پس منظر معلوم ہوتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ غنڈہ تو پہلے انتہائی شریف انسان تھا بعد میں حالات نے اسے ایسا بنادیا۔
یہ تو خیر فلم کی مثال تھی لیکن اگر کہیں حقیقت میں بھی حالات کا مارا کوئی شخص ہتھیار اٹھاکر کسی کی ہتھیا کرلے تو کیا دنیا کا کوئی بھی قانون اسے محض اس بناء پر معاف کردے گا کہ اسے اس پر حالات نے مجبور کیا؟؟



میری ناقص عقل کے مطابق مجھے یقین ہے کہ یہی حدیث یوسف ثانی صاحب کے بھی پیش نظر ہوگی اور چونکہ وہ اپنے لئے الحاد پسند نہیں کرتے لہذا ان کی ایمانی غیرت یہ گورا نہیں کرسکی کہ وہ اس کو ایک (سابقہ) مسلمان بھائی کے لئے پسند کریں۔

ظفری بھائی میری اس پوسٹ کا مطلب آپ پر تنقید کرنا ہرگز ہرگز نہیں ہے بس اس ضمن میں کچھ سوالات ذہن میں آئے تو اسے حوالہ فورم کردیا۔ میری کوئی بات بری لگی ہو تو دست بستہ معافی کی خواست گار ہوں۔ امید واثق ہے اسے کہ ایک ناسمجھ وناتجربہ کار مبتدی کی بچگانہ حرکت پر محمول کرتے ہوئے صرف نظر فرماکر اعلی ظرفی کا ثبوت دیں گے۔

جزاک آللہ نازنین صاحبہ!
آپ نے بہت عمدہ طریقہ سے حق و باطل میں حق کی وضاحت و وکالت کا فریضہ انجام دیا ہے۔ مجھے تو ظفری صاحب کی بات سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کہنا چاہ رہے ہیں اور کیوں کہنا چاہ رہے ہیں۔ اگر وہ ایتھیسٹ صاحب کی وکالت و حمایت کر نا چاہ رہے ہیں تو انہیں کھل کر ان کے نظریات و اعمال کی بھی حمایت کرنی چاہئے تھی جو کہ وہ بوجوہ نہیں کر رہے یا کر پا رہے۔ مجھے تو ظفری صاحب سے زیادہ ایتھیسٹ صاحب " پسند " آئے ، جنہوں نے اپنے نظریات و خیالات کو ڈھکے چھپے انداز میں نہیں بلکہ صاف صاف بیان کیا، اور اس بات کی قطعی پرواہ نہیں کی کہ ان کا کسی کو اچھا لگتا ہے یا برا۔ اسی طرح وہ جن سوالات کے جوابات دینے سے قاصر تھے، ان کے جواب میں بھی صاف صاف کہ دیا کہ مجھے ان کے جواب کے لئے مطالعہ کرنا پڑے گا۔
مجھے تو ان کی یہ "دیانت داری" بہت پسند آئی تھی۔ اور میں یہ مکالمہ جاری رکھنا چاہ رہا تھا۔ مگر وہ بوجوہ اس سلسلہ کو جاری نہ رکھ سکے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ مصروف ہوں یا ان سوالوں کے جواب میں مزید مطالعہ میں مصروف ہوں۔ گو مکالمہ کے درمیان تھوڑی سی تلخی ضرور آئی تھی، مگر میں نے بارہا اپنی جانب سے معذرت بھی کی اور یہ بھی بار بار کہا کہ وہ میرے سوالوں کے مجھے یا اس فورم میں جواب دینے کے کے "پابند" ہرگز نہیں ہیں۔ لیکن انہیں اپنے آپ کو اس کا جواب دینا ضرور دینا چاہئے۔

میں نے دانستہ کسی بھی سطح پر "مبلغ" بننے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی انٹرویو کے فارمیٹ کو مناظرہ میں تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ میں اب بھی ان سے مکالمہ کرنے کو پسند کرتا ہوں۔ اگر انہیں فرصت ملے اور میں بھی اس فورم پر دستیاب ہوا تو ہم دونوں یہ مکالمہ جاری رکھ سکتے ہیں۔ ہار جیت یا روایتی مناظرہ بازی سے بالا تر ہوکر ۔ جو سوالات میں نے اٹھائے ہیں، اگر ان سوالات کے جوابات ملے تو سوالات کا یہ سلسلہ آگے بھی بڑھ سکتا ہے ورنہ ۔۔۔ دیواروں سے باتیں کرنا، کم از کم مجھے تو اچھا نہیں لگتا ہے :biggrin:
 

نازنین ناز

محفلین
میری پوسٹ پسند کرنے اور حوصلہ افزائی کا بہت بہت شکریہ
ظفری بھائی نے اپنا ذاتی نکتہ نظر بھی وضاحت سے بیان کردیا ہے کہ:

میں اس بحث کے حوالے سے اپنا بھی نکتہِ نظر وضع کردوں ۔
یہ بہت واضع بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وجود سے انکار عقلی دلائل کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا۔ جو لوگ ایسی کوششیں کرتے ہیں یا تو وہ خدا کے وجود پر پیش کئے گئے دلائل کو اپنی کمزور دلیلوں سے رد کرنے کوشش میں مصروف نظر آئیں گے یا پھر ڈارون کے نظریے جیسے بودے دلائل پیش کرتے نظر آئیں گے۔
دراصل جب کوئی خدا کو تسلیم کر تا ہے تو اس کے نتیجے میں انسان پر کچھ اخلاقی ذمہ داریاں لاگو ہوجاتیں ہیں۔ صرف خدا کو مان لینا محض ایک فلسفیانہ اور مذہبی اقرار نہیں ہے ۔ بلکہ اس کے نتیجے میں ایک معقول شخص کو اللہ اور اس کی جزا و سزا کو ماننا پڑتا ہے۔ اور اس قانون کے سامنے انسان اپنا سرِ خم تسلیم کرلے تو پھر زندگی کو خدا کے بنائے ہوئے اصولوں اور قوانین کے تحت گذارنا پڑتا ہے لہذا جو بے لگام آزادی کے علمبردار ہوتے ہیں۔ وہ ان پابندیوں کے لئے تیار نہیں ہوتے ۔ چنانچہ پھر ایسے نظریات اور عقائد پروان چڑھنے لگتے ہیں ۔ جن کی کوئی عقلی دلیل نہیں ہوتی ۔ مگر جو لوگ کسی حادثے یا کسی تلخ تجربے کی وجہ سے دین سے متنفر ہوجاتے ہیں ۔ ان کی دل جوئی سے دوبارہ ان کو دین کی طرف راغب کیا جاسکتا ہے ۔ مگر عموماً ہم ان دو قسم کے رحجانات میں فرق کر نہیں پاتے ۔ اور پہلی قسم کے لوگوں سے بحث کے اصولوں کو دوسری قسم کے لوگوں پر لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جس سے پیچیدگیاں پیدا ہوتیں ہیں ۔ اور معاملات خراب ہوجاتے ہیں ۔ یہی رویہ ہم نے قادیانیوں کے ساتھ بھی روا رکھا ۔ جب ہم نے دیکھا کہ انہوں نے ایک جھوٹی نبوت کا اقرار کرلیا ہے تو بجائے اس کے کہ ہم ان کی توجہ ان کی غلطی کی جانب صبر و تحمل سے دلاتے ہم نے تشدد کا راستہ اختیار کرلیا ۔ جس کے نتیجے میں وہ اپنے موقف پر اور بھی ڈٹ گئے ۔ اور ان کی آئندہ نسلیں بھی دین سے دور ہوگئیں ۔ ہم نے انہیں اپنے مرکز سے نکال کر دین میں ان کی واپسی کی تمام راہیں تقریباً معدوم کردیں ۔ اور انہوں نے دیارِ غیر میں جاکر نہ صرف اپنے مذہب کو اور بھی منظم کیا بلکہ اپنے مذہب کے پرچار کے لیئے ضرورتِ زمانہ کی ہر آسائش سے لیس بھی ہوگئے ۔

جہاں تک ایتھسٹ صاحب کی دوبارہ شمولیت کی بات ہے تو مجھے امید ہے کہ وہ ضرور تشریف لائیں گے آخر کو وہ اس لڑی کے مہمان خصوصی ہیں۔ :grin:
دوسرے یہ کہ ہمیں فورم پر آپ جیسی قد آوار اور علمی شخصیت کی سخت ضرورت ہے، آپ کی پوسٹس سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے، لہذا آپ سے درخواست ہے کہ آپ بھی فورم پر دستیاب نہ ہونے کی بات نہ کریں اور کثرت سے اپنی حاضری کو یقینی بنائیں۔
میری اس درخواست کو گستاخی پر محمول نہ کیجئے گا بلکہ یہ محض اپنے بزرگ سے اپنائیت کا اظہار ہے۔
امید ہے کہ مایوس نہیں فرمائیں گے۔
 
Top