انٹر نیٹ سے چنیدہ

سید عمران

محفلین
ہم بھی سیکھ چکے ہیں۔ اور اکثر چُپ چاپ (یعنی غائب) رہتے ہیں۔

بس یہ ہے کہ زیادہ عرصہ نچلا نہیں بیٹھا جاتا ہے، تو آموختہ کے لئے آ جاتے ہیں۔ :ROFLMAO:
یہ سکھانے والے کی ان تھک محنتوں کا ثمر ہے جو سب مفت میں کھا رہے ہیں!!!
:):):)
 

محمداحمد

لائبریرین
نادیدہ قوتوں نے ان کی اینٹری پر پابندی لگا رکھی ہے!!!

نادیدہ قوتوں سے ہماری درخواست ہے کہ ایک تو اپنا دیدار کروائیں اور دوسرا عدنان بھائی پر عائد پابندی کو ختم کیا جائے۔

یہ ہماری آخری استدا ہے۔ اس کے بعد احتجاج ہوگا۔ :)
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
نادیدہ قوتوں سے ہماری درخواست ہے کہ ایک تو اپنا دیدار کروائیں اور دوسرا عدنان بھائی پر عائد پابندی کو ختم کیا جائے۔

یہ ہماری آخری استدا ہے۔ اس کے بعد احتجاج ہوگا۔ :)
نادیدہ قوتیں کہیں پہلے سے ہونے والے احتجاجوں کا غصہ بھی آپ پر نہ نکال دیں۔ بچ کے رہیے
 

سید عمران

محفلین
نادیدہ قوتوں سے ہماری درخواست ہے کہ ایک تو اپنا دیدار کروائیں اور دوسرا عدنان بھائی پر عائد پابندی کو ختم کیا جائے۔

یہ ہماری آخری استدا ہے۔ اس کے بعد احتجاج ہوگا۔ :)
نادیدہ قوتیں خود عدنان بھائی کی پیدا کردہ ہیں۔۔۔
جب وہ چاہیں قوتیں بھی ختم، پابندی بھی ختم!!!
 

سیما علی

لائبریرین
"سورہ رعد" کی اٹھائسویں آیت تھی۔
"بے شک اللہ کی یاد دلوں کو سکون بخشتی ہے"
اس نے یہ آیت پڑھی۔ تبھی قرآن کی پچھلی جانب سے کوئی چیز نیچے گری۔ وہ ایک کار کی چابی تھی۔ اسی کے پسند کردہ شوروم میں موجود کار کی چابی, رسید کے ساتھ ۔ چابی کے ساتھ موجود رسید میں اس کی گریجوایشن والی تاریخ لکھی تھی اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا تھا کہ مکمل قیمت ادا کر دی گئی ہے۔
"زندگی میں کتنی ہی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم اللہ پاک کی عطا کردہ ان گنت نعمتوں کو صرف اس وجہ سے ٹھکرا دیتے ہیں کیونکہ وہ ہماری توقعات کے مطابق لبادے میں نہیں ہوتیں۔.
بے شک ایسا ہی ہے ؎
"بے شک اللہ کی یاد دلوں کو سکون بخشتی ہے"
 
***کلامِ سعدی: ایک غلط فہمی کا ازالہ***

اس تحریر کا مقصد آپ تمام بیوقوف اور سادہ لوح قارئین تک یہ اطلاع پہنچانا ہے کہ میں نے بارہ سال تک فارسی زبان پڑھی ہے ۔ اگرچہ فارسی میری مادری زبان نہیں لیکن فارسی گرامر کی درجنوں کتابیں چاٹنے ، لغات کھنگالنے اور برسوں کے گہرے غور و فکر کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ شیخ سعدی کا کلام اتنا مشہور ہونے کے باوجود آج تک صحیح طرح سے کسی کی سمجھ میں آہی نہیں سکا۔ شروع ہی سے لوگ کلامِ سعدی کو غلط طریقے سے سمجھتے آرہے ہیں۔ مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ شیخ سعدی کے کلام کی جتنی بھی شرحیں آج تک لکھی گئی ہیں وہ سب کی سب غلط فہمی پر مبنی ہیں اور بالکل بھی درست نہیں ہیں۔ دراصل یہ لوگ شیخ سعدی کے کلام کو سمجھ ہی نہیں سکے ہیں۔ نہ تو انہیں سعدی کے کسی شعر کے پس منظر کا پتہ ہے اور نہ ہی وہ ان کے الفاظ کی اصل روح تک پہنچ سکے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ تمام شارحین غور و فکر اور تجزیے کی صلاحیت سے عاری تھے۔ مزید دکھ تو اس بات کا ہے کہ غیر فارسی دان تو ایک طرف خود فارسی اہل ِزبان میں سے بھی کوئی آج تک سعدی کے کلام کو سمجھ نہ سکا۔ حد تو یہ ہے کہ شیخ سعدی کے معاصرین، ان کے شاگرد اور حلقہ بردار اصحاب بھی ان کے کلام کومطلق نہ سمجھ سکے۔ بلکہ کلام کی تشریح میں آئیں بائیں شائیں کرتے رہے اور غلط سلط باتیں کتابوں میں لکھ ڈالیں۔ خیر ، یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ الحمدللہ مجھے یہ اطلاع دیتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ یہ خاکسار کلامِ سعدی کے اصل مطالب تک پہنچ چکا ہے۔ صدیوں بعد بالآخر کلامِ سعدی کی روح کو دریافت کرنے کا سہرا اس عاجز ہی کے سر بندھا ہے۔ (این سعادت بزورِ بازو نیست ۔ تانہ بخشد خدائے بخشندہ)۔ اللہ عز و جل نے اپنے کرم سے مجھے اپنی فارسی دانی اورعمیق غور و خوض کی بدولت کلام سعدی کی درست اور بالکل صحیح تشریح کرنے کا شرف بخشا ہے۔ اور یہ امر آپ تمام قارئین لئے بھی باعثِ شرف ہونا چاہئے کہ روزِ اول سے کلام ِسعدی پرغلط فہمیوں اور غلط آرائیوں کی جو دھول جمی ہوئی تھی اسے صاف کرنے کا کام میں اپنی نوکِ قلم سے انجام دے رہا ہوں۔ الحمدللہ ، میں فارسی شعر فہمی کے اس درجے پر پہنچ چکا ہوں کہ اب میں آپ کو سعدی کے شعر کا وہ اصل روپ اور چہرہ دکھا سکوں گا جو آج تک سارے زمانے سے پوشیدہ رہا ۔ اپنے تدبر اور تفکر کی بدولت میں نے سعدی کے اشعار سے ایسے ایسے نکتے برآمد کئے ہیں کہ جن تک شاید خود شیخ سعدی کی نظر بھی نہ پہنچ سکی ہو۔ یہ اللہ کا کرم ہے کہ صرف مجھ حقیر ناچیز ہی پر اس نے عقل و دانائی کے یہ روشن دروازے وا کئے اور شیخ سعدی کے باطن میں جھانکنے اور ان کے کلام کی اصل روح کو سمجھنے اور سمجھانے کی توفیق عطا فرمائی۔ مجھے امید ہے کہ یہ کار خیر میرے لئے رہتی دنیا تک ایک صدقہء جاریہ اور آخرت میں باعثِ بخشش ثابت ہوگا ۔ وما توفیقی الا باللہ است ۔
********************************************************* ******************************************************** ******************************************************************************************************************
"کلامِ سعدی: غلط فہمی کا ازالہ" کے عنوان سے جو تحریر میں نے اوپر لکھی ہے اس کی مضحکہ خیزی اوربیہودہ پن روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ اول تو مجھے اس درجے کی فارسی آتی ہی نہیں ہے لیکن اگر آتی بھی ہو تو زبان دانی اور شعر فہمی کے یہ دعوے کرنا کہ کلامِ سعدی کو آج تک کوئی بھی کماحقہ نہیں سمجھ سکا اور اس کا صحیح مفہوم صرف مجھ پر ہی کھلا ہے کتنی کھوکھل ، بیہودہ اور بیکارسی بات ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کلامِ سعدی کے بارے میں اس طرح کی بات کرنا تو بیہودہ اور بیوقوفانہ ہے لیکن کلامِ الہی کے بارے میں ایسے دعوے کرنا اب علمی گفتگو کہلاتی ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ ایسے احمقانہ دعووں کو نظر انداز کرنے کے بجائے اب میں اور آپ اس "علمی بحث" میں شریک ہوجاتے ہیں۔

آپ ذرا دیر کے لئے میری مندرجہ بالا تحریر میں کلامِ سعدی کی جگہ کلامِ الٰہی رکھ کر دیکھئے۔ تمام استعارے آپ پر کھل جائیں گے اور میرے دعووں کی احمقانہ نوعیت واضح تر ہوجائے گی۔ قرآن فہمی کے لئے حدیث اور روایت کے سلسلوں کو نظرانداز کردینا اور محض لغات اور گرامر کی رو سے کلامِ الٰہی کی تفہیم و تفسیر کرنا دراصل خودقرآن کے انکار کی طرف پہلا قدم ہے۔ یعنی اگر کسی عمارت کو علی الاعلان ڈھانا ممکن نہ ہو تو چپکے چپکے اس کی بنیاد کو تباہ کردینا چاہئے۔ پھر کچھ ہی عرصے میں عمارت کا خود بخود ڈھے جانا لازم ہے۔ یعنی قرآن فہمی کے نام پر حدیث کا انکار کرکے دراصل قرآن کی عمارت ڈھانے کا چپکے چپکے اہتمام کیا جارہا ہے۔

کلامِ الٰہی کی تفسیر و تشہیر کا انتظام خود صاحبِ کلام نے کیا۔ اس نے اپنے کلام کو تختیوں کی صورت میں نازل کرنے کے بجائے ایک چلتی پھرتی زندہ تفہیم و تفسیر کی صورت میں ایک پیغام رساں کے ذریعے انسانوں تک پہنچایا ہے۔ اس پیغام رساں کے کردار کو درمیان سے نکال کر کلامِ الٰہی کو کس طرح سمجھا اور اپنایا جاسکتا ہے؟! اتنی سی بات تو مجھ ناقص العقل کی سمجھ میں بھی آتی ہے۔ لیکن نہیں آتی تو ان علاموں اور دانشوروں کی سمجھ میں نہیں آتی جو عربی زبان کی چار کتابوں اور لغات کی مدد سے قرآن فہمی کا منفرد دعوی کررہے ہیں اور یہ راگ بھی الاپتے جاتے ہیں کہ آج تک کلامِ الٰہی کو جس طرح سمجھا گیا وہ سب غلط تھا۔چودہ سو سال کے بعد اب صرف ہم ہی اس کلام کو صحیح طور پر سمجھے ہیں۔

خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے


٭٭٭واٹس ایپ سے منقول ٭٭٭
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اَدبی مزاح😍

میرے بَھیّا کا یقین تھا کہ نام کا شخصیت پر بہت اثر ہوتا ہے۔
کہتے ہیں کہ "میرے اندر اگر مدد کا جذبہ ہے تو اس لئے کہ ابّا نے میرا نام ہی امداد رکھا۔ بڑے بھائی نمازی ہیں اور ان کا نام زاہد ہے۔ آپا کا نام نفیسہ رکھا گیا تو وہ مزاجاً انتہائی نفاست پسند واقع ہوئیں۔ منجھلی بہن کا نام صاعقہ رکھا گیا، تو وہ اپنے نام کی طرح ہر وقت آسمانی بجلی کی طرح کڑکتی رہتی ہیں۔ چھوٹی کا نام مسرت ہے اسی لیے وہ ہمیشہ خُوش رہتی ہیں اور سب میں خُوشیاں بِکھیرتی رہتی ہیں۔
لیکن! سب سے زیادہ باتیں ابّا کو چھوٹے بھائی کا نام رکھنے پر سُننے کو مِلیں۔
وہ ہر وقت سویا ہی رہتا۔
ابا نے اُس کا نام ضمیر رکھ دیا تھا.
 

سید عمران

محفلین
میرے بَھیّا کا یقین تھا کہ نام کا شخصیت پر بہت اثر ہوتا ہے۔
آپ کے بھیا کا ناموں پر سے یقین اٹھ گیا اس وقت ۔۔۔
جب انہوں نے دیکھا کہ ان کی گلی میں دو یوسف رہتے ہیں۔دونوں کا حسن یوسف سے اتنا بھی تعلق نہیں جتنا مسجد اقصیٰ کی وجہ سے اسرائیل کا مسلمانوں سے۔پھر ان کی مسجد میں رئیس صاحب نماز پڑھنے آتے ہیں جن کو تین وقت کا کھانا نصیب نہیں ہوتا، سوکھ کر کانٹا ہوئے جارہے ہیں۔ادھر ان کا کزن ریحان جس کے پاس سے سوسن و ریحان کی خوشبو کیا ٓآتی ہر وقت عجیب سی بدبو آتی رہتی ہے۔اور وہ خالہ صابرہ جن کے لڑائی جھگڑے اور زبان درازی خاندان بھر میں بدنام ہے، صبر تو ان کو چھو کر نہیں گزرا۔۔۔
ابھی ان کی اپنی قدسیہ تو رہ ہی گئی جس کا ان سمیت محلہ کے ہر لڑکے کے ساتھ چکر ہے، تقدیس کس چڑیا کا نام ہے وہ اس بارے میں جاننا بھی نہیں چاہتی!!!
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
آپ کے بھیا کا ناموں پر سے یقین اٹھ گیا اس وقت ۔۔۔
جب انہوں نے دیکھا کہ ان کی گلی میں دو یوسف رہتے ہیں۔دونوں کا حسن یوسف سے اتنا بھی تعلق نہیں جتنا مسجد اقصیٰ کی وجہ سے اسرائیل کا مسلمانوں سے۔پھر ان کی مسجد میں رئیس صاحب نماز پڑھنے آتے ہیں جن کو تین وقت کا کھانا نصیب نہیں ہوتا، سوکھ کر کانٹا ہوئے جارہے ہیں۔ادھر ان کا کزن ریحان جس کے پاس سے سوسن و ریحان کی خوشبو کیا ٓآتی ہر وقت عجیب سی بدبو آتی رہتی ہے۔اور وہ خالہ صابرہ جن کے لڑائی جھگڑے اور زبان درازی خاندان بھر میں بدنام ہے، صبر تو ان کو چھو کر نہیں گزرا۔۔۔
ابھی ان کی اپنی قدسیہ تو رہ ہی گئی جس کا ان سمیت محلہ کے ہر لڑکے کے ساتھ چکر ہے، تقدیس کس چڑیا کا نام ہے وہ اس بارے میں جاننا بھی نہیں چاہتی!!!
میرے مراسلے کا جواب ہے؟؟ 🤣
 
Top