انٹر نیٹ سے چنیدہ

سیما علی

لائبریرین
آج تک آپ نے بیوی سے جھگڑے کے نقصانات پڑھے ہوں گے لیکن آئیے آج ہم آپ کو بیوی سے لڑنے کے فوائد سے متعارف کراتے ہیں:

اپنی زوجہ سے لڑنے کے فوائد:

*1-* نیند میں کوئی خلل نہیں آتا

سُن رہے ہو کیا ،
لائٹ بند کرو ،
پنکھا بند کرو ،
کمبل ادھر دو ،
ادھر منہ کرو ،
وغیرہ

*2-* جب تک بیوی سے جھگڑا رہتا ہے، اس دوران بیوی پیسے نہیں مانگتی

*3-* جھگڑے کے دوران بات چیت بند ہوتی ہے جس سے روز روز کی کِچ کِچ کم ہوتی ہے اور شوہر بلا وجہ کشیدگی سے بچا رہتا ہے ۔

*4-* جو کام آپ خود کر سکتے ہیں وہ اس لیے نہیں کرتے کہ بیوی کر دیتی ہے، لڑائی کے بعد وہ چھوٹے موٹے کام
(خود اٹھ کر پانی پینا، نہانے کے لیے اپنے کپڑے خود نکالنا، اپنے لئے خود چائے بنانا) خود کر کے شوہر کام کرنے کا عادی ہو جاتا ہے ۔

*5-* جھگڑے کے دوران کام کے وقت آپ کو بیوی کی فالتو کالز (جانو کیا کر رہے ہو؟ دل نہیں لگ رہا ہے ،
آج موسم کیسا ہے ، کھانا کھایا تھا ؟ اس قسم کے فقرے ) نہیں آتے، جس سے آپ اپنے کام پر بھرپور توجہ مرکوز کر سکتے ہیں۔

*6-* سب سے زیادہ شوہروں کو کام کے بعد جلدی گھر آنے کے لئے گھر سے بار بار فون آتے ہیں. مگر ایک
بار جھگڑا ہو جانے کے بعد آپ کچھ دن تک اس فکر سے دور رہ سکتے ہیں۔

*7-* یہ انسان کی نفسیات ہے کہ جو چیز نہیں ہوتی اس کی قیمت کا احساس تب ہی ہوتا ہے، جھگڑے کے دوران
بیوی کو آپ کی قدر کا احساس ہوتا ہے ۔

*8-* آپس میں جھگڑے سے محبت بڑھتی ہے، کیوں کہ اکثر دیکھا گیا ہے ایک بار بارش ہو جائے تو موسم سہانا ہو جاتا ہے

تو آئیے عہد کریں کہ آج کے بعد آپ سب شوہر مہینے میں ایک نہ ایک بار اپنی بیوی سے جھگڑا
ضرور کریں گے *(بیوی تو ہمیشہ تیار رہتی ہے)*
تاکہ ایک ماہ میں کچھ دن شوہر حضرات بھی کچھ وقت امن و سکون سے گزار سکیں ۔
اور ساتھ میں سب کنواروں کے لیے بھی دعا کریں تا کہ ان کی زندگی میں بھی کوئی ایسی آئے جس سے وہ "جھگڑا" کرسکیں...

*شوہروں کے مفاد میں جاری نوٹ:👇🏽*

*1- جھگڑا اپنے رسک پر اور اپنی جسمانی صحت کے مطابق کریں۔

*2- جھگڑے کے ضمنی اثرات کی ذمہ داری مصنف کی نہیں ہوگی۔*

*3 -زنانہ آلاتِ حرب (بیلن ،ڈنڈا،جھاڑو) سے بچنے کا خود بندوبست کریں۔*🤭🤭🤭
 

سیما علی

لائبریرین
‏اردو کے حروف تہجّی کی دو اقسام ہیں
نمبر 1
نقطہ والے جیسے کہ
ش چ ج ظ ض ق ف غ ث ت ب وغیرہ
نمبر 2
بلا نقطہ والے جیسے
ح ع ط س ر ص و ک ل م د وغیرہ
بغیر نقطہ والےحروف قوی اور طاقتور مانے جاتے ہیں اور نقطہ والے حروف کمزور و ضعیف مانےجاتے ہیں.
‏اب آپ غور کریں کہ سسرال ، سسر ، ساس ، سالا ، سالی کسی میں بھی نقطہ نہیں ہے کیونکہ یہ تمام رشتے بہت مضبوط اور طاقتور ہوتے ہیں.
داماد کے کسی حرف پر بھی نقطہ نہیں ہے کیو نکہ یہ بھی شادی کےبعد بہت قوی ہوجاتا ہے.
‏آپ داماد اور ساس کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کے انکو جدھر سے بھی پڑھیں گے داماد اور ساس ہی رہیں گے یعنی دونوں کا سیدھا تو سیدھا ہے ہی مگر دونوں کا الٹا بھی سیدھا ہوتا ہے
اس لئے ان ارکان خمسہ ،کا خیال رکھیں! 😜😎😷

*"اردو کی وچکارلی کتاب"*
 

سید عمران

محفلین
ایک قابل رشک کہانی... تربیت اولاد کے دو اصول!!!
♾️♾️🌾🏵️🌾♾️♾️

چند روز پہلے فیصل آباد کے ایک نجی سکول کی سالانہ پیرنٹس ٹیچرز میٹنگ میں میرا تربیت اولاد کے عنوان پر سیشن تھا.
🎗️اس تقریب میں کچھ بچوں اور والدین کو ایوارڈز بھی دیے گئے تھے.
ایک دراز قد ، بہ ظاہر ان پڑھ خاتون کو
🏆 "سال کی بہترین ماں" کا ایوارڈ دیا گیا.

سیشن کے اختتام پر میں نے ایوارڈ حاصل کرنے والی ماں کو ڈھونڈنا شروع کیا.
🏡 لیکن وہ سکول میں پڑھنے والے تینوں بچوں کو لے کر اپنے گھر واپس چلی گئی تھیں.
میں نے پرنسپل صاحب سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگر آپ کو اس خاتون کا گھر معلوم ہو تو میں آپ کے ساتھ جا کر کچھ دیر کے لیے اس ماں سے ملنا چاہتا ہوں.

💫پرنسپل صاحب مجھے سکول سے بہت دور محلہ غلام آباد لے گئے. وہاں ایک معمولی سا گھر تھا.
جو ایک کمرے پر ہی مشتمل تھا.
چھوٹا سا برآمدہ اور اتنا ہی صحن تھا.
🌼 بچے اور ان کی ماں گھر میں موجود تھے .
وہاں جا کر معلوم ہوا کہ بچوں کا والد ایک فیکٹری میں مزدوری کرتا ہے.
🚹ان کے تین بیٹے ہیں اور بیٹی کوئی نہیں.
ماں گھر میں رہ کر سلائی مشین پر لوگوں کے کپڑے سیتی ہے.
اپنی محنت کی کمائی سے وہ بچوں کی سکول فیس ادا کرتی ہے.
🏫 یہ صرف ماں کا ہی شوق تھا کہ بچے شہر کے اچھے سکول میں پڑھ رہے تھے.
سکول انتظامیہ نے بچوں کے شوق اور تعلیمی رجحان کو دیکھ کر کچھ فیس کم بھی کر دی تھی.

🔍 میری کھوجی طبیعت کو ایک دل چسپ سٹوری ملنے والی تھی.
میں ہمیشہ اپنے ارد گرد بکھری کہانیوں کو ہی فوکس کرتا ہوں.
ہمارے ارد گرد ایسے ہزاروں کردار موجود ہیں جنہیں رول ماڈل بنا کر آگے بڑھا جا سکتا ہے.
زندگی ساز اور کردار ساز واقعات کی ہمارے ہاں کوئی کمی نہیں، بس دیکھنے والی آنکھ اور محسوس کرنے والے دل کی کمی ہے.

🪦میں نے پرنسپل صاحب کی اجازت سے اس خاتون سے پوچھا کہ آپ کو سال کی بہترین ماں کا ایوارڈ ملا ہے.
اس ایوارڈ ملنے پر آپ کیا محسوس کر رہی ہیں ؟
وہ خاتون پر جوش اور پر اعتماد انداز میں بولیں،
🎯مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے.
پچھلے سال بھی مجھے ہی یہ ایوارڈ ملا تھا.
کیوں کہ میرے بچے سکول سے ناغہ نہیں کرتے،
صاف ستھرے یونیفارم میں سکول جاتے ہیں.
ان کی لکھائی بہت خوب صورت ہے.
🎒 ان کا ہوم ورک مکمل ہوتا ہے.
یاد کرنے کا سبق بھی ٹھیک طرح سے یاد کر کے جاتے ہیں.
تینوں بچے ہر سال امتحانات میں فرسٹ پوزیشن بھی لیتے ہیں. خاتون کے بچے بالترتیب چھٹی، 🥇پانچویں اور چوتھی جماعتوں میں زیر تعلیم تھے.

میں نے پوچھا،
🏫 کیا بچے سکول کے بعد اکیڈمی پڑھنے جاتے ہیں؟
وہ خاتون جھٹ سے بولی.
نہیں،
میں نے انہیں کبھی بھی کسی اکیڈمی میں نہیں بھیجا.
میں ان پڑھ ہوں لیکن میں نے دو اصولوں کو اپنی زندگی کا لازمہ بنا لیا ہے.

1️⃣ پہلا اصول یہ ہے کہ میں گھر کے تمام ضروری اور بنیادی کام کپڑے دھونا، صفائی وغیرہ، کھانا پکانا، سلائی مشین پر کپڑے سینا اس وقت کرتی ہوں
🥅 جب بچے سو رہے ہوں یا سکول گئے ہوں یا عصر کے بعد گراؤنڈ میں کھیلنے کے لیے گئے ہوں.
میں اس دوران میں ہی سارے کام نمٹا لیتی ہوں .
جب میرے بچے گھر آتے ہیں تو میں اپنی پوری توجہ ان کو دیتی ہوں.
اس وقت گھر کا کوئی کام نہیں کرتی.
میرے بچے ہوتے ہیں یا میں ان کا 🎗️سایہ بن کر ان کے ساتھ ساتھ ہوتی ہوں.

میں بڑی توجہ سے سادہ پنجابی لہجے کی اردو میں اس خاتون کی باتیں سن رہا تھا،
جب وہ لمحے بھر کو رکیں تو میں نے پوچھا
🎯 دوسرا اصول بھی بتا دیں .
وہ ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پہ سجاتے ہوئے بولیں،
میرا دوسرا اصول یہ جیسے ہی میرے بچے مغرب کی نماز سے فارغ ہوتے ہیں.
🎒 میں فرش پر چٹائی بچھا کر بیٹھ جاتی ہوں اور انہیں کہتی ہوں کہ اپنے اپنے سکول کے بستے لے آؤ.
پھر میں ان میں سے ہر ایک سے اس کا سکول میں پڑھا جانے والا سبق سنتی ہوں.
مجھے کچھ سمجھ نہیں آتی.
لیکن میرے بچے سمجھتے ہیں کہ میں پڑھی لکھی ہوں اور سب کچھ سمجھ رہی ہوں.
💫میں ہر مضمون کا سبق تین بار پڑھنے کا کہتی ہوں.
بچے سناتے ہوئے یاد کر لیتے ہیں.
روز کا سبق روز یاد کرنے سے بچے امتحانات کے دنوں میں پریشان بھی نہیں ہوتے.
انہیں پوری کتاب یاد ہو چکی ہوتی ہے.
مغرب سے عشاء تک بچے بلا ناغہ میرے پاس بیٹھ کر پڑھتے ہیں.
میں بھی روز کچھ نیا سیکھتی ہوں.
اور میرے دل کو تسلی بھی ہو جاتی ہے کہ میرے تینوں بیٹوں نے اپنا سبق دہرا کر اپنے ذہنوں میں محفوظ کر لیا ہے.
بات ختم ہو چکی تھی.

میں وہاں سے واپس آتے ہوئے رستے میں یہ سوچ رہا تھا کہ ایک ان پڑھ ماں اپنے بچوں کو ملک و قوم کی خدمت کے لیے کس انداز میں تیار کر رہی تھی.❓
وہ قابل تعریف ماں ہے.
یقیناً یہی بچے ہمارے مستقبل کے معمار بنیں گے.
یہ پڑھ کر سوچ رہا ہوں جہاں ماں موبائل پر لگی رہتی ہے ناول پڑھتی لکھتی ہے
📱 ان کے بچے بھی موبائل میں ہی لگے رہتے ہوں گے پھر تو افسوس کس بات کا بچوں کا تو کوئی قصور نہیں ہے.
 

سیما علی

لائبریرین
میں وہاں سے واپس آتے ہوئے رستے میں یہ سوچ رہا تھا کہ ایک ان پڑھ ماں اپنے بچوں کو ملک و قوم کی خدمت کے لیے کس انداز میں تیار کر رہی تھی.❓
وہ قابل تعریف ماں ہے.
یقیناً یہی بچے ہمارے مستقبل کے معمار بنیں گے.
بہت اعلیٰ طریقۂ تربیت ۔۔۔وہ ماں ان پڑھ نہیں ہوسکتی جسکا طریقۂ تربیت اسقدر عمدہ ہے قابل ستائش ہے ۔ہماری والدہ اور اُنکی والدہ کا تعلق اُس جنریشن سے نہیں جو بہت کولیفائیڈ تھیں پر اپنی اولاد کی تربیت انتہائی شاندار کی ۔۔۔۔۔ہماری اماّں کہا کرتیں فلاں پڑھا نہیں پر کڑھا ہے تو سمجھ نہیں آتا تھا پر آہستہ آہستہ زندگی نے سکھایا پڑھائی سے زیادہ کڑھائی ضروری ہے اس کڑھائی سے اُنکا مطب کشیدہ کاری والی کڑھائی 😊😊😊😊😊
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
بچے پالنا کوئی بڑا کام نہیں۔۔۔۔۔۔
‏جانور اور پرندے بڑے بہتر انداز سے یہ کام صدیوں سے کرتے آ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔
‏بڑا کام بچوں کی تربیت ہے اور تربیت توجہ اور وقت مانگتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سید عمران

محفلین
لالچ کے گھوڑے

ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک بادشاہ تھا جو خوش نہیں تھا لیکن وہ خوش رہنا چاہتا تھا اس نے خوش رہنے کے لئے بہت سی طریقے استعمال کیے۔ لیکن خوش نہ رہ سکا۔ یہاں تک کہ اس نے خوشی کی ماہرین کے ساتھ بھی رابطہ کیا۔ لیکن اس سے بھی اس کو کچھ حاصل نہ ہوا۔ ایک دن بادشاہ پہاڑ پر چڑھا۔ وہاں دیکھا ایک درویش بیٹھا ہوا تھا۔

درویش کے دو مشاغل تھے‘ صبح صادق کے وقت مشرق کی طرف منہ کر کے بیٹھ جانا اور سورج کو آہستہ آہستہ افق سے ابھرتے ہوئے دیکھنا اور اور اس کے بعد جنگل میں نکل جانا‘ سارا دن جنگل میں گزار دینا۔بھوک لگتی تھی تو وہ درختوں سے پھل توڑ کر کھا لیتا تھا‘ پیاس محسوس ہوتی تو وہ ندیوں‘ جھرنوں اورآبشاروں کا پانی پی لیتا‘ درویش کے پاس رہنے کیلئے ایک کٹیا تھی‘ وہ رات کٹیا میں آ جاتا تھا‘ درویش کے پاس سردیوں کیلئے دو کمبل تھے‘ گرمیوں کیلئے کھلا آسمان اور ٹھنڈی زمین تھی اور کپڑے لتے کی ضرورت زائرین پوری کر دیتے تھے‘ درویش کے پاس اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا لیکن وہ اس کے باوجود خوش تھا‘ بادشاہ اس خوشی کی وجہ دریافت کرنے کیلئے درویش کے پاس پہنچ گیا‘ درویش نے سنا‘ قہقہہ لگایا‘ لکڑی کی کھڑاویں پہنیں اور بادشاہ سے کہا ’’ بادشاہ سلامت میں اس کا جواب آپ کے دربار میں جا کر دوں گا‘‘ بادشاہ نے درویش کو گھوڑے پر بٹھایا اور دارالخلافہ آ گیا‘ درویش نے درخواست کی‘ آپ اب کسی ضرورت مند کو بلائیے‘ بادشاہ نے عرضیوں کی ٹرے سے ایک خط نکالا‘وہ خط وزیر کے حوالے کیا اور ضرورت مند کو طلب کرنے کا حکم دے دیا

ضرورت مند کو دربار میں حاضر کر دیا گیا‘ درویش نے بادشاہ کے کان میں سرگوشی کی ’’ آپ حکم جار کریں‘ اے ضرورت مند! تم جاؤ‘ میری سلطنت میں دوڑو‘ تم سورج غروب ہونے تک زمین پر جتنا بڑا دائرہ بنا لو گے وہ زمین تمہاری ہو جائے گی‘‘۔ بادشاہ نے ضرورت مند کو حکم دے دیا‘ حکم جاری ہونے کے بعد بادشاہ‘ درویش اور درباری محل کے سامنے کرسیاں بچھا کر بیٹھ گئے‘ ضرورت مند کو لکیر کھینچ کر ایک مقام پر کھڑا کر دیا گیا‘ بادشاہ کا رومال ہلا اور ضرورت مند نے دوڑنا شروع کر دیا‘ ضرورت مند نے دوڑ کے آغاز میں وقت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا‘ صبح سے ظہر تک آگے جانا اور ظہر سے مغرب تک واپسی کا سفر۔ ضرورت مند کا خیال تھا‘ یوں وہ زمین کا بہت بڑا ٹکڑا ہتھیا لے گا۔ لیکن لالچ اور حرص بھی کیا عجیب چیز ہے۔ ضرورت مند سرپٹ بھاگتا رہا‘ ظہر کے وقت اس نے چار سو ایکڑ زمین گھیر لی‘ فارمولے کے مطابق ضرورت مند کو اب واپسی کا سفر شروع کرنا تھا لیکن وہ لالچ کا شکار ہو گیا‘ اس نے سوچا میں اگر اپنی سپیڈ بڑھا لوں تومیں عصر تک سو ایکڑ زمین مزید گھیر لوں گا

اور میں اگر اسی سپیڈ سے واپسی کیلئے دوڑوں تو میں مغرب تک واپس پہنچ جاؤں گا۔ میں آپ کویہاں انسان کی فطرت کی ایک کمزوری بتاتا چلوں‘ انسان لالچی ہے اور لالچ میں دو درجن خامیاں ہیں لیکن اس کی سب سے بڑی خامی کا تعلق انسانی ذہن کے ساتھ ہے‘اللہ تعالیٰ نے انسان کو تخمینہ لگانے‘ کیلکولیشن کرنے کی صلاحیت سے نواز رکھا ہے‘ ہم جب بھی کوئی چیز دیکھتے ہیں‘ ہمارا دماغ فوراً اس کے عرض بلد‘ موٹائی‘ وزن اور قیمت کا اندازہ لگاتا ہے اور ہم اس کیلکولیشن کی بنیاد پر اگلے فیصلے کرتے ہیں مگر ہم جب لالچ میں آتے ہیں تو ہمارا دماغ ایک عجیب کیمیکل پیدا کرتا ہے‘ یہ کیمیکل ہماری کیلکولیشن کی کی صلاحیت کو تباہ کر دیتا ہے اور یوں ہم غلط فیصلے کرنے لگتے ہیں‘ آپ فراڈیوں کے ہاتھوں عمر بھر کی کمائی لٹانے والے لوگوں کی کہانیاں سنیں‘ آپ کہانی سننے کے فوراً بعد کہیں گے’’ تم پڑھے لکھے‘ سمجھ دار انسان ہو‘ تم یہ اندازہ نہیں لگا سکے لوہا کبھی سونا نہیں بن سکتا یا جو شخص ٹیکسی پر تمہارے پاس آیا تھا وہ تمہیں پانچ کروڑ کی زمین اڑھائی کروڑ میں کیسے دے سکتا ہے یا جو دکان مارکیٹ میں کروڑ روپے کی ہے وہ دس لاکھ روپے میں کیسے مل سکتی ہے اور مٹھائی سے شوگر کا علاج کیسے ہو سکتا ہے اور اتنی خوبصورت لڑکی امریکا سے پاکستان آ کر تم جیسے میٹرک فیل لڑکے سے کیوں شادی کرے گی

وغیرہ وغیرہ۔ فراڈ کا نشانہ بننے والا عموماً یہ جواب دیتا ہے ’’ بھائی جان وہ جادوگر تھا‘ اس نے میری عقل پر پردہ ڈال دیا تھا ‘‘ فراڈیاجادوگر نہیں تھا‘ جادوگر لالچ تھا اور لالچ سے پیدا ہونے والا وہ کیمیکل تھا جو انسان کی عقل سلب کر لیتا ہے اور یوں اچھا بھلا سمجھ دار شخص ماموں بن جاتا ہے‘ میں واپس زمین گھیرنے والے شخص کی طرف آتا ہوں‘ لالچ نے اس کی عقل بھی سلب کر لی‘ اس کی کیلکولیشن بھی غلط ہو گئی‘ وہ مزید زمین کے لالچ میں عصر تک بھاگتا رہا‘ سورج نے جب تیزی سے واپسی کا سفر شروع کیا تو اس شخص کو اپنی غلطی کا احساس ہوا‘ وہ پلٹا اور واپسی کیلئے دوڑ لگا دی لیکن دیر ہو چکی تھی‘ وہ اب مغرب سے قبل واپس نہیں پہنچ سکتا تھا‘ اس کے پاس اس وقت دو آپشن تھے‘ وہ اپنی ہار مان لیتا‘ دوڑنا بند کر دیتا اور چپ چاپ گھر واپس چلا جاتا یا پھر جیتنے کیلئے سرتوڑ کوشش کرتا‘ وہ دوسرے آپشن پر چلا گیا‘ میں آپ کو یہاں انسان کی ایک اور خامی بھی بتاتا چلوں‘ کامیابی میں سرتوڑ محنت ہمیشہ تیسرے نمبر پر آتی ہے‘ پہلا نمبر پلاننگ اور دوسرا نمبرصلاحیت کو حاصل ہوتا ہے

‘ آپ کی منصوبہ بندی غلط ہے‘ آپ پہاڑ پر کھجور لگانا چاہتے ہیں یا صحرا میں چاول اگانا چاہتے ہیں تو خواہ کتنی محنت کر لیں آپ کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہوں گے‘ دوسرا آپ میں اگر صلاحیت نہیں‘ آپ نے اگرباقاعدہ ٹریننگ حاصل نہیں کی ‘ آپ نے اگرٹاسک کیلئے تیاری نہیں کی تو بھی آپ خواہ کتنی ہی سر توڑ محنت کر لیں آپ کامیاب نہیں ہو سکیں گے‘ زمین گھیرنے والا بھی منصوبہ بندی اور صلاحیت دونوں سے عاری تھا چنانچہاس نے دوسرا فیصلہ بھی غلط کیا‘ اس نے سر توڑ کوشش کی ٹھان لی‘ بھاگنے کی سپیڈ بڑھا دی‘ وہ بری طرح تھکاوٹ کا شکار تھا لیکن وہ اس کے باوجود دیوانہ وار دوڑ رہا تھا‘ وہ وقت پر پہنچنے کی کوشش میں اپنی سپیڈ بڑھاتا رہا یہاں تک کہ اس کے پھیپھڑے پھٹ گئے‘ اس کے منہ سے خون جاری ہو گیا لیکن وہ اس کے باوجود بھاگتا رہا‘ وہ بالآخر بادشاہ تک پہنچ گیا لیکن گول پرپہنچنے کے بعد اس نے لمبی ہچکی لی‘ زمین پر گرا‘ تڑپا اور اپنی جان‘ جان آفرین کے حوالے کر دی‘ وہ زمین جیت گیا تھا لیکن زندگی ہار گیا۔درویش اپنی جگہ سے اٹھا‘ زمین پر گرے شخص کے قریب آیا‘ ہاتھ سے اس کی کھلی آنکھیں بند کیں‘ بادشاہ کو قریب بلایا اور اس بدنصیب شخص کی لاش دکھا کر بولا’’ بادشاہ سلامت حرص کے بیوپاری کبھی خوش نہیں رہ سکتے

یہ شخص مجھ سے بہتر زندگی گزار رہا تھا‘ میرے پاس کپڑوں کا ایک جوڑا‘ لکڑی کے جوتے‘ دو کمبل اور ایک پیالے کے سوا کچھ نہیں ‘ میں شہر سے کوسوں دور پہاڑ پر رہتا ہوں‘ پھل کھاتا ہوں اور ندیوں کا پانی پیتا ہوں لیکنخوش ہوں‘ کیوں؟ کیونکہ میں لالچ نہیں کرتا جبکہ آپ میرے مقابلے میں اس شخص کے اثاثے دیکھئے‘ یہ شخص مجھ سے ہزار درجے بہتر ہو گا‘ اس کے پاس مکان بھی ہو گا‘ بیوی بچے بھی‘ کپڑے بھی‘ سواری بھی‘ دال اناج بھی اور زمین جائیداد بھی لیکن یہ اس کے باوجود زمین پر گر کر مر گیا‘ کیوں؟ کیونکہ یہ اپنے اندر کے لالچی انسان کو قابو میں نہ رکھ سکا‘ یہ دیوانہ وار خواہشوں کے پیچھے بھاگتا رہا‘ یہ کبھیکسی کو درخواست دے دیتا اورکبھی آپ کو عرضی بھجوا دیتا‘ قسمت نے یاوری کی اس کی لاٹری نکل آئی‘ آپ نے اسے زمین گھیرنے کی اجازت دے دی‘ یہ بھاگا لیکن اس کا لالچ بھی اس کے ساتھ ہی دوڑ پڑا‘ یہ اگر سمجھ دار ہوتا‘ یہ اگر درمیان میں قناعت کر لیتا‘ یہ رک جاتا‘ یہ جو حاصل ہو گیا اس پر اکتفا کر لیتا‘ یہ شکر ادا کرتا اور زندگی کو انجوائے کرنا شروع کر دیتا تو یہ نعمت اس کیلئے کافی ہوتی لیکن یہ لالچ کے گھوڑے سے نہ اترا‘۔

یہ بھاگتا رہا یہاں تک کہ لالچ نے اس کی جان لے لی‘‘ درویش نے لمبی سانس لی اور بولا ’’ بادشاہ سلامت! حرص اور خوشی دونوں سوتنیں ہیں‘یہ اکٹھی نہیں رہ سکتیں‘ آپ خوش رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو لالچ کو طلاق دینا ہو گی‘ خوشی خود بخود آپ کے گھر میں بس جائے گی لیکن آپ اگر لالچ کے گھوڑے پر بیٹھ کر خوشی کی تلاش میں سرپٹ بھاگتے رہے تو آپ کا انجام بھی اس شخص جیسا ہو گا‘ آپ بھی عبرت کا رزق بن جائیں گے‘‘ بادشاہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ اس نے گلوگیر لہجے میں عرض کیا ’’ جناب! بادشاہت حرص کی دلدل ہوتی ہے‘آپ بادشاہ ہوتے ہوئے خود کو لالچ سے کیسے بچا سکتے ہیں‘‘ درویش نے قہقہہ لگایا اور فرمایا ’’ اختیار میں اضافہ بادشاہوں کی حرص ہوتی ہے اور جو بادشاہ زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اس میں اور زمین پر پڑے اس شخص میں کوئی فرق نہیں ہوتا‘ آپ اختیارات سمیٹنے کی بجائے اختیارات بانٹنا شروع کر دیں‘ آپ کو خوشی مل جائے گی‘‘۔ یاد رہے کہ لالچ اور حرص ایک بہت ہی عجیب چیز ہے یہ آپ کے اندر خوشی کو مار دیتی ہیں اور آپ کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہیں جب آپ لالچ کو چھوڑ دیں گے تو آپ کے زندگی میں خوشیاں دوبارہ واپس لوٹ کر آئیں گے۔
 

سید عمران

محفلین
ایک دن میری شریک حیات نے عجیب سا شکوہ کیا، کہنے لگی.. آپ بڑے ظالم ہیں، ہماری شادی کو آٹھ نو سال گزر گئے لیکن آپ نے کبھی مجھے میکے میں رات نہیں گزارنے دی..؟ بندہ نے حیران ہو کے جواب دیا کہ بھلی مانسے... ہم نے وہاں رہنے کو کب منع کیا ہے، جائیں اور جتنا دل چاہے وہاں رہیں"
وہ خوش ہو کے بولیں، ٹھیک ہے پھر میں اگلے دو دن میکے ہی رہوں گی.. لیکن اپ کا ناشتہ اور آفس کی تیاری، دوپہر اور رات کا کھانا کون بنا کے دے گا؟
بندہ نے جواب دیا، آپ کو پتہ ہے کہ میں ہر طرح کا کھانا پکانے میں ماہر ہوں، کپڑے خود دھو بھی لیتا ہوں اور پریس بھی کر لیتا ہوں، اگر کچھ زیادہ مسئلہ ہوا تو بھائیوں کے گھر ساتھ ساتھ ہیں وہاں سے مینیج ہو جائے گا، آپ ریلیکس رہیں اور سکون سے میکے جائیں.
کچھ متفکر نظر آتے ہوئے بولیں، چلیں ٹھیک ہے..
کچھ ضروری ہدایات کے بعد وہ میکے چلی گئیں.، یاد رہے میرے سسرال کے گھر کا فاصلہ آدھے کلومیٹر سے بھی کم ہے.. رات گزر گئی، صبح کی نماز پڑھنے کے بعد واک کرنا میرے معمول میں شامل ہے.. واک کرنے کے بعد بندہ ناشتہ بنانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ دروازہ پہ دستک ہوئی.دروازہ کھولا تو بیگم صاحبہ تھیں. حیرانگی کا جھٹکا لگا.. اتنی صبح سویرے واپسی کر لی.. خیریت؟
کہنے لگیں.. مجھے تو رات کو وہاں نیند بھی نہیں آئی، ساری رات یہی فکر رہی کہ اکیلے گھر میں رات کیسے گزار رہے ہوں گے؟ صبح کو ناشتہ کیسے بنائیں گے، آفس کی تیاری کیسے کریں گے؟ آپ کو تو اپنے کپڑوں اور جوتوں کا بھی پتہ نہیں ہوتا؟لیکن لگتا ہے آپ کو تو میرے بغیر کوئی فرق نہیں پڑنے والا.. کتنے سکون سے مسکرائے جا رہے ہیں.. ساتھ ساتھ ناشتہ کی تیاری بھی جاری تھی..
میں نے مسکراتے ہوئے کہا.. سچ بتاؤں؟
ہاں بتائیں..؟
نیند مجھے بھی نہیں آئی..""
میرا ماننا ہے کہ عورت سے سچی محبت صرف اس کا شوہر ہی کر سکتا ہے، اور مرد سے سچی محبت صرف اس کی بیوی ہی کر سکتی ہے.. محبت ہمیشہ وقت لیتی ہے، انڈرسٹینڈنگ مانگتی ہے.جس کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ لازمی ہے.. نکاح اور شادی اس کا بیسٹ وے ہے.. باقی تمام راستے گمراہی، بے راہروی اور رسوائی کا باعث ہیں..
لہذا مرد اور عورت کی محبت کی پہلی درسگاہ شادی ہی ہے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
میراثی نے نئی گرم چادر لی🤓

اور کندھے پہ رکھکر گاؤں کی چوپال میں جا بیٹھا😎
نمبردار نے چادر دیکھی تو اپنے بیٹے کی بارات میں استعمال کے لئے مانگ لی👁
بارات گاؤں سے نکلی تو چادر دلہے کے کندھے پر تھی🤠
بارات کو دیکھ کہ ایک شخص نے پوچھا🕵️
بارات کِہندی اے؟
میراثی جھٹ سے بولا👻
بارات نمبرداراں دی اے تے!
چادر میری اے🤣
چودھری کے لوگوں نے میراثی کی دھلائی کر دی کہ یہ بتانے کی کیا ضرورت تھی؟
بارات تھوڑی اور آگے گئی🧑‍🎤
تو سامنے آتے ایک شخص نے پوچھا👽
بارات کِہندی اے؟
میراثی جلدی سے بولا😏
بارات نمبرداراں دی اے تے!
چادر وی اوہناں دی اپنی اے😂
ایک دفعہ پھر پھینٹی پڑی😛
کہ تو نے تو اس طرح بول کر لوگوں کو چادر کے بارے جان بوجھ کر شک ڈال دی🤔
اب جو تیسری مرتبہ راستے میں پھر کسی نے پوچھا! کہ اتنی شاندار بارات کس کی ہے؟
تو میراثی نے پوری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جواب دیا🤡
کہ بارات تو نمبرداروں کی ہے!!
لیکن چادر دا مینوں بالکل وی نہیں پتہ😋
میراثی کو پھر مار پڑی!!
کہ اس معاملے میں آئندہ منہ کھولنے کی ضرورت نہیں🙄
بارات پھر چل پڑی👩‍🎤
کچھ دور جا کے ایک بزرگ کھڑے تھے👳‍♂️
انہوں نے پوچھا!
بارات کِہندی اے؟
میراثی سسکتے ہوئے بولا😢
نا مینوں بارات دا پتہ اے👏
نہ ای چ۔۔۔۔۔۔۔ادر دا🤩
 

سیما علی

لائبریرین
(گُل نوخیز اختر کے کالم سے ماخوذ ایک دلچسپ چُٹکلہ)

میرے ایک دوست کو شبہ ہوا کہ اُن کی اہلیہ اونچا سننے لگی ہیں _ موصوف ڈاکٹر کے پاس پہنچے اور کوئی دوائی طلب کی _
ڈاکٹر صاحب نے کہا مریض کو دیکھے بغیر کیسے دوا تجویز کی جاسکتی ہے؟
دوست نے درخواست کی کہ چونکہ اہلیہ بہت غصیلی ہیں لہذا وہ کبھی نہیں مانیں گی کہ انہیں ثقل سماعت کا عارضہ ہے لہذا آپ اندازے سے کوئی دوا لکھ دیجیے _
ڈاکٹر صاحب نے کچھ لمحے سوچا پھر بولے ! ’’ ایک کام کیجیے صرف اتنا پتا کرلیجیے کہ آپ کی اہلیہ کتنا اونچا سُنتی ہیں ؟ اُس کے بعد مجھے دوا تجویز کرنے میں آسانی رہے گی ‘‘
دوست نے حیرت سے پوچھا یہ مجھے کیسے معلوم ہوگا کہ وہ کتنا اونچا سُنتی ہیں؟
ڈاکٹر نے اطمینان دلایا بڑا آسان طریقہ ہے ۔۔ پہلے اپنی اہلیہ کو 15 فٹ کے فاصلے سے آواز دیجیے اگر وہ نہ سنیں تو پھر 10 فٹ کے فاصلے سے آواز دیجیے ۔۔۔ اگر پھر بھی کوئی رسپانس نہ آئے تو مزید قریب جائیے اور 5 فٹ کے فاصلے سے آواز دیجیے _
جتنے فاصلے سے وہ آواز سُن لیں وہ فاصلہ آکر مجھے بتا دیجیے ، میں سمجھ جاوں گا کہ دوا کی کیا مقدار رکھنی ہے علاج آسان ہوجائے گا ۔۔۔
قبلہ بہت خوش ہوئے اور فوراََ گھر پہنچے _ بیگم کچن میں کھانا تیار کر رہی تھی انہوں نے اپنے بوٹ وغیرہ اتارے ، بیڈروم سے کچن کا فاصلہ اندازے سے ناپا اور 15 فٹ کے فاصلے سے آواز لگائی بیگم آج کھانے میں کیا ہے؟
جواب میں ’’پِن ڈراپ سائیلنس‘‘ رہی فوراََ اٹھے قدم آگے بڑھے اور اب کی بار 10 فٹ کے فاصلے سے آواز لگائی بیگم آج کھانے میں کیا پکا ہے؟ جواب ندارد ۔۔۔ یہ پانچ قدم مزید آگے بڑھے اور لگ بھگ کچن کے دروازے کے پاس پہنچ کر تیسری دفعہ بولے بیگم آج کھانے میں کیا پکا ہے؟
ہانڈی میں ڈوئی گھماتی ہوئی بیگم ایک جھٹکے سے مڑیں اور پوری قوت سے چلائیں ۔۔

’’ وے کنّی دفعہ دساں آلو قیمہ پکا اے _ ‘‘
 

سیما علی

لائبریرین
شادی کی تقریب میں ایک صاحب اپنے جاننے والے آدمی کے پاس جاتے ھیں اور پوچھتے ھیں۔۔ کیا آپ نے مجھے پہچانا؟"
انہوں نے غور سے دیکھا اور کہا "ھاں آپ میرے پرائمری سکول کے شاگرد ھو۔ کیا کر رھے ھو آج کل؟"
شاگرد نے جواب دیا کہ "میں بھی آپ کی طرح سکول ٹیچر ھوں۔اور ٹیچر بننے کی یہ خواہش مجھ میں آپ ھی کی وجہ سے پیدا ھوئی۔"
استاد نے پوچھا "وہ کیسے؟"
شاگرد نے جواب دیا، "آپ کو یاد ھے کہ ایک بار کلاس کے ایک لڑکے کی بہت خوبصورت گھڑی چوری ھو گئی تھی اور وہ گھڑی میں نے چرائی تھی۔ آپ نے پوری کلاس کو کہا تھا کہ جس نے بھی گھڑی چرائی ھے واپس کر دے۔ میں گھڑی واپس کرنا چاھتا تھا لیکن شرمندگی سے بچنے کے لئے یہ جرات نہ کر سکا۔
آپ نے پوری کلاس کو دیوار کی طرف منہ کر کے ، آنکھیں بند کر کے کھڑے ھونے کا حکم دیا اور سب کی جیبوں کی تلاشی لی اور میری جیب سے گھڑی نکال کر بھی میرا نام لئے بغیر وہ گھڑی اس کے مالک کو دے دی اور مجھے کبھی اس عمل پر شرمندہ نہ کیا۔ میں نے اسی دن سے استاد بننے کا تہیئہ کر لیا تھا۔"
استاد نے کہا کہ "کہانی کچھ یوں ھے کہ تلاشی کے دوران میں نے بھی اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں اور مجھے بھی آج ھی پتہ چلا ھے کہ وہ گھڑی آپ نے چرائی تھی۔
اُستاد کی عظمت 🤲
 

سیما علی

لائبریرین
ﺩﺳﻤﺒﺮ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺻﺒﺢ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ" :ﺧﺪﺍ ﮐﻮ ﮐﯿﺴﮯ ﯾﺎﺩ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ؟"
ﺗﻮ ﻣﻨﻈﺮ ﺗﺤﻠﯿﻞ ﻧﮧ ﮨﻮﺍ ،ﺫﮨﻦ ﻻﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧ ﮨﻮﺍ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ" ،ﺧﺪﺍ ﺳﮯ ﻣﺪﺩ ﻣﺎﻧﮕﻨﺎ ﮨﯽ ﺍﺳﮯ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ" . ﮨﯿﻠﭗ ﻣﯽ ﮔﺎﮈ "
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ " ﮔﺎﮈ" ﺍﺱ ﮐﮯ ﺫﮨﻦ ﺳﮯ ﮨﯽ ﭼﭙﮏ ﮔﯿﺎ، ﺣﺘﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮨﺮ ﺳﺎﻧﺲ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺳﮯ ﺳﻔﯿﺪ ﺩﻭﺩﮬﯿﺎ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻟﮑﯿﺮ ﺍﺗﺮﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﯽ اﻭﺭ ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺩﮨﺮﺍﺗﯽ "ﮨﯿﻠﭗ ﻣﯽ ﮔﺎﮈ "
ﻣﺎﺭﭺ ﮐﯽ ﺍﺱ ﺻﺒﺢ ﻣﯿﮉﯾﮑﻞ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﺩﮬﻤﺎﮐﮯ ﺳﮯ ﻟﺮﺯ ﺍﭨﮭﯽ. ﺳﯿﻨﭧ ﻟﻮﺋﺲ ﮐﮯ ﺍﺱ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﻧﮯ ﮐﯿﺘﮭﺮﺍﺋﻦ ﮐﻮ
ﻣﮑﻤﻞ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺻﺤﺖ ﯾﺎﺏ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﮮ ﺩﯾﺎ. ﮐﯿﻨﺴﺮ ﮐﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﻣﺮﯾﻀﮧ ﺟﻮ ﺗﯿﻦ ﻣﺎﮦ ﺳﮯ ﻣﻮﺕ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮭﺎ ﮒ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ
ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺍﻣﯿﺪ ﮐﮭﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ،
ﺍﻟﻮﺩﺍﻉ ﮐﮩﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﯿﺘﮫ ﻧﮯ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﮈﺍﮐﭩﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺻﺤﺖ ﮐﺎ ﻧﺴﺨﮧ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ. "ﮨﯿﻠﭗ ﻣﯽ ﮔﺎﮈ"
ﮈﺍﮐﭩﺮﻭﮞ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ" : ﻭﭦ ﮈﻭ ﯾﻮ ﻣﯿﻦ" ﮐﯿﺘﮫ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ:
" ﺟﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺗﯿﻦ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﺎ ﻭﺭﺩ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ اﺱ ﮐﺎ ﺩﺭﺩ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺍ، ﭘﮭﺮ ﺯﺧﻢ ﭘﺮ ﮐﮭﺮﻧﮉ ﺍﺗﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻧﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺻﺤﺘﻤﻨﺪ ﺟﻠﺪ ﻧﮯ ﺯﺧﻢ ﮐﮯ ﻧﺸﺎﻥ ﺗﮏ ﻣﭩﺎ ﺩِﯾﮯ
.
ﮐﯿﺘﮫ ﮐﮯ ﺍﺱ ﮐﯿﺲ ﻧﮯ ﻣﯿﮉﯾﮑﻞ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﮐﻮ ﻧﺌﯽ "ﮈﺍﯼ ﻣﯿﻨﺸﻦ " ﺩﮮ ﺩﯼ، ﭘﻮﺭﮮ ﺍﻣﺮﯾﮑﺎ ﻣﯿﮟ ﺳﺮﻭﮮ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ، ﭘﺘﺎ ﭼﻼ، ﺧﺪﺍ ﭘﺮ ﻣﻈﺒﻮﻁ ﯾﻘﯿﻦ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ
ﻣﺮﯾﺾ "ﻧﺎﻥ ﺑﻠﯿﻮﺭﺯ " ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﻠﺪ ﺻﺤﺖ ﯾﺎﺏ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ.۔۔۔۔۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
دو عورتیں قاضی ابن ابی لیلی کی عدالت میں پہنچ گئیں، یہ اپنے زمانے کے مشہور و معروف قاضی تھے.
قاضی نے پوچھا
تم دونوں میں سے کس نے بات پہلے کرنی ہے؟
ان میں سے بڑھی عمر والی خاتون نے دوسری سے کہا تم اپنی بات قاضی صاحب کے آگے رکھو۔
وہ کہنے لگی قاضی صاحب یہ میری پھوپھی ہے میں اسے امی کہتی ہوں چونکہ میرے والد کے انتقال کے بعد اسی نے میری پرورش کی ہے یہاں تک کہ میں جوان ہو گئی۔
قاضی نے پوچھا اس کے بعد ؟
وہ کہنے لگی پھر میرے چچا کے بیٹے نے منگنی کا پیغام بھیجا انہوں نے ان سے میری شادی کر دی، میری شادی کو کئی سال گزر گئے ازدواجی زندگی خوب گزر رہی تھی ایک دن میری یہ پھوپھی میرے گھر آئی اور میرے شوہر کو اپنی بیٹی سے دوسری شادی کی آفر کی ساتھ یہ شرط رکھ دی کہ پہلی بیوی(یعنی میں) کا معاملہ پھوپھی کے ہاتھ میں سونپ دے، میرے شوہر نے کنواری دوشیزہ سے شادی کے چکر میں شرط مان لی میرے شوہر کی دوسری شادی ہوئی سہاگ رات کو میری پھوپھی میرے پاس آئی اور مجھ سے کہا تمہارے شوہر کے ساتھ میں نے اپنی بیٹی بیاہ دی ہے تمہارا شوہر نے تمہارا معاملہ میرے ہاتھ سونپ دیا ہے میں تجھے تیرے شوہر کی وکالت کرتے ہوئے طلاق دیتی ہوں۔
جج صاحب میری طلاق ہو گئی۔
کچھ عرصے بعد میری پھوپھی کا شوہر سفر سے تھکے ہارے پہنچ گیا وہ ایک شاعر اور حسن پرست انسان تھے میں بن سنور کر اس کے آگے بیٹھ گئی اور ان سے کہا کیا آپ مجھ سے شادی کریں گے؟ اسکی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا اس نے فوری ہاں کر دی، میں نے ان کے سامنے شرط رکھ لی کہ آپ کی پہلی بیوی (یعنی میری پھوپھی) کا معاملہ میرے ہاتھ سونپ دیں اس نے ایسا ہی کیا میں نے پھوپھی کے شوہر سے شادی کر لی اور اس کے شوہر کی وکالت کرتے ہوئے اسے طلاق دے ڈالی۔
قاضی حیرت سے پھر ؟
وہ کہنے لگی قاضی صاحب کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔
کچھ عرصہ بعد میرے اس شاعر شوہر کا انتقال ہوا میری یہ پھوپھی وراثت کا مطالبہ کرتے پہنچ گئی میں نے ان سے کہا کہ میرے شوہر نے تمہیں اپنی زندگی میں طلاق دی تھی اب وراثت میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہے، جھگڑا طول پکڑا اس دوران میری عدت بھی گزر گئی ایک دن میری یہ پھوپھی اپنی بیٹی اور داماد (میرا سابقہ شوہر) کو لیکر میرے گھر آئی اور وراثت کے جھگڑے میں میرے اسی سابق شوہر کو ثالث بنایا اس نے مجھے کئی سالوں بعد دیکھا تھا مرد اپنی پہلی محبت نہیں بھولتا ہے چنانچہ مجھ سے یوں مل کر اس کی پہلی محبت نے انگڑائی لی میں نے ان سے کہا کیا پھر مجھ سے شادی کرو گے؟
اس نے ہاں کر دی
میں نے ان کے سامنے شرط رکھ لی کہ اپنی پہلی بیوی (میری پھوپھی کی بیٹی) کا معاملہ میرے ہاتھ میں دیں، اس نے ایسا ہی کیا۔
میں نے اپنے سابق شوہر سے شادی کر لی اور اس کی بیوی کو شوہر کی وکالت کرتے ہوئے طلاق دے دی۔
قاضی ابن ابی لیلی سر پکڑ کر بیٹھ گئے پھر پوچھا کہ
اس کیس میں اب مسئلہ کیا ہے؟
میری پھوپھی کہنے لگی :
قاضی صاحب کیا یہ حرام نہیں کہ میں اور میری بیٹی دونوں کی یہ لڑکی طلاق کروا چکی پھر میرا شوہر اور میری بیٹی کا شوہر بھی لے اڑی اسی پر بس نہیں دونوں شوہروں کی وراثت بھی اپنے نام کر لیا۔
قاضی ابن ابی لیلی کہنے لگے:
مجھے تو اس کیس میں حرام کہیں نظر نہیں آیا، طلاق بھی جائز ہے، وکالت بھی جائز ہے، طلاق کے بعد بیوی سابقہ شوہر کے پاس دوبارہ جا سکتی ہے بشرط یہ کہ درمیان میں کسی اور سے اس کی شادی ہو کر طلاق یا شوہر فوت ہوا ہو تمہاری کہانی میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔
اس کے بعد قاضی نے خلیفہ منصور کو یہ واقعہ سنایا خلیفہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گیا اور کہا کہ جو کوئی اپنے بھائی کیلئے گڑھا کھودے گا خود اس گڑھے میں گرے گا یہ بڑھیا تو گڑھے کی بجائے گہرے سمندر میں گر گئی۔
كتاب :جمع الجواهر في الحُصري۔
 

سید عمران

محفلین
بیوی کی اھمیت 😍
ایک صاحب کہتے ہیں کہ دفتر جاتے ہوئے روزانہ ان کی بیگم انہیں کچھ نہ کچھ یاد دلاتی تھی کہ "آپ چابی بھول کر جا رہے ھیں، اپ نے اپنی گھڑی نہیں اٹھائی، آپ کا پرس یہیں رہ گیا ھے " وغیرہ وغیرہ۔
کہتے ہیں میں بڑی شرمندگی محسوس کرتا تھا، ایسے لگتا تھا جیسے میری بیوی مجھے عقل سے پیدل سمجھ کر یہ چیزیں یاد دلاتی ھے۔
ایک رات کو سونے سے پہلے میں نے اپنے ساتھ لیجانے والی ھر چیز کی ایک لِسٹ بنائی، صبح اُٹھ کر لسٹ کی ایک ایک چیز کو نشان لگا کر جیب میں ڈالا اور کار میں جا کر ابھی بیٹھا ھی تھا کہ،
دروازے پر بیگم نمودار ھوئی اور ایک شان سے اپنے سر کو ہلاتے ھوئے مجھے طنزیہ نظروں سے دیکھا۔ میں نے بھی وہیں سے بیٹھے بیٹھے اُسے کہہ دیا کہ بس بہت ہو گئی: آج میں کچھ نہیں بھولا اور تمہاری اُن سب گزشتہ یاد دھانیوں کا بہت شکریہ۔
بیگم بولی: چلو وہ تو ٹھیک ہے لیکن اب واپس آکر دوبارہ سے سوجاؤ کیونکہ آج اتوار ھے۔
 

سید عمران

محفلین
ابو نے ایک واقعہ سنایا ۔

جب ابو بیوروکریسی کی ایک اہم پوسٹ پر تعینات تھے تب ان کے ایک دوست کا گریجویٹ بیٹا ابو سے آفس میں ملنے کے لیے آیا ۔

بےروزگار تھا۔ ذہین تھا اور مقابلے کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا ۔

ابو کے دوست نے ابو کے پاس یہ کہہ کے بھیجا تھا کہ درانی صاحب بھتیجے کی رہنمائی کیجیے کہ مقابلے کے امتحان میں کون سے مضامین سیلیکٹ کرے اور کیسے تیاری کرے ۔

بھتیجا بھی نہایت تابع دار قسم کا تھا۔

چاچا جی ،چاچو سے کم بات نہیں کرتا تھا۔

گردن جھکی اور ہاتھ نماز کی حالت میں پیٹ کے سامنے باندھ کے نہایت فرمانبرداری سے ابو کی نصیحتیں سنتا رہا ۔

ابو کو بھی ذہین بھتیجے پر پیار آ ریا تھا ۔نہایت شفقت سے اسکا تفصیلی انٹرویو کیا اس کے مینٹل ایپٹیٹیوڈ کے مطابق اسے مضامین چننے میں مدد دی ۔ بعد میں بھی امتحان ہونے تک بھتیجا وقتا فوقتا فون کر دیتا ۔

ابو اپنی اخلاقی ذمےداری کے ساتھ ساتھ ایک بزرگ کی سی شفقت سے اس کی رہنمائی کرتے رہے ۔

ہم بچوں کو بھی اس کی مثال دیتے کہ دیکھو کتنا تابع دار بچہ ہے اور ترقی پسند بھی ہے اپنے حالات سے نکلنے کے لیے اچھی جستجو کر رہا ہے ۔

کافی وقت بیت گیا ۔ ایک روز ابو اپنے کولیگ سے ملنے کے لیے اس کے آفس گئے ۔ کولیگ کا نام سنا سنا سا تھا ابو کو بھتیجا یاد تھا ۔ اور اس کی تابعداری بھی ۔

خیر آفس میں داخل ہوئے تو گورنمنٹ آفیسر ، ایکس بھتیجے نے اپنی سیٹ پر کھڑے ہو کے اپنے سینئیر آفیسر کا استقبال ان الفاظ میں کیا

ہیلو مسٹر درانی ہاو ڈو یو ڈو ۔ ہیو آ سیٹ پلیز ۔

کیسا چچا کیسا بھتیجا۔ نئی نئی افسری کی شان تھی سو بس وہی شان قائم تھی ۔

باقی سب وقتی تعلق تھے سو گئے وقتوں کے پانیوں میں کب کے بہہ چکے تھے

نہ چچا نہ چاچو نہ شناسائی کی رمق۔ ابو بھی انسانی نفسیات کے ماہر تھے وہاں اپنے مخصوص افسرانہ انداز میں پروفیشنل گفتگو کر کے واپس آ گئے لیکن گھر آنے پر مجھے اس بھتیجے کا قصہ سنایا ۔

اور یہ بھی سمجھایا کہ بیٹا انسانی ظرف اس وقت کھل کے سامنے آتا ہے جب انسان دولت طاقت یا عہدہ حاصل کر لیتا ہے ۔

کمزور حیثیت انسان میٹھا بھی ہوتا ہے تابع دار بھی اور فرمانبردار بھی۔

اس کا خاندانی وقار اور تربیت تب ظاہر ہوتی ہے جب وہ طاقتور ہوتا ہے ۔

ابو نے یہ سب سمجھانے کے بعد بس اتنا کہا کہ

بیٹا

جب کسی کی مدد کرنا تو بنا کسی توقع کے کرنا

یہ بھی مت سوچنا کہ کبھی زندگی میں یہ تمہیں دوبارہ پہچانے گا بھی۔

نیکی کسی بھی وجہ سے کرو نیت خالص اللہ کے لیے رکھو ۔
وہی اصل قدر دان ہے

تحریر: ڈاکٹر رابعہ خرم درانی
 

سید عمران

محفلین
پریشان نہ ہوں ۔۔ 🙂

کچھ لوگ اپنی تعلیم 22 سال کی عمر میں مکمل کر لیتے ہیں۔ مگر ان کو پانچ پانچ سال تک کوئی اچھی نوکری نہیں ملتی۔

کچھ لوگ 25 سال کی عمر میں کسی کپمنی کے CEO بن جاتے ہیں اور 50 سال کی عمر میں ہمیں پتہ چلتا ہے انکا انتقال ہو گیا ہے۔

جبکہ کچھ لوگ 50 سال کی عمر میں CEO بنتے ہیں اور نوے سال تک حیات رہتے ہیں۔

بہترین روزگار ہونے کے باوجود کچھ لوگ ابھی تک غیر شادی شدہ ہیں اور کچھ لوگ بغیر روزگار کے بھی شادی کر چکے ہیں اور روزگار والوں سے زیادہ خوش ہیں۔

اوبامہ 55 سال کی عمر میں ریٹائر ہو گیا جبکہ ٹرمپ 70 سال کی عمر میں شروعات کرتا ہے۔۔۔

کچھ لیجنڈ امتحان میں فیل ہونے پر بھی مسکرا دیتے ہیں اور کچھ لوگ 1 نمبر کم آنے پر بھی رو دیتے ہیں۔۔۔۔

کسی کو بغیر کوشش کے بھی بہت کچھ مل گیا اور کچھ ساری زندگی بس ایڑیاں ہی رگڑتے رہے۔۔

اس دنیا میں ہر شخص اپنے Time zone کی بنیاد پر کام کر رہا ہے۔ ظاہری طور پر ہمیں ایسا لگتا ہے کچھ لوگ ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں اور شاید ایسا بھی لگتا ہو کچھ ہم سے ابھی تک پیچھے ہیں لیکن ہر شخص اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہے اپنے اپنے وقت کے مطابق۔ ان سے حسد مت کیجئے۔ اپنے اپنے Time zone میں رہیں۔۔

انتظار کیجئے اور اطمینان رکھیئے۔

نہ ہی آپ کو دیر ہوئی ہے اور نہ ہی جلدی۔

اللہ رب العزت جو کائنات کا سب سے عظیم الشان ہے اس نے ہم سب کو اپنے حساب سے ڈیزائن کیا ہے وہ جانتا ہے کون کتنا بوجھ اٹھا سکتا.

کس کو کس وقت کیا دینا ہے. اپنے آپ کو رب کی رضا کے ساتھ باندھ دیجئے اور یقین رکھیئے کہ اللہ کی طرف سے آسمان سے ہمارے لیے جو فیصلہ اتارا جاتا ہے وہ ہی بہترین ہے۔۔۔ 💗

💞ہر حال میں خوش رہیں سلامت رہیں💞
 

سیما علی

لائبریرین
کس کو کس وقت کیا دینا ہے. اپنے آپ کو رب کی رضا کے ساتھ باندھ دیجئے اور یقین رکھیئے کہ اللہ کی طرف سے آسمان سے ہمارے لیے جو فیصلہ اتارا جاتا ہے وہ ہی بہترین ہے۔۔۔ 💗

💞ہر حال میں خوش رہیں سلامت رہیں💞
بے شک بےشک ایسا ہے وہی سب سے بہترین عطا کرنے والا ہے ۔۔۔۔
مولا علی علیہ السلام فرماتے ہیں؎
" میں نے خدا کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا۔"
 
Top