انٹر نیٹ سے چنیدہ

سید عمران

محفلین
براعظم جنوبی امریکہ کے غریب ترین ممالک نے جن میں پیرو، ارجنٹائن ، کولمبیا، پیراگوئے اور یوروگوائے نے بیس سال پہلے تک بہت زیادہ بھوک اور رزق میں کمی کا سامنا کیا۔ اس کی ایک وجہ وہی ھے جو ساری دنیا کی مشترک وجہ ھے کہ نالائق حکمران اور منصوبہ بندی کا فقدان۔ لیکن ان پانچ ملکوں کا ایک اتحاد شروع سے موجود ھے جسطرح ہمارا ھے سارک کے نام سے
چنانچہ اُس اتحاد کا سالانہ سربراہ اجلاس بیس سال پہلے والہ جو تھا وہ تاریخی ثابت ہوا اس میں جو فیصلے کیے گے وہ مندرجہ ذیل ہیں
۱::زرخیز اور قابل کاشت زمین کا تحفظ مطلب وہاں کوئی تعمیرات نہ ہونے دینا
۲:: قابل کاشت اراضی کی باقاعدہ تقسیم اور ملکیت کی حد مطلب ہر ایک کو تقریبا پچاس کنال کا فارم دینا
۳::بہت (کم زرخیز )آراضی پر جنگلات اگانا
۴::اور بالکل ہی (بنجر اراضی) پر مکانات اور دیگر تعمیرات کرنا
۵: جس کے پاس دو یا چار کنال زرعی زمین ھے اور وہ ویسے ہی دبا کر بیٹھا زراعت اس نے کرنی نہیں ایک کھیتی یا دوکھیتیاں اس کے پاس ہیں تو وہ اس سے خرید کر پچاس کنال کے فارم میں شامل کر دی اور کچھ کو ان کھیتیوں کے عوض شہر میں مکان دے دیے جائیں
اب جناب ان ممالک نے ایسا کرنا شروع کر دیا دیکھتے ہی دیکھتے خوراک کی گوشت کی انڈوں کی اور سبزی پھلوں کی کمی دور ہوتئ نظر آئی
مثلا مقامی کونسل جب کسی بندے کو زرعی فارم دیتی تو ساتھ یہ ہدایت اور ان ہر سختی سے عمل کا کہتی وگرنہ یہ فارم چھین لینے کی دھمکی بھی ساتھ دیتی کہ
1: یہ فارم تماری ملکیت ھے لیکن اولاد میں قابل تقسیم نہیں بس جس بچے کے پاس زراعت کی کم سے کم درجے کی ڈگری ہو گی فارم کا مالک وہ کہلائے گا باقی بہن بھائیوں کو برابری کی رقم دے کر چلتا کرے گا
2: اس فارم کا مالک ہوتے ہوئے تماری اوپر لازم ھے کہ دس گائے تیس بکریاں اور سو پرندے یعنی مرغیاں لازمی فارم میں موجود ہونی چاہیں
3: فارم کی حدود یا باونڈری بنانے کے لیے اینٹ یا پتھر کی دیوار کے بجائے پھل دار درختوں کی قطار سے بنے گی
4: اور فارم کے مالک ہونے کے ناطے تمارے اوپر لازم ھے کہ فارم کا ایک چھوٹا حصہ سبزیوں کے لیے مختص ہو گا
5: اور ہر سال کے آخر میں کونسل کے نمائندے تمارے فارم آکر ایک ایک چیز کا جائزہ لیں گے کہ مطلوبہ چیزوں کی تعداد پوری ھے کہ نہیں ساتھ ساتھ پیداوار اور جانوروں کی صحت کو بھی چیک کیا جائے گا
6: اگر حدف پورا ھے تو ٹھیک -اگر کم ھے تو مدد کی جائے گی اور وارنیگ بھی دی جائے گی
7: لیکن اگر حدف سے بڑھ کر پیداورھے تو ایک الیکٹرک ٹریکٹر انعام دیا جائے گا جو ڈیزل وغیرہ پر بھی چلے گا لیکن عموما بجلی سے چارج ہو گا اور تمام زرعی ضرویات کو پورا کرے گا

اس سال 2020 میں ان ممالک کے سربراہان کا سالانہ اجلاس آن لائن ہوا اور دنیا کے دوسرے کونے سے ایک زرعی چیمپین ملک اسٹریلیا نے بطور ابزرور مہمان شرکت کی سب ممالک نے اس خودکفالت کو عبور کرنے پر خوشی کا اظہار کیا
جبکہ اسٹریلیا کی تجویز کو بھی انتہائیُ صحت افزا جان کر پروگرام کا حصہ بنا دیا اسٹریلیا کی تجویز یہ تھی کہ
ہر فارم میں جسطرح جانوروں اور مرغیوں کے لیے کمرے بنانے کی اجازت ھے اسی طرح فارم کے شروع میں مالک کو مکان بنانے کی اجازت دی جائے تا کہ بہتر پرفارم کر سکے
لیکن گھر کی چھت پر سولر پینل لگا کر بجلی خود پیدا کر سکے
اور گوبر گیس پلانٹ لگا کر گیس بنانے کا پابند ہو گا
نیز گھر کے استعمال شدہ پانی کو جمع کر کے آبپاشی کے لیے استعمال کرے گا
اب آپ اندازہ کریں صرف ایک حکومتی قدم سے سبزیاں پھل دالیں آٹا چاول دودھ گوشت انڈے بھی حاصل ہوئے روزگار بھی ملے گیس اور بجلی بھی بنی۔
ریسرچر (قدیر مصطفائی)
 

الف نظامی

لائبریرین
حافظ محمد زبیر لکھتے ہیں:

مجھے بھی ایسی اردو زیادہ اچھی سمجھ میں آتی ہے کہ جس میں بیس فی صد الفاظ انگریزی کے ہوں۔ یہ امر واقعہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اب خالص اردو کی بجائے وہ زبان زیادہ رائج اور بلیغ ہے کہ جس میں بیس فی صد انگریزی کے الفاظ استعمال ہوتے ہوں۔ اب اہل زبان اسے اردو انگریزی کا نام دیں یا انگریزی اردو کا، مجھے نہیں معلوم لیکن ہے یہ کمال کی چیز۔ یہ ولایتی اردو اس وقت بہت تیزی سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی زبان بنتی جا رہی ہے۔

اب سماجی علوم کا لفظ ذہن پر کیا تصور چھوڑتا ہے جبکہ سوشل سائنسز کہو تو جیسے پورا ذہن روشن ہو جاتا ہے۔ اب سرقہ کہیں تو صرف اردو معلی والوں کو سمجھ آتا ہے اور پلیجرزم کہیں تو سب کو سمجھ آ جاتا ہے اور پروفیسروں کو تو کچھ زیادہ ہی۔ ذہنی تناؤ کے لفظ کو سمجھنے کے لیے ذہن پر دباؤ ڈالنا پڑتا ہے لیکن ٹینشن کا لفظ ابھی متکلم کی زبان پر ہی ہوتا ہے تو فورا ًمعنی ذہن میں منتقل ہو جاتا ہے۔ عام پڑھے لکھے فرد کو نفسیات اور معاشیات کے الفاظ سے وہ معانی نہیں پہنچتے جو سائیکالوجی اور اکنامکس کہنے سے منتقل ہوتے ہیں۔

میں بعض اوقات اپنی تحریروں میں جان بوجھ کر انگریزی لفظ استعمال کرتا ہوں کہ میری نظر میں اس سے معنی زیادہ منتقل ہوتا ہے۔ ہماری زبان میں انگریزی الفاظ کا یہ استعمال اس قدر عام ہو چکا ہے کہ اب ان الفاظ کی اردو بنانا یا تو تکلف ہے۔ اور اگر اردو متبادل ہے بھی تو وہ اتنا بلیغ نہیں رہا کہ بلاغت ہمیشہ اسی لفظ میں ہوتی ہے جو رائج ہو اور جس کے استعمال سے لوگوں کے ذہن میں تصورات روشن ہوں اور تخیلات پروان چڑھیں۔

اردو تو ویسے بھی مختلف زبانوں کا مجموعہ ہی ہے۔ اس میں پہلے ہی عربی، فارسی، سنسکرت اور ترکی وغیرہ جیسی زبانوں کے الفاظ کی کثرت ہے بلکہ اردو خود ترکی زبان کا لفظ ہے تو اب اگر انگریزی کے الفاظ بھی قبول کر لیے جائیں گے تو اس کی بلاغت میں اضافہ ہی ہو گا نہ کہ کوئی کمی۔ آج بھی اگر ہم انگریزی لفظ کا اردو میں ترجمہ کرنا چاہیں گے تو اس کی عربی یا فارسی ہی بنائیں گے جیسے بلڈ پریشر کو بلند فشار خون کہہ دیا۔ تو لینا تو ہم نے ادھار ہی ہے، انگریزی سے نہ سہی عربی اور فارسی سے سہی۔ [مکالمہ، ص 247]
 

الف نظامی

لائبریرین
براعظم جنوبی امریکہ کے غریب ترین ممالک نے جن میں پیرو، ارجنٹائن ، کولمبیا، پیراگوئے اور یوروگوائے نے بیس سال پہلے تک بہت زیادہ بھوک اور رزق میں کمی کا سامنا کیا۔ اس کی ایک وجہ وہی ھے جو ساری دنیا کی مشترک وجہ ھے کہ نالائق حکمران اور منصوبہ بندی کا فقدان۔ لیکن ان پانچ ملکوں کا ایک اتحاد شروع سے موجود ھے جسطرح ہمارا ھے سارک کے نام سے
چنانچہ اُس اتحاد کا سالانہ سربراہ اجلاس بیس سال پہلے والہ جو تھا وہ تاریخی ثابت ہوا اس میں جو فیصلے کیے گے وہ مندرجہ ذیل ہیں
۱::زرخیز اور قابل کاشت زمین کا تحفظ مطلب وہاں کوئی تعمیرات نہ ہونے دینا
۲:: قابل کاشت اراضی کی باقاعدہ تقسیم اور ملکیت کی حد مطلب ہر ایک کو تقریبا پچاس کنال کا فارم دینا
۳::بہت (کم زرخیز )آراضی پر جنگلات اگانا
۴::اور بالکل ہی (بنجر اراضی) پر مکانات اور دیگر تعمیرات کرنا
۵: جس کے پاس دو یا چار کنال زرعی زمین ھے اور وہ ویسے ہی دبا کر بیٹھا زراعت اس نے کرنی نہیں ایک کھیتی یا دوکھیتیاں اس کے پاس ہیں تو وہ اس سے خرید کر پچاس کنال کے فارم میں شامل کر دی اور کچھ کو ان کھیتیوں کے عوض شہر میں مکان دے دیے جائیں
اب جناب ان ممالک نے ایسا کرنا شروع کر دیا دیکھتے ہی دیکھتے خوراک کی گوشت کی انڈوں کی اور سبزی پھلوں کی کمی دور ہوتئ نظر آئی
مثلا مقامی کونسل جب کسی بندے کو زرعی فارم دیتی تو ساتھ یہ ہدایت اور ان ہر سختی سے عمل کا کہتی وگرنہ یہ فارم چھین لینے کی دھمکی بھی ساتھ دیتی کہ
1: یہ فارم تماری ملکیت ھے لیکن اولاد میں قابل تقسیم نہیں بس جس بچے کے پاس زراعت کی کم سے کم درجے کی ڈگری ہو گی فارم کا مالک وہ کہلائے گا باقی بہن بھائیوں کو برابری کی رقم دے کر چلتا کرے گا
2: اس فارم کا مالک ہوتے ہوئے تماری اوپر لازم ھے کہ دس گائے تیس بکریاں اور سو پرندے یعنی مرغیاں لازمی فارم میں موجود ہونی چاہیں
3: فارم کی حدود یا باونڈری بنانے کے لیے اینٹ یا پتھر کی دیوار کے بجائے پھل دار درختوں کی قطار سے بنے گی
4: اور فارم کے مالک ہونے کے ناطے تمارے اوپر لازم ھے کہ فارم کا ایک چھوٹا حصہ سبزیوں کے لیے مختص ہو گا
5: اور ہر سال کے آخر میں کونسل کے نمائندے تمارے فارم آکر ایک ایک چیز کا جائزہ لیں گے کہ مطلوبہ چیزوں کی تعداد پوری ھے کہ نہیں ساتھ ساتھ پیداوار اور جانوروں کی صحت کو بھی چیک کیا جائے گا
6: اگر حدف پورا ھے تو ٹھیک -اگر کم ھے تو مدد کی جائے گی اور وارنیگ بھی دی جائے گی
7: لیکن اگر حدف سے بڑھ کر پیداورھے تو ایک الیکٹرک ٹریکٹر انعام دیا جائے گا جو ڈیزل وغیرہ پر بھی چلے گا لیکن عموما بجلی سے چارج ہو گا اور تمام زرعی ضرویات کو پورا کرے گا

اس سال 2020 میں ان ممالک کے سربراہان کا سالانہ اجلاس آن لائن ہوا اور دنیا کے دوسرے کونے سے ایک زرعی چیمپین ملک اسٹریلیا نے بطور ابزرور مہمان شرکت کی سب ممالک نے اس خودکفالت کو عبور کرنے پر خوشی کا اظہار کیا
جبکہ اسٹریلیا کی تجویز کو بھی انتہائیُ صحت افزا جان کر پروگرام کا حصہ بنا دیا اسٹریلیا کی تجویز یہ تھی کہ
ہر فارم میں جسطرح جانوروں اور مرغیوں کے لیے کمرے بنانے کی اجازت ھے اسی طرح فارم کے شروع میں مالک کو مکان بنانے کی اجازت دی جائے تا کہ بہتر پرفارم کر سکے
لیکن گھر کی چھت پر سولر پینل لگا کر بجلی خود پیدا کر سکے
اور گوبر گیس پلانٹ لگا کر گیس بنانے کا پابند ہو گا
نیز گھر کے استعمال شدہ پانی کو جمع کر کے آبپاشی کے لیے استعمال کرے گا
اب آپ اندازہ کریں صرف ایک حکومتی قدم سے سبزیاں پھل دالیں آٹا چاول دودھ گوشت انڈے بھی حاصل ہوئے روزگار بھی ملے گیس اور بجلی بھی بنی۔
ریسرچر (قدیر مصطفائی)
یہ کام پاکستان میں بھی لازما ہونا چاہیے
 

سیما علی

لائبریرین
ہر فارم میں جسطرح جانوروں اور مرغیوں کے لیے کمرے بنانے کی اجازت ھے اسی طرح فارم کے شروع میں مالک کو مکان بنانے کی اجازت دی جائے تا کہ بہتر پرفارم کر سکے
لیکن گھر کی چھت پر سولر پینل لگا کر بجلی خود پیدا کر سکے
اور گوبر گیس پلانٹ لگا کر گیس بنانے کا پابند ہو گا
نیز گھر کے استعمال شدہ پانی کو جمع کر کے آبپاشی کے لیے استعمال کرے گا
اب آپ اندازہ کریں صرف ایک حکومتی قدم سے سبزیاں پھل دالیں آٹا چاول دودھ گوشت انڈے بھی حاصل ہوئے روزگار بھی ملے گیس اور بجلی بھی بنی۔
پاکستان کے لئے لازمی ہے ۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
ایک خاتون کہتی ہیں کہ میں ایک بار میں اپنی ایک پرانی دوست کو ملنے اس کے گھر گئی ۔
میری وہ دوست مجھے بہت چاہ سے ملی اور خوشی کا اظہار کیا ۔ ہم دونوں کافی عرصہ بعد ایک دوسرے سے مل کر بہت خوشی محسوس کر رہی تھیں ۔

کچھ دیر ان کے گھر بیٹھنے کے بعد ان کی ایک چھوٹی بیٹی آئی اور کہنے لگی :
امی امی ! کیا ہم آج جنت میں گھر نہیں بنائیں گے ؟
میں نے پہلے تو اسے سنا ان سنا کر دیا
مگر وہ بچی بار بار وقفے وقفے سے اپنی امی سے یہ بات پوچھنے لگی حتی کہ اس کی دوسری بہن بھی جو اس سے کچھ بڑی تھی آ گئی اور اس نے بھی یہی سوال کیا

تب ان کی ماں نے بچوں کا اصرار اور میرے چہرے پر ظاہر ہونے والی اجنبیت کو اچھی طرح بھانپ لیا تو بولیں : کیا تم دیکھنا چاہتی ہو کہ یہ بچے کیا کہہ رہے ہیں اور کس طرح یہ جنت میں گھر بناتے ہیں ؟
میں نے کہا بالکل ، کیوں نہیں ۔ میں تو ضرور دیکھنا چاہوں گی ۔

چنانچہ پھر وہ خاتون ایک چٹائی پر بیٹھ گئیں اور اس کے بچے اور بچیاں جو چار پانچ سال سے لے کر دس بارہ سال تک کے تھے سب اس کے ارد گرد بیٹھ گئے ۔
پھر ان کی ماں نے پوچھا : ہاں بھائی اب ہم جنت میں گھر بنائیں ؟
سب بچوں نے بیک زبان ہو کر کہا : جی ۔

چنانچہ پھر ان کی ماں نے اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھنے کے بعد سورۃ الاخلاص پڑھنا شروع کیا اور بچے بھی اپنی ماں کے ساتھ ساتھ وہی سورۃ الاخلاص دھرانے لگے اور دس بار انہوں نے یہ سورۃ الاخلاص پڑھ لی
پھر ان کی ماں اپنے بچوں سے بولی : اب یہ بتاوں کہ اپنے اپنے اس محل میں کوئی خزانہ بھی رکھنا چاہتے ہو ؟

سب بچوں نے کہا : ہاں
تو پھر ماں نے لا حول و لا قوۃ الا باللہ پڑھنا شروع کیا اور بچے بھی اپنی ماں کے ساتھ یہی کلمات دھرانے لگے ۔

پھر ماں نے پوچھا : ہاں تو اب تم یہ چاہتے ہو کہ رسول کریم ﷺ تمہاری بات کا جواب بھی دیں ؟ اور پھر تم قیامت کے دن رسول کریم ﷺ کے مبارک ہاتھوں سے حوض کوثر سے پیو اور پھر تمہیں کبھی پیاس بھی نہ لگے ؟

سب بچوں نے پھر جواب ہاں میں دیا
تو اب ماں نے دورد شریف پڑھنا شروع کیا اور بچے بھی اپنی ماں کے ساتھ درود شریف پڑھنے لگے ۔
پھر انہوں نے کچھ دیر سبحان اللہ ، الحمد للہ ، اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ کا بھی وِرد کیا ۔
آخر میں ان کی ماں نے کہا : ٹھیک ہے بچو ۔ آج جنت میں گھر بنانے کا کام پورا ۔ اب جاو اور اپنا اپنا کام کرو شاباش ۔

مہمان خاتون یہ سب کچھ حیرت انگیز نظروں سے دیکھتی رہی ۔ جب وہ اس عمل سے فارغ ہو گئیں تو میزبان خاتون کہنے لگی :
دیکھیں یہ تو آپ بھی جانتی ہیں کہ سب بچے یہ چاہتے ہیں کہ وہ کچھ دیگر اپنی ماں کے ساتھ بیٹھیں اور اپنی ماں سے کچھ سنیں اور دل بہلائیں ۔

چونکہ ہمارے یہ بچے آج کل کارٹون وغیرہ بھی دیکھتے ہیں اور اس میں یہ دیکھتے ہیں کہ کس طرح کارٹون کے کردار اپنا اپنا گھر بناتے ہیں اور اس میں اپنے لیے خزانے بھی جمع کرتے ہیں تو میں نے چاہا کہ کیوں نہ میں اپنے بچوں کا یہ شوق بھی پورا کروں اور ان کے لیے اچھی تربیت بھی ہو جائے جو نہ صرف ان کی دنیا کو خوشگوار بنائے بلکہ ان کی آخرت کو بھی سنوار دے ۔
بس یہی سوچ تھی جس کے نتیجے میں اللہ تعالی نے میرے دل میں یہ ترکیب ڈال دی اور اس کا اثر تم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ۔

وہ مہمان خاتون یہ سب دیکھ کر عزم کر کے اٹھی کہ وہ بھی اپنے گھر میں ایسا ماحول بنائے گی۔۔۔۔۔
*کیوں کہ بچے پال لینا کمال نہیں۔۔۔۔۔۔*
*بچے تو جانور بھی پل لیتے ہیں۔۔۔۔۔*
*تربیت کرنا جانوروں اور انسانوں میں فرق کرتا ہے۔۔۔۔*
 

صابرہ امین

لائبریرین
ایک خاتون کہتی ہیں کہ میں ایک بار میں اپنی ایک پرانی دوست کو ملنے اس کے گھر گئی ۔
میری وہ دوست مجھے بہت چاہ سے ملی اور خوشی کا اظہار کیا ۔ ہم دونوں کافی عرصہ بعد ایک دوسرے سے مل کر بہت خوشی محسوس کر رہی تھیں ۔

کچھ دیر ان کے گھر بیٹھنے کے بعد ان کی ایک چھوٹی بیٹی آئی اور کہنے لگی :
امی امی ! کیا ہم آج جنت میں گھر نہیں بنائیں گے ؟
میں نے پہلے تو اسے سنا ان سنا کر دیا
مگر وہ بچی بار بار وقفے وقفے سے اپنی امی سے یہ بات پوچھنے لگی حتی کہ اس کی دوسری بہن بھی جو اس سے کچھ بڑی تھی آ گئی اور اس نے بھی یہی سوال کیا

تب ان کی ماں نے بچوں کا اصرار اور میرے چہرے پر ظاہر ہونے والی اجنبیت کو اچھی طرح بھانپ لیا تو بولیں : کیا تم دیکھنا چاہتی ہو کہ یہ بچے کیا کہہ رہے ہیں اور کس طرح یہ جنت میں گھر بناتے ہیں ؟
میں نے کہا بالکل ، کیوں نہیں ۔ میں تو ضرور دیکھنا چاہوں گی ۔

چنانچہ پھر وہ خاتون ایک چٹائی پر بیٹھ گئیں اور اس کے بچے اور بچیاں جو چار پانچ سال سے لے کر دس بارہ سال تک کے تھے سب اس کے ارد گرد بیٹھ گئے ۔
پھر ان کی ماں نے پوچھا : ہاں بھائی اب ہم جنت میں گھر بنائیں ؟
سب بچوں نے بیک زبان ہو کر کہا : جی ۔

چنانچہ پھر ان کی ماں نے اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھنے کے بعد سورۃ الاخلاص پڑھنا شروع کیا اور بچے بھی اپنی ماں کے ساتھ ساتھ وہی سورۃ الاخلاص دھرانے لگے اور دس بار انہوں نے یہ سورۃ الاخلاص پڑھ لی
پھر ان کی ماں اپنے بچوں سے بولی : اب یہ بتاوں کہ اپنے اپنے اس محل میں کوئی خزانہ بھی رکھنا چاہتے ہو ؟

سب بچوں نے کہا : ہاں
تو پھر ماں نے لا حول و لا قوۃ الا باللہ پڑھنا شروع کیا اور بچے بھی اپنی ماں کے ساتھ یہی کلمات دھرانے لگے ۔

پھر ماں نے پوچھا : ہاں تو اب تم یہ چاہتے ہو کہ رسول کریم ﷺ تمہاری بات کا جواب بھی دیں ؟ اور پھر تم قیامت کے دن رسول کریم ﷺ کے مبارک ہاتھوں سے حوض کوثر سے پیو اور پھر تمہیں کبھی پیاس بھی نہ لگے ؟

سب بچوں نے پھر جواب ہاں میں دیا
تو اب ماں نے دورد شریف پڑھنا شروع کیا اور بچے بھی اپنی ماں کے ساتھ درود شریف پڑھنے لگے ۔
پھر انہوں نے کچھ دیر سبحان اللہ ، الحمد للہ ، اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ کا بھی وِرد کیا ۔
آخر میں ان کی ماں نے کہا : ٹھیک ہے بچو ۔ آج جنت میں گھر بنانے کا کام پورا ۔ اب جاو اور اپنا اپنا کام کرو شاباش ۔

مہمان خاتون یہ سب کچھ حیرت انگیز نظروں سے دیکھتی رہی ۔ جب وہ اس عمل سے فارغ ہو گئیں تو میزبان خاتون کہنے لگی :
دیکھیں یہ تو آپ بھی جانتی ہیں کہ سب بچے یہ چاہتے ہیں کہ وہ کچھ دیگر اپنی ماں کے ساتھ بیٹھیں اور اپنی ماں سے کچھ سنیں اور دل بہلائیں ۔

چونکہ ہمارے یہ بچے آج کل کارٹون وغیرہ بھی دیکھتے ہیں اور اس میں یہ دیکھتے ہیں کہ کس طرح کارٹون کے کردار اپنا اپنا گھر بناتے ہیں اور اس میں اپنے لیے خزانے بھی جمع کرتے ہیں تو میں نے چاہا کہ کیوں نہ میں اپنے بچوں کا یہ شوق بھی پورا کروں اور ان کے لیے اچھی تربیت بھی ہو جائے جو نہ صرف ان کی دنیا کو خوشگوار بنائے بلکہ ان کی آخرت کو بھی سنوار دے ۔
بس یہی سوچ تھی جس کے نتیجے میں اللہ تعالی نے میرے دل میں یہ ترکیب ڈال دی اور اس کا اثر تم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ۔

وہ مہمان خاتون یہ سب دیکھ کر عزم کر کے اٹھی کہ وہ بھی اپنے گھر میں ایسا ماحول بنائے گی۔۔۔۔۔
*کیوں کہ بچے پال لینا کمال نہیں۔۔۔۔۔۔*
*بچے تو جانور بھی پل لیتے ہیں۔۔۔۔۔*
*تربیت کرنا جانوروں اور انسانوں میں فرق کرتا ہے۔۔۔۔*
کیا بات ہے۔ بہت خوبصورت سوچ۔۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
یہ سب کام ہمارے ملک میں کرنے اور بھی آسان ہیں کہ یہ ایک زرعی ملک ہے اور آبادی بھی بہت زیادہ ہے ۔ کاش ایسا ہو! وزیراعظم نے مرغیاں، گائے ، بکریاں پالنے کی تجاویز دیں تو کافی مذاق اڑا۔ ایسے ہی بلین ٹری سونامی کو لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ کاش اچھی باتوں پر لوگ بلا تعصب سمجھداری سے عمل کریں۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
براعظم جنوبی امریکہ کے غریب ترین ممالک نے جن میں پیرو، ارجنٹائن ، کولمبیا، پیراگوئے اور یوروگوائے نے بیس سال پہلے تک بہت زیادہ بھوک اور رزق میں کمی کا سامنا کیا۔ اس کی ایک وجہ وہی ھے جو ساری دنیا کی مشترک وجہ ھے کہ نالائق حکمران اور منصوبہ بندی کا فقدان۔ لیکن ان پانچ ملکوں کا ایک اتحاد شروع سے موجود ھے جسطرح ہمارا ھے سارک کے نام سے
چنانچہ اُس اتحاد کا سالانہ سربراہ اجلاس بیس سال پہلے والہ جو تھا وہ تاریخی ثابت ہوا اس میں جو فیصلے کیے گے وہ مندرجہ ذیل ہیں
۱::زرخیز اور قابل کاشت زمین کا تحفظ مطلب وہاں کوئی تعمیرات نہ ہونے دینا
۲:: قابل کاشت اراضی کی باقاعدہ تقسیم اور ملکیت کی حد مطلب ہر ایک کو تقریبا پچاس کنال کا فارم دینا
۳::بہت (کم زرخیز )آراضی پر جنگلات اگانا
۴::اور بالکل ہی (بنجر اراضی) پر مکانات اور دیگر تعمیرات کرنا
۵: جس کے پاس دو یا چار کنال زرعی زمین ھے اور وہ ویسے ہی دبا کر بیٹھا زراعت اس نے کرنی نہیں ایک کھیتی یا دوکھیتیاں اس کے پاس ہیں تو وہ اس سے خرید کر پچاس کنال کے فارم میں شامل کر دی اور کچھ کو ان کھیتیوں کے عوض شہر میں مکان دے دیے جائیں
اب جناب ان ممالک نے ایسا کرنا شروع کر دیا دیکھتے ہی دیکھتے خوراک کی گوشت کی انڈوں کی اور سبزی پھلوں کی کمی دور ہوتئ نظر آئی
مثلا مقامی کونسل جب کسی بندے کو زرعی فارم دیتی تو ساتھ یہ ہدایت اور ان ہر سختی سے عمل کا کہتی وگرنہ یہ فارم چھین لینے کی دھمکی بھی ساتھ دیتی کہ
1: یہ فارم تماری ملکیت ھے لیکن اولاد میں قابل تقسیم نہیں بس جس بچے کے پاس زراعت کی کم سے کم درجے کی ڈگری ہو گی فارم کا مالک وہ کہلائے گا باقی بہن بھائیوں کو برابری کی رقم دے کر چلتا کرے گا
2: اس فارم کا مالک ہوتے ہوئے تماری اوپر لازم ھے کہ دس گائے تیس بکریاں اور سو پرندے یعنی مرغیاں لازمی فارم میں موجود ہونی چاہیں
3: فارم کی حدود یا باونڈری بنانے کے لیے اینٹ یا پتھر کی دیوار کے بجائے پھل دار درختوں کی قطار سے بنے گی
4: اور فارم کے مالک ہونے کے ناطے تمارے اوپر لازم ھے کہ فارم کا ایک چھوٹا حصہ سبزیوں کے لیے مختص ہو گا
5: اور ہر سال کے آخر میں کونسل کے نمائندے تمارے فارم آکر ایک ایک چیز کا جائزہ لیں گے کہ مطلوبہ چیزوں کی تعداد پوری ھے کہ نہیں ساتھ ساتھ پیداوار اور جانوروں کی صحت کو بھی چیک کیا جائے گا
6: اگر حدف پورا ھے تو ٹھیک -اگر کم ھے تو مدد کی جائے گی اور وارنیگ بھی دی جائے گی
7: لیکن اگر حدف سے بڑھ کر پیداورھے تو ایک الیکٹرک ٹریکٹر انعام دیا جائے گا جو ڈیزل وغیرہ پر بھی چلے گا لیکن عموما بجلی سے چارج ہو گا اور تمام زرعی ضرویات کو پورا کرے گا

اس سال 2020 میں ان ممالک کے سربراہان کا سالانہ اجلاس آن لائن ہوا اور دنیا کے دوسرے کونے سے ایک زرعی چیمپین ملک اسٹریلیا نے بطور ابزرور مہمان شرکت کی سب ممالک نے اس خودکفالت کو عبور کرنے پر خوشی کا اظہار کیا
جبکہ اسٹریلیا کی تجویز کو بھی انتہائیُ صحت افزا جان کر پروگرام کا حصہ بنا دیا اسٹریلیا کی تجویز یہ تھی کہ
ہر فارم میں جسطرح جانوروں اور مرغیوں کے لیے کمرے بنانے کی اجازت ھے اسی طرح فارم کے شروع میں مالک کو مکان بنانے کی اجازت دی جائے تا کہ بہتر پرفارم کر سکے
لیکن گھر کی چھت پر سولر پینل لگا کر بجلی خود پیدا کر سکے
اور گوبر گیس پلانٹ لگا کر گیس بنانے کا پابند ہو گا
نیز گھر کے استعمال شدہ پانی کو جمع کر کے آبپاشی کے لیے استعمال کرے گا
اب آپ اندازہ کریں صرف ایک حکومتی قدم سے سبزیاں پھل دالیں آٹا چاول دودھ گوشت انڈے بھی حاصل ہوئے روزگار بھی ملے گیس اور بجلی بھی بنی۔
ریسرچر (قدیر مصطفائی)
یہ سب کام ہمارے ملک میں کرنے اور بھی آسان ہیں کہ یہ ایک زرعی ملک ہے اور آبادی بھی بہت زیادہ ہے ۔ کاش ایسا ہو! وزیراعظم نے مرغیاں، گائے ، بکریاں پالنے کی تجاویز دیں تو کافی مذاق اڑا۔ ایسے ہی بلین ٹری سونامی کو لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ کاش اچھی باتوں پر لوگ بلا تعصب سمجھداری سے عمل کریں۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
حافظ محمد زبیر لکھتے ہیں:

مجھے بھی ایسی اردو زیادہ اچھی سمجھ میں آتی ہے کہ جس میں بیس فی صد الفاظ انگریزی کے ہوں۔ یہ امر واقعہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اب خالص اردو کی بجائے وہ زبان زیادہ رائج اور بلیغ ہے کہ جس میں بیس فی صد انگریزی کے الفاظ استعمال ہوتے ہوں۔ اب اہل زبان اسے اردو انگریزی کا نام دیں یا انگریزی اردو کا، مجھے نہیں معلوم لیکن ہے یہ کمال کی چیز۔ یہ ولایتی اردو اس وقت بہت تیزی سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی زبان بنتی جا رہی ہے۔

اب سماجی علوم کا لفظ ذہن پر کیا تصور چھوڑتا ہے جبکہ سوشل سائنسز کہو تو جیسے پورا ذہن روشن ہو جاتا ہے۔ اب سرقہ کہیں تو صرف اردو معلی والوں کو سمجھ آتا ہے اور پلیجرزم کہیں تو سب کو سمجھ آ جاتا ہے اور پروفیسروں کو تو کچھ زیادہ ہی۔ ذہنی تناؤ کے لفظ کو سمجھنے کے لیے ذہن پر دباؤ ڈالنا پڑتا ہے لیکن ٹینشن کا لفظ ابھی متکلم کی زبان پر ہی ہوتا ہے تو فورا ًمعنی ذہن میں منتقل ہو جاتا ہے۔ عام پڑھے لکھے فرد کو نفسیات اور معاشیات کے الفاظ سے وہ معانی نہیں پہنچتے جو سائیکالوجی اور اکنامکس کہنے سے منتقل ہوتے ہیں۔

میں بعض اوقات اپنی تحریروں میں جان بوجھ کر انگریزی لفظ استعمال کرتا ہوں کہ میری نظر میں اس سے معنی زیادہ منتقل ہوتا ہے۔ ہماری زبان میں انگریزی الفاظ کا یہ استعمال اس قدر عام ہو چکا ہے کہ اب ان الفاظ کی اردو بنانا یا تو تکلف ہے۔ اور اگر اردو متبادل ہے بھی تو وہ اتنا بلیغ نہیں رہا کہ بلاغت ہمیشہ اسی لفظ میں ہوتی ہے جو رائج ہو اور جس کے استعمال سے لوگوں کے ذہن میں تصورات روشن ہوں اور تخیلات پروان چڑھیں۔

اردو تو ویسے بھی مختلف زبانوں کا مجموعہ ہی ہے۔ اس میں پہلے ہی عربی، فارسی، سنسکرت اور ترکی وغیرہ جیسی زبانوں کے الفاظ کی کثرت ہے بلکہ اردو خود ترکی زبان کا لفظ ہے تو اب اگر انگریزی کے الفاظ بھی قبول کر لیے جائیں گے تو اس کی بلاغت میں اضافہ ہی ہو گا نہ کہ کوئی کمی۔ آج بھی اگر ہم انگریزی لفظ کا اردو میں ترجمہ کرنا چاہیں گے تو اس کی عربی یا فارسی ہی بنائیں گے جیسے بلڈ پریشر کو بلند فشار خون کہہ دیا۔ تو لینا تو ہم نے ادھار ہی ہے، انگریزی سے نہ سہی عربی اور فارسی سے سہی۔ [مکالمہ، ص 247]
موجودہ دور کی عکاسی کرتی ہوئی تحریر ہے۔ واقعی بعض مرتبہ اردو کے الفاظ سن کر سوچنا پڑتا ہے کہ کیا مطلب ہے۔ یعنی ذہن پروسیس کرنے میں وقت لگاتا ہے۔ مراسلات لکھتے ہوئے بھی ببسا اوقات صحیح الفاظ اور ہجے سوچنا پڑتے ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
کسی باغ میں ایک کبوتر نے اپنا آشیانہ بنایا ہوا تھا۔ جس میں وہ دن بھر اپنے بچوں کو دانہ چگاتا۔ بچوں کے بال و پر نکل رہے تھے۔ ایک دن کبوتر دانہ چونچ میں دبائے باہر سے آیا تو سارے بچوں نے انہیں تشویش سے بتایا کہ اب ہمارے آشیانے کی بربادی کا وقت آ گیا ہے۔ آج باغ کا مالک اپنے بیٹے سے کہہ رہا تھا۔
"پھل توڑنے کا زمانہ آ گیا ہے۔ کل میں اپنے دوستوں کو ساتھ لاؤں گا اور ان سے پھل توڑنے کا کام لوں گا۔ خود میں اپنے بازو کی خرابی کی وجہ سے یہ کام نہ کر سکوں گا۔"
کبوتر نے اپنے بچوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔"باغ کا مالک کل اپنے دوستوں کے ساتھ نہیں آئے گا۔ فکر کرنے کی کوئی بات نہیں۔"
اور حقیقتاً ایسا ہی ہوا۔ باغ کا مالک دوسرے روز اپنے دوستوں کے ہمراہ پھل توڑنے نہ آیا۔ کئی روز بعد باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ باغ میں آیا اور کہنے لگا۔
"میں اس دن پھل توڑنے نہ آ سکا کیونکہ میرے دوست وعدے کے باوجود نہ آئے لیکن میرے دوبارہ کہنے پر انہوں نے پکا وعدہ کیا ہے کہ کل وہ ضرور آئیں گے اور پھل توڑنے باغ میں جائیں گے۔"
کبوتر نے یہ بات بچوں کی زبانی سن کر کہا۔"گھبراؤ نہیں، باغ کا مالک اب بھی پھل توڑنے نہیں آئے گا۔ یہ کل بھی گزر جائے گی۔"
اسی طرح دوسرا روز بھی گزر گیا اور باغ کا مالک اور اس کے دوست باغ نہ آئے۔ آخر ایک روز باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ پھر باغ میں آیا اور بولا۔
"میرے دوست تو بس نام کے ہمدرد ہیں۔ ہر بار وعدہ کرکے بھی ٹال مٹول کرتے ہیں اور نہیں آتے۔ اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ان پر بھروسہ کرنے کی بجائے اپنا کام میں خود کروں گا اور کل خود باغ سے پھل توڑوں گا۔"
کبوتر نے یہ بات سن کر پریشانی سے کہا۔"بچو! اب ہمیں اپنا ٹھکانہ کہیں اور تلاش کرنا چاہیے۔ باغ کا مالک کل یہاں ضرور آئے گا کیونکہ اس نے دوسروں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیا ہے۔"
(حکایت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ)
 

سیما علی

لائبریرین
*نوکر شاہی کسے کہتے ہیں*۔

" ایک دن خواجہ شاہد حسین،جو سب ذیلی محکموں کے سب سے بڑے افسر تھے یعنی سیکرٹری وزارتِ سیاحت و ثقافت،اسلام آباد سے ان کا فون آیا۔کہنے لگے۔یار عکسی; مائی جنداں کی حویلی کی چھت ٹپک رہی ہے۔ پانی سم کر رنجیت سنگھ کے دربار کی اہم ترین پینٹنگ کو خراب کر رہا ہے۔یہ بہت ہی قیمتی اثاثہ ہے۔اس کی قیمت کئی لاکھ پونڈ ہے۔اس کا ستیاناس ہو جائے گا۔یار تم وہاں ہو فورا اس پینٹنگ کو بچانے کاانتظآم کرو۔
.
میں نے اسی وقت ڈایئرکیٹر نارتھ جس کا دفتر عین سامنے تھا فون کیا اور درخواست کی کہ مجھے ایک سیڑھی اور ایک میسن فراہم کیا جائے تاکہ میں حویلی کی چھت پر جا کر ضروری مرمت کرا سکوں۔سکوں ۔ڈائریکٹر صاحب نے سب سن کر کہا۔جی ہاں جی ہاں ضرور،لیکن میسن کیلٸے آپ ڈاٸریکٹر ساوُتھ سے رابطہ کریں۔ , البتہ سیڑھی کیلٸےآپ یہ درخواست فائل پر لکھ کر مجھے بھیج دیں۔۔
.
میں نے فوری حکم کی تعمیل کی۔ایک درخواست لکھی اس کو فائل میں لگایااور خاص طریقے سے ٹیگ میں پرویااور بڑے صاحب کے دفتر بھجوا دی۔جو رتبہ میں مجھ سے کہیں چھوٹے تھے۔ہفتہ گزر گیا ،کوئی جواب نہ آیا۔میں نے جا کر پوچھا تو کہنے لگے: ہاں ہاں وہ فائل تو قلعہ کے انجینیئر کو بھیج دی تھی ۔ انہوں نے detailed specs مانگی ہیں۔ براہ کرم سیڑھی کی تفصیلات بھیجیں۔ بانس کی ہو یا کیکر کی۔ کتنی اونچاٸی کیلٸیے چاہٸے۔ اینگل آف ایپروچ کیا ہے۔ پینٹ کی ضرورت ہے یا نہیں۔ کیرج یعنی ٹرانسپورٹ کون سا محکمہ دے گا۔ بجٹ ہیڈ بھی درکار ہے۔آپ کو سیڑھی جلد مل جاٸیگی ۔
.
معلومات بھجوا دی گٸیں۔ تاہم کوٸی جواب نہ آیا۔ میں کئی دن اس انجینیئر کو تلاش کرتا رہا۔بالآخر ایک ہفتہ بعد وہ مجھے ایک دن مل ہی گئے ۔۔میں نے دریافت کیا تو فرمانے لگے سیڑھیاں تو میرے پاس نہیں ہوتیں۔وہ تو ٹھیکیدار کا کام ہے۔ میں نے فائل اپنے نائب کے ذریعہ ڈاٸریکٹر ایسٹ کو بھیج دی ہے۔ شاید وہ آپ کی مدد کر سکیں۔ ۔ عکسی صاحب آپ پریشان نہ ہوں وہ آپ کو سیڑھی ضرور مہیا کر دیں گے۔
.
آٹھ دن اور بیت گئے۔سیڑھی کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔اب تو یہ پتہ لگانا بھی محال تھا کہ وہ فایئل ہے کہاں۔
.
ایک دن مغرب کے وقت چہل قدمی کرتے ہوئے دفعتاً میں احاطے کے ایسے کونے میں داخل ہوا جہاں پہنچ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔وہاں کئی قسم کی سیڑھیاں پڑی تھیں۔ چھوٹی،لمبی،بہت لمبی۔۔ میں نے اپنے سپرنٹینڈینٹ یوسف ہارون کے ساتھ ایک سیڑھی اٹھائی اور مائی جنداں کی حویلی کی چھت پر پہنچ گیا۔
.
چھت پر دیسی انداز میں بڑی اینٹ کا چوکا لگایا گیا تھا۔جس جگہ سے پانی نیچے ٹپکتا تھا وہاں چوکوں کے درمیان درز خالی ہو چکی تھی۔ہم نے اسی وقت تھوڑے سا سیمٹ منگوایا اور سیمنٹ میں پُڈلو پاؤڈر ملایا اور ان درزوں کو دس پندرہ منٹ میں بھر دیا -نیچے اترے اور سیڑھی واپس وہیں رکھ دی جہاں سے لائی گئی تھی۔
.
دس دن اور گزر گئے ایک صبح مجھے دیکھ کر حیرت ہوئی کہ جو فائل میں نے بھیجی تھی وہ ایک ضخیم فائل کی صورت میں مجھے واپس بھیج دی گئی ہے۔اس پر ڈائریکٹر نارتھ اور ڈاٸریکٹر ایسٹ نے لکھ کر بھیجا تھا۔" ہم معذرت خواہ ہیں کہ ہمیں سیڑھی نہیں مل سکی ۔ ہم نے ڈاٸریکٹر ویسٹ سے بجٹ مانگ لیا ہے۔براہ کرم اگر فوری ضرورت ہے تو بہتر ہو گا کہ آپ سیڑھی بازار سے خرید لیں یا کرائے پر حاصل کرلیں۔
.
اگلے ہی روز مجھے اسلام آباد سے خواجہ شاہد حسین کا پھر فون آیا۔ یار عکسی آپ کو مائی جنداں کی حویلی کے کام کا کہا تھا اس کا کیا بنا؟مجھے دیکھ کر بتاؤ یہ کام انتہائی اہم ہے۔
میں نے کہا سر اس کی مرمت تو ہو چکی۔ہم نے پوری تحقیق کر لی ہے اب چھت بالکل نہیں ٹپکتی۔
خواجہ شاہد نے حیرت سے پوچھا:کیا کہا چھت کی مرمت ہو چکی ہے؟اب چھت نہیں ٹپکتی کب ہوئی کس نے کی؟
میں نے کہا میں نے خود کی یہ معمولی سا کام تھا۔
شاہد نے پوچھا کتنے پیسے خرچ ہوئے؟ میں نے بتایا کوئی پیسہ خرچ نہیں ہوا۔
شاہد کہنے لگے: حیرت ہے میرے سامنے چھت ٹپکنے کی فائل پڑی ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ نے اس کام کے لیئے 25 لاکھ روپے اور چھ ماہ مانگے ہیں۔
۔
*”کاغذ کا گھوڑا"*
 

سید عمران

محفلین
*نوکر شاہی کسے کہتے ہیں*۔

" ایک دن خواجہ شاہد حسین،جو سب ذیلی محکموں کے سب سے بڑے افسر تھے یعنی سیکرٹری وزارتِ سیاحت و ثقافت،اسلام آباد سے ان کا فون آیا۔کہنے لگے۔یار عکسی; مائی جنداں کی حویلی کی چھت ٹپک رہی ہے۔ پانی سم کر رنجیت سنگھ کے دربار کی اہم ترین پینٹنگ کو خراب کر رہا ہے۔یہ بہت ہی قیمتی اثاثہ ہے۔اس کی قیمت کئی لاکھ پونڈ ہے۔اس کا ستیاناس ہو جائے گا۔یار تم وہاں ہو فورا اس پینٹنگ کو بچانے کاانتظآم کرو۔
.
میں نے اسی وقت ڈایئرکیٹر نارتھ جس کا دفتر عین سامنے تھا فون کیا اور درخواست کی کہ مجھے ایک سیڑھی اور ایک میسن فراہم کیا جائے تاکہ میں حویلی کی چھت پر جا کر ضروری مرمت کرا سکوں۔سکوں ۔ڈائریکٹر صاحب نے سب سن کر کہا۔جی ہاں جی ہاں ضرور،لیکن میسن کیلٸے آپ ڈاٸریکٹر ساوُتھ سے رابطہ کریں۔ , البتہ سیڑھی کیلٸےآپ یہ درخواست فائل پر لکھ کر مجھے بھیج دیں۔۔
.
میں نے فوری حکم کی تعمیل کی۔ایک درخواست لکھی اس کو فائل میں لگایااور خاص طریقے سے ٹیگ میں پرویااور بڑے صاحب کے دفتر بھجوا دی۔جو رتبہ میں مجھ سے کہیں چھوٹے تھے۔ہفتہ گزر گیا ،کوئی جواب نہ آیا۔میں نے جا کر پوچھا تو کہنے لگے: ہاں ہاں وہ فائل تو قلعہ کے انجینیئر کو بھیج دی تھی ۔ انہوں نے detailed specs مانگی ہیں۔ براہ کرم سیڑھی کی تفصیلات بھیجیں۔ بانس کی ہو یا کیکر کی۔ کتنی اونچاٸی کیلٸیے چاہٸے۔ اینگل آف ایپروچ کیا ہے۔ پینٹ کی ضرورت ہے یا نہیں۔ کیرج یعنی ٹرانسپورٹ کون سا محکمہ دے گا۔ بجٹ ہیڈ بھی درکار ہے۔آپ کو سیڑھی جلد مل جاٸیگی ۔
.
معلومات بھجوا دی گٸیں۔ تاہم کوٸی جواب نہ آیا۔ میں کئی دن اس انجینیئر کو تلاش کرتا رہا۔بالآخر ایک ہفتہ بعد وہ مجھے ایک دن مل ہی گئے ۔۔میں نے دریافت کیا تو فرمانے لگے سیڑھیاں تو میرے پاس نہیں ہوتیں۔وہ تو ٹھیکیدار کا کام ہے۔ میں نے فائل اپنے نائب کے ذریعہ ڈاٸریکٹر ایسٹ کو بھیج دی ہے۔ شاید وہ آپ کی مدد کر سکیں۔ ۔ عکسی صاحب آپ پریشان نہ ہوں وہ آپ کو سیڑھی ضرور مہیا کر دیں گے۔
.
آٹھ دن اور بیت گئے۔سیڑھی کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔اب تو یہ پتہ لگانا بھی محال تھا کہ وہ فایئل ہے کہاں۔
.
ایک دن مغرب کے وقت چہل قدمی کرتے ہوئے دفعتاً میں احاطے کے ایسے کونے میں داخل ہوا جہاں پہنچ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔وہاں کئی قسم کی سیڑھیاں پڑی تھیں۔ چھوٹی،لمبی،بہت لمبی۔۔ میں نے اپنے سپرنٹینڈینٹ یوسف ہارون کے ساتھ ایک سیڑھی اٹھائی اور مائی جنداں کی حویلی کی چھت پر پہنچ گیا۔
.
چھت پر دیسی انداز میں بڑی اینٹ کا چوکا لگایا گیا تھا۔جس جگہ سے پانی نیچے ٹپکتا تھا وہاں چوکوں کے درمیان درز خالی ہو چکی تھی۔ہم نے اسی وقت تھوڑے سا سیمٹ منگوایا اور سیمنٹ میں پُڈلو پاؤڈر ملایا اور ان درزوں کو دس پندرہ منٹ میں بھر دیا -نیچے اترے اور سیڑھی واپس وہیں رکھ دی جہاں سے لائی گئی تھی۔
.
دس دن اور گزر گئے ایک صبح مجھے دیکھ کر حیرت ہوئی کہ جو فائل میں نے بھیجی تھی وہ ایک ضخیم فائل کی صورت میں مجھے واپس بھیج دی گئی ہے۔اس پر ڈائریکٹر نارتھ اور ڈاٸریکٹر ایسٹ نے لکھ کر بھیجا تھا۔" ہم معذرت خواہ ہیں کہ ہمیں سیڑھی نہیں مل سکی ۔ ہم نے ڈاٸریکٹر ویسٹ سے بجٹ مانگ لیا ہے۔براہ کرم اگر فوری ضرورت ہے تو بہتر ہو گا کہ آپ سیڑھی بازار سے خرید لیں یا کرائے پر حاصل کرلیں۔
.
اگلے ہی روز مجھے اسلام آباد سے خواجہ شاہد حسین کا پھر فون آیا۔ یار عکسی آپ کو مائی جنداں کی حویلی کے کام کا کہا تھا اس کا کیا بنا؟مجھے دیکھ کر بتاؤ یہ کام انتہائی اہم ہے۔
میں نے کہا سر اس کی مرمت تو ہو چکی۔ہم نے پوری تحقیق کر لی ہے اب چھت بالکل نہیں ٹپکتی۔
خواجہ شاہد نے حیرت سے پوچھا:کیا کہا چھت کی مرمت ہو چکی ہے؟اب چھت نہیں ٹپکتی کب ہوئی کس نے کی؟
میں نے کہا میں نے خود کی یہ معمولی سا کام تھا۔
شاہد نے پوچھا کتنے پیسے خرچ ہوئے؟ میں نے بتایا کوئی پیسہ خرچ نہیں ہوا۔
شاہد کہنے لگے: حیرت ہے میرے سامنے چھت ٹپکنے کی فائل پڑی ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ نے اس کام کے لیئے 25 لاکھ روپے اور چھ ماہ مانگے ہیں۔
۔
*”کاغذ کا گھوڑا"*
ہمارے سیاست دان اور نوکر شاہی۔۔۔
سب کوڑھ کی کاشت!!!
 

سیما علی

لائبریرین
حکائیت ِ سعدیؒ،
مقام احسان

کسی بستی میں ایک عالی حوصلہ اور شریف آدمی رہتا تھا جو تنگدست ہونے کے باوجود ہر وقت دوسروں کی مدد کرتا تھا۔ ایک دن اس کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا اے سخی! میں نے ایک شخص سے قرض لیا تھا وقت پر ادائیگی نہ کر سکا اور اب وہ مجھے قید کروا دینے پر بضد ہے۔
اس سوالی نے جتنی رقم مانگی تھی وہ کچھ زیادہ نہ تھی لیکن اس وقت اس شخص کے پاس یہ معمولی سی رقم بھی نہ تھی۔ ایسے لوگوں کے پاس سرمایہ جمع بھی کہاں رہتا ہے۔ ان کی مثال تو بلند پہاڑوں کی سی ہے کہ جو پانی ان پر برستا ہے اسی وقت ڈھلانوں پر بہہ جاتا ہے۔
سوالی کو رقم نہ ملی تو قرض خواہ نے اسے قید کرا دیا۔ مردِ سخی کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ قرض خواہ کے پاس گیا اور اس سے درخواست کی کہ آپ نے اپنے جس مقروض کو قید کرایا ہے اسے کچھ دنوں کیلئے آزاد کر دیجئے۔ اگر وہ پھر بھی آپ کی رقم ادا نہ کر سکا تو اس کی جگہ میں قید بھگتنے کو موجود ہوں۔ میں اس کی ضمانت دیتا ہوں۔
قرض خواہ نے یہ درخواست قبول کرکے مقروض کو آزاد کر دیا۔ سخی مرد نے اس سے کہا کہ خدا نے تجھے قید سے رہائی بخش دی۔تو یہاں سے بھاگ جا، چنانچہ وہ فرار ہو گیا اور معاہدے کے مطابق قرض خواہ نے اس کی جگہ سخی مرد کو قید کرا دیا۔
جب وہ قید کی سختیاں جھیل رہا تھا تو اس کے دوستوں میں سے ایک نے اس سے کہا کہ یہ بات تو دانائی کے مطابق معلوم نہیں ہوتی کہ تم نے پرائی مصیبت اپنے گلے میں ڈال لی جو خطا کار تھا وہ خود اپنے کئے کی سزا بھگتتا۔ سخی مرد نے جواب دیا تم اپنی جگہ ٹھیک سوچ رہے ہو لیکن میں نے جو کچھ کیا ٹھیک ہی کیا۔ وہ بے چارہ سوالی بن کر میرے پاس آیا تھا اور اس کی رہائی کی اس کے سوا کوئی صورت نہ تھی کہ میں اس کی جگہ قید ہو جائوں۔
بیان کیا جاتا ہے کہ وہ مرد سخی قید خانے میں ہی مر گیا۔ اس کی رہائی کی کوئی سبیل پیدا نہ ہو سکی۔ بظاہر یہ کوئی اچھا انجام نہ تھا لیکن حقیقت میں اس نے حیات جادواں پا لی۔
اس حکایت میں حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ نے مقام احسان کا حال بیان کیا ہے۔ قرآن مجید میں محسنین کا بہت بڑا درجہ بیان کیا گیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے احسان کی یہ تشریح فرمائی ہے کہ قاعدے قانون کے مطابق اور عام اخلاق کی رو سے انسان پر جو فرض عائد ہوتا ہو اس سے بڑھ کر نیکی کی جائے۔ مثلاً اگر کوئی قرض دار قرض کی رقم ادا نہ کر سکے تو اسے معاف کر دینا نیکی ہے، لیکن اگر معاف کرنے کے علاوہ اس کے ساتھ کچھ اور سلوک بھی کیا جائے تو یہ احسان ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
‏ اپنی شریک حیات کیلئے آسانیاں پیدا کریں

ایک بیوی کی زندگی میں جو کام کرنے کا عروج والا عرصہ ہوتا ہے وہ تقریباً بیس سال یا اس سے کچھ زیادہ ھوتا ھے
ان بیس سالوں میں ایک بیوی تقریباً (2kgx 365x 20)
365 من آٹا گوندھتی ہے

ڈیڑھ لاکھ روٹیاں اور 200 من چاول پکاتی ہے

300 من سبزی اور گوشت وغیرہ پکاتی ہے

روزانہ 10 مرلے پر جھاڑو پوچا یعنی کل 20 سال میں
1 کروڑ 40 لاکھ مرلے یا 70 لاکھ کنال یا 87500 ایکڑ یا 2138170 مربع میٹر یا 2138.2
مربع کلومیٹر پر جھاڑو پوچا کرتی ہے

تقریباً 40 ہزار جوڑے کپڑے دھوتی ہے اور استری کرتی ہے

اس کے علاوہ بچوں کے پیمپر بدلنا سکول بیگ اور ٹفن تیار کرنا مہمانوں کے لیے کھانا تیار کرنا اور بھی بہت سے چھوٹے موٹے کام ہوتے ہیں جو سرانجام دیتی ہے

اب اگر یہی کام *دو بیویاں* کریں تو کتنی آسانی ہو جائے
اور اگر *چار بیویاں* کریں تو سوچیں زندگی کتنی سہل ہو جائے۔

*اگے تہاڈی مرضی اے*
قابل غور تحریر ہے بس عمل کریں اور اپنی شریک حیات کی زندگی آسان سے آسان تر بناہیں۔شکریہ

نوٹ ۔کسی قسم کے نقصان کی ذمہ دار کمپنی نہ ہوگی
 

سید عمران

محفلین
‏ اپنی شریک حیات کیلئے آسانیاں پیدا کریں

ایک بیوی کی زندگی میں جو کام کرنے کا عروج والا عرصہ ہوتا ہے وہ تقریباً بیس سال یا اس سے کچھ زیادہ ھوتا ھے
ان بیس سالوں میں ایک بیوی تقریباً (2kgx 365x 20)
365 من آٹا گوندھتی ہے

ڈیڑھ لاکھ روٹیاں اور 200 من چاول پکاتی ہے

300 من سبزی اور گوشت وغیرہ پکاتی ہے

روزانہ 10 مرلے پر جھاڑو پوچا یعنی کل 20 سال میں
1 کروڑ 40 لاکھ مرلے یا 70 لاکھ کنال یا 87500 ایکڑ یا 2138170 مربع میٹر یا 2138.2
مربع کلومیٹر پر جھاڑو پوچا کرتی ہے

تقریباً 40 ہزار جوڑے کپڑے دھوتی ہے اور استری کرتی ہے

اس کے علاوہ بچوں کے پیمپر بدلنا سکول بیگ اور ٹفن تیار کرنا مہمانوں کے لیے کھانا تیار کرنا اور بھی بہت سے چھوٹے موٹے کام ہوتے ہیں جو سرانجام دیتی ہے

اب اگر یہی کام *دو بیویاں* کریں تو کتنی آسانی ہو جائے
اور اگر *چار بیویاں* کریں تو سوچیں زندگی کتنی سہل ہو جائے۔

*اگے تہاڈی مرضی اے*
قابل غور تحریر ہے بس عمل کریں اور اپنی شریک حیات کی زندگی آسان سے آسان تر بناہیں۔شکریہ

نوٹ ۔کسی قسم کے نقصان کی ذمہ دار کمپنی نہ ہوگی
نیز دو سے چار بیویاں کرنے سے قبل اپنی اکلوتی اور واحد بیوی کو مندرجہ بالا مضمون پڑھانا اپنے پاؤں پہ خود کلہاڑی مارنا، آ بھینس مجھے مارنا، اپنے لیے خود گڑھا کھودنا اور جان بوجھ کر زہر کا پیالہ پینا وغیرہ جیسی ساری بلائیں گلے پڑ سکتی ہیں!!!
 

سیما علی

لائبریرین
*اگے تہاڈی مرضی اے*
قابل غور تحریر ہے بس عمل کریں اور اپنی شریک حیات کی زندگی آسان سے آسان تر بناہیں۔شکریہ

نوٹ ۔کسی قسم کے نقصان کی ذمہ دار کمپنی نہ ہوگی
نیز دو سے چار بیویاں کرنے سے قبل اپنی اکلوتی اور واحد بیوی کو مندرجہ بالا مضمون پڑھانا اپنے پاؤں پہ خود کلہاڑی مارنا، آ بھینس مجھے مارنا، اپنے لیے خود گڑھا کھودنا اور جان بوجھ کر زہر کا پیالہ پینا وغیرہ جیسی ساری بلائیں گلے پڑ سکتی ہیں!!!
بالکل درست کہا آپ نے
 
Top