میں نے مرد کی بے بسی تب محسوس کی جب میرے والد کینسر سے جنگ لڑ رہے تھے اور انھیں صحت یاب ہونے سے زیادہ اس بات کی فکر لاحق تھی کہ جو کچھ انھوں نے اپنے بچوں کے لئے بچایا تھا وہ ان کی بیماری پر خرچ ہورہاہے اور ان کے بعد ہمارا کیا ہوگا؟
میں نے مرد کی قربانی تب دیکھی جب ایک بازار عید کی شاپنگ کرنے گئی اور ایک فیملی کو دیکھا جن کے ہاتھوں میں شاپنگ بیگز کا ڈھیر تھا اور بیوی شوہر سے کہہ رہی تھی کہ میری اور بچوں کی خریداری پوری ہوگئی آپ نے کرتا خرید لیا اب آپ کوئی نئی چپل بھی خرید لیں جس پر جواب آیا ضرورت ہی نہیں پچھلے سال والی کون سی روز پہنی ہے جو خراب ہوگئی ہوگی، تم دیکھ لو اور کیا لینا ہے بعد میں اکیلے آکر اس رش میں کچھ نہیں لے پاو گی۔ ابھی میں ساتھ ہوں جو خریدنا ھے آج ھی خرید لو۔
میں نے مرد کا ایثار تب محسوس کیا جب وہ اپنی بیوی بچوں کے لئے کچھ لایا تو اپنی ماں اور بہن کے لئے بھی تحفہ لایا، میں نے مرد کا تحفظ تب دیکھا جب سڑک کراس کرتے وقت اس نے اپنے ساتھ چلنے والی فیملی کو اپنے پیچھے کرتے ہوئے خود کو ٹریفک کے سامنے رکھا۔
میں نے مرد کا ضبط تب دیکھا جب اس کی جوان بیٹی گھر اجڑنے پر واپس لوٹی تو اس نے غم کو چھپاتے ہوئے بیٹی کو سینے سے لگایا اور کہا کہ ابھی میں زندہ ہوں لیکن اس کی کھنچتی ہوئے کنپٹیاں اور سرخ ہوتی ہوئی آنکھیں بتارہی تھیں کہ ڈھیر تو وہ بھی ہوچکا ہے، رونا تو وہ بھی چاہتا ہے لیکن یہ جملہ کہ مرد کبھی روتا نہیں ہے اسے رونے نہیں دیگا۔
بانو قدسیہ