سیما علی
لائبریرین
لکھنؤ کی اردو کا لطف لیجئے، رتن ناتھ سرشار رقم طراز ہیں..!!!
ایک صاحب غلام نے اپنے غلام کو جو کہ صاحبِ طبعِ لطیف و بذلہ سنج تھا، حکم دیا، کہ بازار جائے اور تاک لگائے، انگور ہاتھ آئے تو فوراََ خرید لائے۔ غلام نے ایک دلبر میوہ فروش ستمگار و ستم کوش کی دکان سے کئی خوشے خریدے اور مٹرگشتی کرتا ہوا خراماں خِراماں آقا کے پاس لے گیا۔ وہ نہایت ہی بد دماغ ہوئے فرمایا کہ ذرا سا کام اور اتنی تاخیر ! اتنی دیر میں تو میں لندن سے ہو آتا، ایسا کاہل دیکھا نہ سنا, خبردار ! اگر آج سے ایک کام کو بھیجوں تو ہاتھوں ہاتھ چار کام انجام دے لانا۔ غلام نے دست بستہ عرض کیا کہ پیر و مرشد اس مرتبہ معاف فرمائیں ان شاء اللہ آئندہ سے ارشادِ واجب الانقیاد کی لفظ بلفظ تعمیل ہوگی۔ دوسرے دن خواجہ صاحب کسی زباں دراز گستاخ کنیز کی عشوہ پردازی پر ایسے گرمائے کہ تپ چڑھ آئی غلام کو حکم دیا کہ کسی طبیب لبیب کو بلاؤ، وہ فورا گیا اور طبیب کے علاوہ چند آدمیوں کو بھی ساتھ لایا۔ خواجہ نے پوچھا یہ جماعت کیسی ہے ہم نے تو حکم دیا تھا کسی طبیب کو بلا لاؤ تم اتنے آدمیوں کو کیوں ساتھ لے آئے ؟ غلام نے بصد احترام عرض کیا حضور تو بھول بھول جاتے ہیں ابھی کل ہی تو تاکید کی تھی اگر ایک کام کا ارشاد کروں تو کئی کام بعجلتِ تمام سر انجام دے لانا۔ الامر فوق الادب. لیجئے آج دم کی دم میں میں نے اتنے کام کئے کہ قدر دانی شرط ہے. حکیم جی کو حسب الحکم حضور بلا لایا کہ تشخیص مرض کرکے معالجہ کریں اور ادھر ہی سے لپکا ہوا گیا اور مطرب خوش الحان کو ساتھ لایا کہ اگر خداوند! عروسِ صحت سے ھم آغوش ہوں تو قوال کی خوش آوازی اور ناخن بازی سے بزم طرب آراستہ ہو، غسّال کو بھی ساتھ لایا کہ زندگی کا کیا بھروسہ کہ اگر پیک اجل حضور کو خلد علّیین کی سیر کرائے تو غسّال جھٹ پٹ غسل دے دے، ادھر سےایک شاعرِ جادو بیاں اور طلیق اللساں کو ہمراہ کیا کہ مرثیہ موزوں کرے اب باقی رہا گور کن تو وہ بھی دم کی دم میں موجود ہوگا مطمئن رہیئے. اب انصاف میرے آقائے نامدار کے ہاتھ ہے، غلام نے انعام ہی کا کام کیا ہے آئندہ اختیار بدست مختار۔
فسانہ آزاد
ایک صاحب غلام نے اپنے غلام کو جو کہ صاحبِ طبعِ لطیف و بذلہ سنج تھا، حکم دیا، کہ بازار جائے اور تاک لگائے، انگور ہاتھ آئے تو فوراََ خرید لائے۔ غلام نے ایک دلبر میوہ فروش ستمگار و ستم کوش کی دکان سے کئی خوشے خریدے اور مٹرگشتی کرتا ہوا خراماں خِراماں آقا کے پاس لے گیا۔ وہ نہایت ہی بد دماغ ہوئے فرمایا کہ ذرا سا کام اور اتنی تاخیر ! اتنی دیر میں تو میں لندن سے ہو آتا، ایسا کاہل دیکھا نہ سنا, خبردار ! اگر آج سے ایک کام کو بھیجوں تو ہاتھوں ہاتھ چار کام انجام دے لانا۔ غلام نے دست بستہ عرض کیا کہ پیر و مرشد اس مرتبہ معاف فرمائیں ان شاء اللہ آئندہ سے ارشادِ واجب الانقیاد کی لفظ بلفظ تعمیل ہوگی۔ دوسرے دن خواجہ صاحب کسی زباں دراز گستاخ کنیز کی عشوہ پردازی پر ایسے گرمائے کہ تپ چڑھ آئی غلام کو حکم دیا کہ کسی طبیب لبیب کو بلاؤ، وہ فورا گیا اور طبیب کے علاوہ چند آدمیوں کو بھی ساتھ لایا۔ خواجہ نے پوچھا یہ جماعت کیسی ہے ہم نے تو حکم دیا تھا کسی طبیب کو بلا لاؤ تم اتنے آدمیوں کو کیوں ساتھ لے آئے ؟ غلام نے بصد احترام عرض کیا حضور تو بھول بھول جاتے ہیں ابھی کل ہی تو تاکید کی تھی اگر ایک کام کا ارشاد کروں تو کئی کام بعجلتِ تمام سر انجام دے لانا۔ الامر فوق الادب. لیجئے آج دم کی دم میں میں نے اتنے کام کئے کہ قدر دانی شرط ہے. حکیم جی کو حسب الحکم حضور بلا لایا کہ تشخیص مرض کرکے معالجہ کریں اور ادھر ہی سے لپکا ہوا گیا اور مطرب خوش الحان کو ساتھ لایا کہ اگر خداوند! عروسِ صحت سے ھم آغوش ہوں تو قوال کی خوش آوازی اور ناخن بازی سے بزم طرب آراستہ ہو، غسّال کو بھی ساتھ لایا کہ زندگی کا کیا بھروسہ کہ اگر پیک اجل حضور کو خلد علّیین کی سیر کرائے تو غسّال جھٹ پٹ غسل دے دے، ادھر سےایک شاعرِ جادو بیاں اور طلیق اللساں کو ہمراہ کیا کہ مرثیہ موزوں کرے اب باقی رہا گور کن تو وہ بھی دم کی دم میں موجود ہوگا مطمئن رہیئے. اب انصاف میرے آقائے نامدار کے ہاتھ ہے، غلام نے انعام ہی کا کام کیا ہے آئندہ اختیار بدست مختار۔
فسانہ آزاد