یاسر شاہ
محفلین
کہنے کی بات یہ ہے مزہ نہیں آیا۔ایک قصہ اور سنائیں تاکہ سنا کر اثر پیدا کیا جائے۔یہ تو وہ بہؤئیں جانیں۔۔۔
ہم بلاوجہ نیگیٹو کیوں ہوں!!!!
کہنے کی بات یہ ہے مزہ نہیں آیا۔ایک قصہ اور سنائیں تاکہ سنا کر اثر پیدا کیا جائے۔یہ تو وہ بہؤئیں جانیں۔۔۔
ہم بلاوجہ نیگیٹو کیوں ہوں!!!!
اس دو نمبری قصہ میں بھی مزہ نہ آیا تو ؟؟؟کہنے کی بات یہ ہے مزہ نہیں آیا۔ایک قصہ اور سنائیں تاکہ سنا کر اثر پیدا کیا جائے۔
آپ غائب کہاں ہیں ! کہیں بڑی نے تو نہیں سن لیا سب کچھ کیرالہ کی روداد😎اس دو نمبری قصہ میں بھی مزہ نہ آیا تو ؟؟؟
ارے۔۔۔
کہیں ہم سے اس بہانے الف لیلیٰ جدید تو نہیں لکھوانا چاہ رہے؟؟؟
خدا کا خوف کریں ایسی باتیں تو دل ہی دل میں بھی نہیں سوچنی چاہئیں۔۔۔آپ غائب کہاں ہیں ! کہیں بڑی نے تو نہیں سن لیا سب کچھ کیرالہ کی روداد😎
خدا کا خوف کریں ایسی باتیں تو دل ہی دل میں بھی نہیں سوچنی چاہئیں۔۔۔
اگر بڑی نے سن لیں تو ہمارا دہی بڑا بننے میں کوئی دیر نہیں لگے گی!!!
ہم مزے لے کر کھائیں گے دہی بڑے 🤣🤣🤣🤣🤣بڑی نے سن لیں تو ہمارا دہی بڑا بننے میں کوئی دیر نہیں لگے گی!!!
ہم تو اب تک آپ کو اپنا ہمدرد سمجھتے رہے!!!
ہم بہت خوش ہوئے آپ کے ڈرنے سے 🤓
اور ذرا بھی خوف خدا نہ رکھیں گے!!!ہم مزے لے کر کھائیں گے دہی بڑے 🤣🤣🤣🤣🤣
اوہ اوہ اب مذاق میں نہ کہیں ۔۔۔اتنے دنوں بعد تو اتنا ہنسے بے ساختہُہم تو اب تک آپ کو اپنا ہمدرد سمجھتے رہے!!!
| ||
اللہ پاک انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمینترکی میں جب خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا تو کچھ علماء نے چھپ چھپ کر اور درختوں کے نیچے دیہات اور گاؤں میں وہاں کے بچوں کو دینی تعلیم دینی شروع کی
جب وہاں کے لوگ فوج کو آتے دیکھتے تو فورا بچے کھیتی باڑی میں مشغول ہوجاتے
یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہ بچے کوئی تعلیم حاصل نہیں کر رہے بلکہ کھیتی باڑی میں مشغول ہیں
ان طالبعلم بچوں میں شیخ محمود آفندی نقشبندی صاحب بھی شامل تھے، حضرت نے یوں دینی تعلیم کی تکمیل کی اور فراغت کے بعد یہی سلسلہاپنے گاؤں جاری رکھا ،
اسی دوران حضرت آفندی کے دو خلفاء شہید کیے گیے تو حالات کے تناظر میں حضرت آفندی نے وہاں سے شہر کا رخ کیا جہاں ایک قدیم مسجد تھی وہاں رہتے ہوئے حضرت نے چالیس سال تک دین کی تدریس کا کام جاری رکھا۔
تقریبا اٹھارہ سال تک حضرت آفندی کے پیچھے کوئی نماز پڑھنے کیلئے تیار نہیں تھا اٹھارہ سال کے بعد آہستہ آہستہ لوگ آنے لگے اور حضرت آفندی سے فیضیاب ہوتے گئے ۔
آج جب اسی مسجد میں اذان ہوتی ہے تو جوق درجوق لوگ نماز کیلئے اس مسجد میں آنا اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے ہیں جو حضرت آفندی جیسے علماء کی محنت اور اخلاص کا نتیجہ ہے
-
ترکی سے جب خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا تو وہاں کے بانی کمال اتا ترک نے عربی کتب اور دینی علوم پر مکمل پابندی لگادی ۔
اس وقت حضرت مولانا شیخ محمود آفندی نقشبندی نے اپنے طلباء کو انگلیوں کے اشاروں پر صرف اور نحو کے اسباق پڑھائے حج اور نماز کے مسائل بھی ہاتھوں کے اشاروں سے سمجھائے اللہ تعالی نے حضرت آفندی کے ہاتھوں پر مکمل دینی نصاب رکھ دیا تھا.
شیخ محمود آفندی کے ساٹھ لاکھ سے زائد شاگرد اور مریدین اس وقت دنیا بھر میں ان کی تعلیمات کو عام کرکے اسلام کا نام روشن کررہے ہیں ،معرفت وطریقت کا یہ تابناک سورج زندگی کی 95بہاریں دیکھنے کے بعد اس ماہ غروب ہوگیا۔۔۔پروردگار آپکے درجات بلند فرمائے آمین
آمین الہی آمیناللہ پاک انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین