انٹر نیٹ سے چنیدہ

سیما علی

لائبریرین
گورے ھمارے نبیؐ ﷺکی میراث میں سے کیا کچھ چھین کے لے گیے اور ہم کہاں محدود ہو کر رہ گئے،ملاحظہ فرمایے;
**** آجکل کے مسلم کا کردار ****
نمازیں پڑھنا اور اگر مالی حالات اچھے ھوں تو بے شمار حج و عمرے کرنا غریب رشتہ دار یا پڑوسی کی پرواہ کیے بغیر_
*****غیر مسلم کا کردار *****
نمبر ایک-سچ بولنا
نمبر دو-ملاوٹ نہ کرنا
نمبر تین-وعدہ پورا کرنا
نمبر چار-وقت کی پابندی کرنا
نمبر پانچ-حرام کمای سے بچنا
نمبر چھہ-چہرے پر مسکراہٹ رکھنا
نمبر سات-رات کو جلدی سو کر صبح جلدی اٹھنا
نمبر آٹھ-اپنا کام ایمانداری سے پورا کرنا
نمبر نو-کم کھانا
نمبر دس-غور یا ریسرچ کرنا
نمبر گیارہ-پڑوسی کو تنگ نہ کرنا_
میں نے ذاتی طور پر غیر مسلموں کے درمیان رہ کر نوٹ کیا ھے_برا نہیں منانا_اور میں نماز کے خلاف ہرگز ہرگز نہیں ہوں_نماز ہمیں ہر ہر حال میں پڑھنی ہے مگر پھر اس سے آگے بھی تو بڑھنا ہے_
 

سید عمران

محفلین
👣1960 میں ترکی کے شہر میں واقع پاگل خانے سے چوکیداروں کی لاپرواہی کی بناء پر پاگل خانے کے کھلے ہوئے دروازے سے موقع پا کر 423 پاگل فرار ہو گئے۔

شہر کی سڑکوں پر پاگلوں نے اودھم مچا دیا، بد نظمی اور ہڑبونگ مچ گئی۔

ہسپتال کی طرف سے شہر کی انتظامیہ کو اطلاع ملی۔ ماہرین مسئلے کے حل کیلیئے سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ فوری طور پر ایک بڑے ماہر نفسیات کو بلوا لیا گیا۔

ماہر نفسیات نے حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے فوراً ایک سیٹی منگوائی۔ ہسپتال کے عملے اور انتظامیہ کے کچھ لوگوں کو چھکڑا بنا کر اپنے پیچھے لگایا گاڑی بنائی اور وسل بجاتے چھک چھک کرتے سڑک پر نکل آیا۔

ماہر نفسیات کا تجربہ کامیاب رہا۔ سڑک پر چلتے پھرتے مفرور پاگل ایک ایک کر کے گاڑی کا حصہ بنتے گئے۔

شام تک ماہر نفسیات ڈاکٹر صاحب سارے پاگلوں کی گاڑی بنا کر ہسپتال لے آئے۔ انتظامیہ نے پاگلوں کو واپس اُن کے وارڈز میں بند کیا اور ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کیا۔

مسئلہ شام کو اُس وقت بنا جب پاگلوں کی گنتی کی گئی تو 612 پاگل شمار ہوئے جبکہ ہسپتال سے صبح کے وقت صرف 423 پاگل فرار ہوئے تھے.
ان ۴۲۳ معزز حضرات میں سے ایک صاحب اسی چھکڑا گاڑی میں بیٹھ کر کراچی آگئے۔۔۔
وہاں کی پولیس انہیں آج تک ڈھونڈ رہی ہے۔۔۔
سمجھ تو آپ گئے ہوں گے!!!
 

سید عمران

محفلین
میں نے ذاتی طور پر غیر مسلموں کے درمیان رہ کر نوٹ کیا ھے_برا نہیں منانا_اور میں نماز کے خلاف ہرگز ہرگز نہیں ہوں_نماز ہمیں ہر ہر حال میں پڑھنی ہے مگر پھر اس سے آگے بھی تو بڑھنا ہے_
لکھنے والے نے اس جملہ کے علاوہ سب اچھا لکھا ہے۔۔۔
تقابل کے لیے نماز کو بلاوجہ بیچ میں لے آیا!!!
 

سیما علی

لائبریرین
لکھنے والے نے اس جملہ کے علاوہ سب اچھا لکھا ہے۔۔۔
تقابل کے لیے نماز کو بلاوجہ بیچ میں لے آیا!!!
بالکل درست فرمایا آپ نے ۔۔۔ہم نے بھی یہی سوچا ۔۔۔ماشاء اللہ آپ جیسے باعمل تو نہیں ! پر کوئی نماز پر کچھ بھی بلا وجہ کہے اور بیچ میں لائے ۔۔۔تو بہت غصۂ آتا ہے ۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
لندن پہنچنے کے بہت دن بعد تک ہم انگریزی کھانے کو ترستے رہے ۔ ہوا یہ کہ جس شام ہم یہاں وارد ہوئے ہوٹل میں ایک پاکستانی صاحب مل گئے بولےچلئے ، پہلے آپ کو کھانے کا ٹھکانا بتا دوں ۔ ہم نے کہا ، بسم اللہ ، وہ پر پیچ گلیوں میں لے گئے اور ایک جگہ لے جا کر کہا ، یہاں آپ کو عمدہ پاکستانی کھانا اور حلال گوشت ملے گا ۔ اچھا تو نہ تھا قیمے میں پانی بہت ڈال رکھا تھا لیکن خیر ۔

دوسرے روز بی بی سی میں ہمارے دوست آصف جیلانی نے بی بی سی کلب میں ہمیں پراٹھا اور کباب کھلائے۔

تیسرے دن انعام عزیز کھینچ کے ایک جگہ لے گئے جہاں بھنا گوشت ، مغز اور ماش کی دال اور بگھارے بینگن وغیرہ سبھی تھے ۔

چوتھے دن بدر عالم صاحب نے مہمان نوازی کا حق ادا کیا اور ہمیں روغن جوش کھلا کر جوش کے روغنی شعر بھی سنائے ۔

ہم سوچ رہے تھے کہ یارو چھری کانٹے کی نوبت بھی آئے گی کہ نہیں کہ عبداللہ ملک اپنے گھر لے گئے اور کہا : ولائتی کھانے کھا کر تم بے مزہ ہو گئے ہو گے ، لو آج پاکستانی کھاؤ۔
اب ہم ان سے کیا کہتے بہت رغبت سے ان کی روٹیاں بھی توڑیں

پھر سید سبط حسن کی ایسٹرن فیڈرل کمپنی نے ایک دعوت کر دی ۔ اس میں بھی پلاؤ، بریانی ، سیخ کباب اور پراٹھے ہی تھے ۔

ایک جگہ تو جہاں بدر عالم ہمیں لے گئے تھے ۔ بیرے نے کہا ۔
" جناب کیا پان نہیں کھائیے گا ؟ "
ہم نے کہا ، پان ؟
بولے : جی ہاں ! کیسا کھاتے ہیں آپ برابر کا ؟
بہت دن سے پان نہیں کھایا تھا ۔ اس روز اس کا بیڑا بھی منہہ میں رکھا ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ڈھونڈنے والے کو پان بخوبی مل جاتے ہیں لیکن سڑک پر پچکاری مارنے کی اجازت نہیں ۔

آوارہ گرد کی ڈائری ۔ ۔۔۔ابن انشا
 

شمشاد

لائبریرین
تمہارے ہر درد کی دوا تمہارے پرانے دوست ہیں۔ اپنے پرانے اسکول و کالج کے دوستوں سے رشتہ رکھا کرو۔ یہ وہ حکیم ہیں جو الفاظ سے علاج کر دیتے ہیں۔ عمر کی چادر کھینچ کر اتار دیتے ہیں، یہ کمبخت دوست کبھی بوڑھا نہیں ہونے دیتے۔
بچے وصیت پوچھتے ہیں، رشتے دار حیثیت پوچھتے ہیں، وہ دوست ہی ہیں جو آپ سے آپ کی خیریت پوچھتےہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
با با جی کہہ رہے تھے کہ تیسواں روزہ بیوی کی طرح ہوتا ہے، نہ رکھنے کا دل کرتا ہے، نہ چھوڑنے کی ہمت ہوتی ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
کل جب آفس پہنچ کر اپنی دراز کھولی ۔۔۔۔ تو ایک پرچی اوپر ہی پڑی تھی جس پہ جلی حروف میں لکھا تھا "اگر آپ کو مجھ سے محبت ہے اور مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں تو کل نیلے رنگ کی ٹائی پہن کر آنا ۔۔۔ میں سمجھ جاؤں گی کہ آپ بھی مجھ سے شادی پہ راضی ہیں" ۔ عبارت پڑھ کر دل حلق میں آگیا ۔ آفس میں کل تین لڑکیاں تھیں جن کی طرف دھیان بار بار جاتا تھا ۔ لیکن ان میں کون ایسی حسینہ تھی جو مجھ سے شادی جیسے انتہائی اقدام پہ راضی تھی ، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہی نہی ، ناممکن تھا ۔ سارا دن تینوں لڑکیوں کا باری باری جائزہ لیتا رہا لیکن کسی ایک کے بارے میں بھی حتمی رائے قائم نہیں کرسکا ۔ چھٹی کے بعد گھر آکر بھی بار بار یہی سوچتا رہا کہ کیا کروں انکار کردوں یا ہاں کروں ۔ پھر تینوں لڑکیوں کی شکلیں بار بار آنکھوں کے سامنے لہراتی رہیں ۔ رات بے چینی میں گزری صبح ہوئی تو دل کڑا کرکے فیصلہ کیا کہ آج شلوار قمیض میں آفس جاؤں گا تاکہ ٹائی لگانا ہی نہ پڑے لیکن نہ معلوم کیسے ارادہ تبدیل ہوا اور سوٹ پہن کر نیلی ٹائی لگائی، پرفیوم کا ضرورت سے زیادہ استعمال کیا اور دل ہی دل میں فیصلہ کیا کہ کیا حرج ہے اگر کوئی لڑکی مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہے تو اسکا دل کیوں توڑوں ؟؟ کسی کے کام آنا بھی ثواب ہے۔ اس خصوصی تیاری میں ٹائم بھی اضافی ہی لگا ۔ بھاگتے بھاگتے آفس پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آج کوئی ایک درجن لوگ نیلی ٹائی لگائے ہوے تھے اور تینوں لڑکیاں مسکرا رہی تھیں..😝😝😝( ایک آفس کا احوال ).۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
🌹قائداعظم سفرِ ریل کے دوران اپنے لیے دو برتھیں مخصوص کرایا کرتے تھے۔ایک مرتبہ کسی نے ان سے وجہ دریافت کی تو جواب میں انھوں نے یہ واقعہ سنایا ’’میں پہلے ایک ہی برتھ مخصوص کراتا تھا۔ایک دفعہ کا ذکر ہے، میں لکھنٔو سے بمبئی جا رہا تھا۔ کسی چھوٹے سے اسٹیشن پر ریل رکی تو ایک اینگلو انڈین لڑکی میرے ڈبے میں آکر دوسری برتھ پر بیٹھ گئی۔ چونکہ میں نے ایک ہی برتھ مخصوص کرائی تھی، اس لیے خاموش رہا.
🌹ریل نے رفتار پکڑی تو اچانک وہ لڑکی بولی ’’تمھارے پاس جو کچھ ہے فوراً میرے حوالے کردو، ورنہ میں ابھی زنجیر کھینچ کر لوگوں سے کہوں گی کہ یہ شخص میرے ساتھ زبردستی کرنا چاہتا ہے۔‘‘ میں نے کاغذات سے سر ہی نہیں اٹھایا۔اُس نے پھر اپنی بات دہرائی۔ میں پھر خاموش رہا۔ آخر تنگ آ کر اُس نے مجھے جھنجھوڑا تو میں نے سر اٹھایا اور اشارے سے کہا ’’میں بہرہ ہوں، مجھے کچھ سنائی نہیں دیتا۔ جو کچھ کہنا ہے، لکھ کر دو۔‘‘اُس نے اپنا مدعا کاغذ پر لکھ کر میرے حوالے کر دیا۔میں نے فوراً زنجیر کھینچ دی اور اسے مع تحریر ریلوے حکام کے حوالے کردیا۔ اس دن کے بعد سے میں ہمیشہ دو برتھیں مخصوص کراتا ہوں۔‘‘😀

🌹ایک بار قائد اعظم محمد علی جناح سکول و کالج کے طلبا سے خطاب کر رہے تھے , ایک ہندو لڑکے نے کهڑے ہو کر آپ سے کہا کہ آپ ہندوستان کا بٹوارہ کر کے ہمیں کیوں تقسیم کرنا چاہتے ہیں , آپ میں اور ہم میں کیا فرق ہے . ؟
آپ کچھ دیر تو خاموش رہے , تو سٹوڈنٹس نے آپ پر جملے کسنے شروع کر دئیے , کچھ نے کہا کہ آپ کے پاس اس کا جواب نہیں , اور پهر ہر طرف سے ہندو لڑکوں کی ہوٹنگ اور قہقہوں کی آوازیں سنائی دے رہیں تھیں .
قائد اعظم نے ایک پانی کا گلاس منگوایا , آپ نے تھوڑا سا پانی پیا پھر اسکو میز پر رکھ دیا , آپ نے ایک ہندو لڑکے کو بلایا اور اسے باقی بچا ہوا پانی پینے کو کہا , تو ہندو لڑکے نے وہ پانی پینے سے انکار کر دیا ,
پهر آپ نے ایک مسلمان لڑکے کو بلایا , آپ نے وہی بچا ہوا پانی اس مسلم لڑکے کو دیا , تو وہ فوراً قائد اعظم کا جوٹھا پانی پی گیا .
آپ پهر سب طلباء سے مخاطب ہوئے اور فرمایا , یہ فرق ہے آپ میں اور ہم میں .
ہر طرف سناٹا چھا گیا . کیونکہ سب کے سامنے فرق واضح ہو چکا تھا۔۔۔۔

🌹محمد علی جناح نے کبهی کسی کو گالی نہ دی اور نہ کبهی آپ نے بداخلاقی کی . آپ اپنی بات اس قدر ٹھوس دلائل سے پیش کرتے تهے کہ بڑے بڑے منہ میں انگلیاں دبا لیتے اور آپ کے سامنے لاجواب ہو جاتے .
قائد اعظم سے لوگوں کی محبت کا یہ عالم تھا کہ اگر کوئی آپ سے ہاتھ ملا لیتا تو وہ خوشی سے پھولا نہ سماتا , اور سارا دن لوگوں کو بتاتا پهرتا کہ آج میں نے قائد اعظم سے ہاتھ ملایا ہے .
🌹قائد اعظم محمد علی جناح اتنی مخالفت کے باوجود ایک دن کے لیے بھی جیل نہیں گئے۔۔
اور کبھی بھی ایسے الفاظ اپنے منہ سے نہیں نکالے جن کے بعد یہ کہنا پڑے کہ میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں...😇😇😇😇😇
 

سیما علی

لائبریرین
*"میں کیسے مانوں کہ تم سیّد ھو؟"

ابنِ جوزى رحمة الله عليه روایت کرتے ھیں کہ ھرات میں ایک سادات فیملی تھی۔ خاتون جوانی میں بیوہ ھو گئیں۔ بچیوں والی تھیں تنگ دستی آئی۔ تو انہوں نے سمرقند کی طرف ھجرت کی وہاں پہنچھی۔ تو لوگوں سے پوچھا کہ یہاں کوئی سردار کوئی سخی ھے_ لوگوں نے بتایا کہ یہاں دو سردار ھیں۔ ایک مسلمان ھے اور ایک آتش پرست۔ خاتون سیدزادی۔ مسلمان سردار کے گھر گئیں۔ اور کہا کہ میں آلِ رسول صلى الله عليه وآلہ وسلم سے ھوں_
پردیسن ھوں نہ کھانے کو کچھ ھے اور نہ ھی رھنے کا کوئی ٹھکانہ ھے۔
سردار نے پوچھا: تمہارے پاس کوئی نسب نامہ سند ھے۔؟
خاتون نے کہا: بھائی میں ایک نادار پردیسن ھوں میں سند کہاں سے لاؤں۔؟
سردار کہنے لگا: یہاں تو ھر دوسرا آدمی کہتا ھے کہ میں سیّد ھوں۔ آلِ رسول صلى الله عليه وألہ وسلم ھوں_
یہ جواب سن کر وہ خاتون سیدزادی وہاں سے نکلیں۔ اور مجوسی سردار کے پاس گئیں وہاں اپنا تعارف کرایا اُس نے فورأ اپنی بیگم کو اُن کے ھمراہ بھیجا کہ جاؤ!۔
اِن کی بچیوں کو لے آؤ رات سرد تھی خاتون اور اُن کی بچیوں کو کھانا کھلا کر مہمان خانے میں سونے کيلئے جگہ دے دی گئی_
اُسی رات کو مسلمان سردار نے خواب دیکھا کہ رسولِ اکرم صلّی الله علیه وآله وسلّم جنّت میں بنے ایک خوبصورت محل کے دروازے پر کھڑے ھیں_
یہ عرض کرتا ھے: یا رسول الله صلّی الله علیه وآله وسلّم یہ محل کس کا ھے؟
آپ صلّی الله علیه وآله وسلّم فرماتے ہیں: يہ ایک مسلمان کا ھے_
یہ کہتا ھے: مسلمان تو میں بھی ھوں_
آپ صلّی الله علیه وآله وسلّم فرماتے ھیں: اپنے اسلام پر کوئی سند پیش کرو_
وہ شخص کانپ جاتا ھے
آپ صلّی الله علیه وآله وسلّم فرماتے ھیں: میرے گھر کی بیٹی تیرے دروازے پر چل کر آئی اور تُو نے اُس سے سادات ھونے کی سند مانگی؟ میرے نظروں سے دُور ھوجا_
جب اُس کی آنکھ کُھلی تو وہ ننگے سر اور ننگے پاؤں باہر نکل آیا اور شور مچانا شروع کردیا کہ وہ پردیسن خاتون کہاں گئی۔؟
لوگوں نے بتایا کہ وہ تو آتش پرست سردار کے گھر چلی گئی_
وہ اُسی حالت میں بھاگا بھاگا گیا اور اُس سردار کے دروازے کو زور زور سے کھٹکھٹانے لگ پڑا۔ گھر کا مالک باھر نکلا اور پوچھا: کیا ھوا۔؟
وہ خاتون جو اپنی بچیوں کے ھمراہ تمہارے گھر میں ٹھہری ھوئی ھیں۔ مجھے دے دو وہ میرے مہمان ھیں_
حضور! وہ میرے مہمان ھیں آپ کے نہیں میں آپ کو نہیں دے سکتا_
مجھ سے تین سو دینار لے لو اور اُنہیں میرا مہمان بننے دو۔
مجوسی سردار کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور کہنے لگا: بھائی میں نے بن دیکھے کا سودا کیا تھا۔ اب تو دیکھ چکا ھوں اب میں تمہیں کیسے واپس کردوں۔؟
میں نے خواب دیکھا کہ جنّت کے دروازے پر الله کے نبی صلّی الله علیه وآله وسلّم کھڑے تھے اور تجھے کہا جارہا کہ دُور ھوجا۔ اُس کے بعد رسولِ خدا صلّی الله علیه وآله وسلّم میری طرف متوجہ ھوئے اور فرمانے لگے کہ تُو نے میری بیٹی کو کھانا اور ٹھکانا دیا۔ تُو اور تیرا سارا خاندان بخش دیئے گئے ھیں_
سب کيلئے الله تعالى نے جنّت کا فیصلہ کر دیا ھے_
آنکھ کُھلتے ھی میں ایمان لاچکا ھوں۔ میرا سارا خاندان کلمہ طيبه پڑھ چکا ھے_
ھم وہ دولت کبھی آپ کو واپس نہیں کریں گے۔
 

سیما علی

لائبریرین
ماں باپ بھی کتنے دلچسپ ہوتے ہیں
سارے جھگڑے آیک طرف ، سالے کے پائے ایک طرف
عمر بڑھ جائے تو ماں باپ لڑنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں ۔ لگتا یے اب لڑائی بڑھی اور بات چیت بند لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا کیونکہ گزری باتوں پر بات بہ بات لڑنا ہی تو ساتھ بیٹھنے کا بہانہ ہے ۔ سوچیں ! اگر یہ سب کچھ نہ کریں تو دن کیسے گزرے ۔
باپ : ( شام کی چائے پیتے ہوئے ) یہ آج کل تمھارے شمشاد کہاں ہوتے ہیں ؟
ماں : یہ شمشاد کی یاد کہاں سے آ گئی آج ؟
باپ: : سالا ہے یاد تو آئے گا ۔ ہم یاد نہیں کریں گے تو کون یاد کرے گا ،

ماں : اچھا ۔ جب وہ شادی کے بعد گھر آتا تھا تو سو طرح کے منہ بناتے تھے ۔ اب اس میں ایسے کیا سرخاب کے پر نکل آئے ۔

باپ : ہماری شادی پر تو خیر سے اس کے بڑے پر نکل رہے تھے ۔ کاٹنا ضروری تھے ۔

ماں : کیوب کیا آڑ کر آپ کے سر پر بیٹھ رہا تھا ؟

باپ : اتنا تو سر پر آج تک سسرال کو بٹھایا ہی نہیں

ماں : تو سسرال نے کب ۔۔۔۔

باپ : دیکھا آج آگئی ناں صحیح بات منہ پر ۔ بریک لگا کر رکھو ان پر ۔ ذرا سا سیدھے منہ بات کی اور یہ ہوئے بے قابو ۔

ماں : : ارے کوئی ٹرک بس ہیں جو بے قابو ہو جائیں گے ۔ ہمارے ہاں بھی داماد کی عزت کی جاتی ہے خوشامد نہیں ۔۔۔ اور دیکھیں ، یہ گڑھے مردے نہ ہی اکھاڑیں تو اچھا ہے ورنہ اگر میرا منہ کھل گیا تو ۔۔۔۔

باپ : ہاں ہاں کھول لیں منہ ۔ اچھا ہے آج بات صاف ہی ہو جائے ۔ میں تو اپنی مہندی والے دن ہی سمجھ گیا تھا ۔سالے کے لچھن اچھے نہیں ۔ منہ ہی نہیں لگایا اس دن سے سالے کو ۔

ماں : میں خوب سمجھ رہی کون سا والا سالا کہا جا رہا ہے میری بھائی کو ۔

باپ : اب یہ تمھاری مرضی ہے جو جیسا ہے وہ تو کہا جائے گا ۔

ماں : ایسا گرا پڑا نہیں تھا شمشاد کہ عورتوں میں گھسا جاتا ۔ ویڈیو بنانے والا اس کا دوست تھا۔ اب اسے کون بتاتا کہ کس کی ویڈیو بنانی ہے ؟

باپ : یہ بات کی ناں کام کی ۔ تمھارے گھر والی ویڈیو میں تو میں ہوں ہی نہیں ۔ دولھا سے زیادہ لڑکیوں کی ویڈیو بنوا دی تھی اس نے ۔ نکاح میرا ہو رہا ہے اور ویڈیو بن رہی ہے دوسری طرف پڑوس کی لڑکی شمو کی ۔

ماں : ہاں تو اچھی لگ رہی ہو گی اس دن ۔

۔باپ : ہاں تو بارات والے دن میں کیا یوگنڈا سے تیار ہو کر آیا تھا ۔ اور ہاں نکاح کے بعد وہ تمھارے پھوپھا دلاور سب سے پہلے گلے ملنے آ گئے ۔ چھوڑ ہی نہیں رہے تھے ۔ منہ سے منہ لگانے کر کھڑے تھے ۔ پورے 5 منٹ ویڈیو بنوائی ۔ وہ تو ان کے لڑکے نے کہا : ابا چھوڑ دیں ۔ کرائے پر نہیں آئے دولھا بھائی ۔

ماں : بہت سیدھے تھے پھوپھا ہمارے ۔

باپ : سیدھے جنت میں گئے ہوں گے ۔ ویسے میں تو حیران ہوں پھوپھا اتنے عرصے زندہ کیسے رہ لیے تمھاری پھوپھی کے ساتھ ؟

ماں : ہماری پھوپھی کو آپ نے جوانی میں نہیں دیکھا ۔ جو دیکھتا دیکھتا رہ جاتا ۔

باپ : ہاں یہ بات تمھاری سولہ آنے صحیح ہے ۔ میں نے جب پہلی بار دیکھا تو دیکھتا رہ گیا ۔ اماں سے پوچھ لیا تھا کیا آپ کی بہو ان پر پڑی ہے ۔ اماں نے کہا اللہ نے دو آنکھیں دی ہیں لڑکے ۔

ماں : آپ کی اماں کو تو پھوپھی سے خدا واسطے کا بیر تھا ۔ بس رشتہ آنے پر آپ کی عمر ہی تو پوچھی تھی ۔ کوئی گناہ کیا ۔۔۔ کیا ؟

باپ : اس طرح بہانے سے عمر پوچھتے ہیں کیا ؟ بولیں اسکندر مرزا کو جب ایوب خان نے اقتدار سے الگ کیا تو میں کس جماعت میں پڑھتا تھا ۔ ہماری اماں نے طبیعت ہری کردی تھی ، بولیں : اس وقت تو میں خود اسکول میں پڑھتی تھی ۔

ماں : ایسا کریں آج آپ دل بھر ہمارے گھر والوں کی برائیاں ہی کر لیں ۔ نکال لیں ساری بھڑاس ۔

باپ : اس میں بھڑاس نکالنے والی کیا بات ہے جو ہوا وہ بتا رہا ہوں ۔

ماں : اب میں بتاوں ؟ آپ کا رشتہ آیا اور منی باجی ہمارے گھر آ گئیں ۔ اتنی برائیاں کیں آپ کی امی کی ۔ کوئی اور ہوتا تو منع کر دیتا ۔ مگر اماں نے کہا خاندانی لوگ ہیں زبان دے دی تو دے دی ۔

باپ: اب میں کچھ بتاوں ۔ تمھاری پیچھے نہیں رہتے بھائی سمیع ۔ ابا کے پاس آئے تھے بولو : احمد بھائی رشتہ کرو تو دیکھ کر کرنا ۔ دونوں میاں بیوی کی ایک نہیں بنتی ۔ لڑکی بھی انہی کی ہے کہیں تمھارا لڑکا پھنس نہ جائے ۔

اسی دوران باپ کا موبائل بجتا ہے ۔ کال اٹینڈ کرتے ہیں : بھائی کیا حال ہیں ۔ بھول گئے کیا ؟

دوسری جانب سے بات کس جواب دیتے ہیں : ارے تم نے بلایا تو جم جم آئیں گے ۔ کل شام میں ۔۔۔ پکا ! خدا حافظ

ماں : کس کو اتنی محبت دکھائی جارہی تھی ۔

باپ : سالے کو میرے بغیر چین بھی نہیں ۔

ماں : کون سالا ؟

باپ : تم نہیں جانتیں ۔

ماں : پھر بھی ؟

باپ : شمشاد سالے نے بلایا ہے کل پائے کی دعوت کر رہا ہے ۔

ماں : ( چڑ کر ) چھوڑیں ۔ کیا کریں گے وہاں جا کر ۔ وہ تو ویڈیو بھی شمو کی بناتا ہے ۔ گھر آکر سو سو عیب نکالیں گے ۔

باپ : پہلے پائے پلیٹ میں نکالیں گے پھر عیب نکالیں گے ۔ ویسے بھی سارے جھگڑے ایک طرف ، سالے کے پائے ایک طرف😄😄😄😄😄
 

سیما علی

لائبریرین
کچھ لوگ پسند نا پسند کے چکر میں پھنس جاتے ہیں
خاص طور پر شادی کے معاملے میں ایسا بہت دیکھنے کو ملتا ہے ۔

لڑکیوں اور لڑکوں کی عمریں نکل جاتی ہیں
پھر اس حالت کو پہنچ جاتے ہیں کہ "بس ہو جائے"

ماموں کے بیٹے کی شادی تھی تو وہاں کچھ بزرگ احباب آپس میں گپیں ہانک رہے تھے تو ایک بزرگ نے ایک واقعہ سنایا جو میں آپ کی گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔

جبار نامی ایک شخص علاقے میں اس بات پر مشہور تھا کہ میں نے پسند کی شادی کرنی

گھر والوں نے کہیں جگہ رشتہ طے کروانے کی کوشش کی مگر جناب بضد تھے پسند کی شادی کے لیے ۔۔

جبار کا کہنا تھا کہ میرا جس سے رشتہ ہوگا وہ لڑکی حسین و جمیل ہو علاقے میں اس کے حسن اور خاندان کی تعریفیں زبان عام پر ہو ۔

جبار کی چچازاد بہن نے کہیں بار کہا کہ میں شادی کرنے کے لیے تیار ہوں
تھی بھی حسین و جمیل

مگر سیانے کہتے ہیں کہ

"گھر کی مرغی دال برابر"

بالآخر اسے پتہ چلا کہ فلاں خاندان میں فلاں شخص کی بیٹی بہت خوبصورت ہے تو جبار نے گھر والوں سے اصرار کیا کہ میری شادی وہاں کردی جائے ۔

والدین رشتہ لے کر گئے

ہمارے ہاں سسٹم ایسا ہے کہ لڑکی گھر کی بڑی خواتین دیکھتی ہیں

دلہے یا اس کے گھر کے دوسرے مرد لڑکی کو کسی بھی صورت نہیں دیکھ سکتے ۔

جبار کی امی اور باقی خواتین رشتہ داروں نے لڑکی دیکھی تو لڑکی بہت خوبصورت تھی
اس طرح رشتہ طے پایا

جبار کی خوشی دیدنی تھی سارے علاقے میں فخر سے گھومنے پھرنے لگا ۔

شادی کے لیے بارات گئی تو خواتین نے جب دلہن دیکھی تو دلہن وہ نہیں تھی جو دکھائی گئی بلکہ اس کی جگہ دوسری لڑکی کو دلہن بنایا گیا تھا جو کہ بہت بد صورت تھی

بزرگ خواتین پریشان ہوگی کہ اب کیا کریں ؟

اگر خاموشی توڑتی ہے کہ دلہن یہ نہیں ہے تو خون خرابہ ہوگا اور اگر دلہن لے کر جاتے ہیں تو جبار کے غضب کا نشانہ بن جاتی۔

آخر کار دلہن کی رخصتی پر اتفاق ہوا

جبار نکاح اور باقی رسومات کے بعد کمرے میں گیا تو گھونگھٹ اٹھاتے ہی اس کے منہ سے چیخ نکل گئی ۔

کمرے سے باہر آیا تو بزرگ خواتین بمعہ گھر کے بزرگ احباب کے ساتھ کھڑی تھی

جبار نے اپنا حال دل سنایا اور دھوکہ دہی پر اپنی خواتین کو کوسنے لگا
تم سب نے کہاتھا کہ لڑکی بہت خوبصورت تھی مگر یہ کیا ہے ؟

بزرگوں کی منت سماجت اور دھمکیوں پر بالآخر جبار کو ہتھیار ڈالنے پڑے ۔

ہمارے ہاں ایک بار شادی ہو جائے تو بیوی کو چھوڑنا بہت ہی بری بات سمجھا جاتا ہے اور بیوی کے گھر والوں سے دشمنی کا الگ خطرہ ہوتا ہے ۔

اس طرح جبار پسند نا پسند کے چکر میں پھنس گیا اور اس کی چچا زاد بہن زیر لب مسکرا مسکرا کی اس کے جینے کے دن کم کر رہی تھی 😀

نتیجہ
شادی کرو نخرے نہیں
ورنہ انجام جبار جیسا ہوگا 🙂
 

سیما علی

لائبریرین
*خدا تک پہنچنے کا شارٹ کٹ*

ایک عابد نے خدا کی زیارت کے لیے 40 دن کا چلہ کھینچا ۔ دن کو روزہ رکھتا اور رات کو قیام کرتا تھا۔ اعتکاف کی وجہ سے خدا کی مخلوق سے یکسر کٹا ہوا تھا اس کا سارا وقت آہ و زاری اور راز و نیاز میں گذرتا تھا
36 ویں رات اس عابد نے ایک آواز سنی
شام 6 بجے ‏تانبے کے بازار میں فلاں تانبہ ساز کی دکان پر جاؤ اور خدا کی زیارت کرو
عابد وقت مقررہ سے پہلے پہنچ گیا اور مارکیٹ کی گلیوں میں تانبہ ساز کی اس دوکان کو ڈھونڈنے لگا اس دوران اس نے پریشان حال ایک بوڑھی عورت کو دیکھا جو تانبے کی دیگچی پکڑے ہوئے تھی اور اسے ہر تانبہ ساز کو دکھارہی تھی"
‏اسے وہ بیچنا چاہتی تھی.. وہ جس تانبہ ساز کو اپنی دیگچی دکھاتی وہ اسے تول کر کہتا: 4 ریال ملیں گے - وہ بڑھیا کہتی: 6 ریال میں بیچوں گی کوئی تانبہ ساز اسے چار ریال سے زیادہ دینے کو تیار نہ تھا
آخر کار وہ بڑھیا بازار ہی میں موجود ایک تانبہ ساز کے پاس پہنچی وہ عام سی شکل و صورت والا تانبہ ساز اپنے کام میں مصروف تھا
‏بوڑھی عورت نے کہا: میں یہ برتن بیچنے کے لیے لائی ہوں اور میں اسے 6 ریال میں بیچوں گی کیا آپ چھ ریال دیں گے ؟
تانبہ ساز نے پوچھا صرف چھ ریال میں کیوں؟؟؟ بوڑھی عورت نے دل کی بات بتاتے ہوئے کہا: میرا بیٹا بیمار ہے، ڈاکٹر نے اس کے لیے نسخہ لکھا ہے جس کی قیمت 6 ریال ہے۔
‏تانبہ ساز نے دیگچی لے کر کہا: ماں یہ دیگچی بہت عمدہ اور نہایت قیمتی ہے۔ اگر آپ بیچنا ہی چاہتی ہیں تو میں اسے 25 ریال میں خریدوں گا!!
بوڑھی عورت نے کہا: کیا تم میرا مذاق اڑا رہے ہو؟ "کہا ہرگز نہیں،"میں واقعی پچیس ریال دوں گا یہ کہہ کر اس نے برتن لیا اور ‏بوڑھی عورت کے ہاتھ میں 25 ریال رکھ دیئے !!! بوڑھی عورت بہت حیران ہوئی دعا دیتی ہوئی جلدی اپنے گھر کی طرف چل پڑی کے کہیں تانبا ساز پیسے واپس نہ مانگ لے
عابد یہ سارا ماجرہ دیکھ رہا تھا جب وہ بوڑھی عورت چلی گئی تو اس نے تانبے کی دوکان والے سے کہا:
بھائی لگتا ہے آپ کو کاروبار نہیں آتا؟
‏بازار میں کم و بیش سبھی تانبے والے اس دیگچی کو تولتے تھے اور 4 ریال سے زیادہ کسی نے اسکی قیمت نہیں لگائی۔ اور آپ نے 25 ریال میں اسے خریدا
تانبہ ساز نے کہا:
تم نے سچ کہا اس برتن کی اتنی قیمت نہیں ہے لیکن میں نے برتن نہیں خریدا ہے میں نے تو خدا کی رضا مندی کے لئے اس کی مدد کی ہے میں نے اس کے بچے کا نسخہ خریدنے کے لیے اسے پیسے دئیے ہیں اس سے وہ اپنے بچے کے لیے وافر مقدار میں دوائی لے سکے گی میں نے اسے اس لئے یہ قیمت دی کہ گھر کا باقی سامان بیچنے کی نوبت نہ آئے اور اس کی پریشانی حل ہو جائے۔
عابد کہتا ہے میں سوچ میں پڑگیا اتنے میں غیبی آواز آئی

‏"چلہ کشی سے کوئی میری زیارت کا شرف حاصل نہیں کرسکتا گرنے والوں کو سہارا دو اور نیک نیتی کے ساتھ ضرورت مند کا ہاتھ پکڑو ہم خود تمہاری زیارت کو آئیں گے"۔😇😇😇😇😇
 

سیما علی

لائبریرین
وفا ھو تو ایسی جالندھر سے ہجرت کرکے ساہیوال میں سکونت اختیار کرنے والے عزیز پاکستانی کے بیٹے نے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس ملک سے پیار محبت اور وفا کی انتہا کردی
طارق عزیز کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی انہوں نے مرنے سے قبل اپنی تمام جائیداد اپنے پیارے وطن پاکستان کو وقف کردی۔
انکی وصیت کے مطابق تدفین سے قبل انکی پراپرٹی اور 4 کروڑ 41 لاکھ روپے کی رقم قومی خزانے میں جمع کرادی گئی ...
سچ بات تو یہ ہے کہ ہمارے اصل ہیروز تو "عزیز پاکستانی" اور "طارق عزیز" جیسے لوگ ہیں جو قومی خزانے کو لوٹتے نہیں بلکہ عمر بھر کی محنت و مشقت کی کمائی بھی اپنے ملک پر قربان کردیتے ہیں۔
اللّه پاک طارق عزیز صاحب کو کروٹ کروٹ جنّت نصیب کرے۔ آمین
 

سیما علی

لائبریرین
ایک ریڑھی والے سے گول گپے کھانے کے بعد میں نے پوچھا ۔۔"بھائی !! فیصل آباد کو جانے والی بسیں کہاں کھڑی ہوتی ہیں؟"
تو انہوں نے سامنے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ "سامنے اس ہوٹل کے پاس ۔"
میں جلدی جلدی وہاں پہنچا تو ہوٹل پہ چائے پینے والوں کا بہت رش تھا۔ہم نے بھی یہ سوچ کر چائے کا آرڈر دے دیا کہ چائے میں کوئی خاص بات ہو گی ۔چائے واقعی بڑی مزیدار تھی ۔جب ہم چائے کا بل دینے لگے تو یاد آیا کہ گول گپے والے کو تو پیسے دیے ہی نہیں ۔واپس دوڑتے ہوئے گول گپے والے کے پاس پہنچے اور انہیں بتایا کہ بھائی شاید آپ بھول گئے ہیں ،میں نے آپ سے گول گپے تو کھائے ہیں لیکن پیسے نہیں دیے؟"
تو گول گپے والا مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔"بھائی جس کے بچوں کی روزی انہی گول گپوں پہ لگی ہے ،وہ پیسے کیسے بھول سکتا ہے؟"
"تو پھر آپ نے پیسے مانگے کیوں نہیں؟"
میں نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔۔
تو کہنے لگے"بھائی یہ سوچ کر نہیں مانگے کہ آپ مسافر ہیں، شاید آپ کے پاس پیسے نہ ہوں،اگر مانگ لیے تو کہیں آپ کو شرمساری نہ اٹھانا پڑے ""
احساس کی انتہا..🥀
جب تک مسلمان اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اللہ اس کی مدد میں لگا رہتا ہے (مفہوم الحدیث)
 

سید عمران

محفلین
*خدا تک پہنچنے کا شارٹ کٹ*

ایک عابد نے خدا کی زیارت کے لیے 40 دن کا چلہ کھینچا ۔ دن کو روزہ رکھتا اور رات کو قیام کرتا تھا۔ اعتکاف کی وجہ سے خدا کی مخلوق سے یکسر کٹا ہوا تھا اس کا سارا وقت آہ و زاری اور راز و نیاز میں گذرتا تھا
36 ویں رات اس عابد نے ایک آواز سنی
شام 6 بجے ‏تانبے کے بازار میں فلاں تانبہ ساز کی دکان پر جاؤ اور خدا کی زیارت کرو
عابد وقت مقررہ سے پہلے پہنچ گیا اور مارکیٹ کی گلیوں میں تانبہ ساز کی اس دوکان کو ڈھونڈنے لگا اس دوران اس نے پریشان حال ایک بوڑھی عورت کو دیکھا جو تانبے کی دیگچی پکڑے ہوئے تھی اور اسے ہر تانبہ ساز کو دکھارہی تھی"
‏اسے وہ بیچنا چاہتی تھی.. وہ جس تانبہ ساز کو اپنی دیگچی دکھاتی وہ اسے تول کر کہتا: 4 ریال ملیں گے - وہ بڑھیا کہتی: 6 ریال میں بیچوں گی کوئی تانبہ ساز اسے چار ریال سے زیادہ دینے کو تیار نہ تھا
آخر کار وہ بڑھیا بازار ہی میں موجود ایک تانبہ ساز کے پاس پہنچی وہ عام سی شکل و صورت والا تانبہ ساز اپنے کام میں مصروف تھا
‏بوڑھی عورت نے کہا: میں یہ برتن بیچنے کے لیے لائی ہوں اور میں اسے 6 ریال میں بیچوں گی کیا آپ چھ ریال دیں گے ؟
تانبہ ساز نے پوچھا صرف چھ ریال میں کیوں؟؟؟ بوڑھی عورت نے دل کی بات بتاتے ہوئے کہا: میرا بیٹا بیمار ہے، ڈاکٹر نے اس کے لیے نسخہ لکھا ہے جس کی قیمت 6 ریال ہے۔
‏تانبہ ساز نے دیگچی لے کر کہا: ماں یہ دیگچی بہت عمدہ اور نہایت قیمتی ہے۔ اگر آپ بیچنا ہی چاہتی ہیں تو میں اسے 25 ریال میں خریدوں گا!!
بوڑھی عورت نے کہا: کیا تم میرا مذاق اڑا رہے ہو؟ "کہا ہرگز نہیں،"میں واقعی پچیس ریال دوں گا یہ کہہ کر اس نے برتن لیا اور ‏بوڑھی عورت کے ہاتھ میں 25 ریال رکھ دیئے !!! بوڑھی عورت بہت حیران ہوئی دعا دیتی ہوئی جلدی اپنے گھر کی طرف چل پڑی کے کہیں تانبا ساز پیسے واپس نہ مانگ لے
عابد یہ سارا ماجرہ دیکھ رہا تھا جب وہ بوڑھی عورت چلی گئی تو اس نے تانبے کی دوکان والے سے کہا:
بھائی لگتا ہے آپ کو کاروبار نہیں آتا؟
‏بازار میں کم و بیش سبھی تانبے والے اس دیگچی کو تولتے تھے اور 4 ریال سے زیادہ کسی نے اسکی قیمت نہیں لگائی۔ اور آپ نے 25 ریال میں اسے خریدا
تانبہ ساز نے کہا:
تم نے سچ کہا اس برتن کی اتنی قیمت نہیں ہے لیکن میں نے برتن نہیں خریدا ہے میں نے تو خدا کی رضا مندی کے لئے اس کی مدد کی ہے میں نے اس کے بچے کا نسخہ خریدنے کے لیے اسے پیسے دئیے ہیں اس سے وہ اپنے بچے کے لیے وافر مقدار میں دوائی لے سکے گی میں نے اسے اس لئے یہ قیمت دی کہ گھر کا باقی سامان بیچنے کی نوبت نہ آئے اور اس کی پریشانی حل ہو جائے۔
عابد کہتا ہے میں سوچ میں پڑگیا اتنے میں غیبی آواز آئی

‏"چلہ کشی سے کوئی میری زیارت کا شرف حاصل نہیں کرسکتا گرنے والوں کو سہارا دو اور نیک نیتی کے ساتھ ضرورت مند کا ہاتھ پکڑو ہم خود تمہاری زیارت کو آئیں گے"۔😇😇😇😇😇
ایک عبادت کا دوسری عبادت سے ٹکراؤ نہیں کرنا چاہیے۔۔۔
ہر عبادت اپنی اپنی جگہ اہم ہے، خلوت میں خدا کی عبادت بھی اور حسب استطاعت مخلوق کی خدمت بھی!!!
 

سید عمران

محفلین
ایک نیک بہو کا سبق آموز واقعہ ۔۔۔

جس نے اپنی بیٹی کو ایسے اعلٰی اخلاق سے مزین کیا۔

میں ایک جاننے والے کے گھر گیا تو وہاں ایک بڑا سبق آموز قصہ رونما ہوا جو آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔
*میں ان کے ڈرائینگ روم میں جا کر بیٹھا تو کچن ڈرائینگ روم کے ساتھ اٹیچ تھا جس کی وجہ سے کچن
میں ہونے والی گفتگو کو تھوڑا غور کرنے سے سنا جا سکتا تھا۔*
دو خواتین گفتگو کر رہی تھیں جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ یہ دونوں اس گھر کی دلہنیں ہیں۔ ان دونوں کی گفتگو نے مجھے ایک بہت بڑا سبق سکھایا۔
*ایک خاتون دوسری سے کہہ رہی تھی کہ ”تم پر کتنا ظلم ہوتا ہے سارا دن تم سے گھر کے
کام کرواتے رہتے ہیں، ہر کوئی تمھیں نوکر کی طرح سمجھتا ہے شائد اس لئے کہ تم مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتی ہو اور مجھے دیکھو گھر میں سارا دن رانیوں کی طرح راج کرتی ہوں کوئی مجھے کچھ نہیں کہتا، جس کو کام ہوتا ہے وہ تمھیں کہتا ہے، تمھیں ان لوگوں نے گھر کی نوکرانی بنا رکھا ہے،


تم اپنے شوہر کو کیوں نہیں بتاتی یہ سب ؟*
“ دوسری خاتون نے انتہائی خوبصورت جواب دیا اس نے کہا :
*”مجھے اس بات پر فخر ہے کہ گھر کے افراد ہر کام کے لئے میرا انتحاب کرتے ہیں کیونکہ مجھے ان کے کام کرنے سے خوشی محسوس ہوتی ہے اور جب میں اس گھر کے کاموں کو اپنا سمجھ کر کرتی ہوں تو
مجھے تھکن محسوس نہیں ہوتی اور جب میرا شوہر گھر آتا ہے تو وہ گھر کے ہر فرد سے میرے لئے تعریفی کلمات سنتا ہے تو مجھ سے خوش ہو جاتا ہے اور میرے شوہر کے چہرے پر آنے والی وہ خوشی میرے دن بھر کی تھکن کو پل بھر میں ختم کر دیتی ہے اور پھر میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ میں اپنے
شوہر کی نا فرمانی اور ناراضگی سے محفوظ ہوں اور باقی رہی مڈل کلاس کی بات تو اللہ کے نزدیک ان کلاسسز کی کوئی اہمیت نہیں وہ اپنے بندے کو تقویٰ کی بنیاد پر پرکھتا ہے،
*اس لئے میں اپنے شوہر کی نافرمان ہو کر اپنے رب کو ناراض نہیں کرنا چاہتی
اس کے لئے چاہے مجھے کوئی بھی قربانی دینی پڑے۔*
*اس نیک بخت خاتون کی باتیں سنی تو یقین ہو گیا کہ لازماً اس خاتون کی تربیت کے پیچھے کسی عظیم خاتون کا ہاتھ ہے جس نے اپنی بیٹی کو ایسے اعلٰی اخلاق سے مزین کیا...
 

یاسر شاہ

محفلین
ایک نیک بہو کا سبق آموز واقعہ ۔۔۔

جس نے اپنی بیٹی کو ایسے اعلٰی اخلاق سے مزین کیا۔

میں ایک جاننے والے کے گھر گیا تو وہاں ایک بڑا سبق آموز قصہ رونما ہوا جو آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔
*میں ان کے ڈرائینگ روم میں جا کر بیٹھا تو کچن ڈرائینگ روم کے ساتھ اٹیچ تھا جس کی وجہ سے کچن
میں ہونے والی گفتگو کو تھوڑا غور کرنے سے سنا جا سکتا تھا۔*
دو خواتین گفتگو کر رہی تھیں جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ یہ دونوں اس گھر کی دلہنیں ہیں۔ ان دونوں کی گفتگو نے مجھے ایک بہت بڑا سبق سکھایا۔
*ایک خاتون دوسری سے کہہ رہی تھی کہ ”تم پر کتنا ظلم ہوتا ہے سارا دن تم سے گھر کے
کام کرواتے رہتے ہیں، ہر کوئی تمھیں نوکر کی طرح سمجھتا ہے شائد اس لئے کہ تم مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتی ہو اور مجھے دیکھو گھر میں سارا دن رانیوں کی طرح راج کرتی ہوں کوئی مجھے کچھ نہیں کہتا، جس کو کام ہوتا ہے وہ تمھیں کہتا ہے، تمھیں ان لوگوں نے گھر کی نوکرانی بنا رکھا ہے،


تم اپنے شوہر کو کیوں نہیں بتاتی یہ سب ؟*
“ دوسری خاتون نے انتہائی خوبصورت جواب دیا اس نے کہا :
*”مجھے اس بات پر فخر ہے کہ گھر کے افراد ہر کام کے لئے میرا انتحاب کرتے ہیں کیونکہ مجھے ان کے کام کرنے سے خوشی محسوس ہوتی ہے اور جب میں اس گھر کے کاموں کو اپنا سمجھ کر کرتی ہوں تو
مجھے تھکن محسوس نہیں ہوتی اور جب میرا شوہر گھر آتا ہے تو وہ گھر کے ہر فرد سے میرے لئے تعریفی کلمات سنتا ہے تو مجھ سے خوش ہو جاتا ہے اور میرے شوہر کے چہرے پر آنے والی وہ خوشی میرے دن بھر کی تھکن کو پل بھر میں ختم کر دیتی ہے اور پھر میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ میں اپنے
شوہر کی نا فرمانی اور ناراضگی سے محفوظ ہوں اور باقی رہی مڈل کلاس کی بات تو اللہ کے نزدیک ان کلاسسز کی کوئی اہمیت نہیں وہ اپنے بندے کو تقویٰ کی بنیاد پر پرکھتا ہے،
*اس لئے میں اپنے شوہر کی نافرمان ہو کر اپنے رب کو ناراض نہیں کرنا چاہتی
اس کے لئے چاہے مجھے کوئی بھی قربانی دینی پڑے۔*
*اس نیک بخت خاتون کی باتیں سنی تو یقین ہو گیا کہ لازماً اس خاتون کی تربیت کے پیچھے کسی عظیم خاتون کا ہاتھ ہے جس نے اپنی بیٹی کو ایسے اعلٰی اخلاق سے مزین کیا...
واقعہ تو خیر اچھا ہے لیکن پرانی بدتمیز بہو کو جھنجھوڑنے کے لیے ناکافی ہے۔
 
Top