انٹر نیٹ سے چنیدہ

جاسمن

لائبریرین
وائس آف امریکا کے لیے سدرہ ڈار نے جون ایلیا کی بھتیجی یعنی رئیس امروہوی کی بیٹی شاہانہ رئیس کا انٹرویو کیا ہے۔
وہ روزے، سحری افطار اور عید کی تیاریوں کو لے کر اپنا زمانہ یاد کر رہی تھیں۔ ان کی گلوری میں مہکی ہوئی باتیں، خالص اردو پہ کرخنداری اور بیگماتی لہجے کا ہلکا سا چھڑکاو، رکھ رکھاو، پہناوا، ہار، بدن بولی اور بے ساختگی دل لے گئی۔
لپٹا ہوا ٹشو پھیر کر سلیقے سے پان صاف کرنے کا انداز مجھے بچپن اور لڑکپن کے محلے میں لے گیا۔
دوستوں کی چست اور ذہین امائیں، نانیاں اور دادیاں یاد آگئیں۔ ان گھرانوں میں ادب آداب اور زبان و بیان کی ایک پوری تہذیب پان دان کے آس پاس گھومتی تھی۔
بزرگوں کا اپنے سے چھوٹوں کو پان پیش کرنا، دونوں ہاتھ آگے کرکے پان لینا اور تکریم سے چرن چھونا، سلام علیکم یا آداب کہنا، ہائے ہائے۔
خاصدان میں پان رکھنا، اس پر گنبد نما ڈھکن رکھنا، پھر تکریم سے مہمان کو پیش کرنا کیسی دیرینہ روایت تھی۔
رضا لکھنوی کہتے ہیں، گنگا جمنی خاصدان سے ورق لگی گلوری اٹھاکر صحیح لب و لہجہ اور انداز سے آداب عرض کہنے کے لئے تین نسلوں کا رچاو چاہئے۔ ویسے یہ جملہ کہنے کے لئے بھی کتنا چاو اور رچاو چاہئے۔
اس چاو اور رچاو کے ساتھ تاشقند کی دو شیزائیں انگور کا عرق نچوڑتی ہیں یا پھر مولانا آزاد 'غبارِ خاطر میں جاسمین چائے بناتے ہیں۔
جاسمین والا یہی رچاو مستعار لے کر شوکت تھانوی ’بارِ خاطر‘ میں گلوری بناتے ہیں۔
پان سے آپ کو کتنے ہی اختلافات ہوں، شوکت تھانوی کو پان بناتا دیکھیں گے تو عقیدہ بدل لیں گے۔
منہاج ہمارا لنگوٹیا یار ہے اور اصلا بنارس سے ہے۔ بنارسی لوگ ساڑھی، موسیقی، گالم گفتار اور پان کے بغیر ادھورے ہیں۔
شہنائی والے استاد بسم اللہ خان کو ی دیکھ لیں۔ دنیا گھومتے تھے مگر ان کی روح کو شانتی بنارس میں ہی ملتی تھی۔
گنگا سے آنند لیتے تھے، جامع مسجد میں نماز پڑھتے تھے، شہنائی اور پان دان لے کر بالاجی مندر میں بیٹھ جاتے تھے۔ کلے میں گلوری دبائی اور ریاض شروع۔
تو منہاج سے ایک رشتہ ہمیشہ سے پان کا ہے۔ ہمارے بیچ بازار کا پان عیاشی ہے اور گھر کا پان ضیافت ہے۔ پان اماں کے ہاتھ کا ہو تو تبرک ہے۔
ہمیشہ سے یہ روایت ہے کہ وہ مہمان خانے میں بٹھاکر سیدھا بالائی منزل پہ جاتا ہے۔ واپس آتا تو اماں کے ہاتھ کا بنا پان دو انگلیوں میں ہوتا۔ وہ کھلا کے اگلی کہانی شروع کر دیتا۔دماغ روشن اور خون رواں ہوجاتا۔
مہاراج کرشن جی تاریخ قبل از مسیح کی ہستی ہیں۔ وشنو کے آٹھویں اوتار تھے۔ پان کھاتے تھے اور بانسری بجاتے تھے۔ مشہور ہے کہ وہ بانسری بجاکر ہی اپنی گوپیوں کو بلاتے تھے۔
کوئی ملاقات کے لئے ان کی جناب میں آتا تو کہتے، بھابی جی نے پان سپاری تو ساتھ بھیجی ہی ہوگی؟
راجپوتوں کے سالار ہتھیلی پر بِیڑا یعنی پان رکھ کر پیچھے کھڑے کمانڈروں سے پوچھتے تھے کہ ہاں بھئی کون اترے گا میدان میں؟ جو کمانڈر آگے بڑھ کر ہتھیلی سے بِیڑا اٹھالیتا وہ دراصل معرکہ اپنے سر لے لیتا۔
اسی رسم سے ذمہ داری اٹھانے کے لئے ’بیڑا اٹھانے‘ کا محاورہ چلا جسے اب ہم نے بحری بیڑا بنادیا ہے۔ چونکہ ہم کام کے بگڑنے کو بیڑا غرق کہتے ہیں، اس لئے ہمیں لگتا ہے کہ کام سنوارنے کو بیڑا اٹھانا کہتے ہوں گے۔
اب یہاں ایک بات کہنی ضروری ہوگئی ہے۔
مین پوری، ماوا، گٹکا اور پان پراگ جیسے زہر کو لوگ پان سمجھ بیٹھے ہیں۔ پھر غیر معیاری اور سستے پان کا تجربہ کرکے وہ پان کو گلے کا کینسر بھی قرار دے دیتے ہیں۔
بھائی پان میں عرق چھڑکیں، بیٹری کا پانی چھڑکنے کو کس نے کہا ہے۔ پان نے گلے کو ذرا بھی کچھ کہنا ہوتا تو مہدی حسن خاں اور استاد بہاوالدین جیسے قوال فن کار عین گائیکی کے دوران پان نہ چبارہے ہوتے۔ شام چوراسی اور پٹیالہ گھرانے میں کسی کی موت پان کی وجہ سے نہیں ہوئی۔
رہی یہاں وہاں پڑی پچکاریاں، تو اس میں پان کا ہرگز کوئی قصور نہیں ہے۔ سارا قصور ہماری تربیت کا ہے۔
خیر!
ہندوستان کی تہذیب میں پان دان کبھی جہیز کا حصہ بھی ہوتا تھا۔
ویسے کتنے لوگ رہ گئے ہوں گے جو اب بھی پان دان بساتے ہوں گے۔ جنہیں کتھا پکانا اور چھاننا آتا ہوگا۔ پان پلٹنے کا سلیقہ آتا ہوگا۔ چونے کی ترکیب جانتے ہوں گے۔ سروتے سے ڈلی اور میوہ کاٹتے ہوں گے۔
پرانے ڈھولک گیت کے یہ بول بھی اب کتنوں کو سمجھ آتے ہوں گے، سروتا کہاں بھول آئے پیارے نندوئیا۔
اب ڈھولکیوں میں وہ تھاپ رہی اور نہ سروتے میں وہ کاٹ رہی۔ پان دان رخصت ہوا تو اس کے گرد گھومتی ہوئی تہذیب بھی ساتھ ہی رخصت ہوگئی۔ وضع داری، لہجہ اور زبان بھی رخصت ہوگئے۔
اب تو عیدی ملنے پر بچے ہاتھ اٹھاکر سلام علیکم بھی نہیں کہتے۔ آداب بھی نہیں کہتے۔
بشکریہ۔ فرنود عالم
 
یہ تہذیب تواب شاذ ہی کہیں دیکھنے کو ملے۔ البتہ پرانی عمر کے لوگ تحریر میں بیان کی گئی چیزوں سے تو واقف ہیں لیکن نئی نسل کے لیے تو یہ الفاظ اور چیزیں بھی بالکل اجنبی ہوں شاید۔
 

جاسمن

لائبریرین
’مولوی صاحب آپ نے گانا کیوں چھوڑدیا تھا‘‘
اس نے قہقہہ لگایا اور دیر تک ہنستا رہا‘ اس نے عینک اتاری‘ ٹشو سے آنکھیں صاف کیں اور ہنستے ہنستے جواب دیا ’’یار تم نے مجھے جس انداز سے مولوی صاحب کہا‘ میں وہ انجوائے کر رہا ہوں‘ تم مجھے یہ انجوائے کرنے دو‘‘ وہ اس کے بعد دوبارہ ہنس پڑا‘ وہ ہنستے ہنستے خاموش ہوا اور پھر بولا ’’یار گانے نے مجھے شہرت دی‘ عزت دی اور پیسہ دیا‘ اگر کچھ نہیں دیا تو وہ سکون تھا‘ سکون مجھے مولوی صاحب بن کر ملا اور یہ جب مجھے مل گیا تو مجھے پتہ چلا سکون دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہوتا ہے۔
پیسہ‘ عزت اور شہرت تینوں مل کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے‘‘ وہ اس کے بعد دوبارہ ہنسا اور بولا ’’میں ویمبلے میں شو کرنا چاہتا تھا‘ میری خواہش تھی‘ میرا خیمہ درمیان میں ہو اور دوسرے گلوکاروں‘ موسیقاروں اور اداکاروں کے خیمے دائیں بائیں ہوں‘ میں 1992ء میں ویمبلے گیا‘ امیتابھ بچن کا خیمہ درمیان میں تھا‘ لوگ اس کے ہاتھ چوم رہے تھے‘وہ اس پر واری واری جا رہے تھے‘ وہ اس کے ساتھ تصویریں بنوانے کے لیے ایک دوسرے کو روند رہے تھے‘ میں نے یہ عزت دیکھی تو میرے دل میں خیال آیا‘ کیا میں بھی کبھی اس مقام تک پہنچ سکتا ہوں‘ کیا مجھے بھی یہ عزت‘ لوگوں کا یہ والہانہ پن مل سکتا ہے‘ وہ شاید قبولیت کی گھڑی تھی۔
اللہ نے میری دعا سن لی اور وہ وقت آ گیا جب میرا خیمہ ٹھیک اس جگہ تھا جہاں کبھی امیتابھ بچن نے راتیں گزاریں تھیں‘ نوجوان لڑکیاں اور لڑکے اس دن میرے ساتھ تصویریں بنوانے کے لیے بھی ایک دوسرے پر گر رہے تھے‘ مجھے بہت خوشی ہوئی‘ میں اندر سے نہال ہو گیا‘ میں کئی دن اس سرشاری میں رہا لیکن پھر‘‘ وہ خاموش ہو گیا‘ وہ دیر تک کچھ سوچتا رہا‘ پھر اس نے سر اٹھایا‘ میری طرف دیکھا اور بولا ’’لیکن پھر ایک نئے احساس نے اس سرشاری کی جگہ لے لی۔
مجھے محسوس ہوا میری کامیابی نے مجھے عزت تو دے دی لیکن میں سکون سے محروم ہوں‘ مجھے یہ بھی محسوس ہوا سکون عزت سے بڑی چیز ہے اور مجھے اس بڑی چیز کی طرف جانا چاہیے‘‘ میں خاموشی سے سنتا رہا‘ وہ بولا ’’میں اس کے بعد بھی گاتا رہا‘ لوگ میرا گانے سنتے تھے‘ جھومتے تھے اور مجھے چومتے تھے‘ دل دل پاکستان اور سانولی سلونی سی محبوبہ میری پہچان بن گیا‘ میں جہاں جاتا تھا لوگ مجھ سے فرمائش کرتے تھے‘ جے جے سانولی سلونی ہو جائے اور میں ذرا سا گنگنا کر آگے نکل جاتا تھا لیکن میں اب عزت کے ساتھ ساتھ سکون بھی تلاش کر رہا تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اور مجھے یہ نعمت بھی مل گئی‘‘ وہ خاموش ہو گیا۔
میں نے اس سے پوچھا ’’تم تبلیغی جماعت اور مولانا طارق جمیل کے قابو کیسے آ گئے‘‘ اس نے ایک قہقہہ لگایا اور بولا ’’پاکستان کا ہر شہری زندگی میں کبھی نہ کبھی ڈاکٹر‘ پولیس اور تبلیغی جماعت کے قابو ضرور آتا ہے‘ زیادہ تر لوگ ان کے ساتھ چند دن گزار کر واپس آ جاتے ہیں لیکن تھوڑی سی تعداد دائمی مریض‘ عادی مجرم اور مولوی صاحب بن کر مستقلاً ان کا حصہ بن جاتے ہیں۔
میں بھی ایک دوست کے ذریعے مولانا طارق جمیل سے ملا اور پھنس گیا‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ کیسے پھنس گئے‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا ’’مجھے اس شخص نے اتنی محبت دی جو مجھے اس سے پہلے کسی سے نہیں ملی تھی‘ یہ محبت میرے لیے نشہ ثابت ہوئی اور میں اس نشے کی لت کا شکار ہوتا چلا گیا‘ میں نے دین کا مطالعہ شروع کر دیا‘ میں شغل شغل میں چلے لگانے لگا اور مجھے جب ہوش آئی تو میں اس وقت تک اچھا خاصا مولوی صاحب بن چکا تھا‘‘ میں نے اس سے پوچھا ’’آپ اچھے خاصے سمجھ دار انسان ہیں‘ آپ درمیان میں بھاگ کیوں نہیں گئے؟‘‘۔
اس نے ایک اور قہقہہ لگایا اور بولا ’’میں نے بھاگنے کی ایک آدھ ٹرائی کی تھی‘ میں نے گانا چھوڑ دیا تھا لیکن پھر اچانک احساس ہوا جنید جمشید تم کھاؤ گے کہاں سے‘تمہیں اس کے علاوہ کوئی کام ہی نہیں آتا‘ گانا میری زندگی بھی تھا‘ مجھے محسوس ہوتا تھا میں نے اگر یہ بند کر دیا تو مجھ سے میری زندگی چھن جائے گی چنانچہ میں نے شیو کی اور اپنی دنیا میں واپس آ گیا لیکن چند دن بعد غلطی کا احساس ہو گیا‘ میں اس نتیجے پر پہنچ گیا مجھے سکون اور شہرت‘ دولت‘ عزت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔
میرے اندر کشمکش جاری تھی لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے کرم کیا‘ میرے دماغ سے غلط فہمیوں کے اندھیرے چھٹ گئے اور میں دوبارہ اس لائین پر آ گیا جہاں مجھے ہونا چاہیے تھا‘ میں تبلیغ والوں کے ساتھ شامل ہو گیا‘‘ میں نے پوچھا ’’لیکن کیا شہرت‘ عزت اور دولت آسانی سے چھوٹ گئی؟‘‘ تڑپ کر جواب دیا ’’بہت مشکل تھا‘ گانا میرا واحد سورس آف انکم تھا‘ مجھے شہرت کی لت بھی پڑ چکی تھی‘ میرے لیے فینز‘ تصویریں اور آٹوگرافس زندگی تھی‘ میرا گانا میرا شناختی کارڈ تھا‘ میں اس شناختی کارڈ کے بغیر کچھ بھی نہیں تھا چنانچہ میں گانے کے بغیر معاشی‘ سماجی اور ذہنی طور پر زندہ نہیں رہ سکتا تھا لیکن پھر میں نے ایک سودا کیا‘ میں نے اللہ کے نام پر اپنے تینوں اثاثے قربان کر دیے۔
میں نے عزت‘ شہرت اور روزگار تینوں چھوڑ دیے اور اللہ کی راہ پر لگ گیا‘‘ وہ خاموش ہو گیا‘ میں نے پوچھا’’کیوں؟ آپ نے یہ کیوں کیا؟‘‘ وہ بولا’’ میں بنیادی طور پر اللہ کا قانون ٹیسٹ کر رہا تھا‘ میں نے کسی جگہ پڑھا تھاجو شخص اللہ کے ساتھ سودا کرتا ہے‘ جو اللہ تعالیٰ کے نام پر اپنی عزیز ترین چیز قربان کردیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے کبھی مایوس نہیں کرتا‘ خدا کی ذات اسے اس کے حق سے زیادہ نوازتی ہے‘ میں نے اللہ کے اس اعلان‘ اس وعدے کو ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کیا‘ میں نے اپنا کل اثاثہ اللہ کی راہ میں قربان کر دیا‘ میرے بھائی جاوید آپ یقین کرو اللہ تعالیٰ نے میری تینوں چیزیں ستر سے ضرب دے کر مجھے واپس لوٹا دیں۔
میں نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں لاکھوں روپے کی قربانی دی تھی‘ رب کی ذات نے مجھے کروڑوں روپے سے نواز دیا‘ میں نے آج تک ایک رومال نہیں بنایا‘ آپ اللہ کا کرم دیکھو‘ دنیا میں جنید جمشید کے نام سے کپڑوں کا سب سے بڑا پاکستانی برانڈ چل رہا ہے‘ میں راک اسٹار کی حیثیت سے مشہور تھا‘ آپ اللہ کا کرم دیکھو میں آج نعت خوانی اور اللہ کے ذکر کے حوالے سے پوری دنیا میں مشہور ہوں‘ لوگ مجھے دل دل پاکستان کی وجہ سے عزت دیتے تھے لیکن آج لوگ الٰہی تیری چوکھٹ پر سوالی بن کے آیا ہوں کے حوالے سے میرے ہاتھ چومتے ہیں۔
ْمیں کبھی جینز پہن کر اسٹیج پر ناچتا تھا اور عزت دار لوگ اپنی بہو بیٹیوں کو میرے سائے سے بچا کر رکھتے تھے لیکن میں آج سر پر عمامہ اور ٹوپی رکھ کر منبر رسولؐ پر بیٹھتا ہوں اور لوگ مجھ سے اپنے بچوں کے لیے دعا کرواتے ہیں‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں کیا یہ اس سے ستر گناہ زیادہ نہیں جس کی میں نے قربانی دی تھی‘‘ وہ خاموش ہو گیا۔
میں اس وقت آج کے مقابلے میں زیادہ گمراہ‘ زیادہ سنگدل اور زیادہ بددیانت تھا چنانچہ میں نے اس کا مذاق اڑانا شروع کر دیا‘ میں نے اس سے کہا ’’آپ اگر ان مولویوں کے ہاتھ سے بچ گئے جو اس وقت آپ کی گردن کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں‘ جو آپ کو گستاخ اور حضرت عائشہ ؓ کا گناہ گار سمجھ رہے ہیں تو میں آپ کو آپ کے سوال کا جواب ضرور دوں گا‘‘ وہ بھی ہنس پڑا لیکن میں نے جب سات دسمبر کو جنید جمشید کے ائیر کریش کی خبر سنی اور اس کے بعد جس طرح پورے ملک کو اس کے سوگ میں ڈوبتے دیکھا اور پھر 15دسمبر کو کراچی میں اس کا جنازہ دیکھا تو میں اس کو سچا ماننے پر مجبور ہو گیا۔
ملک میں ہزاروں علماء کرام‘ سیاستدان‘ بیورو کریٹس‘ صوفیاء کرام‘ اداکار‘ گلوکار اور ارب پتی تاجر فوت ہوئے‘ ان کے جنازے جنازہ گاہوں میں پڑھائے گئے لیکن جنید جمشید کا جنازہ اسٹیڈیم میں پڑھا گیا اور اس میں حقیقتاً لاکھوں لوگ شریک تھے‘ تاحد نظر سر ہی سر اور بازو ہی بازو تھے‘ جنید جمشید کو اس سے پہلے ائیرفورس نے گارڈ آف آنر بھی دیا‘ اس کے کفن کو پاکستانی پرچم میں بھی لپیٹا اور اسے سی ون تھرٹی کے ذریعے اسلام آباد سے کراچی بھی پہنچایا ‘ یہ اعزاز آج تک کسی گلوکار کو حاصل ہوا؟ جی نہیں! دنیا میں مہدی حسن اور نورجہاں جیسے گلوکار دوبارہ پیدا نہیں ہوں گے۔
بڑے غلام علی خان‘ نصرت فتح علی خان‘ عزیز میاں قوال‘ استاد امانت علی خان اور صابری برادران موسیقی کے استاد تھے‘ یہ استاد کس عالم میں دنیا سے رخصت ہوئے اور ان کے جنازے کیسے اور کتنے تھے؟ ہم سب جانتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے جو عزت جنید جمشید جیسے ایک سابق گلوکار کو دی یہ بھی سارا زمانہ جانتا ہے ‘ موسیقی کے استاد ہونے کے باوجود یہ لوگ دنیا سے کسمپرسی میں رخصت ہوئے جب کہ جنید جمشید کے غم کو ہر شخص نے ٹیس کی طرح محسوس کیا‘ یہ کیا ثابت کرتا ہے‘ یہ ثابت کرتا ہے وہ ٹھیک کہہ رہا تھا‘ اس نے اللہ تعالیٰ سے سودا کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی قربانی کو ستر سے ضرب دے کر اس کے تمام اثاثے اسے لوٹا دیے۔
جنید جمشید نے ہم جیسے لوگوں کی آنکھیں کھول دیں‘ اس نے ثابت کر دیا اللہ کے ساتھ سودا کرنے والے کبھی خسارے میں نہیں رہتے‘ عزت قربان کرو گے تو اللہ عزت کو ستر گنا کر کے لوٹائے گا اور شہرت اور دولت کی قربانی دو گے تو اللہ تعالیٰ انھیں بھی ستر سے ضرب دے کر لوٹائے گا‘ بے شک اللہ تعالیٰ کی اسٹاک ایکسچینج کائنات کی سب سے بڑی اسٹاک ایکسچینج ہے‘ یہ کبھی کریش نہیں ہوتی‘ یہ کبھی اپنے شیئر ہولڈرز کا خسارہ نہیں ہونے دیتی‘ اس کا انڈیکس ہمیشہ اوپر جاتا ہے‘ اوپر سے اوپر اور اوپر جاتا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
جنید جمشید نے ہم جیسے لوگوں کی آنکھیں کھول دیں‘ اس نے ثابت کر دیا اللہ کے ساتھ سودا کرنے والے کبھی خسارے میں نہیں رہتے‘ عزت قربان کرو گے تو اللہ عزت کو ستر گنا کر کے لوٹائے گا اور شہرت اور دولت کی قربانی دو گے تو اللہ تعالیٰ انھیں بھی ستر سے ضرب دے کر لوٹائے گا‘ بے شک اللہ تعالیٰ کی اسٹاک ایکسچینج کائنات کی سب سے بڑی اسٹاک ایکسچینج ہے‘ یہ کبھی کریش نہیں ہوتی‘ یہ کبھی اپنے شیئر ہولڈرز کا خسارہ نہیں ہونے دیتی‘ اس کا انڈیکس ہمیشہ اوپر جاتا ہے‘ اوپر سے اوپر اور اوپر جاتا ہے۔
یہ جب جب پڑھتی ہوں آنکھیں نم ہو جاتیں ہیں کیا شان ہے رب العالمین کی ہدایت کہ دروازے کب کہاں کیسے نوازے یہ میرے رب کی شان ہے ۔۔۔
لیکن اللہ تعالیٰ نے جو عزت جنید جمشید جیسے ایک سابق گلوکار کو دی یہ بھی سارا زمانہ جانتا ہے ‘ موسیقی کے استاد ہونے کے باوجود یہ لوگ دنیا سے کسمپرسی میں رخصت ہوئے جب کہ جنید جمشید کے غم کو ہر شخص نے ٹیس کی طرح محسوس کیا‘ یہ کیا ثابت کرتا ہے‘ یہ ثابت کرتا ہے وہ ٹھیک کہہ رہا تھا‘ اس نے اللہ تعالیٰ سے سودا کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی قربانی کو ستر سے ضرب دے کر اس کے تمام اثاثے اسے لوٹا دیے۔
بیشک یہ میرے رب کی شان ہے قربان جائیں کسقدر شان سے ضرب دے کر اثاثے لوٹاتے ہیں
پروردگار فرماتے ہیں ؀

سورة التوبہ کی آیت ١١١ میں فرمایا گیا : اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَط ” یقینا اللہ نے خرید لی ہیں اہل ایمان سے ان کی جانیں بھی اور ان کے مال بھی اس قیمت پر کہ ان کے لیے جنت ہے۔ “ اس آیت میں بھی ایک ” سودے “ کی بات کی گئی ہے تاکہ ہر آدمی مضمون کے اصل مدعا کو سمجھ سکے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمیں بھی ان لوگوں میں شامل کرلے جو اس کے ساتھ اپنے مال و جان کا سودا کرنے والے ہیں​

دنیا میں انسان اپنی تجارت کو فروغ دینے اور زیادہ منافع کمانے کے لیے بڑھ چڑھ کر سرمایہ لگاتا ہے اور پھر اس میں دن رات کی محنت سے جان بھی کھپاتا ہے ‘ اسی طرح جان و مال لگا کر اگر اللہ کے ساتھ تجارت کرے تو اس میں کبھی نقصان نہیں اٹھانا پڑے گا اور منافع بھی ایسا ملے گا کہ تم آخرت کے عذاب سے چھٹکارا پا کر ہمیشہ کی کامیابی سے ہمکنار ہو جائے گا ۔۔۔جنید جمشید اس کی اعلیٰ ترین مثال ہیں ۔۔۔۔۔۔
 
Top