پندرہ دن کی مہلت کو کم کر کے سپریم کورٹ نے سنیچر کی شام چار بجے تک کر دیا تھا۔ آج جیتے ہوئے امیدوار حلف اٹھا رہے ہیں کانگریس کے 2 ایم ایل اے حلف لے کے غائب ہو گئے ہیں۔ مزید یہ کہ اس پورے معاملے کو شفاف رکھنے کے لیے سپریم کورٹ نے پوری تقریب کی لائیو براڈکاسٹنگ کا حکم دیا ہے۔بی جے پی نے کرناٹک میں اپنے گورنر کی مدد سے بلآخر وزارتِ اعلیٰ کا حلف اٹھا لیا ہے۔ بھاج پا کے پاس سادہ اکثریت موجود نہیں ہے اور وزیر اعلیٰ کو اکثریت ثابت کرنے کے لیے پندرہ دن کی مہلت دی گئی ہے، ظاہر ہے ہارس ٹریڈنگ ہوگی اور بولیاں لگیں گی۔ دوسری طرف کانگریس اور جنتا دل سیکولر نے اپنے ممبران کو "غائب" کرنا شروع کر دیا ہے تا کہ بھاج پا ان سے رابطہ نہ کر سکے، پاکستان میں 1989ء میں ایسا ہی کچھ "چھانگا مانگا" میں ہوا تھا۔
اس سے پہلے انڈیا میں، 1996ء میں بھاج پا ہی کے اٹل بہاری واجپائی کو لوک سبھا میں سادہ اکثریت نہ رکھتے ہوئے بھی وزیر اعظم بنا دیا گیا تھا اور انہیں بھی پندرہ دن کا وقت دیا گیا تھا لیکن واجپائی اپنی اکثریت ثابت نہیں کر سکے تھے بلکہ ایوان میں ووٹنگ سے پہلے ہی استغفیٰ دے دیا تھا۔
کرناٹک گورنر کے فیصلے کے بعد تیجسوی یادو (لالو یادو کے بیٹے) نے بہار کے گورنر سے ملاقات کی اور کہا کہ چونکہ ان کی پارٹی ریاست کی سب سے بڑی پارٹی ہے اس لیے حکومت بنانے کا موقع دیا جائے۔ واضح رہے کہ پچھلے سال بہار میں ”مہا گٹبندھن“ توڑ کے بی جے پی نے نتیش کمار سے مل کے حکومت بنا لی تھی۔ اس کے علاوہ مذکورہ بالا ریاستوں میں بھی کانگریس نے وہاں کے گورنرز سے ملاقات کی ہے۔انڈیں یُوتھ کانگریس کی طرف سے بنایا گیا یہ پوسٹر۔ بادی النظر میں اس میں دیئے گئے حقائق درست لگ رہے ہیں۔
نتیش کمار کا بے جے پی سے مل جانا بی جے پی کی ایک بڑی کامیابی اور "سو کالڈ" سیکولر جماعتوں کے لیے ایک گہرا دھچکا تھا۔کرناٹک گورنر کے فیصلے کے بعد تیجسوی یادو (لالو یادو کے بیٹے) نے بہار کے گورنر سے ملاقات کی اور کہا کہ چونکہ ان کی پارٹی ریاست کی سب سے بڑی پارٹی ہے اس لیے حکومت بنانے کا موقع دیا جائے۔ واضح رہے کہ پچھلے سال بہار میں ”مہا گٹبندھن“ توڑ کے بی جے پی نے نتیش کمار سے مل کے حکومت بنا لی تھی۔ اس کے علاوہ مذکورہ بالا ریاستوں میں بھی کانگریس نے وہاں کے گورنرز سے ملاقات کی ہے۔
ویسے نتیش پہلے بھی این ڈی اے کے ساتھ تھے بس کچھ دنوں کے لیے این ڈی اے چھوڑ کے بہار کے مہا گٹبندھن میں شامل ہوئے تھے۔نتیش کمار کا بے جے پی سے مل جانا بی جے پی کی ایک بڑی کامیابی اور "سو کالڈ" سیکولر جماعتوں کے لیے ایک گہرا دھچکا تھا۔
اردو اور ہندی میں کرناٹک ہی رائج ہے۔جی ہاں میں کرناٹکا سے ہوں، (درست کرناٹک نہیں کرناٹکا ہے) حالیہ انتخابات کا بغور جائزہ لے رہا تھا
خوشی کی بات ہے کہ اس دفعہ جے ڈی ایس اور کانگریس مشترکہ حکومت سنبھالیں گے
جو کہ درست نہیں ہے..!اردو اور ہندی میں کرناٹک ہی رائج ہے۔
دلی کو دل، لکھنؤ کو لکھن کسی زبان میں نہیں کہا جاتا ہے۔ جبکہ....علیگڑھ کو علیگ کہنا درست نہیں
دلی کو دل کہنا درست نہیں
لکھنؤ کو لکھن کہنا درست نہیں
ویسے ہی کرناٹکا کو کرناٹک کہنا درست نہیں
علی گڑھ کے لیے علیگ تو استعمال ہوتا ہے، اور اردو میں کرناٹک بھی۔ باقی آپ کی ریاست ہے سو جو دل چاہے کہیں!جو کہ درست نہیں ہے..!
علیگڑھ کو علیگ کہنا درست نہیں
دلی کو دل کہنا درست نہیں
لکھنؤ کو لکھن کہنا درست نہیں
ویسے ہی کرناٹکا کو کرناٹک کہنا درست نہیں
کچھ عرصہ پہلے تک میں خود بھی کرناٹک کہتا تھا جو کہ ہندی اردو میں کہا جاتا ہے. لیکن اہل زبان کے ساتھ رہتے ہوئے یہ بات محسوس کی ہے جن کی مادری زبان کنڈا ہے انہیں کرناٹک کہنا سننا پسند نہیں ہےعلی گڑھ کے لیے علیگ تو استعمال ہوتا ہے، اور اردو میں کرناٹک بھی۔ باقی آپ کی ریاست ہے سو جو دل چاہے کہیں!
علیگ تو صفت نسبتی ہے جسے علی گڑھ والے عموماً اور مسلم یونیورسٹی والے خصوصاً اپنے نام کے ساتھ لگاتے ہیں۔علی گڑھ کے لیے علیگ تو استعمال ہوتا ہے، اور اردو میں کرناٹک بھی۔ باقی آپ کی ریاست ہے سو جو دل چاہے کہیں!
آپ کنڈا نہیں جانتے؟کچھ عرصہ پہلے تک میں خود بھی کرناٹک کہتا تھا جو کہ ہندی اردو میں کہا جاتا ہے. لیکن اہل زبان کے ساتھ رہتے ہوئے یہ بات محسوس کی ہے جن کی مادری زبان کنڈا ہے انہیں کرناٹک کہنا سننا پسند نہیں ہے
پیرس میں س نہیں بولا جاتاجو کہ درست نہیں ہے..!
علیگڑھ کو علیگ کہنا درست نہیں
دلی کو دل کہنا درست نہیں
لکھنؤ کو لکھن کہنا درست نہیں
ویسے ہی کرناٹکا کو کرناٹک کہنا درست نہیں
جانتا ہوں! فقط سرکاری دفتروں میں کام چلاؤ کی حد تک!آپ کنڈا نہیں جانتے؟
اچھا! یعنی پیرس والے اپنے شہر کو پیری بولتے ہیں؟پیرس میں س نہیں بولا جاتا