میں ان رائج شدہ ہجا اور تلفظ سے اختلاف رکھتا ہوں
۔۔
آپ تو یہ بھی اعتراض کر سکتے ہیں کہ ہم نے ڈزن جیسے گورے کے لفظ کی درجن کی صورت میں مسخ شدہ شکل کو اردو میں کیوں درآمد کیا؟ یہاں جو غلط ہے وہ گورے کے نزدیک غلط ہے، اردو میں اس کی درستگی پر ہمیں کیوں اعتراض ہونا چاہیے؟
اردو میں غلط درآمد کرنے کی وجہ سے ہمارے بھائی جب یہی الفاظ انگریزی میں بولتے ہیں تو "ڈاکٹر"۔۔۔"آااااف"۔۔۔۔ہااااارس" (حالانکہ امریکی لہجے میں بھی ہورس ہوتا ہے)۔۔۔اور نہ جانے کیا کیا فرماتے ہیں۔۔ یہی تو میرا سوال ہے۔۔۔کہ لنڈن جب آپ آرام سے اردو میں بول سکتے ہیں تو لندن کہنے کی کیا وجہ ہے؟؟؟ ڈزن کو اردو میں درجن کیوں کردیا؟ ڈزن بولنے میں کیا تکلیف ہے اردو والے بھائیوں کو؟
عربوں کے قواعد کو بھی اردو میں درآمد کرنا کوئی عقلمندی تھوڑی ہے۔ ہماری زبان میں ڈ بھی ہے اور ز بھی۔۔۔تو درجن سے کیا فرق پڑا؟ اور ڈزن ہی رہتا تو کیا فرق پڑتا؟ جب مستعار لینا ہی ہے تو درست طور سے لیا جائے۔۔
ایک بین الاقوامی مسلمہ قاعدہ ہے کہ کسی بھی زبان کا لفظ ادا کیا جائے تو اپنے تلفظ پر نہیں اس زبان کے تلفظ پر ادا کیا جائے۔۔۔ کیوں کہ:
پاکستان کو انگریزی میں "پاکیسٹان" کہنا غلط ہوگا۔۔۔سمجھدار پڑھا لکھا انگریز بیچارہ کوشش کرکے "پاکستان" کہنے کی ہی کوشش کرتا ہے۔۔ اور میں نے ایک مشہورگورے کے منہ سے سنا تھا اس سے ایک پاکستانی کا نام لیا نہیں جا رہا تھا تو اس نے معذرت کی اور کہا میرا تلفظ بہت خراب ہے۔۔۔تو اسے یہ کہنے کی کیا ضرورت پڑی؟