انگریزی الفاظ کے اردو میں تلفظ اور ٹراننس لٹریشن

حسان خان

لائبریرین
میرا طریق نہ قدماء کی پیروی رہا ہے نہ پیشروؤں کی پیروی۔ کیونکہ قدماء تو 'اٹھانا' کو بھی قدیم ہجوں کے مطابق 'اوٹھانا' لکھتے تھے۔ میرا طریق یہ ہے کہ اگر کوئی ہجا رایج ہو جائے اور اسے اہلِ علم کی بڑی تعداد بھی تسلیم کر لے تو میں اسے من و عن قبول کر لیتا ہوں۔ چونکہ 'ڈاکٹر' کا ہجا رایج تر ہے، اور اہلِ علم کی اکثر تعداد نے اسی طرح لکھا ہے تو میں بھی اسی طرح لکھنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ اگر اس کے برعکس ہوتا اور اہلِ علم 'ڈوکٹر' لکھ رہے ہوتے تو میں بھی ڈوکٹر کو زیادہ مناسب سمجھتا۔
 

محمد امین

لائبریرین
http://www.howjsay.com/index.php?word=doctor&submit=Submit

یہاں ڈوکٹر سنو۔۔۔
/ˈdɒktə/


ɒ کا برطانوی تلفظ مروجہ امریکی تلفظ سے تھوڑا مختلف ہے میری رائے میں اور اردو کے دوڑ یا کوڑی سے قریب تر ہے۔ اوکسفرڈ ڈکشنری میں دیکھو اگر پرنٹ میں ہے تو۔ اس میں ɒ کے تلفظ کی مثال کے آگے BrE لکھا ہے۔۔۔یعنی برطانوی اور امریکی لہجے میں اختلاف۔
 

محمد امین

لائبریرین
میرا طریق نہ قدماء کی پیروی رہا ہے نہ پیشروؤں کی پیروی۔ کیونکہ قدماء تو 'اٹھانا' کو بھی قدیم ہجوں کے مطابق 'اوٹھانا' لکھتے تھے۔ میرا طریق یہ ہے کہ اگر کوئی ہجا رایج ہو جائے اور اسے اہلِ علم کی بڑی تعداد بھی تسلیم کر لے تو میں اسے من و عن قبول کر لیتا ہوں۔ چونکہ 'ڈاکٹر' کا ہجا رایج تر ہے، اور اہلِ علم کی اکثر تعداد نے اسی طرح لکھا ہے تو میں بھی اسی طرح لکھنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ اگر اس کے برعکس ہوتا اور اہلِ علم 'ڈوکٹر' لکھ رہے ہوتے تو میں بھی ڈوکٹر کو زیادہ مناسب سمجھتا۔

یہی میں کہنا چاہتا ہوں۔ کہ http://dictionary.cambridge.org/dictionary/british/doctor_1?q=doctor اس کے مطابق برطانوی لہجہ اگر ڈوکٹر ہی بن رہا ہے تو قدماء نے ڈاکٹر کیوں لکھا۔ میں اس معاملے میں قدماء کو غلطی پر اور انگریزی سے نابلد سمجھتا ہوں۔ میں خود کو عالم یا مجدد نہیں سمجھتا۔ یہ بات فقط ذرا سی ہے اور محسوس کرنے کی ہے۔
 

محمد امین

لائبریرین
برطانوی لہجے کی میں اس لیے بات کر رہا ہوں کہ آج سے سو ڈیڑھ سو سال قبل انگریز ہی تھے یہاں۔۔۔تو انہی کی زبان بولی جاتی تھی۔۔امریکی تو خال خال ہی رہے ہونگے۔ تو ایسا کیوں؟ برطانوی لہجے کو غلط طور سے اردو میں درآمد کیوں کیا گیا؟
 

محمد امین

لائبریرین
دوڑ اور ڈاکٹر کے o کمیت کے حساب سے مختلف ہیں۔ پہلے کو انٹرنیشنل فونیٹک میں ɔː سے لکھا جائے گا جبکہ موخر الذکر کی آواز برطانوی انگریزی میں ɒ ہے۔ تھوڑی دیر میں مثال دے کر واضح کرتا ہوں

ɔː کا تلفظ http://www.teachingenglish.org.uk/activities/phonemic-chart یہاں دیکھو۔۔۔۔ جوڑ والا "او" بن رہا ہے۔۔۔ جبکہ ɒ کی آواز برطانوی لہجے میں "کون" ۔۔یا "اور" سے مماثل ہے۔۔۔ جس میں تھوڑا بہت "پیش" کا سا فلیور ہے۔۔۔
 

محمد امین

لائبریرین
دوڑ اور ڈاکٹر میں ایک اور فرق بھی ہے، جو لکھ کر بتا پانا مشکل ہے۔ دیکھو، او کی علت اردو میں کوتاہ کبھی نہیں ہوتی، ہم ہمیشہ دوڑ، کون وغیرہ کو تھوڑا سا کھینچ کر پڑھتے ہیں۔ جبکہ کوتاہ او انگریزی کا حصہ ہے۔ جیسے ڈاکٹر میں ڈ اور ک کے بیچ کی علت بہت کوتاہ ہوتی ہے۔ یہ کوتاہ علت اردو کا حصہ نہیں۔

"اور" کو کبھی کوتاہ اور کبھی کھینچ کر پڑھا جاتا ہے۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین

کوتاہ او ہی ہے جو کہ اردو کا حصہ نہیں۔ کبھی کسی (برطانوی) انگریز کو ڈ اور ک کے بیچ کے علت کو لمبا کھینچتے ہوئے سنا ہے؟ اب جو علت ہماری زبان کا حصہ ہی نہیں اس میں میں فرنگی کی مطابقت کے لیے اپنی زبان میں کیوں تبدیلی کروں؟ ہم تو اپنی زبان کے حساب سے ہی وہ الفاظ تلفظ کریں گے چاہے اسے کوئی انگریزی کی کم فہمی سمجھے یا کسی انگریز کو اس پر اعتراض ہو۔ زبان گورے کی نہیں، میری ہے۔

اردو میں دوڑ کی طویل علت ہے، ڈوکٹر کی کوتاہ اور جھٹکے والی علت نہیں۔ جدید ایرانی فارسی میں ہے لہذا وہ دُکتر لکھتے ہیں۔ ہماری زبان میں نہیں، تو طوہا و کرہا ہمیں اپنی زبان کے قواعد کے مطابق ہی لکھنا پڑے گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
ہمارے عربی الفاظ بھی تو عربوں کی دین ہے، اور عرب تو صدیوں سے ص، ذ، ث، ط، ظ، ض کی آوازیں نکالتے آئے ہیں تو ہم کیوں اپنے قدماء کی طرح 'غلط' انداز میں ان حروف کو س، ز، س، ت، ز، ز کی طرح پڑھتے ہیں؟ اس لیے گورا جو کرتا ہے یا کرتا رہا ہے وہ میری زبان کے لیے قائدہ یا مستند نہیں۔ اردو دان مقامی افراد جس طرح الفاظ کو برتتے آئے ہیں، میں اسی کو مستند ماننے کو تیار ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
برطانوی لہجے کی میں اس لیے بات کر رہا ہوں کہ آج سے سو ڈیڑھ سو سال قبل انگریز ہی تھے یہاں۔۔۔ تو انہی کی زبان بولی جاتی تھی۔۔امریکی تو خال خال ہی رہے ہونگے۔ تو ایسا کیوں؟ برطانوی لہجے کو غلط طور سے اردو میں درآمد کیوں کیا گیا؟

آپ تو یہ بھی اعتراض کر سکتے ہیں کہ ہم نے ڈزن جیسے گورے کے لفظ کی درجن کی صورت میں مسخ شدہ شکل کو اردو میں کیوں درآمد کیا؟ یہاں جو غلط ہے وہ گورے کے نزدیک غلط ہے، اردو میں اس کی درستگی پر ہمیں کیوں اعتراض ہونا چاہیے؟
 

حسان خان

لائبریرین
اردو کا خط بھی فونیٹک نہیں، اور حرف ہائے علت کو لکھنا ویسے ہی اس خط میں مشکل ہے۔ لہذا ڈاکٹر اور ڈوکٹر دونوں ہی ہجے درست مانے جا سکتے ہیں۔ مگر یہاں بات یہ آ جاتی ہے کہ رائج تر ڈاکٹر ہے، اور چونکہ اردو کے قائدے سے اس میں کوئی اشکال کی بات نہیں، اور کم سے کم سو سالوں سے یونہی استعمال ہوتا آ رہا ہے تو کوئی حرج نہیں اگر اسی کو معیاری مان لیا جائے۔
 

حسان خان

لائبریرین
برطانوی لہجے کو غلط طور سے اردو میں درآمد کیوں کیا گیا؟[/quote]

اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہاں کی عوام کا جب سابقہ اولین بار انگریزی سے پڑا، تو ان کے لیے ɒ کی آواز نکال پانا کافی مشکل رہا ہو گا لہذا اس کا سرِ دستی سا حل یہ سوچا کہ اس کو اردو کے الف کی طرح پڑھا جائے، اور جب انگریزی کے الفاظ تحریری اردو میں در آنا شروع ہوئے تو انہوں نے اپنے مقامی تلفظ کے مطابق ہی وہ لفظ لکھنے شروع کر دیے ہوں۔
 

محمد امین

لائبریرین
میں ان رائج شدہ ہجا اور تلفظ سے اختلاف رکھتا ہوں :) ۔۔

آپ تو یہ بھی اعتراض کر سکتے ہیں کہ ہم نے ڈزن جیسے گورے کے لفظ کی درجن کی صورت میں مسخ شدہ شکل کو اردو میں کیوں درآمد کیا؟ یہاں جو غلط ہے وہ گورے کے نزدیک غلط ہے، اردو میں اس کی درستگی پر ہمیں کیوں اعتراض ہونا چاہیے؟

اردو میں غلط درآمد کرنے کی وجہ سے ہمارے بھائی جب یہی الفاظ انگریزی میں بولتے ہیں تو "ڈاکٹر"۔۔۔"آااااف"۔۔۔۔ہااااارس" (حالانکہ امریکی لہجے میں بھی ہورس ہوتا ہے)۔۔۔اور نہ جانے کیا کیا فرماتے ہیں۔۔ یہی تو میرا سوال ہے۔۔۔کہ لنڈن جب آپ آرام سے اردو میں بول سکتے ہیں تو لندن کہنے کی کیا وجہ ہے؟؟؟ ڈزن کو اردو میں درجن کیوں کردیا؟ ڈزن بولنے میں کیا تکلیف ہے اردو والے بھائیوں کو؟ :giggle: عربوں کے قواعد کو بھی اردو میں درآمد کرنا کوئی عقلمندی تھوڑی ہے۔ ہماری زبان میں ڈ بھی ہے اور ز بھی۔۔۔تو درجن سے کیا فرق پڑا؟ اور ڈزن ہی رہتا تو کیا فرق پڑتا؟ جب مستعار لینا ہی ہے تو درست طور سے لیا جائے۔۔

ایک بین الاقوامی مسلمہ قاعدہ ہے کہ کسی بھی زبان کا لفظ ادا کیا جائے تو اپنے تلفظ پر نہیں اس زبان کے تلفظ پر ادا کیا جائے۔۔۔ کیوں کہ:

پاکستان کو انگریزی میں "پاکیسٹان" کہنا غلط ہوگا۔۔۔سمجھدار پڑھا لکھا انگریز بیچارہ کوشش کرکے "پاکستان" کہنے کی ہی کوشش کرتا ہے۔۔ اور میں نے ایک مشہورگورے کے منہ سے سنا تھا اس سے ایک پاکستانی کا نام لیا نہیں جا رہا تھا تو اس نے معذرت کی اور کہا میرا تلفظ بہت خراب ہے۔۔۔تو اسے یہ کہنے کی کیا ضرورت پڑی؟
 

حسان خان

لائبریرین
اردو میں غلط درآمد کرنے کی وجہ سے ہمارے بھائی جب یہی الفاظ انگریزی میں بولتے ہیں تو "ڈاکٹر"۔۔۔ "آااااف"۔۔۔ ۔ہااااارس" (حالانکہ امریکی لہجے میں بھی ہورس ہوتا ہے)۔۔۔ اور نہ جانے کیا کیا فرماتے ہیں۔۔

انگریزی میں اردو تلفظ سے ادائیگی ویسے ہی غلط ہے جیسے اردو میں انگریزی تلفظ سے ادائیگی۔ مگر یہی اعتراض آپ اس پر بھی کر سکتے ہیں کہ جب ہمارے بھائی عربی بولتے ہیں تو عبد الصمد کو عبد السمد، مصر کو مسر، رحمان کو رہمان اور 'نہ جانے کیا کیا فرماتے ہیں'۔
 

محمد امین

لائبریرین
انگریزی میں اردو تلفظ سے ادائیگی ویسے ہی غلط ہے جیسے اردو میں انگریزی تلفظ سے ادائیگی۔ مگر یہی اعتراض آپ اس پر بھی کر سکتے ہیں کہ جب ہمارے بھائی عربی بولتے ہیں تو عبد الصمد کو عبد السمد، مصر کو مسر، رحمان کو رہمان اور 'نہ جانے کیا کیا فرماتے ہیں'۔

یہ اسماء عربی کے ہونے کے ساتھ ساتھ اردو میں ایسے ہی در آئے ہیں جیسے ڈاکٹر۔ مگر حرفِ علت اور ادائیگیِ حروف میں فرق ہے۔ ص، ح وغیرہ کا مخارج کا معاملہ ہے کہ جو اردو میں موجود نہیں۔ اردو میں جب آپ "الحمد للہ" کہیں تو ح کا مخرج عربی ہی ہونا چاہیے کیوں کہ الحمد للہ اردو کی ترکیب ہے ہی نہیں۔ مجھے معلوم ہے میری باتیں کونفلکٹنگ ہیں اور پہلے مراسلے میں موجود حوالہ جات میرے اس اعتراف پر دال ہیں۔ کئی جگہ میں یہ لکھ چکا ہوں کہ میری ساری باتیں درست نہیں ہیں۔

جب کوئی اردو بولنے والا شخص عربی میں عبد الصمد عبدالرحمٰن وغیرہ ادا کرے گا تو اسے مخارج الحروف کا خیال رکھنا ضروری ہی نہیں لازمی بھی ہے۔ میں نے "نہ جانے کیا کیا" اس بات پر کہا ہے کہ جو لوگ انگریزی میں یہی مجہول تلفظ اپناتے ہیں۔ میں کسی وقت بیٹھ کر ریزرو پوسٹ میں ایسے الفاظ جمع کروں گا جن کا تلفظ مجھے مجہول کرنا پسند نہیں۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
کہ لنڈن جب آپ آرام سے اردو میں بول سکتے ہیں تو لندن کہنے کی کیا وجہ ہے؟؟؟ ڈزن کو اردو میں درجن کیوں کردیا؟ ڈزن بولنے میں کیا تکلیف ہے اردو والے بھائیوں کو؟ :giggle: عربوں کے قواعد کو بھی اردو میں درآمد کرنا کوئی عقلمندی تھوڑی ہے۔ ہماری زبان میں ڈ بھی ہے اور ز بھی۔۔۔ تو درجن سے کیا فرق پڑا؟ اور ڈزن ہی رہتا تو کیا فرق پڑتا؟ جب مستعار لینا ہی ہے تو درست طور سے لیا جائے۔۔

زبان نے جب ایک بار مستعار لے لیا تو یہ اُس پر ہے کہ وہ اُن مستعار شدہ الفاظ کو کس طرح اور کس شکل میں برتتی ہے۔ اور بات تکلیف یا آسانی کی نہیں، بات ایک زندہ زبان کے ارتقاء کی ہے جس میں لفظ کئی بار، بغیر کسی وجہ کے اپن شکل بدلتے رہتے ہیں۔ مثال دیتا ہوں: اردو کا بڑھئی پراکرت کے وڈھئی کی مسخ شدہ شکل ہے۔ وڈھئی میرے یا آپ کے لیے کب مشکل ہے؟ پھر نکال باہر کیجئے بڑھئی کو اور کہیے وڈھئی۔ 'ہند' سنکرت کے سندھو کا مفرس یعنی مسخ شدہ شکل ہے، اور سندھو تو میں اور آپ بڑی ہی آسانی سے کہہ سکتے ہیں پھر چھوڑ دیجئے ہند کہنا اور سندھو کہنا شروع کر دیجئے۔ ہماری زبان میں س بھی ہے اور دھ بھی
 

حسان خان

لائبریرین
ایک بین الاقوامی مسلمہ قاعدہ ہے کہ کسی بھی زبان کا لفظ ادا کیا جائے تو اپنے تلفظ پر نہیں اس زبان کے تلفظ پر ادا کیا جائے۔۔۔ کیوں کہ:

پاکستان کو انگریزی میں "پاکیسٹان" کہنا غلط ہوگا۔۔۔ سمجھدار پڑھا لکھا انگریز بیچارہ کوشش کرکے "پاکستان" کہنے کی ہی کوشش کرتا ہے۔۔ اور میں نے ایک مشہورگورے کے منہ سے سنا تھا اس سے ایک پاکستانی کا نام لیا نہیں جا رہا تھا تو اس نے معذرت کی اور کہا میرا تلفظ بہت خراب ہے۔۔۔ تو اسے یہ کہنے کی کیا ضرورت پڑی؟

یہ ایک 'بین الاقوامی مسلمہ قاعدہ' کس رو سے ہے؟ میں تو اس سے کاملا غیر متفق ہوں۔ انگریز کی زبان میں دندانی 'ت' ہے ہی نہیں تو وہ کیوں ٹ کہے؟ بیرونی الفاظ جب کسی زبان کا حصہ بنتے ہیں تو وہ اسی زبان کے دستور اور فونولوجی کے تابع ہو جاتے ہیں۔ ہر زبان میں اس کی سینکڑوں نہیں ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
انگریز بھی 'ہ' اور زیر کی آواز نکال سکتا ہے، مگر وہ sepoy ہی استعمال کرتا ہے جو کہ سپاہی کی مسخ شدہ شکل ہے۔ مگر انگریزی کا چونکہ جز ہے، لہذا ہم کا کوئی بھی اسے غلط نہیں کہہ سکتا۔
 

محمد امین

لائبریرین
زبان نے جب ایک بار مستعار لے لیا تو یہ اُس پر ہے کہ وہ اُن مستعار شدہ الفاظ کو کس طرح اور کس شکل میں برتتی ہے۔ اور بات تکلیف یا آسانی کی نہیں، بات ایک زندہ زبان کے ارتقاء کی ہے جس میں لفظ کئی بار، بغیر کسی وجہ کے اپن شکل بدلتے رہتے ہیں۔ مثال دیتا ہوں: اردو کا بڑھئی پراکرت کے وڈھئی کی مسخ شدہ شکل ہے۔ وڈھئی میرے یا آپ کے لیے کب مشکل ہے؟ پھر نکال باہر کیجئے بڑھئی کو اور کہیے وڈھئی۔ 'ہند' سنکرت کے سندھو کا مفرس یعنی مسخ شدہ شکل ہے، اور سندھو تو میں اور آپ بڑی ہی آسانی سے کہہ سکتے ہیں پھر چھوڑ دیجئے ہند کہنا اور سندھو کہنا شروع کر دیجئے۔ ہماری زبان میں س بھی ہے اور دھ بھی

فقط چند ہی الفاظ نہیں ہزاروں الفاظ ہیں جو امتدادِ زمانہ کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہے ہیں اور قبولِ عام اور غلط العام کے قواعد کے تحت استناد حاصل کرچکے۔ ارتقاء یہ تو نہیں ہے کہ آپ کسی شہر کا نام اپنی زبان میں کچھ اور کردیں :)۔ بنگلہ دیش کو بھی تو ہم نے کبھی بنگلہ دیس نہیں کہا؟ بات یہ ہے کہ ہماری زبان کو اسٹریم لائن کرنے کی بہت کوششیں ہوچکیں مگر بہت کم بارآور ہوئی ہیں۔ اردو زبان کے قواعد پر اتنا کام نہیں ہے جتنا ایک بڑی زبان پر ہونا چاہیے۔ پچھلے زمانے میں موجود تحاریر کو درخورِ اعتناء نہیں جانا جاتا حالانکہ سو سال قبل کے قواعد کے علماء کا کام ایسا ہے کہ اسے جدید خطوط پر لانا چاہیے مگر نہیں لایا جاتا وجہ اس کی یہی ہے کہ اردو زبان کو عرصے سے شترِ بے مہار چھوڑ دیا گیا ہے۔

اردو کی بڑی بڑی لغات بھی لسانیات کی جدید تعریفات پر پوری نہیں اترتیں۔ کوئی بھی لغت اٹھا کر دیکھ لو معیار (اسٹینڈرڈ) متعین نہیں ہے۔ مقابلے کے لیے اوکسفرڈ اڈوانسڈ لرنرز ڈکشنری موجود ہے۔
 
Top