انگریزی الفاظ کے اردو میں تلفظ اور ٹراننس لٹریشن

حسان خان

لائبریرین
کیسے نکلے گا عفریت؟ انگریزی کے بہت احسانات ہیں اردو پر :) :) :)

بے شک انگریزی اور انگریزوں کے اردو زبان و ادب پر بے شمار احسانات ہیں۔ اِس سے کسی ذی شعور شخص کو انکار نہیں۔ میں اس عمومی رویے کی طرف توجہ دلا رہا تھا کہ چونکہ ڈاکٹر مقامی لوگ بولتے ہیں اس لیے جہالت کی نشانی، مگر چونکہ ہمارے آقا و مربی سرکار بہادر ڈوکٹر کہتے ہیں لہذا ڈوکٹر کہنا علم کا نشان دہندہ
 

حسان خان

لائبریرین
retroflex وہ حروف ہے جو منہ کے اوپری حصے کے پیچھے کے سخت حصے پر زبان کی رگڑ سے پیدا ہوتے ہیں۔ alveolar وہ حروف جو دانتوں کے پیچھے کے ابھار پر زبان کی رگڑ سے پیدا ہوتے ہیں۔
 

عثمان

محفلین
ایک معروف فرق انگریزی کے W اور V کا ہے۔ ہم روانی میں عموماً دونوں کو " و " ہی پڑھ جاتے ہیں۔ حالانکہ کہ W کے لئے درست لفظ غالباً ؤ ، جبکہ V و کے لئے ہے۔
مثلاً وومن نہیں بلکہ ؤومن ہے۔ یعنی کہ ڈبلیو بولتے وقت نچلے ہونٹ کا بیرونی حصہ نہیں بلکہ اندرنی حصہ دانت سے رگڑ کھائے۔
جبکہ Van کے لئے " وین" درست ہے۔
 

عثمان

محفلین
بلکہ یوں کہیں کہ انگریزی کا وی بولتے وقت ہونٹ خوب رگڑ کھائے۔
جبکہ انگریزی کا ڈبلیو بولتے وقت ہونٹ دانت کو ہلکا سا چھوئے۔
 

حسان خان

لائبریرین
عثمان بھائی اسی سے آپ نے ایک دلچسب بات یاد دلا دی۔ عربی میں w کی آواز تو ہے جسے و سے لکھا جاتا ہے مگر v کی نہیں۔ لہذا تحریری عربی میں video کے لیے فیدیو کا لفظ مستعمل ہے۔ کیونکہ انگریزی کے v کی طرح ف بھی نچلے ہونٹ کے اوپری دانتوں سے رگڑ سے پیدا ہوتا ہے۔
 

عثمان

محفلین
عثمان بھائی اسی سے آپ نے ایک دلچسب بات یاد دلا دی۔ عربی میں w کی آواز تو ہے جسے و سے لکھا جاتا ہے مگر v کی نہیں۔ لہذا تحریری عربی میں video کے لیے فیدیو کا لفظ مستعمل ہے۔ کیونکہ انگریزی کے v کی طرح ف بھی نچلے ہونٹ کے اوپری دانتوں سے رگڑ سے پیدا ہوتا ہے۔
ہاں اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب میں نے اہل عرب سے "وقت" کا تلفظ سنا۔ گویا ہمارے "و" اور عربی کے "و" میں کچھ فرق ہے۔ :)
 

دوست

محفلین
ہر زبان کے پاس آوازوں یا صوتیوں کا ایک سیٹ ہوتا ہے۔ جب دوسری زبان سے اس میں الفاظ مستعار لیے جائیں تو ایسی آوازیں جو مستعار لینے والی زبان میں موجود نہ ہوں، ان کو قریب ترین آوازوں سے بدل دیا جاتا ہے۔ پالیسی کو الف سے پڑھنا عین جائز ہے، چونکہ اردو میں آ اور او کے درمیان کوئی واؤل نہیں جیسا کہ انگریزی میں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ہر زبان کے پاس آوازوں یا صوتیوں کا ایک سیٹ ہوتا ہے۔ جب دوسری زبان سے اس میں الفاظ مستعار لیے جائیں تو ایسی آوازیں جو مستعار لینے والی زبان میں موجود نہ ہوں، ان کو قریب ترین آوازوں سے بدل دیا جاتا ہے۔ پالیسی کو الف سے پڑھنا عین جائز ہے، چونکہ اردو میں آ اور او کے درمیان کوئی واؤل نہیں جیسا کہ انگریزی میں ہے۔

صد فیصد متفق ہوں
 

حسان خان

لائبریرین
"غیر زبانوں کے جو لفظ کسی زبان میں پوری طرح کھپ جاتے ہیں، انھیں "دخیل" کہا جاتا ہے۔ اصول یہ ہے کہ صرف اور نحو کے اعتبار سے دخیل لفظ اور غیر دخیل لفظ میں کوئی فرق نہیں۔

جب کوئی لفظ ہماری زبان میں آگیا تو وہ ہمارا ہوگیا اور ہم اس کے ساتھ وہی سلوک روا رکھیں گے جو اپنی زبان کے اصلی لفظوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں، یعنی اسے اپنی مرضی اور سہولت کے مطابق اپنے رنگ میں ڈھال لیں گے اور اس پر اپنے قواعد جاری کریں گے۔ لہٰذا یہ بالکل ممکن ہے کہ کسی دخیل لفظ کے معنی، تلفظ، جنس یا املا ہماری زبان میں وہ نہ ہوں جو اس زبان میں تھے جہاں سے وہ ہماری زبان میں آیا ہے۔"


" دخیل الفاظ ، چاہے وہ براہ راست دخیل ہوئے ہوں یا ان کے زیر اثر مزید لفظ بنے ہوں، سب ہمارے لیے محترم ہیں۔ کسی دخیل لفظ، کلمے یا ترکیب کو، یا اس کے رائج تلفظ یا املا کو یہ کہہ کر مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ جس زبان سے یہ لیا گیا ہے وہاں ایسا نہیں ہے۔ جب کوئی لفظ ہماری زبان میں آگیا تو اس کے غلط یا درست ہونے کا معیار ہماری زبان،اس کے قاعدے، اور اس کا روز مرہ ہوں گے نہ کہ کسی غیر زبان کے۔"

(شمس الرحمن فاروقی)
 

حسان خان

لائبریرین
جاننا چاہیے کہ جو لفظ اردو میں آیا، وہ اردو ہوگیا، خواہ وہ لفظ عربی ہو یا فارسی، ترکی ہو یا سریانی، پنجابی ہو یا پوربی، اصل کی رو سے غلط ہو یا صحیح، وہ لفظ اردو کا لفظ ہے۔ اگر اصل کے موافق مستعمل ہے تو بھی صحیح اور اگر اصل کے خلاف ہے تو بھی صحیح۔ اس کی صحت اور غلطی ، اس کے اردو میں رواج پکڑنے پر منحصر ہے۔ کیوں کہ جو چیز اردو کے خلاف ہے، وہ غلط ہے، گو اصل میں صحیح ہو۔ اور جو اردو کے موافق ہے، وہی صحیح ہے، خواہ اصل میں صحیح نہ بھی ہو۔
[سید انشا، ترجمۂ دریائے لطافت، ص: 352]
 

محمد امین

لائبریرین
ان قواعد سے ذرہ برابر بھی اختلاف نہیں۔۔۔اور میں خود بھی وضع اصطلاحات نامی کتاب کا بہت بڑا مداح ہوں۔۔۔۔ بشرطِ ذہنی سکون جواب دوں گا۔۔
 
حسان، خوش رہو کہ تم نے اچھا موضوع چنا ہے ۔ اردو میں صوتیات پر کام نہ ہونے کے برابر ہے شاید اس کی وجہ سنجیدہ تحقیق کا فقدان ہے۔ اردو والوں نے ادب خاص طور پر شاعری اور تنقید پر تو کام کیا ہے لیکن صوتیات کو بھاری پتھر جان کر اٹھانے کی کوشش نہیں کی گئی۔۔ اردو لکھنے اور اس کو درست کرنے کا کام شاعروں اور بزعم خود قسم کے ادیبوں کے سپرد کر دیا گیا یا انہوں نے آپ ہی خود کو اس کام کا اہل سمجھ کر طبع آزمائی شروع کردی۔ ایسے ہی جاہلوں کی وجہ سے پتہ کو پتا اور راجہ کو راجا لکھنے بولنے پر زور دیا جا رہا ہے۔۔ عادل زادہ صاحب جو اس بدعت کے امام ہیں وہ بڑی عجیب وجہ بتاتے ہیں۔ بقول ان کے ہندی الفاظ (ہ) پر ختم نہیں ہو سکتے اس لئے الف پر ختم کئے جائیں۔ اب ان کو کون بتائے کہ یہ ہندی عربی کا نہیں خالص صوتیات کا مسئلہ ہے۔۔ بھائی صاحب ہندی میں الف کی چھہ (6) الگ الگ آوازیں ہیں جن کو لکھنے کے لئے ماترائیں بھی چھہ ہی ہیں۔۔ پتہ اور راجہ میں الف کی محدود آواز بولی جاتی ہے کامل الف ادا نہیں ہوتا اس لئے اردو والوں نے ہ کا سہارا لیا ۔۔ تحریر آواز کو مادی شکل میں نقل کرنے کا نام ہے اور وہ مادی نقل ان آوازوں کی اشکال پر منحصر ہے۔۔ کسی بھی آواز کو درست ڈھنگ سے اور قریب ترین صورت میں نقل کرنے کے لئے حروف کے ساتھ ساتھ واولز، ماتراوں یا اعراب کا استعمال کیا جاتا ہے۔۔ خیر یہ تو بات ہوئی صوتیات کی اب دعا ہے کہ آپ اس کام کو جاری رکھیں اور ہاں اردو صوتیات سمجھنے کے لئے آپ کو ہندی کا سہارا ضرور لینا پڑے گا بولی جانے والی ہندی کا نہیں لکھی جانے والی ہندی یعنی دیوناگری کا ۔۔۔ خیر اندیش
 

حسان خان

لائبریرین
حسان، خوش رہو کہ تم نے اچھا موضوع چنا ہے ۔

شکریہ جناب، پر یہ اہم موضوع محمد امین بھائی نے چنا تھا۔

اردو والوں نے ادب خاص طور پر شاعری اور تنقید پر تو کام کیا ہے لیکن صوتیات کو بھاری پتھر جان کر اٹھانے کی کوشش نہیں کی گئی۔۔ اردو لکھنے اور اس کو درست کرنے کا کام شاعروں اور بزعم خود قسم کے ادیبوں کے سپرد کر دیا گیا یا انہوں نے آپ ہی خود کو اس کام کا اہل سمجھ کر طبع آزمائی شروع کردی۔

اس بات سے میں متفق ہوں۔ ایک زندہ زبان کو صحت مند رکھنے کے لیے اُس کی لسانیات پر کام ہونا اشد ضروری ہوتا ہے، مگر بدقسمتی سے اردو لسانیات پر تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ایسے ہی جاہلوں کی وجہ سے پتہ کو پتا اور راجہ کو راجا لکھنے بولنے پر زور دیا جا رہا ہے۔۔ عادل زادہ صاحب جو اس بدعت کے امام ہیں وہ بڑی عجیب وجہ بتاتے ہیں۔ بقول ان کے ہندی الفاظ (ہ) پر ختم نہیں ہو سکتے اس لئے الف پر ختم کئے جائیں۔ اب ان کو کون بتائے کہ یہ ہندی عربی کا نہیں خالص صوتیات کا مسئلہ ہے۔۔ بھائی صاحب ہندی میں الف کی چھہ (6) الگ الگ آوازیں ہیں جن کو لکھنے کے لئے ماترائیں بھی چھہ ہی ہیں۔۔ پتہ اور راجہ میں الف کی محدود آواز بولی جاتی ہے کامل الف ادا نہیں ہوتا اس لئے اردو والوں نے ہ کا سہارا لیا ۔۔ تحریر آواز کو مادی شکل میں نقل کرنے کا نام ہے اور وہ مادی نقل ان آوازوں کی اشکال پر منحصر ہے۔۔ کسی بھی آواز کو درست ڈھنگ سے اور قریب ترین صورت میں نقل کرنے کے لئے حروف کے ساتھ ساتھ واولز، ماتراوں یا اعراب کا استعمال کیا جاتا ہے۔۔

یہاں میں آپ کی بات سے اختلاف کروں گا۔ اولا تو یہ کہنا نادرست ہے کہ ہندی میں ہائے غیر ملفوظی کی آواز نہیں۔ ہندی میں یہ آواز موجود ہے اور بہت سے ہندی/سنسکرت کے الفاظ کے آخر میں یہ آواز آتی ہے، مثلا: ساہتیہ، انترراشٹریہ، پستکالیہ، مولیہ، اُدیشیہ وغیرہ۔

راجا اور پتا جیسے الفاظ ہندی الاصل ہیں اور ہندی کے رسم الخط دیوناگری میں وہ الف کی لمبی ماترا کے ساتھ راجا (राजा) اور پتا (पता) ہی لکھے جاتے ہیں، اور ہمارے متقدمین بھی یہ الفاظ اسی طرح لکھتے رہے ہیں ، حتی کہ انگریزوں کی ہندی اور اردو لغتوں میں بھی یہ الفاظ اسی طرح مندرج ہیں۔ لہذا میری نظر میں انہیں الف کے ساتھ لکھنے میں کوئی قباحت نہیں، بلکہ بہتر ہے کہ الف کے ساتھ ہی لکھا جائے۔ باقی اختلاف سب کا بنیادی حق ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
اردو صوتیات سمجھنے کے لئے آپ کو ہندی کا سہارا ضرور لینا پڑے گا بولی جانے والی ہندی کا نہیں لکھی جانے والی ہندی یعنی دیوناگری کا

یقینا، اردو میں شامل سینکڑوں ہندی الاصل الفاظ کے درست تلفظ، ان کی ارتقائی تاریخ اور استعمال پر پکی پکڑ کے لیے دیوناگری اور کتابی ہندی کی معلومات سودمند ثابت ہوتی ہے۔
 

دوست

محفلین
میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق ملفوظی ہ اب اردو میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ لفظ الف سے ختم ہو رہا ہو یا ہ سے اس کے آخر میں آنے والی آواز 99.99 فیصد واؤل ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے املا کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور لوگ بلا سوچے سمجھے الف اور ہ کو ایک دوسرے سے تبدیل کر دیتے ہیں۔ ایشوریہ، ایشوریا، راجہ، راجا ایسی کئی درجن مثالیں موجود ہیں جن کی قریباً ایک جتنی فریکوئنسی ہے۔
 

تلمیذ

لائبریرین
تو پھر حاصل بحث کیا رہا؟
ایک اور قضیہ لئے، کئے، جئے وغیرہ کو لیے، کیے، جیے کی صورت میں لکھنا ہے۔بعض اوقات پروف ریڈنگ میں اول الذکر املا غلط تصور کی جاتی ہے۔
احباب سے گذارش ہے کہ اس ضمن میں بھی اپنی 'مصدقہ' آراء سے نوازیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
تو پھر حاصل بحث کیا رہا؟

حاصل بحث قارئین کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ :)

ایک اور قضیہ لئے، کئے، جئے وغیرہ کو لیے، کیے، جیے کی صورت میں لکھنا ہے۔بعض اوقات پروف ریڈنگ میں اول الذکر املا غلط تصور کی جاتی ہے۔
احباب سے گذارش ہے کہ اس ضمن میں بھی اپنی 'مصدقہ' آراء سے نوازیں۔

یہ قضیہ نہ صرف اردو بلکہ ہندی میں بھی موجود ہے۔ بعض لوگ لئے، کئے، جئے لکھتے ہیں تو بعض حضرات اس کے برعکس لیے، کیے، جیے لکھتے ہیں۔ میں اردو میں لکھتے وقت موخر الذکر (لیے، کیے) کو ترجیح دیتا ہوں۔ لیکن اس کے پیچھے میرے پاس کوئی وجہ نہیں، صرف اس لیے ترجیح دیتا ہوں کہ یوں مجھے زیادہ بہتر لگتا ہے۔ :)
 
Top